تمام مسالک کے علماء مذہبی رواداری کیلئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں

محرم میں فول پروف سکیورٹی یقینی بنانے کیلئے بڑے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

مختلف مسالک کے علماء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال ۔ فوٹو : ایکسپریس

''محرم الحرام میں امن و امان کی صورتحال'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں مختلف مسالک کے علماء کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

مولانا سید محمد عبدالخبیر آزاد

(چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، خطیب امام بادشاہی مسجد لاہور)

پاکستان میں محرم الحرام کے موقع پر امن و امان کے حوالے سے حساسیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ چھوٹی سی چنگاڑی بھی شعلے کا روپ دھار سکتی ہے۔ اس لیے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کہیں بھی خدانخواستہ ایسی صورتحال پیدا نہ ہو۔ اس حوالے سے حکومت، انتظامیہ اور علماء کرام اپنا اپنا کردار ادا کرتے ہیں ، یہ اجتماعی بھی ہوتا ہے اور انفرادی بھی مگر سب متحد ہوکر مذہبی ہم آہنگی اور مسلکی رواداری کے فروغ کیلئے کام کرتے ہیں۔ اس حوالے سے ایک پلیٹ فارم بہت اہم اور کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جس میں تمام مسالک کے علماء کرام شامل ہیں۔

یہ پلیٹ فارم اتحاد بین المسلمین ہے جس کی بنیاد میرے والد مولانا ڈاکٹر محمد عبد القادر آزاد مرحوم نے رکھی۔ ان کی شبانہ روز کوششوں سے اتحاد بین المسلمین کا پلیٹ فارم قائم کیا گیا اور اس کی وجہ سے ملک میں امن کو فروغ ملا۔ آج اس پلیٹ فارم کے تحت تمام ڈویژن اور ضلع کی سطح پر بڑے علماء کرام اپنا موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس پلیٹ فارم کے ذریعے بڑے اور اہم اجلاس ہوتے ہیں خصوصاََ محرم الحرام کی آمد سے قبل مختلف سطح پر اس کے اجلاس کیے جاتے ہیں تاکہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر اور یقینی بنایا جاسکے۔ ایک اجلاس ہر ڈویژنل مقام پر میری زیر صدرات منعقد ہوتا ہے جس میں کمشنر، ڈپٹی کمشنرز، آر پی او، ڈی پی اوز اور دیگر اداروں کے افسران شرکت کرتے ہیں اور اس میں تمام مکاتب فکر کے علماء بھی شریک ہوتے ہیں۔ محرم الحرام کی آمد سے قبل ہی ایسی صورتحال سے بچنے کی تدابیر کی جاتی ہیں جس سے خدانخواستہ بدامنی یا شر انگیزی کا خطرہ ہو۔

اس کے بہت اچھے اثرات اور نتائج سامنے آئے ہیں۔ جہاں کشیدگی کا خطرہ ہو وہاں پہلے سے رواداری اور اتحاد کی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میں گزشتہ کئی برسوں سے اتحاد بین المسلمین کمیٹی صوبہ پنجاب کا کنوینئر ہوں۔ ہر سال محکمہ اوقاف پنجاب بطور خاص وزیراعلیٰ پنجاب کی ہدایت اور انتظامات کے تحت جنوبی پنجاب کے چار ڈویژنل مقامات، ساہیوال ڈویژن، ملتان ڈویژن، بہاولپور ڈویژن اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کا وفد کے ہمراہ دورہ کرتا ہوں۔اس کے علاوہ ہم نے پورے ملک میں یکجہتی اور امن کو فروغ دینے کیلئے قومی یکجہتی امن کانفرنسز کا انعقاد شروع کیا ہے۔

اب تک کراچی، آزاد کشمیر، پشاور، کوئٹہ میں امن و یکجہتی کے حوالے سے بھرپور پروگرام منعقد ہوچکے ہیں۔ہم نے 5 اگست کو بادشاہی مسجد لاہو میں اتحاد بین المسلمین کانفرنس جبکہ 6 اگست کو لاہور کے مقامی ہوٹل میں قومی یکجہتی امن کانفرنس منعقد کی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور ڈاکٹر پیر نور الحق قادری ، علماء مشائخ ، دانشوروں سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔ اتحاد، امن، یکجہتی اور رواداری کیلئے ہم پوری قوم کو پیغام پاکستان کی روشنی میں متحد کرر ہے ہیں۔

