’’چوب کاری‘‘ کا مِٹتا فن

جن فن پاروں کو عجائب گھروں میں محفوظ ہونا چاہیے تھا وہ کباڑیوں کی دکانوں میں دھول چاٹ رہے ہیں۔

جن فن پاروں کو عجائب گھروں میں محفوظ ہونا چاہیے تھا وہ کباڑیوں کی دکانوں میں دھول چاٹ رہے ہیں ۔ فوٹو : فائل

SEOUL:
کہا جاتا ہے کہ آرٹ آنکھ اور ہاتھ سے نہیں بل کہ ذہن سے تخلیق ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ پر لیکن اگر آنکھ (انسانی مشاہدہ) اور ہاتھ (اوزار بنانا) نہ ہوتا تو کیا بغیر ان دو اہم انسانی اعضاء کے انسانی تہذیب کا ارتقاء اور آرٹ کی تخلیق ممکن تھی؟ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہے۔

اس سلسلے میں صرف ایک بات کہی جاسکتی ہے اور وہ ہے انسان کا تجسس جس نے پنڈورا کو بھی بکس کھولنے پر مجبور کیا۔ اسی ایک جذبے کی بدولت انسان نے ابتدا میں ہاتھوں سے کام لیتے ہوئے فطرت کی ہر چیز کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور جس طرح کہا جاتا ہے کہ ضرورت ایجاد کی ماں ہے تو اسی ضرورت کے تحت جب انسانی ہاتھوں نے ہر چیز میں ''ٹانگ'' اڑانا شروع کی تو یہاں سے انسانی زندگی میں ایک بہت بڑی اور اہم تبدیلی رونما ہوئی۔

ویسے بھی یہ ایک تاریخی اور سائنسی حقیقت ہے کہ تہذیب کی بنا اس وقت پڑی جب انسان نے مختلف قسم کے اوزار بنانے اور ان کے استعمال کا ہنر سیکھا اور اس ہنر کے بڑے دوررس نتائج برآمد ہوئے۔ اوزاروں کی ایجاد سے انسانی تہذیب اور آرٹ نے انگڑائیاں لینا شروع کیں لیکن اوزاروں کی ایجاد اس لیے ممکن ہوئی کہ انسانی ہاتھ ترقی پاتے پاتے موجودہ صورت کو پہنچ گئے تھے اور انہی ہاتھوں نے نئی نئی اور زیادہ لطیف اور خوب صورت حرکات و سکنات کرنا سیکھا اور بقول کسی دانا کے ''انسان اوزار استعمال کرنے والا جان ور ہے'' مگر ایک ایسا اوزار استعمال کرنے والا جان ور جس نے اپنی ضرورت اور شوق تجسس اور ذوق جمال کی تسکین کے لیے بے شمار اوزار اپنے اردگرد ماحول میں پائے جانے والے قدرتی پودوں اور درختوں کی دنیا سے لیے۔

بانس سے اس نے مختلف اوزاروں کے دستے، چاقو، چھریاں، سوئیاں اور بوتلیں بنائیں، درخت کی چھال اور ریشوں سے اس نے سیکڑوں قسم کا کپڑا بنایا، اپنی خوراک کے لیے لکڑی سے چمچے، پلیٹیں، پیالے اور دیگر ضروری گھریلو سمان مثلاً صندوق، الماری اور اس طرح کئی بے شمار چیزیں بنائیں اور جس وقت یہی بے جان لکڑی ایک فن کار کی دسترس میں آئی تو اس نے اپنی آنکھ، ہاتھ اور ذہن سے اس بے جان اور خشک لکڑی کے ٹکڑوں میں انسانی احساسات اور جذبات کے ایسے خوب صورت خطوط اور رنگ بھر دیے جس نے انسانی تہذیب اور آرٹ میں ایک نیا انقلاب برپا کردیا، لکڑی کے خشک اور سخت سینے کو کھرچ کر انسان نے اپنے ذوق جمال کی تسکین کے لیے اس پر جو نقش و نگار اور خطوط کندہ کیے ان میں انسانی احساسات، جذبات اور اردگرد ماحول کے مختلف قدرتی مناظر، رنگ اور تصویریں حرکت کرنے لگیں۔

کہا جاتا ہے کہ کلچر بسا اوقات وہ لوگ تخلیق کرتے ہیں جن کو یہ خبر نہیں ہوتی کہ وہ کلچر تخلیق کر رہے ہیں اور جس طرح آج سے ہزاروں لاکھوں سال قبل کے انسان کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ آہنی سلائیوں اور سلاخوں سے لکڑی پر کندہ خطوط اور نقش و نگار کی صورت میں کیا چیز تخلیق کر رہا ہے؟َ اس طرح آج بھی ہمارے ہاں صوبہ خیبرپختونخوا میں بے شمار ایسے کاری گر ''چوب کاری'' کے ذریعے نادر و خوب صورت فن پارے تخلیق کر رہے ہیں لیکن یہ لوگ اپنی اس کاری گری کو فن کی خاطر فن پیدا کرنے کا نام نہیں دیتے بل کہ وہ یہ کام صرف اور صرف اپنے بچوں کا پیٹ پالنے اور گھر کا چولہا جلانے کی خاطر کرتے ہیں اور جس طرح ماضی میں صوبے کے دوردراز اور دیہی علاقوں میں چوب کاری کے پیش بہا خوب صورت نمونے پائے جاتے تھے، آج دورجدید میں بھی یہاں پر وہ فن جاری و ساری ہے، ماضی کے جو قیمتی اور نادرونایاب نمونے ہمارے دیہات یا دیگر شہروں اور قصبوں میں موجود تھے۔

