ذکر آزاد کشمیر کے عوامی مسائل کا
آزاد کشمیر میں قائم اسپتالوں میں ایمبولینس کی کمی کو بھی پورا کیا جائے جس کی اشد ضرورت ہے۔
یہ ضرور ہے کہ کشمیر ایک روز آزاد ہوگا، گو کشمیر کی جدوجہد آزادی کا یہ سفر طویل تر ہو چکا ہے مگر کشمیر ضرور آزاد ہوگا، یہ ہمارا یقین ہے۔ البتہ آج کی نشست میں ہماری کوشش ہوگی کہ ہم ان مسائل کا تذکرہ کریں جن کا آزاد کشمیر کے لوگوں کو سامنا ہے۔
چنانچہ اول ہم ذکر کریں گے تعلیمی مسائل کا۔ آزاد کشمیر میں تعلیم کا حصول دو طرح سے ممکن ہے ایک سرکاری تعلیمی اداروں سے دوسرا نجی تعلیمی اداروں کے ذریعے۔ آزاد کشمیر کی اکثریت آبادی تعلیم یافتہ ہے اور یہ تعلیمی معیار 95 فیصد تک بتایا جاتا ہے، البتہ ہم ذکر کریں اگر حصول تعلیم کے راستے میں آنے والی درپیش مشکلات کا تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ آزاد کشمیر میں حصول تعلیم ایک مہنگا عمل ہے ۔
اول تو پاکستان و آزاد کشمیر میں تعلیمی نصاب یکساں نہیں ہے اور دونوں کے تعلیمی نصاب میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے، چنانچہ اگر آزاد کشمیر کے طلبا پنجاب کے نصاب تعلیم کی کتب کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو پنجاب و کشمیر کے نصاب میں معمولی فرق ہے۔
یہ ضرور ہے کہ پنجاب سے حصول تعلیم کے لیے حاصل کردہ کتب کی قیمت کم ہوتی ہے۔ ان کتب کے حصول کے لیے اکثریت راولپنڈی کا رخ کرتی ہے البتہ اگر آزاد کشمیر کا اپنا رائج کردہ نصاب کی کتب کا حصول مقصد ہے تو پھر کتب خاصی مہنگی قیمت پر دستیاب ہوں گی جوکہ طلبا کے لیے ایک مشکل امر ہے یہ ضرور ہے کہ آزاد کشمیر میں اول کلاس سے اعلیٰ ترین حصول تعلیم کے لیے اسکول کالج و یونیورسٹیاں قائم ہیں جوکہ سرکاری و نجی ملکیت میں ہیں۔ معیار تعلیم بھی تسلی بخش ہے لیکن ایک ستم یہ بھی ہے کہ سرکاری اداروں میں بھی بچوں سے داخلہ فیس وصول کی جاتی ہے۔
اسکولز میں یہ فیس 1300 تک وصول کی جاتی ہے موجودہ مہنگائی کو مدنظر رکھا جائے تو طلبا کے والدین کے لیے یہ ایک انسانی بوجھ ہے دوم جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہے بلااشتعال بھارتی فورسز کی فائرنگ کے باوجود اس کے کنٹرول لائن معاملے پر بھارت و پاکستان کے درمیان معاہدہ موجود ہے مگر اس معاہدے کی بھارتی فورسز کی جانب سے شب و روز خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
ان خلاف ورزیوں کے باعث لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے یا وہ لوگ شدید زخمی ہوتے ہیں جن علاقوں کے لوگ اس فائرنگ سے متاثر ہوتے ہیں ان میں عباس پور، ہجیرہ، تتری یونٹ، تتہ پانی، دربازار، نکیال، فاروڈ گھوٹا، کہوٹہ شامل ہیں۔ ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ان علاقوں کے لوگ ٹھیک طریقے سے زراعت کے معاملے میں اپنے کام کاج انجام نہیں دے پاتے۔ دوسرے یہ کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں طلبا شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث وہ حصول تعلیم پر پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ امید ہے وزارت دفاع اس معاملے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
