ہماری ذمے داریاں
اب عصبیت اور فرقہ وارانہ سیاست کا زمانہ لد چکا ہے۔
کراچی کو آج یہ وقت بھی دیکھنا پڑا کہ اس کی گندگی پر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو بھی دکھ کا اظہار کرنا پڑا۔ وہ عیدالاضحی کے دوسرے دن کراچی آئے تھے ،ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں صفائی کی ابتر حالت دیکھ کر انھیں دلی صدمہ ہوا ہے۔
کراچی کے مقابلے میں لاہور کی صفائی ستھرائی کی انھوں نے بہت تعریف کی۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف لاہور ہی نہیں پنجاب کے تمام بڑے شہروں کی صفائی ستھرائی قابل دید ہے اور اسی لیے پنجاب کے کئی بڑے شہروں کے کمشنرز کو حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹس اور انعامات سے نوازا گیا۔ کراچی کے بارے میں ان کے ریمارکس اہل کراچی کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا دس سال پہلے جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کراچی کے دورے پر آئے تھے انھوں نے کراچی کی صفائی ستھرائی اور ترقیاتی کاموں کی دل کھول کر تعریف و توصیف کی تھی۔
مبصرین کے مطابق وہ کراچی کا ایک سنہری دور تھا۔ اس وقت کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال تھے۔ اس وقت پاکستان ہی کیا پاکستان سے باہر بھی کراچی کی صفائی ستھرائی کی زبردست تعریف کی جاتی تھی۔ کراچی کو دنیا کے بہترین شہروں میں شمار کیا جاتا تھا ساتھ ہی کراچی کے میئر کی ہمت جرأت، لگن اور کرپشن سے نفرت کو داد و تحسین سے نوازا جاتا تھا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کراچی کی صفائی ستھرائی اور تیز رفتار ترقیاتی کاموں سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انھوں نے بڑی حسرت سے کہا تھا کاش ہمیں بھی لاہور کے لیے کوئی مصطفیٰ کمال میسر آجاتا۔ کراچی کی ترقی اور بلندی کا یہ دور پانچ سالوں پر محیط رہا اور مصطفیٰ کمال کی میئر شپ کے خاتمے کے ساتھ ہی کراچی کی تباہی کا دور شروع ہو گیا۔ مصطفیٰ کمال کے بعد کراچی کو ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کردیا گیا۔
2010 سے 2016 تک کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں تھا پھر 2016 میں ہی کراچی کی میئرشپ وسیم اختر نے سنبھال لی اور ڈپٹی میئر کا عہدہ ارشد وہرہ کے حوالے کیا گیا مگر ارشد وہرہ کو یہ عہدہ راس نہ آیا اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ارشد وہرہ نئی انتظامی عہدے داروں کے عوام کے بجائے اپنی خدمت کرنے کے پروگرام سے بھی بدظن ہو کر اپنے عہدے سے دست بردار ہوگئے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ ان کے دور میں بھی کراچی اور اس کے عوام کی اسی طرح خلوص اور جرأت سے خدمت کی جائے جس طرح مصطفیٰ کمال کے دور میں کی گئی تھی۔ بہرحال ان کے سبکدوش ہونے کے بعد وسیم اختر کے پاس کراچی کے مکمل اختیارات آ گئے گوکہ بعد میں ایک دوسرا ڈپٹی میئر منتخب ہو کر وسیم اختر کے ساتھ جڑ گیا تھا مگر اب بھی ہر جگہ وسیم اختر کی ہی چلتی تھی۔ وہ بھی چاہتے تو یہ تھے کہ انھیں بھی مصطفیٰ کمال کی طرح عوام کی پذیرائی حاصل ہو مگر یہ چیز جب ہی حاصل ہوسکتی تھی جب وہ دل و جان اور خلوص سے شہر کی خدمت کرتے۔ ان کے دور میں بھی کراچی کی حالت سدھر نہ سکی ان کے پانچ سالہ دور میں شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
وسیم اختر سے جب بھی ان کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جاتا تو وہ اپنے اختیارات میں کٹوتی کا شکوہ کرنے لگتے۔ پھر اسی طرح اپنے عہدے کے پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوگئے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ان کے کئی محکموں پر پیپلز پارٹی نے قبضہ کرلیا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ محکمے تھے جن کی آمدنی مثالی ہے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ 18 ویں ترمیم کے بعد لامحدود اختیارات کے مالک بن گئے ہیں۔ وہ بلدیاتی نظام میں کھلے طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔ انھوں نے میئر کے اختیارات ہی نہیں بلدیاتی نظام کو چلانے کے لیے رقم کو بھی اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔
سندھ کے اکثر شہروں میں اسی وجہ سے بلدیاتی نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ کراچی میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں اور شہر گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہے فراہمی آب اور نکاسی کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ عیدالاضحی کو گزرے دو ہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر جانوروں کی اوجھڑیاں اور آلائشیں اب تک سڑکوں پر پڑی سڑ رہی ہیں جن سے نہ صرف تعفن پھیل رہا ہے بلکہ کئی خطرناک بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں۔
اب برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے اس موسم میں ہر سال کی طرح کراچی پر مکھیوں نے یلغار کردی ہے مچھروں کی افزائش بھی شروع ہوچکی ہے کاش کہ ان کی روک تھام کے لیے پورے شہر میں اسپرے مہم شروع کی جاتی مگر کراچی کا بلدیاتی ادارہ خواب غفلت میں مدہوش ہے یا پھر اوپر کے احکامات کا منتظر ہے۔ اس وقت شہر میں ملیریا اور ہیضہ جیسی خطرناک بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں پھر کورونا نے دو سال سے پورے شہر کیا پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے۔
وسیم اختر کے بعد اب کے ایم سی مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے قبضے میں ہے۔ اس کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کی کارکردگی سے عوام کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہیں مگر اس سے سندھ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ اب تک بلدیاتی انتخابات کو منعقد کرا دینا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی اس سے بے اعتنائی برت رہی ہے اور موجودہ نظام کو طول دینے میں لگی ہوئی ہے مگر یہ طریقہ کار کسی بھی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔
افسوس کہ ہمارے ہاں برسوں سے یہ روایت بن چکی ہے کہ ہر جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جب کہ آمرانہ دور میں بلدیاتی انتخابات کرانے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ کراچی کے کنٹونمنٹ علاقوں میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں جن کی تیاری میں کراچی کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں جت گئی ہیں۔ ابھی تک تو ایم کیو ایم کراچی میں ہر بلدیاتی انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔
مگر اب اس کے بکھرنے کے بعد جہاں اس کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی آئی ہے وہاں اب اس کے بلدیاتی انتخابات میں سوئپ کرنے کے چانسز بھی نظر نہیں آرہے ہیں ،ایسے حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔اس لیے بھی کہ اب قومیت اور عصبیت کی سیاست کو پاک سرزمین پارٹی نے ملک بدر کردیا ہے اس کے باوجود بھی ''مہاجرو! اکٹھے ہوجاؤ!'' کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے اس نعرے کے جواب میں پنجابی اور سندھی بھی ایسے ہی نعرے بلند کرسکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انتشار ملک کو لے ڈوبے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اب عصبیت اور فرقہ وارانہ سیاست کا زمانہ لد چکا ہے۔ ماضی میں اس گھناؤنی سیاست سے ملک کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی برسوں میں ہی ہوسکے گی۔ تاہم ہمارا دشمن ابھی بھی قوم کو کئی حصوں میں بانٹنے کی مہم چلا رہا ہے۔ وہ تین بڑی جنگوں میں تو پاکستان کو ہرا نہیں پایا ہے چنانچہ اب وہ قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی حکمت عملی پر کارفرما ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارے عسکری اداروں نے دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا ہے اب اس وقت پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ دشمن کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام کرنے والے ایجنٹوں سے ہوشیار رہیں اور اس کے ناپاک عزائم کو اپنی ملی یکجہتی کے ذریعے ناکام و نامراد بنادیں۔
