یہ وطن ہمارا ہے
پاکستانی ڈبل شاہ سے لے کر غیر پاکستانی ڈبل شاہ تک چقمہ دے کر نکل گیا اب ہم لکیریں پیٹ رہے ہیں۔
اگست کا مہینہ آتے ہی سبز ہلالی جھنڈیوں اور پرچموں کی عجب بہار سی آجاتی ہے،ہرگھر ، گاؤں ،قصبے اور شہر کی چھوٹی بڑی شاہراہوں اور عوامی مقامات پر بلند آواز پرقومی نغمے بجائے جاتے ہیں جو کانوں کو نہ صرف اچھے لگتے ہیں، ہر فرد قومی نغموں کی مدھر دھنیں اور بول سن کر سرشاری کی کیفیت میں مبتلا نظر آتا ہے۔
بچے، نوجوان اور بزرگ قومی دن کے لیے زوروشور سے تیاریاں کرتے ہیں ۔ لڑکیاں قومی پرچم کی مناسبت سے اپنے لباس تیار کرواتی ہیں ، دوپٹے اور چوڑیوں میں بھی سبز اور سفید رنگوں کونمایاں کیا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم کے لیے اگست کا مہینہ بڑا بابرکت ہے کہ اس مہینے میں خطہ ارض پر ایک سبز ہلالی پرچم لیے ایک ملک نے جنم لیا تھا جس کے لیے نجانے کتنی جانوں نے نذرانہ دیا، آگ اور خون کے سنگم نے ہمیں اس خوبصورت ارض پاک میں آزادی سے سانس لینے کی نعمت سے نوازا، یہ رب العزت کی جانب سے ہمارے لیے تحفہ ہے جسے برقرار رکھنا، حفاظت کرنا اور ترقی کی راہوں پر چلانا ہمارا فرض ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں ایک پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کی بجائے غیر ملکی خاص کر یورپین ممالک کی شناخت رکھنے والوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دور کیوں جائیے ایک لڑکی نور مقدم کے اذیت ناک قتل کے بعد پاکستانی قوم دہل کر رہ گئی لیکن امریکی نیشنلٹی رکھنے والا اس قتل کا مجرم انگریزی بول کر اپنی الگ قومیت پر نازاں ہے اسے یقین ہے کہ امریکی نیشنلٹی ہونے کے باعث اس سے رعایت برتی جائے گی، یہ اس مجرم کی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ بھی ہے۔
ماضی میں ہمارے ساتھ طاقتور ممالک نے ایسے رویے روا رکھے ہیں کہ جس نے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو ان کی کمزوری کا بارہا احساس دلایا ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ ملک کے باسی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے سات مطالبات کی فہرست پیش کی تھی کہ یہ ہمارے مطالبات ہیں آپ مانتے ہیں تو ہمارے ساتھ، نہیں مانتے تو آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔
اسی طرح سے کسی زمانے میں بڑی طاقت کے گیارہ مطالبات کا چرچا ہوا تھا جس میں ان کے ڈرائیونگ لائسنس ہی کو شناخت تصور کیا جائے گا، انھیں ہتھیار رکھنے کی اجازت ہوگی، ٹیکس سے استثنیٰ بھی چاہیے ان کے مٹیریل کی چیکنگ کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کے جہازوں، گاڑیوں کی آزادانہ نقل و حمل، لینڈنگ اور پارکنگ فیس بھی نہ لی جائے، ان کے اہل کاروں پر پاکستانی قوانین لاگو نہ ہوں گے اور اسی طرح کے احمقانہ مطالبات کہ جس پر ایک آزاد ملک کا شہری قہقہے لگانے پر مجبور ہو جائے، لیکن ہم مجبور ہو جاتے ہیں، بے بس محسوس کرتے ہیں ہمارے لیے کہنا بہت آسان ہے لیکن ایک ملک کے حکمران کے لیے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے بڑی طاقتوں سے دست و گریباں ہو جائے جبکہ ماضی میں کی گئی حماقتوں، کرپشن اور قرضے کے بوجھ تلے دبی معیشت کو چلانا بھی اس کی اہم ذمے داریوں میں شامل ہے۔
