جدید جیومیٹری کے موجد قدیم عراقی تھے ایک بار پھر ثابت ہوگیا

لوح پر مستطیل اور قائمۃ الزاویہ مثلث (رائٹ اینگلڈ ٹرائی اینگل) نہایت باریکی اور وضاحت سے بنائے گئے ہیں

استنبول کے آثارِ قدیمہ عجائب گھر میں رکھی ہوئی لوح Si.427 پر مثلث اور مستطیل واضح دیکھے جاسکتے ہیں۔ (فوٹو: فاؤنڈیشنز آف سائنس)

چکنی مٹی سے بنی قدیم تختی (ٹیبلٹ) سے ایک بار پھر یہ ثابت ہوا ہے کہ جیومیٹری آج سے 3700 سال پہلے ''بابل'' کے رہنے والوں نے نہ صرف ایجاد کی تھی بلکہ وہ اسے روزمرہ زندگی میں استعمال بھی کررہے تھے۔

واضح رہے کہ بابل (Babylon) کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے جہاں دنیا کی پہلی باقاعدہ سلطنت بھی وجود میں آئی تھی۔

بابل کے چھٹے اور مشہور ترین بادشاہ ''حمورابی'' کو انسانی تاریخ کا ''سب سے پہلا قانون ساز'' قرار دیا جاتا ہے جس کے وضع کردہ قوانین میں چوری کا جرم ثابت ہونے پر ہاتھ کٹوانے کی سزا بھی شامل ہے۔

چکنی مٹی کی یہ تختیاں، جن پر نقش کی ہوئی علامات سے جیومیٹری کے میدان میں اہلِ بابل کی تاریخی سبقت ثابت ہوتی ہے، لگ بھگ اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں جب حمورابی وہاں کا حکمران تھا۔

یہ دریافت برسوں سے جاری تحقیق کا ایک اور نتیجہ ہے جو آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز میں ریاضی کے ماہر، ڈاکٹر ڈینیئل ایف مینسفیلڈ کررہے ہیں۔

اس سے پہلے بھی مینسفیلڈ 2017 میں قدیم بابل کی ایک لوح کا تجزیہ کرکے (جسے ''پلمپٹن 322'' کہا جاتا ہے) ثابت کرچکے ہیں کہ ٹرگنومیٹری کا علم قدیم یونانیوں نے نہیں بلکہ ان سے کم از کم ایک ہزار سال پہلے اہلِ بابل نے ایجاد کیا۔

اس بارے میں خبر ملاحظہ کیجیے: ٹرگنومیٹری کے موجد یونانی نہیں بلکہ قدیم عراقی تھے، تحقیق


اپنی تازہ تحقیق میں مینسفیلڈ نے اسی زمانے کی ایک اور لوح Si.427 کا جائزہ لیا۔ یہ چھوٹی سی گول لوح چکنی مٹی سے بنائی گئی تھی جو غالباً 1900 قبلِ مسیح سے 1600 قبلِ مسیح کے بابل سے تعلق رکھتی ہے۔



یہ لوح 1894 میں بابل کے آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں برآمد ہوئی تھی اور پچھلے کئی سال سے استنبول کے آرکیولاجیکل میوزیم میں رکھی ہے۔ مینسفیلڈ نے اسی عجائب گھر میں کئی مہینوں تک اس لوح کا باریک بینی سے جائزہ لیا۔

تجزیئے سے معلوم ہوا کہ یہ لوح ''لینڈ سروے'' (زمینی رقبے کی پیمائش اور ریکارڈ) سے متعلق کوئی دستاویز تھی جسے چکنی مٹی کے ٹکڑے پر کسی باریک نوک والی سلاخ (اسٹائلس) سے نقش کیا گیا تھا۔ (اس زمانے میں کاغذ قلم ایجاد نہیں ہوئے تھے اور لکھنے کا سارا کام نرم پتھر اور چکنی مٹی کے ٹکڑوں پر باریک اور نوک دار سلاخوں سے کیا جاتا تھا۔)

البتہ سرویئر نے جیومیٹری، بالخصوص ٹرگنومیٹری (علم المثلث) میں اپنی مہارت کا حیرت انگیز عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس لوح پر بالکل ٹھیک ٹھیک مستطیل (ریکٹینگل) اور قائمۃ الزاویہ مثلث (right-angled triangles) بنا کر زمینی رقبے کو ظاہر کیا ہے۔

مینسفیلڈ کا کہنا ہے کہ اس دریافت سے یہ خیال مزید پختہ ہو گیا ہے کہ جدید جیومیٹری (بشمول ٹرگنومیٹری) کی ابتداء قدیم یونان سے ایک ہزار سال قبل ''بابل'' کی تہذیب میں ہوچکی تھی جہاں یہ علم نہ صرف باقاعدہ طور پر پڑھایا جاتا تھا بلکہ زمین، جائیداد اور اراضی کا حساب رکھنے میں بھی بکثرت استعمال کیا جاتا تھا۔

''ہمیں پڑھایا جاتا ہے کہ قدیم یونانیوں نے آسمان کا مشاہدہ کرتے دوران جیومیٹری ایجاد کی تھی لیکن ان دریافتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہلِ بابل نے ان سے بھی کم از کم ایک ہزار سال پہلے، زمینی مسائل حل کرنے کےلیے جیومیٹری ایجاد کی تھی اور وہ اس کا بھرپور استعمال بھی کیا کرتے تھے،'' مینسلفیلڈ نے کہا۔

نوٹ: یہ تحقیق ریسرچ جرنل ''فاؤنڈیشنز آف سائنس'' کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہے۔
Load Next Story