ان قیمتی اور تاریخی نمونوں کی اہمیت و افادیت نہ جاننے کی وجہ سے چند روپوں کی خاطر زیادہ تر فن پارے کباڑی حضرات نے اٹھا کر ملک سے باہر بیچ دیے۔ آج بھی اگر کوئی اپنے ماضی کے وہ شاہ کار نمونے دیکھنا چاہتا ہے تو ذرا کباڑی مارکیٹ پشاور تک جانے کی زحمت کرے کہ ہمارے ماضی کے سینے میں کس طرح پورے ایک دور کی معاشرتی زندگی اور تہذیب نقش و نگار کے ذریعے کندہ اور محفوظ ہے، لیکن اس تاریخی ورثے کے جاننے اور اس کی اہمیت و افادیت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ایک حساس طبیعت اور تاریخی شعور کی ضرورت ہے جو کہ ہمارے ہاں بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ دیگر آثار قدیمہ کی قیمتی چیزوں کی طرح چوب کاری کے اعلیٰ نمونوں کو بھی ہمارے لوگوں نے کباڑی مارکیٹ تک پہنچایا ہے۔ جن چیزوں کو عجائب گھر کے شو کیسوں میں محفوظ کرنا چاہیے تھا وہ چیزیں آج کباڑی کی دکان میں زمین پر پڑی ہوئی گرد اور آلودگی کو چاٹ رہی ہیں اور قدر دان لوگوں کی راہ تک رہی ہیں کہ وہ آئیں اور انہیں یہاں سے اٹھا کر ڈرائنگ رومز اور اپنے ملک کے عجائب گھروں میں کسی موزوں جگہ پر رکھیں۔

اس سلسلے میں پرانے قیمتی نقش و نگار سے مزین فرنیچر اور دیگر چیزوں کا کاروبار کرنے والے علی خان نے بتایا کہ میں گذشتہ بارہ سال سے یہ کاروبار کر رہا ہوں، پہلے باہر ممالک سے لوگ خود یہاں آتے اور ان چیزوں کو خریدتے جس سے ہمارا کاروبار خوب چلتا تھا اور منافع بھی بہت زیادہ ملتا تھا لیکن اب یہی چیزیں یہاں کے مقامی سوداگر خرید کر باہر بھجواتے ہیں اور وہاں ارزاں نرخ پر فروخت کرتے ہیں۔ جب ایک چیز کسی کو اپنی مارکیٹ میں ارزاں نرخ پر ملتی ہو تو اسے کیا پڑی ہے کہ وہ اتنا سرمایہ اور وقت خرچ کرکے یہاں آکر خریداری کرے۔


اس کے علاوہ نقش و نگار کے نئے نمونے پنجاب سے آتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا کاروبار کافی متاثر ہوا ہے۔ نئے ڈیزائن کی چوب کاری آج کل سوات میں بہت زیادہ ہو رہی ہے جس کی ایک اہم وجہ وہاں دیار کی لکڑی کی فراوانی ہے۔ ویسے شیشم کے درخت سے بھی بہت اچھی اچھی چیزیں بنتی ہیں لیکن گذشتہ کئی سالوں سے شیشم کے درختوں پر ایک ایسی بیماری نے حملہ کیا ہے جس کی وجہ سے آج شیشم کی پیداوار تقریباً ختم ہوگئی ہے۔

