پاکستانی نوجوان نے محدود سرمائے سے 2 اہم ایپلی کیشنز بنالیں
econoxe اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو معلومات پر مبنی فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے
کراچی کے علاقے ڈیفنس کے رہائشی 18 سالہ حماد ندیم کا شمار ان نوجوانوں میں کیا جاتا ہے جن کے نزدیک ناممکن کچھ نہیں۔
عزم اور ارادے مضبوط ہونا ضروری ہیں ہر مشکل کا حل نکالا جاسکتا ہے، حماد ندیم او لیول کے اسٹوڈنٹ ہیں اور نکسر کالج میں زیر تعلیم ہیں، حماد ندیم نے 50 ہزار روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری سے دو اہم ترین ایپلی کیشنز تیار کی ہیں۔
جن میں سے ایک econoxe اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو معلومات پر مبنی فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جبکہ دوسری ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org ہے جس کی مدد سے 150روپے کی لاگت سے سونگھنے کی صلاحیت اور علامات کی بنیاد پر کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے کورونا ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حماد ندیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں مالیاتی خواندگی بہت محدود ہے بالخصوص اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کار روایتی انداز میں افواہوں یا غیرمصدقہ معلومات کی بنیاد پر سرمایہ کرتے ہیں۔
اس کے برعکس بڑے سرمایہ کار معاشی میدان میں ہونے والی اہم پیش رفت یا تبدیلیوں کے اسٹاک مارکیٹ پر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ چھوٹے سرمایہ کار کے پاس مصدقہ معاشی معلومات تک رسائی نہیں ہوتی یا محدود ہوتی ہے تو یہ بات درست ہوگی کہ بڑے سرمایہ دار اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے درمیان یہ نالج گیپ ہی کسی اسٹاک مارکیٹ کے فوائد میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
حماد اور ان کے دوستوں نے اسٹاک مارکیٹ پر اثرا نداز ہونے والی معاشی صورتحال، خبروں اور تجزیوں کو بلامعاوضہ عام طبقے اور چھوٹے سرمایہ کاروں تک پہنچانے کا عزم کیا، اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایپلی کیشن تیار کرنا شروع کی جس پر ابتدائی طور پر 20 ہزار روپے کی لاگت آئی حماد کے اس مشن میں آہستہ آہستہ 100نوجوان جڑگئے جنھوں نے ایپلی کیشن کو بھرپور بنانے۔
معلومات اکھٹا کرنے،تجزیہ، گرافکس اور سب سے بڑھ کر اسے عام سرمایہ کار تک پہنچانے میں حماد کی مدد کی، یہ 100 نوجوان ہی اس ایپلی کیشن کی بانی ٹیم ہیں جو ایک فنانشل لٹریسی کمیونٹی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org کی تیاری میں سال لگا
دوسری ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگا ہے،اس ایپلی کیشن کا استعمال کرکے کرونا سے متاثر ہونے کے امکانات کا کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ ایپلی کیشن ایک الکحل پیڈ فراہم کرتی ہے جو آن لائن خریدا جاسکتا ہے، ٹیسٹ کرنے والے کو الکحل پیڈ سونگھنے کے بعد اس کی خوشبو کی شدت کو ویب سائٹ کے سوالنامہ میں درج کرنا ہوتا ہے دیگر سوالات کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ گزشتہ چند روز میں بخار کی علامات کا سامنا رہا، سانس لینے میں دشواری یا عوامی تقریبات میں شرکت اور اس طرح کے کچھ سوالات کے جواب دینے کے بعد الکحل پیڈ کے ساتھ کارڈ پر بنے کیو آر سی کوڈ کو اسکین کرنا ہوتا ہے۔
ان سوالات اور دی گئی معلومات کا کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعے تجزیہ کرکے ویب سائٹ ٹیسٹ کرنے والے کو صحت مند، احتیاط کرنے یا پی سی آر ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیتی ہے، یہ بات حماد نے گفتگو میں بتائی حماد نے مزید بتایا کہ یہ صرف کرونا میں مبتلا ہونے کے امکانات کا جائزہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک سے زائد بار ٹیسٹ کرنے پر بھی اگر ویب سائٹ آپ کو ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے تو فوری طور پر ٹیسٹ کرائیں تاکہ وائر س کو پھیلنے یا شدت اختیار کرنے سے روکا جاسکے اس ایپلی کیشن کا تجزیہ غیرملکی یونیورسٹیوں کے لاکھوں طلبہ کے ڈیٹا پر کیا گیا جس میں کافی حد تک درست نتائج ملے۔
مغرب کے نئے کاروباری آئیڈیازکیلیے پاکستان میں بہت گنجائش ہے
امریکا کینیڈا برطانیہ میں جو کمپنیاں کھل چکی ہیں جو اسٹارٹ اپس کامیاب ہوچکے ہیں وہ پاکستان میں ابھی آنا باقی ہیں اس لیے غیرملکی کمپنیاں اور خود بیرون ملک مقیم پاکستانی اس طرف آرہے ہیں یا تو پاکستان میں کمپنیاں کھولی جارہی ہیں یا پھر پاکستان سے خدمات حاصل کی جارہی ہیں انھوں نے کہا کہ امریکا اور مغرب کے نئے کاروباری آئیڈیاز کے لیے پاکستان میں بہت گنجائش ہے ہمیں ان آئیڈیاز کو اپنے ماحول اور تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا، حماد کے مطابق مشکلات کی وجہ سے اپنا تمام کام چھوڑ کر ساری توانائی تنقید پر ہی صرف نہ کریں بلکہ حکومت کا اس کے کردار کا احساس دلاتے رہیں لیکن ساتھ میں اپنا کام بھی کرتے رہیں۔