کراچی کے مقابلے میں لاہور کی صفائی ستھرائی کی انھوں نے بہت تعریف کی۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف لاہور ہی نہیں پنجاب کے تمام بڑے شہروں کی صفائی ستھرائی قابل دید ہے اور اسی لیے پنجاب کے کئی بڑے شہروں کے کمشنرز کو حسن کارکردگی کے سرٹیفکیٹس اور انعامات سے نوازا گیا۔ کراچی کے بارے میں ان کے ریمارکس اہل کراچی کے لیے انتہائی شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔
ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا دس سال پہلے جب پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کراچی کے دورے پر آئے تھے انھوں نے کراچی کی صفائی ستھرائی اور ترقیاتی کاموں کی دل کھول کر تعریف و توصیف کی تھی۔
مبصرین کے مطابق وہ کراچی کا ایک سنہری دور تھا۔ اس وقت کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال تھے۔ اس وقت پاکستان ہی کیا پاکستان سے باہر بھی کراچی کی صفائی ستھرائی کی زبردست تعریف کی جاتی تھی۔ کراچی کو دنیا کے بہترین شہروں میں شمار کیا جاتا تھا ساتھ ہی کراچی کے میئر کی ہمت جرأت، لگن اور کرپشن سے نفرت کو داد و تحسین سے نوازا جاتا تھا۔
گورنر پنجاب سلمان تاثیر کراچی کی صفائی ستھرائی اور تیز رفتار ترقیاتی کاموں سے اس قدر متاثر ہوئے تھے کہ انھوں نے بڑی حسرت سے کہا تھا کاش ہمیں بھی لاہور کے لیے کوئی مصطفیٰ کمال میسر آجاتا۔ کراچی کی ترقی اور بلندی کا یہ دور پانچ سالوں پر محیط رہا اور مصطفیٰ کمال کی میئر شپ کے خاتمے کے ساتھ ہی کراچی کی تباہی کا دور شروع ہو گیا۔ مصطفیٰ کمال کے بعد کراچی کو ایڈمنسٹریٹر کے حوالے کردیا گیا۔
2010 سے 2016 تک کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں تھا پھر 2016 میں ہی کراچی کی میئرشپ وسیم اختر نے سنبھال لی اور ڈپٹی میئر کا عہدہ ارشد وہرہ کے حوالے کیا گیا مگر ارشد وہرہ کو یہ عہدہ راس نہ آیا اور انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ارشد وہرہ نئی انتظامی عہدے داروں کے عوام کے بجائے اپنی خدمت کرنے کے پروگرام سے بھی بدظن ہو کر اپنے عہدے سے دست بردار ہوگئے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ ان کے دور میں بھی کراچی اور اس کے عوام کی اسی طرح خلوص اور جرأت سے خدمت کی جائے جس طرح مصطفیٰ کمال کے دور میں کی گئی تھی۔ بہرحال ان کے سبکدوش ہونے کے بعد وسیم اختر کے پاس کراچی کے مکمل اختیارات آ گئے گوکہ بعد میں ایک دوسرا ڈپٹی میئر منتخب ہو کر وسیم اختر کے ساتھ جڑ گیا تھا مگر اب بھی ہر جگہ وسیم اختر کی ہی چلتی تھی۔ وہ بھی چاہتے تو یہ تھے کہ انھیں بھی مصطفیٰ کمال کی طرح عوام کی پذیرائی حاصل ہو مگر یہ چیز جب ہی حاصل ہوسکتی تھی جب وہ دل و جان اور خلوص سے شہر کی خدمت کرتے۔ ان کے دور میں بھی کراچی کی حالت سدھر نہ سکی ان کے پانچ سالہ دور میں شہر گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا۔
وسیم اختر سے جب بھی ان کی کارکردگی پر سوال اٹھایا جاتا تو وہ اپنے اختیارات میں کٹوتی کا شکوہ کرنے لگتے۔ پھر اسی طرح اپنے عہدے کے پانچ سال مکمل کرکے رخصت ہوگئے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی ان کے کئی محکموں پر پیپلز پارٹی نے قبضہ کرلیا تھا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ وہ محکمے تھے جن کی آمدنی مثالی ہے۔
