’’دو بچیاں فوت تیسری موت کا جھولا تھامے کھڑی ہے‘‘
ہادیہ کو PKU (Phenyl ketone uria) نامی بیماری تشخیص ہوئی جس کا پاکستان میں علاج ہی نہیں ہے۔
اولاد والدین کے لئے آزمائش ضرور لیکن اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، کیوں کہ اسے دنیا کی زینت کہا گیا ہے۔
بے اولاد شخص کی محرومی اپنی جگہ لیکن جسے مل کر یہ عنایت چھن جائے، اس کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری نہیں لیکن دنیا کا عام چلن ہے کہ اولاد اپنے والدین کے جنازے اْٹھاتی ہے، لیکن اولاد کا جنازہ اْٹھانا کِس قدر مْشکل ہے اِس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عام اِنسانوں کا تو ذِکر ہی کیا، یہ کرب کی گھڑی انبیائؑ پر بھی بہت گراں گزری۔ نبی کریمؐ کے صاحبزادے ابراہیمؓ بیمار تھے، مسجد نبوی میں کِسی نے آ کر بتایا کہ بیٹے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے تو آپؐ باقاعدہ بھاگتے ہوئے گھر پہنچے۔ ابراہیمؓ نے آپؐ کے زانو پر آخری ہچکی لی تو حضورؐ کے آنسو نکل آئے۔ کسی نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپ بھی روتے ہیں۔ فرمایا میں اللہ کا نبی بھی ہوں اور ایک باپ بھی... روایات میں ہے کہ اِس موقع پر آپ کی رنجیدگی دیکھنے والی تھی۔ نمازِ جنازہ خود پڑھائی لیکن تدفین کے لئے قبر میں نہیں اْترے حالاں کہ کِسی بھی مْسلمان کی موت کی صورت میں اْس کو لَحد میں اْتارنا آپؐ کا معمول تھا۔ نبی کریمؐ قبر کے کنارے بیٹھے اور فرمانے لگے ''ابراہیمؓ! بڑا دْکھ دے کر جا رہے ہو۔
تمہیں پتہ تھا کہ تْمہارا باپ بوڑھا ہے اس کا بھی خیال نہیں کیا، چلو کوئی بات نہیں تم پہنچو میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے ہی آ رہا ہوں۔'' سو ایسا ہی ہوا اور آپؐ اپنے بیٹے کے پیچھے پیچھے ہی اپنے رب سے جا ملے۔ موت برحق اور ہر انسان کو اپنے خمیر سے واپس جا ملنا ہے لیکن جب اس میں انسانی غفلت یا مجبوریوں کا عمل دخل ہو تو غم کی شدت میں اضافہ سے کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک کہانی فیض رسول کی ہے، جس کی غربت اور خطرناک و پُراسرار بیماری نے اس کی دو بچیوں کی جان لے لی اور تیسری بچی موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ایک مزدور کا بیٹا فیض رسول سانگلہ ہل کا رہائشی ہے۔ والد کے انتقال کے بعد 6 بھائیوں اور 3 بہنوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے گھر کی تمام ذمہ داریاں اس کے ناتواں کندھوں پر آن پڑیں۔ فیض نے بتایا کہ '' میرا چھوٹا بھائی صرف ڈیڑھ برس کا تھا، جب میرے والد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، اس وقت میں نہم جماعت کا طالبعلم تھا لیکن گھریلو حالات کی سختی کے باعث مجھے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ جس گھر میں ہم رہتے تھے، وہ کرائے کا تھا۔ میں نے سکول بیگ کی جگہ محنت مزدوری کرنے کے اوزار تھام لئے تاکہ میرے بہن بھائیوں کو باپ کی کمی محسوس نہ ہو اور ان کی تمام ضروریات پوری ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک آئل شاپ بنا لی جس کی آمدن سے نہ صرف اپنی فیملی کے لئے ایک گھر بنایا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بہن بھائیوں کو پڑھایا بھی، لیکن ابتر مالی حالات کے باعث وہ بھی مکمل طور پر پڑھ نہ سکے، جس کے باعث تینوں بھائی بھی اب مزدوری کرتے ہیں۔ ایک بہن کی شادی کر دی جبکہ باقی تمام بہن بھائی ابھی کنوارے ہیں۔''