سوم جو مسئلہ ہے وہ ہے روزگار کا۔ کیفیت یہ ہے کہ کشمیری لوگ یا تو فوج و پولیس میں ملازمت اختیار کرتے ہیں یا پھر کراچی سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں اپنا روزگار تلاش کرتے ہیں حتیٰ کہ بیرون ممالک تک چلے جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی طور پر آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے مناسب روزگار کا بندوبست کیا جائے۔اس سلسلے میں چکوٹھی کراسنگ پوائنٹ و تتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کو بھی اگر پھر سے فعال کردیا جائے تو دونوں جانب کے کشمیریوں کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوں گے اور ہزاروں لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا۔
چہارم مسئلہ ہے لوڈ شیڈنگ کا، جوکہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ توانائی کا بہت بڑا ذریعہ کشمیر میں ہے منگلا ڈیم جس سے پورے ملک میں بجلی کی ترسیل ہوتی ہے منگلا ڈیم کے علاوہ نیلم جہلم پروجیکٹ سے بھی 12 سے 13 سو میگاواٹ و کروڈ سے سات سو میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے ۔
اس کے باوجود آزاد کشمیر میں لوڈ شیڈنگ کا مسلسل و بلاناغہ ہونا باعث حیرت ہے جبکہ کئی برس قبل یہ فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا تھا کہ کنٹرول لائن کے چھ کلو میٹر اندر کے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ جاری ہے ستم یہ بھی ہے کہ کشمیر سے حاصل کردہ بجلی ماسوائے آزاد کشمیر کے چار اضلاع میرپور کوٹلی، بھبروسزنوتی میں استعمال ہوتی ہے جبکہ آزاد کشمیر کے دیگر تمام علاقوں کو بجلی کی ترسیل خیبر پختونخوا سے ہوتی ہے جو خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں حکام کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آزاد کشمیر کے عوام کو سستی بجلی دستیاب ہو سکے۔
بجلی کے حصول کے لیے آزاد کشمیر میں چھوٹے ڈیموں سے بھی مزید بجلی حاصل کی جاسکتی ہے گوکہ بجلی کا حصول کا عمل پہلے سے جاری ہے جبکہ مزید بجلی کے حصول کے ذرائع موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ پنجم مسئلہ ہے علاج کی سہولیات کاگوکہ پورے آزاد کشمیر میں علاج کے لیے اسپتال موجود ہیں مگر حقیقت یہ ہے ان اسپتالوں میں جو عملہ تعینات ہے وہ ناکافی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے تاکہ آزاد کشمیر میں عوام کو پوری طرح سے علاج کی سہولیات دستیاب ہو سکیں۔
ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں قائم اسپتالوں میں ایمبولینس کی کمی کو بھی پورا کیا جائے جس کی اشد ضرورت ہے بالخصوص راولاکوٹ میں ایمبولینس کی شدید ضرورت ہے۔ ششم کورونا کا مسئلہ ہے معذرت کے ساتھ عرض کرتا چلوں اس وبا کو پھیلانے میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے محض اپنے اپنے بڑے جلسے میڈیا پر دکھانے کے لیے ہر جلسہ عام میں عوام کی کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا یہ سوچے بغیر کے اس عمل کا ردعمل کیا ہوگا۔
یہ ایک علیحدہ بات ہے ان جلسوں میں کشمیری عوام کے مسائل پر کم سے کم گفتگو کی گئی البتہ ایک دوسرے کی کردار کشی زیادہ کی گئی۔ ان جلسے جلوسوں کا انجام کار یہ ہے کہ اس وقت آزاد کشمیر میں 30 فیصد کورونا پھیل چکا ہے اور ہمارے یہ ہر دل عزیز سیاسی رہنما دھاندلی ،دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔
اب آزاد کشمیر کے عوام کورونا کے کن حالات سے دوچار ہیں یہ کسی سیاستدان کے سر کا درد نہیں ہے بہرکیف ہم نے کوشش کی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے چند مسائل پر بات کریں۔ امید ہے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل پر ہمدردی کے ساتھ غور و فکر کریں گے اور ان مسائل کو حل کریں گے بالخصوص پی ٹی آئی کی نئی حکومت سے توقع رکھنی ہوگی کہ وہ تمام مسائل حل کرے گی۔
چنانچہ اول ہم ذکر کریں گے تعلیمی مسائل کا۔ آزاد کشمیر میں تعلیم کا حصول دو طرح سے ممکن ہے ایک سرکاری تعلیمی اداروں سے دوسرا نجی تعلیمی اداروں کے ذریعے۔ آزاد کشمیر کی اکثریت آبادی تعلیم یافتہ ہے اور یہ تعلیمی معیار 95 فیصد تک بتایا جاتا ہے، البتہ ہم ذکر کریں اگر حصول تعلیم کے راستے میں آنے والی درپیش مشکلات کا تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ آزاد کشمیر میں حصول تعلیم ایک مہنگا عمل ہے ۔
اول تو پاکستان و آزاد کشمیر میں تعلیمی نصاب یکساں نہیں ہے اور دونوں کے تعلیمی نصاب میں زیادہ فرق بھی نہیں ہے، چنانچہ اگر آزاد کشمیر کے طلبا پنجاب کے نصاب تعلیم کی کتب کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کریں تو پنجاب و کشمیر کے نصاب میں معمولی فرق ہے۔
یہ ضرور ہے کہ پنجاب سے حصول تعلیم کے لیے حاصل کردہ کتب کی قیمت کم ہوتی ہے۔ ان کتب کے حصول کے لیے اکثریت راولپنڈی کا رخ کرتی ہے البتہ اگر آزاد کشمیر کا اپنا رائج کردہ نصاب کی کتب کا حصول مقصد ہے تو پھر کتب خاصی مہنگی قیمت پر دستیاب ہوں گی جوکہ طلبا کے لیے ایک مشکل امر ہے یہ ضرور ہے کہ آزاد کشمیر میں اول کلاس سے اعلیٰ ترین حصول تعلیم کے لیے اسکول کالج و یونیورسٹیاں قائم ہیں جوکہ سرکاری و نجی ملکیت میں ہیں۔ معیار تعلیم بھی تسلی بخش ہے لیکن ایک ستم یہ بھی ہے کہ سرکاری اداروں میں بھی بچوں سے داخلہ فیس وصول کی جاتی ہے۔
اسکولز میں یہ فیس 1300 تک وصول کی جاتی ہے موجودہ مہنگائی کو مدنظر رکھا جائے تو طلبا کے والدین کے لیے یہ ایک انسانی بوجھ ہے دوم جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہے بلااشتعال بھارتی فورسز کی فائرنگ کے باوجود اس کے کنٹرول لائن معاملے پر بھارت و پاکستان کے درمیان معاہدہ موجود ہے مگر اس معاہدے کی بھارتی فورسز کی جانب سے شب و روز خلاف ورزیاں جاری ہیں۔
ان خلاف ورزیوں کے باعث لوگوں کی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے یا وہ لوگ شدید زخمی ہوتے ہیں جن علاقوں کے لوگ اس فائرنگ سے متاثر ہوتے ہیں ان میں عباس پور، ہجیرہ، تتری یونٹ، تتہ پانی، دربازار، نکیال، فاروڈ گھوٹا، کہوٹہ شامل ہیں۔ ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ ان علاقوں کے لوگ ٹھیک طریقے سے زراعت کے معاملے میں اپنے کام کاج انجام نہیں دے پاتے۔ دوسرے یہ کہ اس فائرنگ کے نتیجے میں طلبا شدید ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں جس کے باعث وہ حصول تعلیم پر پوری توجہ نہیں دے پاتے۔ امید ہے وزارت دفاع اس معاملے کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی۔
سوم جو مسئلہ ہے وہ ہے روزگار کا۔ کیفیت یہ ہے کہ کشمیری لوگ یا تو فوج و پولیس میں ملازمت اختیار کرتے ہیں یا پھر کراچی سمیت ملک کے دوسرے شہروں میں اپنا روزگار تلاش کرتے ہیں حتیٰ کہ بیرون ممالک تک چلے جاتے ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ مقامی طور پر آزاد کشمیر کے لوگوں کے لیے مناسب روزگار کا بندوبست کیا جائے۔اس سلسلے میں چکوٹھی کراسنگ پوائنٹ و تتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کو بھی اگر پھر سے فعال کردیا جائے تو دونوں جانب کے کشمیریوں کو روزگار کے وسیع مواقع حاصل ہوں گے اور ہزاروں لوگوں کو روزگار حاصل ہوگا۔