علامہ زبیر احمد ظہیر

(امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان)

محرم الحرام حرمت والا اور قابل احترام مہینہ ہے۔ یہ ازروئے قرآن ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جن میں جنگ و قتال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے اور اس کے فضائل بیشمار ہیں۔ یہ اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ اس کی یکم تاریخ کو خلیفہ راشد ، مراد رسولﷺ سیدنا عمر فاروق اعظمؓ اور دس تاریخ کو نواسہ رسول ﷺ جگر گوشہ بتولؓ ، جوانان جنت کے سردار حضرت حسین ؓ کی عظیم الشان اور درد ناک شہادت ہے۔

ان عظیم الشان ہستیوں کے فضائل اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ہم انہیں کو سارا سال بھی بیان کرتے رہیں تو پھر بھی ختم نہیں ہو سکتے۔ یہ ہماری انتہائی مقدس و محترم اور محسن ہستیاں ہیں جن کے بے مثل و مثال قربانیاں ، ان کی روشن ترین سیرتیں ، ان کے نورانی ترین خصائل و اعمال ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔

ان کی عظمت و فضیلت نسبت رسولﷺ ہے۔ ہر مسلمان پر فرض و واجب ہے کہ وہ نسبت رسولﷺ کا احترام کرے۔ یہی محبت رسول ﷺ اور عشق رسول ﷺ کا حقیقی تقاضہ ہے۔ پوری اسلامی تاریخ قربانیوں سے بھری ہوئی ہے۔

اسلامی سال کا آغاز بھی قربانیوں سے ہوتا ہے اور اختتام بھی قربانی پر ہے۔ آغاز فاروق ؓاور حسینؓ کی قربانی ہے اور اختتام ابراہیم ؑ و اسماعیل ؑ اور شہید مظلوم شہید قرآن ،جامع القرآن ، مظلوم مدینہ سیدنا عثمان غنی ؓکی قربانی ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قربانیاں حصول اقتدار کے لیے نہیں تھیں یہ دولت سروط اور عزت و جاہ کے لیے نہیں تھی اور نہ کوئی دنیاوی حرس و مفاد تھا۔

نہ کوئی فرقہ بنانا چاہتے تھے بلکہ ان کی عظیم الشان شہادتیں اور قربانیاں صرف اور صرف اسلام کی سر بلندی ، انسانیت کا تحفظ ، شریعت محمدیﷺ کو ہر طرح کی خرافات سے بچا کر قیامت تک آنے والی نسلوں تک ہر لحاظ سے خالص اور بے میل دین اسلام کو پہنچانا تھا آج اگر پوری دنیا میں صدائے توحید گونج رہی ہے محمدی عربی ﷺ کی رسالت کے ڈنکے سنائی دے رہے ہیں تو یہ سب انہی قربانیوں اور شہادتوں کے اثرات ہیں۔

محرم کا مہینہ اپنے اندر صبر ، ہجرت ، عظمت ، استقامت ، اتحاد اور قربانی کا سبق سموئے ہوئے ہے۔ آئیں اسلامی ہجری سال کے موقع پر ہم اس بات کا عزم کریں کہ ہم آپس کی لڑائیاں ختم کر کے مکمل اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں گے جس طرح رسول ﷺاور صحابہ اکرامؓ نے ہجرت کر کے یہ بتا دیا ہے کہ ایک مسلمان کی اولین ترجیح دین ہے۔ جب دین کی بات ہو اسلامی ریاست کے قیام و استحکام یا دفاع کا معاملہ ہو تو مسلمان اپنے گھر والدین عزیز و اقارب سب کچھ چھوڑ دیتا ہے ایسے ہی ہماری اولین ترجیح بھی دین اور اس کے نام پر قائم ہونے والا پیارا وطن پاکستان ہی ہونا چاہیے، اس مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو سمجھیں ،ان پر عمل کریں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کا درد اپنے اندر پیدا کریں۔