ایک کے بعد ایک روڑے ہمارے ملک کی ترقی میں اٹکے ہیں اور ہم اپنے اندرونی مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اس سے ابھر کر نکلنے میں ہی ڈھیروں دشواریاں حائل ہیں۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس معدنیات کے قیمتی ذخائر ہیں، سونے کی کانیں ہیں لیکن افسوس کہ ہم جعلی دعوے داروں میں الجھ گئے ہمارے لیے خوبصورتی سے جال بنے گئے اور ہم کو ڈبل شاہ نے گھیر لیا۔
پاکستانی ڈبل شاہ سے لے کر غیر پاکستانی ڈبل شاہ تک چقمہ دے کر نکل گیا اب ہم لکیریں پیٹ رہے ہیں ساری کہانی جس کردار پر بنائی گئی تھی کہانی کی صدائیں گونج رہی ہیں اور وہ کردار قیمتی چٹانیں اب بھی منتظر ہیں۔کہیں پڑھا ہے کہ نیتوں کو تولا جائے گا اعمالوں کو نہیں، بات سمجھنے کی کوشش کی تو بڑی مشکل سے یہ بات ہضم ہوئی اور اخبار کی ایک خبر ذہن میں گردش کرنے لگی ، چینی سے بھرا ٹرک سمندر میں جا گرا اور اسی لاکھ کی چینی سمندر برد ہوگئی۔
چینی بحری جہاز سے اتری ابھی پورٹ پر ہی تھی ڈرائیور نے چینی سے بھرے ٹرک کو پیچھے کرنے کی کوشش کی پر غالباً ٹرک کا بریک خراب ہو گیا وہ ایک لمحہ جب ڈرائیور کے ہاتھ سے ٹرک کی ڈور نکلی اور سمندر میں جا گری اگر آپ ایک مشاق ڈرائیور ہیں تو ہی آپ ایک ہیوی ٹرک چلا سکتے ہیں اور ایسی ذمے داری کی ملازمت جس میں سرکار کی چینی کی بات ہو لیکن ایک لمحے میں ہی ڈرائیور کی ساری تربیت ساری مشقت فیل ہوگئی اور 80 لاکھ کی چینی بھی سمندر کی تلخی کو کم نہ کرسکی۔
کس قدر عجیب سی بات ہے پر یہ ہی حقیقت ہے سمندر میں نمک اس قدر وافر مقدار میں ہے کہ وہ اب میٹھا ہونے سے رہا۔پورا اگست کا مہینہ بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، بچے والدین سے ضد کرکے رنگ برنگی جھنڈیاں خریدتے ہیں، جھنڈے خریدے جاتے ہیں، دیے روشن کیے جاتے ہیں سچ ہے کہ بچپن میں ہم نے بھی دیے روشن کیے تھے اور ہمارے والدین بھی ہمارے ساتھ تھے پر اب کچھ عجیب سا لگتا ہے، ایسے جیسے پھول بغیر خوشبو کے سب کچھ دکھاوا سا لگتا ہے۔
اپنے اندر کے سونے پن کا احساس جاگتا ہے ہم 74 سال بعد بھی بنگلہ دیش سے پیچھے ہیں، چین جس وقت غربت کے دھندلکوں میں تھا ہم اس وقت اچھے بھلے خوشحال تھے آج چین آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، بھارت ایشین ٹائیگر بننے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے اور ہم ابھی تک حوا کی بیٹیوں کے قاتلوں اور ظالموں کی تلاش میں ہیں۔ ظالموں کا کیا ہوتا ہے؟ صبح سڑکیں بنی تھیں شام کو پھر ٹوٹ گئیں، پانی کی لائنیں پڑی تھیں، شکریے کے بینر بھی لگائے پر پانی کو لائنیں ترس رہی ہیں۔