سرکاری سطح پر محکمہ جنگلات نے بھی اس بیماری کے تدارک کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔ دیار کی لکڑی کے بارے میں علی خان نے بتایا کہ اس لکڑی کی اپنی ایک ایسی خوشبو ہے جس کی وجہ سے اس لکڑی کی بنائی ہوئی چیزوں پر کسی قسم کا کیڑا نہیں لگ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج سے ہزاروں سال قبل لکڑی کا جتنا بھی گھریلو سامان ہوا کرتا تھا یا آج آثار قدیمہ کی شکل میں دریافت ہو رہا ہے۔ ان میں زیادہ تر چیزیں دیار اور شیشم کی بنی ہوئی ہیں، شیشم کی لکڑی کی مضبوطی کی وجہ سے اور دیار کی لکڑی اپنی خوب صورتی اور خاص خوشبو کی وجہ سے دنیا کے ہر خطے میں مشہور اور پسند کی جاتی ہے۔ چوک گاڑی خانہ میں لکڑی سے مختلف کھلونے بنانے والے کاری گروں نعیم خان، شوکت علی اور گل خان نے بتایا کہ ہم 35 سال سے یہاں لکڑی کے کھلونے بنانے کا کام کرتے چلے آرہے ہیں، پہلے ہمارا کاروبار بہتر تھا مگر اب بمشکل گزارا ہوتا ہے، اب ہمارے ہاں زیادہ تر چیزیں پنجاب سے بھی آتی ہیں لیکن وہ مشین سے بنائی جاتی ہیں جب کہ ہم اپنے ہاتھوں سے مختلف قسم کے کھلونے بناتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہماری بنائی ہوئی زیادہ تر مصنوعات افغانستان اور یورپ کے ممالک تک یہاں کے مقامی سوداگر ہم سے ارزاں نرخ پر خرید کر پہنچاتے ہیں۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ آج بھی پشاور میں لکڑی کے کاری گر بہت خوب صورت مصنوعات تیار کرتے ہیں۔ پشاور کے علاوہ سوات، مردان، ڈیرہ اسماعیل خان، نوشہرہ اور صوابی میں بھی چوب کاری اور خوب صورت نقش نگار سے مزین فرنیچر کے کاری گر موجود ہیں لیکن شیشم کے درختوں کے فقدان اور سرکاری سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے یہ فن کار سخت مالی مشکلات اور مسائل کا شکار ہیں۔

اس سلسلے میں محکمہ جنگلات، ثقافت اور آرکیالوجی اور اس کے زیرانتظام کام کرنے والے ذیلی اداروں کو چاہیے کہ یہاں کے چوبی تمثال گروں اور کاری گروں کے بنائے ہوئے نمونوں کی نمائش کا بندوبست کریں تاکہ مغرب اور دیگر ممالک کی اقوام کو پتا چلے کہ خیبر پختون خوا کے چوبی فن کار بے سروسامانی کے باوجود کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے فن کاروں اور کاری گروں سے کم نہیں۔ مگر افسوس کہ ان کاری گروں کو نہ تو ہمارے لوگوں نے معاشرے میں جائز مقام اور مرتبہ دیا اور نہ ہی سرکاری سطح پر اس فن سے وابستہ کاری گروں کے لیے کچھ کیا گیا۔ اس سلسلے میں ملک کے الیکٹرانک میڈیا خصوصاً پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیوپاکستان سمیت سوشل میڈیا نے بھی اپنا وہ فرض پورا نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے۔

آج انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دوردورہ ہے اور جس طرح دیگر فنون اور شعبے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے اور اپنے لیے کوئی معقول راستہ تلاش نہیں کرسکتے، اس طرح فن چوب کاری سے وابستہ کاری گروں اور فن کاروں کو بھی میڈیا کے ذریعے نہ صرف اپنے ملک کے عوام بل کہ دنیا کی دیگر اقوام سے متعارف کروانے کی ضرورت ہے کیوں کہ چوب کاری صرف ایک فن نہیں بل کہ ایک مکمل صنعت بھی ہے، ایک ایسی صنعت جس کے ساتھ نہ صرف یہاں کے سیکڑوں، ہزاروں افراد کا ایک اچھا منافع بخش کاروبار وابستہ ہے بل یہ کہ فن کے لحاظ سے بھی بہت بڑی اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔

اگر ہمارا میڈیا اور دیگر سرکاری و غیرسرکاری اداروں اور تنظیموں نے اپنی توجہ اس جانب مبذول کروائی اور اس سلسلے میں مختلف سیمینارز، نمائشوں اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے یہاں کے چوب کاری کے اعلیٰ اور خوب صورت نمونوںکو اجاگر کیا تو اس سے ہمارے لوگوں میں نہ صرف اس قیمتی ورثے کی قدروقیمت کا شعور پیدا ہوگا بل کہ اس کے ساتھ جو لوگ گاؤں دیہات میں نہایت کم معاوضے پر چوب کاری کے نمونے اور مصنوعات فروخت کرتے ہیں، ان لوگوں میں بھی اس چیز کا ایک تاریخی شعور اجاگر ہو جائے گا اور اس سے چوب کاری کی اسمگلنگ بھی کافی حد تک کم ہوجائے گی، جس سے خیبرپختون خوا کے علاوہ ملک کے دیگر بدحال فن کاروں کی زبوں حالی اور مشکلات بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔

اگر اس فن اور صنعت کو شعور کی آنکھ سے دیکھا جائے اور وجدان کے کانوں سے اس میں گونجنے والی آوازوں کو سنا جائے تو ہر ایک فن پارے میں پورا ایک منظر ایک دور اور ایک ماحول سانس لے رہا ہے۔ آئیے سب مل کر اس فن کی سانس کو بند ہونے سے بچائیں!
Load Next Story