حرمت والے چار مہینے ازل سے محترم قرار دیئے گئے ہیں۔ رجب ، ذوالقعدہ ، ذوالحجہ اور محرم میں لڑائی منع ہے، البتہ اگر دشمن حملہ کر دے تو جواب دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ محرم میں 9 اور 10 کا روزہ ثابت ہے، اس سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہود 10 محرم کو بنی اسرائیل کی فرعون سے نجات کی خوشی میں روزہ رکھتے ہیں تو آپﷺ نے آئندہ سال 9 اور 10 محرم کا روزہ رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ اس آزادی کا شکریہ بھی ادا ہو جائے اور یہود کی مخالفت بھی ہو جائے۔

ہمارے لیے راستے کا تعین اللہ اور اس کے رسولﷺ نے کیا ہے۔ یہ راستہ اختلاف ، انتشار سے پرہیز اور اتحاد و اتفاق کا ہے۔ اسی میں ہماری کامیابی، عزت اور نجات ہے۔ یہ ہمارا آزمودہ راستہ ہے۔ اسلام کی ساڑھے چودہ سو سال کی تاریخ میں مسلمان جب بھی اتحاد کے راستے پر چلے تو کامیابی نے ان کے قدم چومے ہیں۔ خود بر صغیر کے مسلمان 1947ء کے موقع پر اتحاد کی عملی برکات دیکھ چکے ہیں۔ اس اسلامی ہجری سال کے آغاز کے موقع پر وقت کا تقاضہ ہے ہم متحد ہو جائیں ۔

علامہ مشتاق حسین جعفری

(چیئرمین عالمی امن اتحاد کونسل)


عشرہ محرم تمام مذاہب کے نزدیک انتہائی محترم اور مکرم مہینہ ہے اور بالخصوص مسلمانوں کے نزدیک اس کی قدر و منزلت بہت زیادہ ہے۔ بقول اقبالؒ:

غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم

نہایت اس کی حسینؓ، ابتداء ہے اسماعیل ؑ

حضرت ابراہیم ؑ کے فرزند حضرت اسماعیل ؑ نے قربانی کی ابتداء کی جس کی یاد میں دنبے، بکرے، اونٹ و دیگر جانور زبح کیے جاتے ہیں اور تمام مسلمان یکجہتی کے ساتھ 10 ذوالجہ کو یہ دن مناتے ہیں۔ نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کی شہادت اور قربانی عشرہ محرم کی 10 تاریخ کو ہوئی۔

قربانی کی ابتداء حضرت اسماعیل ؑ سے ہوئی اور انتہاء امام حسینؓ نے کی لہٰذا جب تمام مسلمان بلاتفریق مسلک حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی یکجہتی سے مناتے ہیں تو ہم امام حسین ؓ کی شہادت و قربانی پر اکٹھے کیوں نہیں ہوسکتے؟ ہمارے ہاں محرم الحرام کے ایام حساس ہوجاتے ہیں۔ حکومت پاکستان عشرہ محرم میں ہر سال اچھے اقدامات کرتی ہے۔

سکیورٹی انتظامات کیے جاتے ہیں، عزاداروں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے،اس میں حکومت، انتظامیہ، پولیس و دیگر سکیورٹی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ علماء کرام بھی امن و امان یقینی بنانے اور انتشار کی ممکنہ صورتحال پر قابو پانے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیر اوقاف و مذہبی امور نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا ہے۔ وہ علماء کرام کو اکٹھا کرتے ہیں، مختلف شہروں میں علماء کے وفود بھیجے جاتے ہیں جو یکجہتی کا پیغام دیتے ہیں۔

وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ حضرت امام حسینؓ پوری انسانیت کا اثاثہ ہیں، وہ نواسہ رسولﷺ ہیں، ان کا تعلق امام علیؓ سے ہے لہٰذا ان کی یاد عقیدت و احترام اور اہتمام سے منائی جانی چاہیے۔ میرا عوام کو پیغام ہے کہ صدق دل کے ساتھ اہلبیتؓ کا ذکرکریں اور امام حسینؓ کو خراج عقیدت پیش کریں۔یہ ایسا غم ہے کہ جس میں غم کرنا، رونا، آنسو بہانا ثواب ہے۔ مولانا طارق جمیل، علامہ ثاقب رضا مصطفائی اور دیگر بڑے علماء نے دنیا کو بتایا کہ امام حسینؓ کی شہادت کیا رتبہ رکھتی ہے۔ انہوںؓ نے دین کے پرچم کو بلند کیا، اسلام کی آبرو کو بچایا، دین کے تشخص کو بچایا ۔آپؓ کی قربانی نے سچ اور جھوٹ کے فرق کو واضح کر دیا۔ہمیں نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ کے نواسہ حضرت امام حسینؓ کی یاد بھی یکجہتی کے ساتھ منانی چاہیے۔ پاکستان ایسی سرزمین ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔

اس وقت کوئی شیعہ، سنی، دیوبندی، اہل حدیث نہیں تھا، سب نے اپنی قربانیاں پیش کیں۔ اس وقت کسی مسلک کی بات نہیں تھی بس ایک ہی نعرہ تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الااللہ ۔ اس وقت سب نے قربانیاں دی، اپنی عصمتیں قربان کرکے پاکستان حاصل کیا لہٰذا آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی بقاء کیلئے ہم اکٹھے ہوجائیں اور یکجہتی کے ساتھ یوم آزادی منائیں اور سبز ہلالی پرچم کے نیچے دنیا کو بتائیں کہ ہم سب ایک ہیں۔

مفتی رمضان سیالوی

(خطیب داتا دربار لاہور)

اسلام امن، محبت ، عزت اور رواداری کا مذہب ہے جو دیگر مذاہب کے ساتھ ساتھ خود مسلمانوں کیلئے باہمی اتحاد اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ دوسری جگہ فرمایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں مت جھگڑو ورنہ تمہارا رعب ختم ہوجائے گا۔

نبی کریمﷺ نے متعدد احادیث میں اپنی امت کو امت واحدہ قرار دیا۔ آپؐ نے اپنی امت کے درمیان اختلاف کو رحمت قرار دیا ہے اور باہمی اختلاف امت کے درمیان حسن کی دلیل ہے لیکن جب اس اختلاف میں نفسانیت، خود غرضی، حرس، لالچ جیسے جذبات شامل ہوجاتے ہیں تو یہ اختلاف، اختلاف نہیں رہتا بلکہ مخالفت بن جاتا ہے جس کے نتیجے میں نفرتیں، دوریاں اور لڑائیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھ جاتی ہیں۔ دشمن ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا اور مخالفت کی شکل دیکر ہمیشہ سے آپس میں لڑانے اور بداعتمادی پیدا کرنے میں رہا ہے جس کی ماضی میں بہت بڑی بڑی مثالیں موجود ہیں۔ کچھ ایسا ہی 80اور90ء کی دہائی میں پاکستان میں بھی ہوا اور دشمنوں نے مسلمانوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر نفرتوں کو پیدا کیا۔

جس کے نتیجے میں شیعہ سنی فسادات نے جنم لیا اور بلا شبہ سینکڑوں لوگ آپس کی مخالفت کی جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اس وقت کے دردمند اور درد دل رکھنے والے مسلمانوں نے مثبت کردار ادا کرتے ہوئے ہر طریقے سے اختلافات اور مخالفت کی شدت کو کم کرنے میں اپنا مضبوط کردار ادا کیا۔

اسی سلسلے میں پنجاب میں تمام مسالک کے علماء نے مل کر سرکاری سطح پر 'اتحاد بین المسلین ' کا پلیٹ فارم بنایا جس کے بانیان میں علامہ عبدالقادر آزاد مرحوم سر فہرست ہیں۔ تمام مسالک کے علماء نے اس اچھے کام میں ان کا ساتھ دیا ۔ ان تمام علماء کی محنت کے سبب ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دیا گیا جس کی پابندی تمام مسالک پر لازمی قرار دی گئی۔ اس ضابطہ اخلاق کی بنیادی شقوں میں سے ایک شق یہ تھی کہ تمام مسالک ایک دوسرے کے مذہبی معاملات اور ایک دوسرے کے اکابرین کا احترام کریں گے۔