کالا باغ ڈیم بنے گا یا نہیں ٹاس کرلیں، جھنڈیوں کی جگہ پودے لگا دیں، جھنڈیاں تو پندرہ اگست کو سڑکوں پر ادھر ادھر رل رہی ہوں گی، ہم لوگ کنفیوژ ہیں، ہر دوسرے تیسرے دن مہنگائی پہل دوج کھیلتی نظر آتی ہے، کورونا کی وجہ سے مسائل اور بڑھ رہے ہیں لیکن ہم اس سے بھی کھیل رہے ہیں، ایک طرف کہا جاتا ہے ویکسین لگوائیے تو دوسری طرف ویکسین ختم، دو دن بعد آ کر معلوم کیجیے، ویکسین لگوا لی تو کارڈ ختم ہوگئے، بھائی کس کس کو اپنے ویکسین شدہ ہونے کا ثبوت پیش کریں گے، لوگ کورونا سے مر رہے ہیں لیکن ہیپاٹائٹس بھی خطرناک ہے اس سے زیادہ اموات ہوتی ہیں ایک کے بعد ایک بیان اس قوم کے سامنے آ رہے ہیں اور سچ ہے کہ اب قوم بھی اسی نہج پر چل پڑی ہے ۔
کینیڈا کے وزیر اعظم کی طرح ہمارے وزرا مایوس نہیں ہیں کیونکہ مایوسی کفر ہے ہمیں امید ہے کہ ہم پھر سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثبت انداز میں سوچیں گے، ہم قوم و ملت کے پیسوں سے اپنے بینک بیلنس نہیں بڑھائیں گے، ہم بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کی بجائے سائیکلوں کو ترجیح دیں گے اور عوام ایک جیسی سائیکل پر دفتر جائیں گے ہم برانڈڈ ملبوسات کی بجائے جرمنی کی وزیر اعظم کی طرح سادے کپڑوں کو ترجیح دیں گے، ہم ضرور ایک اچھی سلجھی ہوئی قوم بن کر ابھریں گے کہ یہ ملک پاکستان بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیاگیا ہے اور رب العزت قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتے اور ہمیں گلا پھاڑ کر گانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ یہ وطن ہمارا ہے بلکہ ہمارا دل بولے گا یہ وطن ہمارا ہے اس کے پاسباں ہم ہیں اور ہر دن چودہ اگست کی مانند روشن دکھائی دے گا۔( آمین)
بچے، نوجوان اور بزرگ قومی دن کے لیے زوروشور سے تیاریاں کرتے ہیں ۔ لڑکیاں قومی پرچم کی مناسبت سے اپنے لباس تیار کرواتی ہیں ، دوپٹے اور چوڑیوں میں بھی سبز اور سفید رنگوں کونمایاں کیا جاتا ہے۔
پاکستانی قوم کے لیے اگست کا مہینہ بڑا بابرکت ہے کہ اس مہینے میں خطہ ارض پر ایک سبز ہلالی پرچم لیے ایک ملک نے جنم لیا تھا جس کے لیے نجانے کتنی جانوں نے نذرانہ دیا، آگ اور خون کے سنگم نے ہمیں اس خوبصورت ارض پاک میں آزادی سے سانس لینے کی نعمت سے نوازا، یہ رب العزت کی جانب سے ہمارے لیے تحفہ ہے جسے برقرار رکھنا، حفاظت کرنا اور ترقی کی راہوں پر چلانا ہمارا فرض ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں ایک پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے والے کی بجائے غیر ملکی خاص کر یورپین ممالک کی شناخت رکھنے والوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ دور کیوں جائیے ایک لڑکی نور مقدم کے اذیت ناک قتل کے بعد پاکستانی قوم دہل کر رہ گئی لیکن امریکی نیشنلٹی رکھنے والا اس قتل کا مجرم انگریزی بول کر اپنی الگ قومیت پر نازاں ہے اسے یقین ہے کہ امریکی نیشنلٹی ہونے کے باعث اس سے رعایت برتی جائے گی، یہ اس مجرم کی سوچ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ بھی ہے۔