2004ء میں فیض رسول کی شادی صوبیہ عنبرین سے ہوئی، جو دینی و دنیوی علوم سے بہرہ ور ہیں، صوبیہ ایک عالمہ ہونے کے ساتھ اسلامیات میں ماسٹرز اور بی ایڈ کی ڈگری بھی رکھتی ہیں۔ شادی کے 2 سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو اپنی رحمت سے نواز دیا۔ ایمن فاطمہ جب پیدا ہوئی تو انتہائی خوبصورت اور صحت مند تھی، لیکن 2 ماہ بعد ناجانے اسے کیا ہوا کہ وہ بیمار رہنے لگی۔ فیض رسول کہتے ہیں '' ڈاکٹروں کے مطابق ایمن کو گردن توڑ بخار ہو گیا تھا، ہم نے مقامی سطح پر بیٹی کا علاج کروانے کی کوشش کی لیکن اس کی طبعیت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں اسے اہلیہ کے ہمراہ پہلے گوجرنوالہ، پھر فیصل آباد اور بعدازاں لاہور لے گیا، مگر ڈاکٹر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی بیماری کی تشخیص نہیں کر سکے۔
پورے چار سال مختلف شہروں اور ہسپتالوں کے دھکے کھانے کے بعد میری بیٹی انتقال کر گئی۔ مرحوم بیٹی کے علاج پر تقریباً 12لاکھ روپے خرچ آیا، جس میں سے 8 لاکھ روپے قرضہ تھا۔ قرض چکانے کے لئے میں نے اپنا آدھا گھر فروخت کر دیا۔'' 3 سال بعد قدرت نے فیض رسول کو ایک بیٹے سے نوازا، سعد عبداللہ آج 6سال کا ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہے۔ 2011ء میں فیض کے ہاں تیسرا بچہ اور دوسری بیٹی عائشہ ہوئی، لیکن بدقسمتی نے اس بار بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور صرف 4 ماہ کی عمر میں عائشہ بھی ایک پُراسرار اور خطرناک بیماری کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھی۔ دسمبر 2012ء میں صوبیہ پر پھر قدرت کی طرف سے رحمت کا نزول ہوا، مگر آج سوا سالہ ہادیہ بھی موت کا جھولا تھامے کھڑی ہے۔
فیض رسول نے بتایا کہ '' پیدائش کے 3 ماہ بعد ہادیہ کو اچانک بہت تیز بخار ہوا، جسم میں جھٹکے لگنے لگے اور آج تقربیاً سوا سال کی ہونے کے باوجود یہ اپنی گردن تک کھڑی نہیں کر سکتی۔ بخار اور جھٹکے لگنے کا سلسلہ جب شروع ہوا تو مقامی ڈاکٹر کے علاج سے ایک بار تو ہادیہ تندرست ہو گئی، مگر 2 ماہ بعد پھر اس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی۔ میں اور میری اہلیہ بیٹی کو چلڈرن ہسپتال لاہور لے آئے، جہاں ہم تقریباً ساڑھے 3 ماہ خوار ہوئے لیکن کسی نے ہماری بیٹی کا تسلی سے معائنہ تک نہیں کیا۔ مرض کی تشخیص کرنے کے بجائے ڈاکٹر نے صرف میڈیسن لکھی اور گھر جانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ پریشانی کے عالم میں ہم ادھر ادھر پھرتے رہے مگر ہادیہ کا بخار اترا نہ جھٹکے لگنے بند ہوئے۔ اسی دوران کسی کے کہنے پر ہم نے جنرل ہسپتال لاہور کا رخ کر لیا، یہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ڈاکٹرز نے ہمارے ساتھ اچھا برتائو کیا اور بچی کو ایڈمٹ کر لیا۔
