افغانستان کی بگڑتی ہوئی صورت حال

پاکستان کو افغانستان کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کا پوری گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو افغانستان کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کا پوری گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

افغانستان کی صورت حال ہر گزرتے دن کے ساتھ پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔ افغانستان کی سیکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان لڑائی اور پسپائی کا کھیل جاری ہے جب کہ طاقتور اقوام اپنے اپنے مفادات کے مطابق صورت حال کو دیکھ رہی ہیں لیکن انھوں نے تاحال کوئی ایسا فیصلہ یا اقدام نہیں کیا جس سے لگے کہ وہ اس صورت حال پر بہت زیادہ پریشان ہیں بلکہ ایسا لگتا ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

افغانستان کی حکومت اور طالبان کو کھلا چھوڑ دیا ہے کہ جس کے پاس طاقت ہے وہ اقتدار پر قبضہ کر لے۔ امریکا اور نیٹو کی افواج کے انخلاء کے بعد جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی حالات زیادہ اچھے نہیں ہیں کیونکہ چمن سرحد کے افغانستان والے علاقے میں طالبان قابض ہیں۔ اگلے روز کی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے جنوب مغربی صوبے نیمروز کے دارالحکومت پر طالبان نے قبضہ کرلیا۔

جمعے کو افغان مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں تمام متحارب فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ لڑائی بند کر کے امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کریں۔ میڈیا میں آنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے کئی دیگر صوبائی دارالحکومت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے سرکاری فوجوں اور طالبان جنگجوؤں کے درمیان اس وقت شدید لڑائی ہونے کی اطلاعات آ رہی ہیں۔ صوبہ نیمروز کا دارالحکومت ایران کے ساتھ سرحد کے قریب واقع ہے اور یہ ایک اہم تجارتی شہر ہے۔

نیمروز کی نائب گورنر گل خیرزاد کے حوالے سے اے ایف پی نے بتایا ہے کہ زرنج شہر مزاحمت کے بغیر طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے کمک نہ بھیجی ، نہ ہی ہماری بات سنی۔ تازہ اطلاعات کے مطابق طالبان نے شہر کے ائیرپورٹ پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔ ایک طالبان کمانڈر نے کہا ہے کہ یہ آغاز ہے اور دیکھیے گا کہ کس طرح دوسرے صوبے بھی جلد ہی ہمارے قبضے میں ہوں گے۔

بعض اطلاعات کے مطابق طالبان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سرکاری حکام کو اپنے خاندانوں سمیت ایران فرار ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ ادھر کابل میں ملک کے میڈیا اینڈ انفارمیشن سینٹر کے ڈائریکٹر کو قتل کر دیا گیا ہے، وہ باقاعدگی سے افغان حکومت کی اطلاعات ٹوئٹر پر پوسٹ کیا کرتے تھے اور اْن کے ایک لاکھ 42 ہزار سے زیادہ فالوور تھے۔ ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے مقتول کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ میڈیا ڈائریکٹر کو انھیں ان کے اعمال کی سزا دی گئی ہے۔

ادھر لشکرگاہ، فراہ، بادغیس، ہرات، سریپل اور قندھار سمیت کئی شہروں میں رات بھر لڑائی جاری رہی ہے۔ طالبان نے لغمان صوبے میں ضلع بادغیس کا کنٹرول سنبھال لینے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔بی بی سی کے لشکرگاہ میں لڑائی کو اب نوواں روز ہو چلا ہے۔

افغان فوج کے مطابق مولوی مبارک نامی طالبان کمانڈر درجنوں دیگر جنگجوؤں سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔تاہم ایک طالبان ترجمان نے مولوی مبارک کے زندہ ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔شمالی صوبے جوزجان میں طالبان کی تازہ کارروائیوں میں 10 افغان فوجی اور عبدالرشید دوستم ملیشیا گروپ سے تعلق رکھنے والا ایک کمانڈر مارا گیا۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مارشل دوستم کا گھر بھی جلا دیا گیا ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ میں افغان سروس کی طرف سے اکھٹی کی گئی تفصیلات کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ طالبان جنگجوؤں نے ملک بھر میں اپنی پوزیشن مستحکم کرلی ہے جن میں ملک کے شمالی، شمال مشرقی اور وسطی صوبے، غزنی اور میدان وردک شامل ہیں۔

دوسری جانب جمعہ کو افغان مسئلے پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں تمام فریقین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ لڑائی بند کر کے امن مذاکرات کو دوبارہ شروع کریں۔اس وقت سیکیورٹی کونسل کی صدارت انڈیا کے پاس ہے۔

امریکی نمائندے نے اجلاس میں کہا ان کا ملک افغانستان میں ایسی حکومت کی حمایت کرے گا جس کے لیڈروں کا انتخاب عوام کریں گے ، جو انسانی حقوق خاص کر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق پر یقین رکھتے ہوں اور انسداد دہشت گردی کے حوالے سے اپنی ذمے داریاں ہوری کریں گے۔روس کا کہنا ہے اسے افغانستان میں بدامنی سے متعلق خدشات ہیں اور اس بات پر زور دیا کہ ایشیائی ممالک کو بھی اس حوالے سے شدید خدشات لاحق ہیں۔

روس کے سفارت کار ویسیلی نیبنزیا نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ افغانستان کی صورت حال پہلے ٹھیک نہیں تھی اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد مزید خراب ہو گئی ہے۔ان کا کہنا تھا افغان صورت حال کا کوئی فوجی حل موجود نہیں ہے لیکن موجودہ صورت حال میں حقیقت یہ ہے کہ یہ مکمل جنگ اور خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہی ہے۔جہاں فرانس نے امن مذاکرات میں خواتین کے کردار پر بات کی وہیں برطانیہ نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک پر زور دیا کہ وہ افغانستان میں امن سے متعلق مثبت کرداد ادا کریں۔


افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمایندہ خصوصی ڈیبرا لیونزنے طالبان کی طرف سے مسئلے کا سیاسی حل نکالنے کے وعدے پر سوال اٹھاتے ہوئے سلامتی کونسل کو بتایا کہ جنگ زیادہ خوفناک اور تباہ کن مرحلے میں پہنچ گئی ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق انھوں نے کہا طالبان کی کارروائیوں کے نتیجے میں ایک ماہ کے دوران ایک ہزار شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔انھوں نے کہا افغانستان کے آج کے حالات شام کی موجودہ صورتحال یا سرائیوو کی خانہ جنگی کے دور کی یاد دلاتے ہیں۔

شہری علاقوں پر حملوں سے بڑے پیمانے پر سویلین ہلاکتیں ہو رہی ہیں جس سے لگتا ہے کہ بڑے شہری علاقوں کو خوفزدہ کرنا طالبان کا ایک اسٹریٹجک فیصلہ ہے اور وہ بڑے پیمانے پرہونیوالی متوقع خونریزی کو قبول کر چکے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا کہ افغان خانہ جنگی کے نتائج ملکی سرحدوں سے باہر تک پھیل سکتے ہیں۔سینئر امریکی سفارت کار جیفری ڈیلاورنٹس نے طالبان سے اپیل کی کہ وہ جنگ کو روکیں، مسئلے کا سیاسی حل نکالیں اور افغانستان کے لوگوں کی حفاظت کریں۔

اقوام متحدہ میں افغانستان کے مندوب غلام اسحاق زئی نے طالبان کے خلاف پاکستان سے مدد مانگ لی۔ سیکیورٹی کونسل سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ طالبان اکیلے نہیں،20 سے زائد گروپوں کے 10 ہزار سے زائد جنگجو جن میں القاعدہ اور داعش بھی شامل ہیں جنگ کا حصہ ہیں۔

واضح رہے کہ دو دن قبل روز افغان طالبان نے واضح کیا تھا کہ وہ افغانستان میں کیا چاہتے ہیں، حکومت میں 'بڑا حصہ' یا کچھ اور۔ اس سلسلے میں انھوں نے مستقبل کی حکومت میں 'بڑا حصہ' مانگنے کا دعویٰ مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ زلمے خلیل زاد کا ذاتی خیال ہے۔

طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بدھ کو عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ہم ایک ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جو افغانستان کے لوگوں کے اسلامی جذبات کے مطابق ہو، ہم طاقت کی اجارہ داری یا اقتدار میں شراکت داری نہیں چاہتے۔

طالبان نے پاکستان، افغانستان کی سرحد کو اسپین بولدک کے مقام پر ہر قسم کی نقل و حرکت کے لیے بند کر دیا ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق طالبان کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ جب تک پاکستان ایسے افغان پناہ گزینوں کو آنے جانے کی اجازت نہیں دیتا جن کے پاس مطلوبہ دستاویزات، مہاجر کارڈ یا تذکرہ (سفری اجازت نامہ) موجود ہو، تب تک سرحد کو نہیں کھولا جائے گا۔

طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے جب تین گھنٹوں کے لیے سرحد کھولی جاتی ہے تو اس میں اکثر لوگوں کو واپس کر دیا جاتا ہے کہ کارڈ صحیح نہیں ہے اور کاغذات مکمل نہیں ہیں، اس لیے مجبوراً سرحد بند کر دی گئی ہے ۔

وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعہ کو پشاور کور ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا۔ گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان بھی اس دورے میں وزیر اعظم کے ہمراہ تھے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق کور ہیڈ کوارٹرز آمد پر وزیراعظم نے یادگار شہدا پر پھولوں کی چادر چڑھائی۔

اس موقع پروزیر اعظم کو پاک افغان بین الاقوامی سرحد پر سیکیورٹی کی بدلتی ہوئی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کی گئی ہنگامی منصوبہ بندی سے آگاہ کیا گیا۔ انھیں سیکیورٹی کی موجودہ صورت حال، جاری استحکام کی کارروائیوں ، پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے اور نئے ضم شدہ اضلاع میں جاری سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کے بارے میں تفصیل سے بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم نے پاکستان کے جامع بارڈر مینجمنٹ رجیم کی افادیت اور موثر سرحدی کنٹرول اور داخلی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا۔

وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا کے نئے ضم شدہ اضلاع میں سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے پر سیکیورٹی فورسز کی تعریف کی جو کہ علاقے کے پائیدار استحکام اور پائیدار ترقی کے لیے اہم ہیں۔ وزیر اعظم نے کورونا ، ٹڈی دل ، انسداد پولیو مہمات اور شجر کاری کے دوران سول انتظامیہ کی معاونت پر مسلح افواج کے کردار کو سراہا۔

پاکستان کو افغانستان کی اس بدلتی ہوئی صورت حال کا پوری گہرائی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ پاک افغان سرحد کو کس طرح مینج کرنا ہے، سرحد پر کس کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دینا ہے اور کس کو نہیں دینا، یہ پاکستان کا اختیار اور اس کے اقتدارِ اعلیٰ کا تقاضا ہے۔ طالبان کو کسی بھی طریقے سے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ افغانستان کے شہریوں کو پاکستان میں بلاروک ٹوک آنے جانے کی اجازت کا مطالبہ کرے۔
Load Next Story