چہارم مسئلہ ہے لوڈ شیڈنگ کا، جوکہ سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ توانائی کا بہت بڑا ذریعہ کشمیر میں ہے منگلا ڈیم جس سے پورے ملک میں بجلی کی ترسیل ہوتی ہے منگلا ڈیم کے علاوہ نیلم جہلم پروجیکٹ سے بھی 12 سے 13 سو میگاواٹ و کروڈ سے سات سو میگا واٹ بجلی حاصل ہوتی ہے ۔
اس کے باوجود آزاد کشمیر میں لوڈ شیڈنگ کا مسلسل و بلاناغہ ہونا باعث حیرت ہے جبکہ کئی برس قبل یہ فیصلہ اعلیٰ ترین سطح پر کیا گیا تھا کہ کنٹرول لائن کے چھ کلو میٹر اندر کے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوگی مگر اس کے باوجود لوڈ شیڈنگ جاری ہے ستم یہ بھی ہے کہ کشمیر سے حاصل کردہ بجلی ماسوائے آزاد کشمیر کے چار اضلاع میرپور کوٹلی، بھبروسزنوتی میں استعمال ہوتی ہے جبکہ آزاد کشمیر کے دیگر تمام علاقوں کو بجلی کی ترسیل خیبر پختونخوا سے ہوتی ہے جو خاصی مہنگی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں حکام کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آزاد کشمیر کے عوام کو سستی بجلی دستیاب ہو سکے۔
بجلی کے حصول کے لیے آزاد کشمیر میں چھوٹے ڈیموں سے بھی مزید بجلی حاصل کی جاسکتی ہے گوکہ بجلی کا حصول کا عمل پہلے سے جاری ہے جبکہ مزید بجلی کے حصول کے ذرائع موجود ہیں جن سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ پنجم مسئلہ ہے علاج کی سہولیات کاگوکہ پورے آزاد کشمیر میں علاج کے لیے اسپتال موجود ہیں مگر حقیقت یہ ہے ان اسپتالوں میں جو عملہ تعینات ہے وہ ناکافی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ خالی آسامیوں کو پُر کیا جائے تاکہ آزاد کشمیر میں عوام کو پوری طرح سے علاج کی سہولیات دستیاب ہو سکیں۔
ضرورت تو اس امر کی بھی ہے کہ آزاد کشمیر میں قائم اسپتالوں میں ایمبولینس کی کمی کو بھی پورا کیا جائے جس کی اشد ضرورت ہے بالخصوص راولاکوٹ میں ایمبولینس کی شدید ضرورت ہے۔ ششم کورونا کا مسئلہ ہے معذرت کے ساتھ عرض کرتا چلوں اس وبا کو پھیلانے میں حالیہ انتخابی مہم کے دوران سیاستدانوں نے اہم کردار ادا کیا ہے محض اپنے اپنے بڑے جلسے میڈیا پر دکھانے کے لیے ہر جلسہ عام میں عوام کی کثیر تعداد کو مدعو کیا گیا یہ سوچے بغیر کے اس عمل کا ردعمل کیا ہوگا۔
یہ ایک علیحدہ بات ہے ان جلسوں میں کشمیری عوام کے مسائل پر کم سے کم گفتگو کی گئی البتہ ایک دوسرے کی کردار کشی زیادہ کی گئی۔ ان جلسے جلوسوں کا انجام کار یہ ہے کہ اس وقت آزاد کشمیر میں 30 فیصد کورونا پھیل چکا ہے اور ہمارے یہ ہر دل عزیز سیاسی رہنما دھاندلی ،دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔
اب آزاد کشمیر کے عوام کورونا کے کن حالات سے دوچار ہیں یہ کسی سیاستدان کے سر کا درد نہیں ہے بہرکیف ہم نے کوشش کی ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے چند مسائل پر بات کریں۔ امید ہے متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل پر ہمدردی کے ساتھ غور و فکر کریں گے اور ان مسائل کو حل کریں گے بالخصوص پی ٹی آئی کی نئی حکومت سے توقع رکھنی ہوگی کہ وہ تمام مسائل حل کرے گی۔