مختلف بلڈ ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو بھی پہلے انتقال کر جانے والی بچیوں جیسی ہی بیماری ہے۔ ہادیہ کو PKU (Phenyl ketone uria) نامی بیماری تشخیص ہوئی جس کا ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں علاج ہی نہیں ہے۔ بچی کے جسم میں پروٹین کی زیادتی ہے، لہٰذا اسے ماں کا دودھ دینا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو جو بھی خوراک دی جائے گی وہ فنائل فری ہو گی اور ایک دودھ بھی لکھ کر دیا، جو پتہ کرنے پر ملک بھر میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھا۔ فنائل فری دودھ (Phenyl Free Milk) کا ایک ڈبہ دس روز چلتا ہے اور اس کی قیمت پاکستانی 24 ہزار روپے بنتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر یہ مخصوص دودھ بچی کو نہ دیا گیا تو یہ زیادہ سے زیادہ 90 روز کی مہمان ہے۔ بیٹی کے علاج کی خاطر گزشتہ 7ماہ سے ہم لاہور میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے پیچھے جو دکان تھی وہ بھی ختم ہو گئی، گھر میں پہلے ہی فروخت کر چکا تھا۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آبائی علاقے سے کچھ دوست یار اور بھائی تھوڑا بہت سہارا لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بمشکل روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپیل کرنے پر ایک مخیر پاکستانی، جو لندن میں رہتا ہے، نے خدا ترسی کی اور ہمیں دودھ بھجوانے لگا۔ ڈاکٹرز کا تحریری طور پر اب کہنا ہے دودھ پلانے کے ہر دو ماہ بعد بچی کے 2 خون کے ٹیسٹ بھی کروانے ہیں، لیکن وہ بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق امریکا اور برطانیہ میں اس بچی کا علاج ممکن ہے لیکن مجھ بدنصیب کی اتنی اوقات ہی نہیں۔
میری بچی میرے ہاتھوں میں دم توڑ رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے ''بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں'' تو پھر کوئی مخیر شخص یا حکومت میری پھول سی بچی کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتی۔ چند روز قبل مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی جنرل ہسپتال آئے تو میں نے انہیں اپنا مسئلہ بیان کیا، جس پر انہوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور جلد کچھ کرنے کی یقین دہائی کروائی لیکن تاحال کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ خدارا! میری بچی کو بچا لو، میری بچی کو بچا لو۔'' یہ کہتے ہوئے فیض رسول کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کچھ دیر میں نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا کہ دل کا کچھ غبار ہلکا ہو جائے، نہ جانے وہ کب سے یہ سب کچھ کسی سے شیئر کرنے کا منتظر تھا۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد میں نے فیض کی اہلیہ کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فیض کو حوصلہ دے کر خاموش کروایا۔ بے بس و مجبور باپ نے حکمرانوں سے اس کی بیٹی کا نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ '' حکومت PKU بیماری میں استعمال ہونے والا دودھ اور بیماری کے علاج کی سہولیات کی ملکی سطح پر دستیابی کو ممکن بنائے تاکہ میری بچی کے ساتھ دیگر بچے جو خدانخواستہ اس بیماری میں مبتلا ہوں تو ان کی زندگیاں بچ سکیں اور کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔''