اللہ رب العزت کی وحدانیت کے تمام تقاضوں اور تمام ایمانیات کو پورا کریں گے۔ نبی کریمﷺ کی ذات بابرکات کے بارے میںادنیٰ سی گستاخی بھی برداشت نہیں کی جائے گی۔ تمام صحابہ کرام، ازواج مطہرات اور اہلبیت اطہار ایک دوسرے کیلئے تعظیم ، تکریم اور ادب کے لائق ہیں۔ کوئی بھی ایک دوسرے کے اکابر کی توہین نہیں کرے گا۔

چنانچہ تمام علماء کی ان کاوشوں اور ضابطہ اخلاق کی پابندی کی وجہ سے الحمداللہ ملک پاکستان میں امن اور محبت کی فضا پیدا ہوئی اور یہ سفر کسی طرح عزت اور محبت کے ساتھ جاری رہا۔ محرم الحرم میں خاص طور پر اہل تشیع اپنے مذہبی معمولات ادا کرتے ہیں تو خدشہ ہوتا ہے کہ پھر کسی قسم کے اختلافات یا شرانگیزی کو ہوا نہ دی جائے، اس لیے محرم الحرم سے پہلے اس ضابطہ اخلاق کی تجدید کی جاتی ہے اور اسے دوبارہ بیان کرکے محبت اور امن کے اس پیغام کو عام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اتحاد بین المسلمین کی شقوں اور اس کے مندرجات کو سامنے رکھتے ہوئے گزشتہ چند سالوں میں ایک مرتبہ پھر جب دہشت گردی اپنے عروج پر تھی توعلماء اور حکومت کے باہمی تعاون سے پیغام پاکستان کی صورت میں ایک ایسی دستاویز تیار کر دی گئی ہے جس کی روشنی میں مذہبی رواداری، بین المسالک اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دیا گیا ہے اور تمام مذاہب و مسالک کو اس پیغام پاکستان کی روشنی میں آگے بڑھنے کا پابند کیا گیا ہے۔

پیغام پاکستان بلاشبہ پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے علماء اور حکومت کی طرف سے امن اور باہمی اتحاد کا ایک بہترین تحفہ ہے جس پر عمل کرنے کے بعد کسی بھی قسم کی مخالفت ، شدت یا ایک دوسرے کے خلاف نفرت انگیزی کی گنجائش نہیں رہتی۔ خطیب داتا دربار کی حیثیت سے میں گزشتہ 12 برسوں سے اتحاد بین المسلمین کا مستقل اور مرکزی رکن ہوں اور اس حیثیت سے حکومتی سطح پر محرم الحرام میں امن کیلئے تشکیل دیے جانے والے علماء کے وفود کی قیادت کی خدمت بھی سرانجام دیتا ہوں۔ بنیادی طور پر پنجاب کے تمام ڈویژن میں وفود بھیجے جاتے ہیں جس میں سے ایک وفد سرگودھا اور فیصل آباد ڈویژن جاتا ہے۔

اس سال اس کی قیادت مفتی محمد اسحاق ساقی کر رہے ہیں جن کے ساتھ 42 کے قریب علماء ہیں جبکہ مولانا سید عبدالخبیر آزاد ساہیوال، ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان میں 3 روزہ دورے کیلئے روانہ ہوئے جن کے ساتھ 50 کے قریب علماء ہیں۔

گوجرانوالہ اور راولپنڈی ڈویژن کی قیادت میں کر رہا ہوں اور میرے ساتھ 49 کے قریب مختلف مکاتب فکر کے علماء شامل ہیں۔ یہ وفود، مقامی امن کمیٹیوں اور علماء کرام، مقامی انتظامیہ کے ساتھ اجلاس کرتے ہیں جس میں مختلف آراء لی جاتی ہیں اور اگر کسی ضلعے میں کوئی مسئلہ ہو تو اسے قانون کی روشنی میں حل کر دیا جاتا ہے۔ یہ کام ہر سال محرم الحرام سے پہلے کیا جاتا ہے اور تمام مسالک کے علماء ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہو کر محبت اور امن کا پیغام دیتے ہیں۔ ہمارا مشن محبت، اخوت، پیار، باہمی رواداری اور اختلافات کو بھلا کر مشترکات پر بات کرنے ، ضابطہ اخلاق کی پابندی کرنے کا ہے۔ ہمارا محبت اور امن کا سفر ہمیشہ جاری رہے گا۔
Load Next Story