ماضی میں ہمارے ساتھ طاقتور ممالک نے ایسے رویے روا رکھے ہیں کہ جس نے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو ان کی کمزوری کا بارہا احساس دلایا ہے کہ وہ غریب اور پسماندہ ملک کے باسی ہیں۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے سات مطالبات کی فہرست پیش کی تھی کہ یہ ہمارے مطالبات ہیں آپ مانتے ہیں تو ہمارے ساتھ، نہیں مانتے تو آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں۔
اسی طرح سے کسی زمانے میں بڑی طاقت کے گیارہ مطالبات کا چرچا ہوا تھا جس میں ان کے ڈرائیونگ لائسنس ہی کو شناخت تصور کیا جائے گا، انھیں ہتھیار رکھنے کی اجازت ہوگی، ٹیکس سے استثنیٰ بھی چاہیے ان کے مٹیریل کی چیکنگ کی بھی اجازت نہیں ہوگی۔
ان کے جہازوں، گاڑیوں کی آزادانہ نقل و حمل، لینڈنگ اور پارکنگ فیس بھی نہ لی جائے، ان کے اہل کاروں پر پاکستانی قوانین لاگو نہ ہوں گے اور اسی طرح کے احمقانہ مطالبات کہ جس پر ایک آزاد ملک کا شہری قہقہے لگانے پر مجبور ہو جائے، لیکن ہم مجبور ہو جاتے ہیں، بے بس محسوس کرتے ہیں ہمارے لیے کہنا بہت آسان ہے لیکن ایک ملک کے حکمران کے لیے کیا یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے ملک کے دفاع کے لیے بڑی طاقتوں سے دست و گریباں ہو جائے جبکہ ماضی میں کی گئی حماقتوں، کرپشن اور قرضے کے بوجھ تلے دبی معیشت کو چلانا بھی اس کی اہم ذمے داریوں میں شامل ہے۔
ایک کے بعد ایک روڑے ہمارے ملک کی ترقی میں اٹکے ہیں اور ہم اپنے اندرونی مسائل میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ اس سے ابھر کر نکلنے میں ہی ڈھیروں دشواریاں حائل ہیں۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس معدنیات کے قیمتی ذخائر ہیں، سونے کی کانیں ہیں لیکن افسوس کہ ہم جعلی دعوے داروں میں الجھ گئے ہمارے لیے خوبصورتی سے جال بنے گئے اور ہم کو ڈبل شاہ نے گھیر لیا۔
پاکستانی ڈبل شاہ سے لے کر غیر پاکستانی ڈبل شاہ تک چقمہ دے کر نکل گیا اب ہم لکیریں پیٹ رہے ہیں ساری کہانی جس کردار پر بنائی گئی تھی کہانی کی صدائیں گونج رہی ہیں اور وہ کردار قیمتی چٹانیں اب بھی منتظر ہیں۔کہیں پڑھا ہے کہ نیتوں کو تولا جائے گا اعمالوں کو نہیں، بات سمجھنے کی کوشش کی تو بڑی مشکل سے یہ بات ہضم ہوئی اور اخبار کی ایک خبر ذہن میں گردش کرنے لگی ، چینی سے بھرا ٹرک سمندر میں جا گرا اور اسی لاکھ کی چینی سمندر برد ہوگئی۔
چینی بحری جہاز سے اتری ابھی پورٹ پر ہی تھی ڈرائیور نے چینی سے بھرے ٹرک کو پیچھے کرنے کی کوشش کی پر غالباً ٹرک کا بریک خراب ہو گیا وہ ایک لمحہ جب ڈرائیور کے ہاتھ سے ٹرک کی ڈور نکلی اور سمندر میں جا گری اگر آپ ایک مشاق ڈرائیور ہیں تو ہی آپ ایک ہیوی ٹرک چلا سکتے ہیں اور ایسی ذمے داری کی ملازمت جس میں سرکار کی چینی کی بات ہو لیکن ایک لمحے میں ہی ڈرائیور کی ساری تربیت ساری مشقت فیل ہوگئی اور 80 لاکھ کی چینی بھی سمندر کی تلخی کو کم نہ کرسکی۔