فیض کے بعد ہادیہ کی بدقسمت ماں گویا ہوئی '' میری حکومت، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل ہے کہ وہ بیرون ملک سے میری بچی کا علاج کروائیں۔ میں پہلے ہی اپنی دو بچیاں کھو چکی ہوں اور اب کی بار بھی میرے ساتھ ایسا ہوا تو میں جی نہ سکوں گی۔'' یہ کہتے ہی صوبیہ کی ہچکی بندھ گئی اور الفاظ ٹوٹنے لگے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس بدنصیب میاں بیوی کو کیسے دلاسا دوں، بہرحال تھوڑی دیر بعد ہادیہ کی والدہ نے خود کو سنبھالا اور بولی '' میری پہلی دو بچیوں کے مرض کی تو تشخیص ہی نہ ہو سکی تھی، لیکن اب اس بیٹی کی بیماری کا سب کو علم ہو چکا ہے تو اس کے علاج کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے بعد حکمرانوں (خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب) اور مخیر حضرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب ہم دنیا میں تو آپ کو کچھ دے نہیں سکتے لیکن اگر آپ نے میری بچی کی زندگی لوٹا دی، اس کا علاج کروا دیا تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ روز محشر اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ '' تم سب کے سب نگران ہو اور سب کے سب پوچھے جائو گے اپنی رعایا کے بارے میں''۔ میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے۔ میری بچی کی زندگی میرے لئے اسی طرح انتہائی ضروری ہے، جیسے ہر ماں کے لئے اس کا ایک ایک بچہ ہوتا ہے۔''
بے اولاد شخص کی محرومی اپنی جگہ لیکن جسے مل کر یہ عنایت چھن جائے، اس کا دکھ الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ضروری نہیں لیکن دنیا کا عام چلن ہے کہ اولاد اپنے والدین کے جنازے اْٹھاتی ہے، لیکن اولاد کا جنازہ اْٹھانا کِس قدر مْشکل ہے اِس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا۔ عام اِنسانوں کا تو ذِکر ہی کیا، یہ کرب کی گھڑی انبیائؑ پر بھی بہت گراں گزری۔ نبی کریمؐ کے صاحبزادے ابراہیمؓ بیمار تھے، مسجد نبوی میں کِسی نے آ کر بتایا کہ بیٹے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے تو آپؐ باقاعدہ بھاگتے ہوئے گھر پہنچے۔ ابراہیمؓ نے آپؐ کے زانو پر آخری ہچکی لی تو حضورؐ کے آنسو نکل آئے۔ کسی نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپ بھی روتے ہیں۔ فرمایا میں اللہ کا نبی بھی ہوں اور ایک باپ بھی... روایات میں ہے کہ اِس موقع پر آپ کی رنجیدگی دیکھنے والی تھی۔ نمازِ جنازہ خود پڑھائی لیکن تدفین کے لئے قبر میں نہیں اْترے حالاں کہ کِسی بھی مْسلمان کی موت کی صورت میں اْس کو لَحد میں اْتارنا آپؐ کا معمول تھا۔ نبی کریمؐ قبر کے کنارے بیٹھے اور فرمانے لگے ''ابراہیمؓ! بڑا دْکھ دے کر جا رہے ہو۔
تمہیں پتہ تھا کہ تْمہارا باپ بوڑھا ہے اس کا بھی خیال نہیں کیا، چلو کوئی بات نہیں تم پہنچو میں بھی تمہارے پیچھے پیچھے ہی آ رہا ہوں۔'' سو ایسا ہی ہوا اور آپؐ اپنے بیٹے کے پیچھے پیچھے ہی اپنے رب سے جا ملے۔ موت برحق اور ہر انسان کو اپنے خمیر سے واپس جا ملنا ہے لیکن جب اس میں انسانی غفلت یا مجبوریوں کا عمل دخل ہو تو غم کی شدت میں اضافہ سے کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک کہانی فیض رسول کی ہے، جس کی غربت اور خطرناک و پُراسرار بیماری نے اس کی دو بچیوں کی جان لے لی اور تیسری بچی موت کے دہانے پر کھڑی ہے۔