دراصل مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ 18 ویں ترمیم کے بعد لامحدود اختیارات کے مالک بن گئے ہیں۔ وہ بلدیاتی نظام میں کھلے طور پر مداخلت کر رہے ہیں۔ انھوں نے میئر کے اختیارات ہی نہیں بلدیاتی نظام کو چلانے کے لیے رقم کو بھی اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔
سندھ کے اکثر شہروں میں اسی وجہ سے بلدیاتی نظام ٹھپ ہو کر رہ گیا۔ کراچی میں ترقیاتی کام رک گئے ہیں اور شہر گندگی کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہا ہے فراہمی آب اور نکاسی کا نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔ عیدالاضحی کو گزرے دو ہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر جانوروں کی اوجھڑیاں اور آلائشیں اب تک سڑکوں پر پڑی سڑ رہی ہیں جن سے نہ صرف تعفن پھیل رہا ہے بلکہ کئی خطرناک بیماریاں سر اٹھا رہی ہیں۔
اب برسات کا موسم شروع ہو چکا ہے اس موسم میں ہر سال کی طرح کراچی پر مکھیوں نے یلغار کردی ہے مچھروں کی افزائش بھی شروع ہوچکی ہے کاش کہ ان کی روک تھام کے لیے پورے شہر میں اسپرے مہم شروع کی جاتی مگر کراچی کا بلدیاتی ادارہ خواب غفلت میں مدہوش ہے یا پھر اوپر کے احکامات کا منتظر ہے۔ اس وقت شہر میں ملیریا اور ہیضہ جیسی خطرناک بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں پھر کورونا نے دو سال سے پورے شہر کیا پورے ملک میں کہرام مچا رکھا ہے۔
وسیم اختر کے بعد اب کے ایم سی مکمل طور پر پیپلز پارٹی کے قبضے میں ہے۔ اس کے مقرر کردہ ایڈمنسٹریٹر کی کارکردگی سے عوام کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہیں مگر اس سے سندھ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ حالانکہ اب تک بلدیاتی انتخابات کو منعقد کرا دینا چاہیے تھا مگر پیپلز پارٹی اس سے بے اعتنائی برت رہی ہے اور موجودہ نظام کو طول دینے میں لگی ہوئی ہے مگر یہ طریقہ کار کسی بھی جمہوری حکومت کو زیب نہیں دیتا۔
افسوس کہ ہمارے ہاں برسوں سے یہ روایت بن چکی ہے کہ ہر جمہوری دور میں بلدیاتی انتخابات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جب کہ آمرانہ دور میں بلدیاتی انتخابات کرانے کو فوقیت دی جاتی ہے۔ کراچی کے کنٹونمنٹ علاقوں میں بلدیاتی انتخابات منعقد ہونے والے ہیں جن کی تیاری میں کراچی کی تمام ہی سیاسی پارٹیاں جت گئی ہیں۔ ابھی تک تو ایم کیو ایم کراچی میں ہر بلدیاتی انتخابات میں اکثریت سے کامیابی حاصل کرتی رہی ہے۔
مگر اب اس کے بکھرنے کے بعد جہاں اس کی صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں میں کمی آئی ہے وہاں اب اس کے بلدیاتی انتخابات میں سوئپ کرنے کے چانسز بھی نظر نہیں آرہے ہیں ،ایسے حالات کے پیش نظر اسے اپنے نظریات میں اصلاح کرنے کی ضرورت ہے ۔اس لیے بھی کہ اب قومیت اور عصبیت کی سیاست کو پاک سرزمین پارٹی نے ملک بدر کردیا ہے اس کے باوجود بھی ''مہاجرو! اکٹھے ہوجاؤ!'' کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے اس نعرے کے جواب میں پنجابی اور سندھی بھی ایسے ہی نعرے بلند کرسکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ انتشار ملک کو لے ڈوبے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ اب عصبیت اور فرقہ وارانہ سیاست کا زمانہ لد چکا ہے۔ ماضی میں اس گھناؤنی سیاست سے ملک کا جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی برسوں میں ہی ہوسکے گی۔ تاہم ہمارا دشمن ابھی بھی قوم کو کئی حصوں میں بانٹنے کی مہم چلا رہا ہے۔ وہ تین بڑی جنگوں میں تو پاکستان کو ہرا نہیں پایا ہے چنانچہ اب وہ قومی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی حکمت عملی پر کارفرما ہے۔
خوش قسمتی سے ہمارے عسکری اداروں نے دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنا دیا ہے اب اس وقت پوری قوم کا فرض ہے کہ وہ دشمن کے مذموم مقاصد کو پورا کرنے کے لیے کام کرنے والے ایجنٹوں سے ہوشیار رہیں اور اس کے ناپاک عزائم کو اپنی ملی یکجہتی کے ذریعے ناکام و نامراد بنادیں۔