کس قدر عجیب سی بات ہے پر یہ ہی حقیقت ہے سمندر میں نمک اس قدر وافر مقدار میں ہے کہ وہ اب میٹھا ہونے سے رہا۔پورا اگست کا مہینہ بہت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، بچے والدین سے ضد کرکے رنگ برنگی جھنڈیاں خریدتے ہیں، جھنڈے خریدے جاتے ہیں، دیے روشن کیے جاتے ہیں سچ ہے کہ بچپن میں ہم نے بھی دیے روشن کیے تھے اور ہمارے والدین بھی ہمارے ساتھ تھے پر اب کچھ عجیب سا لگتا ہے، ایسے جیسے پھول بغیر خوشبو کے سب کچھ دکھاوا سا لگتا ہے۔
اپنے اندر کے سونے پن کا احساس جاگتا ہے ہم 74 سال بعد بھی بنگلہ دیش سے پیچھے ہیں، چین جس وقت غربت کے دھندلکوں میں تھا ہم اس وقت اچھے بھلے خوشحال تھے آج چین آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے، بھارت ایشین ٹائیگر بننے کے لیے تیاریوں میں مصروف ہے اور ہم ابھی تک حوا کی بیٹیوں کے قاتلوں اور ظالموں کی تلاش میں ہیں۔ ظالموں کا کیا ہوتا ہے؟ صبح سڑکیں بنی تھیں شام کو پھر ٹوٹ گئیں، پانی کی لائنیں پڑی تھیں، شکریے کے بینر بھی لگائے پر پانی کو لائنیں ترس رہی ہیں۔
کالا باغ ڈیم بنے گا یا نہیں ٹاس کرلیں، جھنڈیوں کی جگہ پودے لگا دیں، جھنڈیاں تو پندرہ اگست کو سڑکوں پر ادھر ادھر رل رہی ہوں گی، ہم لوگ کنفیوژ ہیں، ہر دوسرے تیسرے دن مہنگائی پہل دوج کھیلتی نظر آتی ہے، کورونا کی وجہ سے مسائل اور بڑھ رہے ہیں لیکن ہم اس سے بھی کھیل رہے ہیں، ایک طرف کہا جاتا ہے ویکسین لگوائیے تو دوسری طرف ویکسین ختم، دو دن بعد آ کر معلوم کیجیے، ویکسین لگوا لی تو کارڈ ختم ہوگئے، بھائی کس کس کو اپنے ویکسین شدہ ہونے کا ثبوت پیش کریں گے، لوگ کورونا سے مر رہے ہیں لیکن ہیپاٹائٹس بھی خطرناک ہے اس سے زیادہ اموات ہوتی ہیں ایک کے بعد ایک بیان اس قوم کے سامنے آ رہے ہیں اور سچ ہے کہ اب قوم بھی اسی نہج پر چل پڑی ہے ۔
کینیڈا کے وزیر اعظم کی طرح ہمارے وزرا مایوس نہیں ہیں کیونکہ مایوسی کفر ہے ہمیں امید ہے کہ ہم پھر سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثبت انداز میں سوچیں گے، ہم قوم و ملت کے پیسوں سے اپنے بینک بیلنس نہیں بڑھائیں گے، ہم بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کی بجائے سائیکلوں کو ترجیح دیں گے اور عوام ایک جیسی سائیکل پر دفتر جائیں گے ہم برانڈڈ ملبوسات کی بجائے جرمنی کی وزیر اعظم کی طرح سادے کپڑوں کو ترجیح دیں گے، ہم ضرور ایک اچھی سلجھی ہوئی قوم بن کر ابھریں گے کہ یہ ملک پاکستان بڑی جدوجہد کے بعد حاصل کیاگیا ہے اور رب العزت قربانیوں کو رائیگاں نہیں جانے دیتے اور ہمیں گلا پھاڑ کر گانے کی ضرورت نہیں پڑے گی کہ یہ وطن ہمارا ہے بلکہ ہمارا دل بولے گا یہ وطن ہمارا ہے اس کے پاسباں ہم ہیں اور ہر دن چودہ اگست کی مانند روشن دکھائی دے گا۔( آمین)