ایک مزدور کا بیٹا فیض رسول سانگلہ ہل کا رہائشی ہے۔ والد کے انتقال کے بعد 6 بھائیوں اور 3 بہنوں میں سب سے بڑا ہونے کے ناطے گھر کی تمام ذمہ داریاں اس کے ناتواں کندھوں پر آن پڑیں۔ فیض نے بتایا کہ '' میرا چھوٹا بھائی صرف ڈیڑھ برس کا تھا، جب میرے والد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے، اس وقت میں نہم جماعت کا طالبعلم تھا لیکن گھریلو حالات کی سختی کے باعث مجھے پڑھائی چھوڑنا پڑی۔ جس گھر میں ہم رہتے تھے، وہ کرائے کا تھا۔ میں نے سکول بیگ کی جگہ محنت مزدوری کرنے کے اوزار تھام لئے تاکہ میرے بہن بھائیوں کو باپ کی کمی محسوس نہ ہو اور ان کی تمام ضروریات پوری ہوں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں نے ایک آئل شاپ بنا لی جس کی آمدن سے نہ صرف اپنی فیملی کے لئے ایک گھر بنایا بلکہ جہاں تک ممکن ہوا بہن بھائیوں کو پڑھایا بھی، لیکن ابتر مالی حالات کے باعث وہ بھی مکمل طور پر پڑھ نہ سکے، جس کے باعث تینوں بھائی بھی اب مزدوری کرتے ہیں۔ ایک بہن کی شادی کر دی جبکہ باقی تمام بہن بھائی ابھی کنوارے ہیں۔''
2004ء میں فیض رسول کی شادی صوبیہ عنبرین سے ہوئی، جو دینی و دنیوی علوم سے بہرہ ور ہیں، صوبیہ ایک عالمہ ہونے کے ساتھ اسلامیات میں ماسٹرز اور بی ایڈ کی ڈگری بھی رکھتی ہیں۔ شادی کے 2 سال بعد اللہ تعالیٰ نے اس جوڑے کو اپنی رحمت سے نواز دیا۔ ایمن فاطمہ جب پیدا ہوئی تو انتہائی خوبصورت اور صحت مند تھی، لیکن 2 ماہ بعد ناجانے اسے کیا ہوا کہ وہ بیمار رہنے لگی۔ فیض رسول کہتے ہیں '' ڈاکٹروں کے مطابق ایمن کو گردن توڑ بخار ہو گیا تھا، ہم نے مقامی سطح پر بیٹی کا علاج کروانے کی کوشش کی لیکن اس کی طبعیت سنبھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ میں اسے اہلیہ کے ہمراہ پہلے گوجرنوالہ، پھر فیصل آباد اور بعدازاں لاہور لے گیا، مگر ڈاکٹر اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود اس کی بیماری کی تشخیص نہیں کر سکے۔
اہلیہ فیض رسول
پہلے ہی دو بچیاں کھو چکی اور اب ایسا ہوا تو جی نہ سکوں گی، ہادیہ کے علاج کے لئے اللہ تعالیٰ کے بعد حکمرانوں اور مخیر حضرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب میں دنیا میں تو آپ کو کچھ نہیں دے سکتی لیکن اگر آپ نے میری بچی کی زندگی لوٹا دی، اس کا علاج کروا دیا، تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ روز محشر اللہ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی، میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے خدارا! اسے بچا لو۔
پورے چار سال مختلف شہروں اور ہسپتالوں کے دھکے کھانے کے بعد میری بیٹی انتقال کر گئی۔ مرحوم بیٹی کے علاج پر تقریباً 12لاکھ روپے خرچ آیا، جس میں سے 8 لاکھ روپے قرضہ تھا۔ قرض چکانے کے لئے میں نے اپنا آدھا گھر فروخت کر دیا۔'' 3 سال بعد قدرت نے فیض رسول کو ایک بیٹے سے نوازا، سعد عبداللہ آج 6سال کا ہے اور مکمل طور پر صحت مند ہے۔ 2011ء میں فیض کے ہاں تیسرا بچہ اور دوسری بیٹی عائشہ ہوئی، لیکن بدقسمتی نے اس بار بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا اور صرف 4 ماہ کی عمر میں عائشہ بھی ایک پُراسرار اور خطرناک بیماری کے ہاتھوں اپنی زندگی کی بازی ہار بیٹھی۔ دسمبر 2012ء میں صوبیہ پر پھر قدرت کی طرف سے رحمت کا نزول ہوا، مگر آج سوا سالہ ہادیہ بھی موت کا جھولا تھامے کھڑی ہے۔
فیض رسول نے بتایا کہ '' پیدائش کے 3 ماہ بعد ہادیہ کو اچانک بہت تیز بخار ہوا، جسم میں جھٹکے لگنے لگے اور آج تقربیاً سوا سال کی ہونے کے باوجود یہ اپنی گردن تک کھڑی نہیں کر سکتی۔ بخار اور جھٹکے لگنے کا سلسلہ جب شروع ہوا تو مقامی ڈاکٹر کے علاج سے ایک بار تو ہادیہ تندرست ہو گئی، مگر 2 ماہ بعد پھر اس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو گئی۔ میں اور میری اہلیہ بیٹی کو چلڈرن ہسپتال لاہور لے آئے، جہاں ہم تقریباً ساڑھے 3 ماہ خوار ہوئے لیکن کسی نے ہماری بیٹی کا تسلی سے معائنہ تک نہیں کیا۔ مرض کی تشخیص کرنے کے بجائے ڈاکٹر نے صرف میڈیسن لکھی اور گھر جانے کی ہدایات جاری کر دیں۔ پریشانی کے عالم میں ہم ادھر ادھر پھرتے رہے مگر ہادیہ کا بخار اترا نہ جھٹکے لگنے بند ہوئے۔ اسی دوران کسی کے کہنے پر ہم نے جنرل ہسپتال لاہور کا رخ کر لیا، یہاں اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ڈاکٹرز نے ہمارے ساتھ اچھا برتائو کیا اور بچی کو ایڈمٹ کر لیا۔
مختلف بلڈ ٹیسٹ کے بعد ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو بھی پہلے انتقال کر جانے والی بچیوں جیسی ہی بیماری ہے۔ ہادیہ کو PKU (Phenyl ketone uria) نامی بیماری تشخیص ہوئی جس کا ڈاکٹرز کے مطابق پاکستان میں علاج ہی نہیں ہے۔ بچی کے جسم میں پروٹین کی زیادتی ہے، لہٰذا اسے ماں کا دودھ دینا موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس بچی کو جو بھی خوراک دی جائے گی وہ فنائل فری ہو گی اور ایک دودھ بھی لکھ کر دیا، جو پتہ کرنے پر ملک بھر میں کہیں بھی دستیاب نہیں تھا۔ فنائل فری دودھ (Phenyl Free Milk) کا ایک ڈبہ دس روز چلتا ہے اور اس کی قیمت پاکستانی 24 ہزار روپے بنتی ہے۔ ڈاکٹرز نے بتایا کہ اگر یہ مخصوص دودھ بچی کو نہ دیا گیا تو یہ زیادہ سے زیادہ 90 روز کی مہمان ہے۔ بیٹی کے علاج کی خاطر گزشتہ 7ماہ سے ہم لاہور میں ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہے ہیں، جس کی وجہ سے پیچھے جو دکان تھی وہ بھی ختم ہو گئی، گھر میں پہلے ہی فروخت کر چکا تھا۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ دو وقت کی روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آبائی علاقے سے کچھ دوست یار اور بھائی تھوڑا بہت سہارا لگا رہے ہیں، جس کی وجہ سے بمشکل روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسے میں اپیل کرنے پر ایک مخیر پاکستانی، جو لندن میں رہتا ہے، نے خدا ترسی کی اور ہمیں دودھ بھجوانے لگا۔ ڈاکٹرز کا تحریری طور پر اب کہنا ہے دودھ پلانے کے ہر دو ماہ بعد بچی کے 2 خون کے ٹیسٹ بھی کروانے ہیں، لیکن وہ بھی پاکستان میں دستیاب نہیں۔ ڈاکٹرز کے مطابق امریکا اور برطانیہ میں اس بچی کا علاج ممکن ہے لیکن مجھ بدنصیب کی اتنی اوقات ہی نہیں۔
میری بچی میرے ہاتھوں میں دم توڑ رہی ہے اور میں کچھ نہیں کر پا رہا۔ ہمارے ہاں کہا جاتا ہے ''بچے تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں'' تو پھر کوئی مخیر شخص یا حکومت میری پھول سی بچی کی طرف دھیان کیوں نہیں دیتی۔ چند روز قبل مشیر صحت خواجہ سلمان رفیق بھی جنرل ہسپتال آئے تو میں نے انہیں اپنا مسئلہ بیان کیا، جس پر انہوں نے اپنا وزیٹنگ کارڈ دیا اور جلد کچھ کرنے کی یقین دہائی کروائی لیکن تاحال کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔ خدارا! میری بچی کو بچا لو، میری بچی کو بچا لو۔'' یہ کہتے ہوئے فیض رسول کا ضبط ٹوٹ گیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کچھ دیر میں نے بھی اسے رونے سے نہیں روکا کہ دل کا کچھ غبار ہلکا ہو جائے، نہ جانے وہ کب سے یہ سب کچھ کسی سے شیئر کرنے کا منتظر تھا۔ بہرحال تھوڑی دیر بعد میں نے فیض کی اہلیہ کی طرف اشارہ کیا تو انہوں نے فیض کو حوصلہ دے کر خاموش کروایا۔ بے بس و مجبور باپ نے حکمرانوں سے اس کی بیٹی کا نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ '' حکومت PKU بیماری میں استعمال ہونے والا دودھ اور بیماری کے علاج کی سہولیات کی ملکی سطح پر دستیابی کو ممکن بنائے تاکہ میری بچی کے ساتھ دیگر بچے جو خدانخواستہ اس بیماری میں مبتلا ہوں تو ان کی زندگیاں بچ سکیں اور کسی ماں کی گود نہ اجڑے۔''
فیض رسول
ڈاکٹرز نے بیرون ملک ملنے والا دودھ نہ دینے پر ہادیہ کی زیادہ سے زیادہ عمر 90 روز بتائی، دودھ ایک مخیر نے بھیجا تو اب ٹیسٹ پاکستان میں نہیں ہوتے،''PKU'' نامی بیماری کے باعث ہادیہ تاحال اپنی گردن بھی کھڑی نہیں رکھ سکتی، بخار کے ساتھ جھٹکے لگتے ہیں، گزشتہ 7 ماہ سے لاہور میں ایک کمرا کرائے پر لے کر اہلیہ کے ساتھ رہ رہا ہوں، پہلی بیٹی کے علاج کے لئے گھر فروخت کردیا، اب دکان بھی ختم ہو گئی۔
فیض کے بعد ہادیہ کی بدقسمت ماں گویا ہوئی '' میری حکومت، وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور خصوصاً وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف سے اپیل ہے کہ وہ بیرون ملک سے میری بچی کا علاج کروائیں۔ میں پہلے ہی اپنی دو بچیاں کھو چکی ہوں اور اب کی بار بھی میرے ساتھ ایسا ہوا تو میں جی نہ سکوں گی۔'' یہ کہتے ہی صوبیہ کی ہچکی بندھ گئی اور الفاظ ٹوٹنے لگے۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس بدنصیب میاں بیوی کو کیسے دلاسا دوں، بہرحال تھوڑی دیر بعد ہادیہ کی والدہ نے خود کو سنبھالا اور بولی '' میری پہلی دو بچیوں کے مرض کی تو تشخیص ہی نہ ہو سکی تھی، لیکن اب اس بیٹی کی بیماری کا سب کو علم ہو چکا ہے تو اس کے علاج کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے بعد حکمرانوں (خصوصاً وزیراعلیٰ پنجاب) اور مخیر حضرات کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ میاں صاحب ہم دنیا میں تو آپ کو کچھ دے نہیں سکتے لیکن اگر آپ نے میری بچی کی زندگی لوٹا دی، اس کا علاج کروا دیا تو میں بطور عالم دین آپ سے یہ کہتی ہوں کہ روز محشر اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کی سفارشی بنوں گی۔ ایک حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ '' تم سب کے سب نگران ہو اور سب کے سب پوچھے جائو گے اپنی رعایا کے بارے میں''۔ میری ننھی کلی مرجھا رہی ہے۔ میری بچی کی زندگی میرے لئے اسی طرح انتہائی ضروری ہے، جیسے ہر ماں کے لئے اس کا ایک ایک بچہ ہوتا ہے۔''