مستقبل میںeconoxeکادائرہ میوچل فنڈزاوربینکنگ وانشورنس تک پھیلے گا
حماد فنانشل لٹریسی اور اسٹاک مارکیٹ سے متعلق معلوماتی ایپلی کیشن کو وسعت دینے کے خواہش مند ہیں اور اپنی تمام صلاحیتیں اسی پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے کے لیے بروئے کار لانا چاہتے ہیں وہ مستقبل میں اس ایپلی کیشن کا دائرہ میوچل فنڈز اور بینکنگ و انشورنس پراڈکٹس تک وسیع کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔
ایپلی کیشن بلامعاوضہ معلومات فراہم کرتی ہے
econoxe نامی ایپلی کیشن کی تیاری میں حماد نے اپنی جیب خرچ سے 20ہزار روپے خرچ کیے جبکہ کالج کی پرنسپل نے بھی اس آئیڈیے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بطور اینجل انویسٹر 20 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی، یہ ایپلی کیشن بلاکسی معاوضہ کے معلومات فراہم کرتی ہے، پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے آل انڈیکس اور 100انڈیکس کے علاوہ جاپان، برطانیہ اور امریکا کی اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس کے بارے میں معلومات اور تجزیے بھی اس ایپلی کیشن کا حصہ ہیں یہ ایپلی کیشن جون 2021 میں متعارف کرائی گئی آئندہ چل کر اس پر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی معلومات مہیا کی جائے گی۔
معاشیات کی کتاب سے econoxe کا آئیڈیا ملا، حماد
عالمی معاشیات کی ایک کتاب سے econoxe کا آئیڈیا ملا، کتاب میں مصنف نے اسٹاک مارکیٹ میں نقصان اٹھانے و الے چھوٹے سرمایہ کاروں کی ناکامی کو معلومات کی کمی یا فقدان کا نتیجہ قرار دیا تھا، یہ درست اور بروقت معلومات ہی ہیں جو کامیاب اور ناکام سرمایہ کاروں کے فرق کو واضح کرتی ہیں۔
ان معلومات اور اسٹاک مارکیٹ پر ان کے اثرات کا جس کو پہلے اندازہ ہوتا ہے وہ فائدے میں رہتا ہے، کم وسائل رکھنے والے چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے ان معلومات تک رسائی مشکل ہوتی ہے، یہ بات حماد نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کی بنیاد ہی انفارمیشن فیلیئر ہے جن سرمایہ کاروں کو زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔
وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر چھوٹے بڑے دونوں طرح کے سرمایہ کاروں کو ایک جیسی معلومات ہوں گی تو سٹہ کا امکان اور چھوٹے سرمایہ کاروں کا نقصان ختم ہوجائے گا اور اسٹاک مارکیٹ بھی مستحکم بنیاد پر ترقی کرے گی اس تصور کو لے کر انھوں نے اپنے اساتذہ اور سرمایہ کاروں اور کچھ بینکرز سے مشاورت کی جنھوں نے آئیڈیے کو سراہا اور پھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایپلی کیشن ڈیولپ کی جو سماجی و معاشی پس منظر کے فرق کے بغیر ہر کسی فرد کو اسٹاک مارکیٹ پر اثرا انداز ہونے والی معلومات آسان فہم انداز میں بروقت فراہم کرتی ہے۔
نجی شعبے میں ڈیجیٹلائزیشن تیزی سےجاری اور اسٹارٹ اپس بڑھ رہی ہیں
حماد کے مطابق پبلک سیکٹر میں عزم کا فقدان ہے یا روایتی بیوروکریسی تبدیلی نہیں چاہتی لیکن نجی شعبہ میں ڈیجیٹلائزیشن بہت تیزی سے ہورہی ہے، پاکستان میں اسٹارٹ اپس ک تعداد بڑھ رہی ہے دنیا کے بڑے وینچر کیپیٹل پاکستان کا رخ کررہے ہیں اور پاکستانی اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحیثیت یوتھ ہماری نظر میں پاکستان کا مستقبل روشن ہے، حکومت سے امید لگانے سے بہتر ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں کام کیا جائے، حماد کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹلائزشن کا ابھی بہت پوٹینشل ہے۔
ملک کے بڑے مسائل ٹیکنالوجی سے حل کیے جا سکتے ہیں
حماد ندیم کی ان کاوشوں کو بیان کرنے کا مقصد ان کی پذیرائی سے زیادہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر عزم ہو تو پاکستان کے بڑے مسائل بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ حماد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی مسئلے کا حل ٹیکنالوجی کی مدد سے نکالا جاسکتا ہے بالخصوص بہتر گورننس، کرپشن کے خاتمہ، عوام سے متعلق منصوبوں میں شفافیت کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان کے بارے میں بہت بات کی لیکن عملی طور پر بہت کم کام ہوا، مثال کے طور پر سٹیژن پورٹل بنایا گیا لیکن عوام کے بڑے مسائل حل نہ ہوسکے انھوں نے کہا کہ حکومت ہائوسنگ کے مسائل، کاروبار کی ترقی کے لیے آسانیوں، کمپنی رجسٹریشن وغیرہ کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد لے کر ان مسائل کو حل کرسکتی ہے اسی طرح جہاں جہاں انسانی مداخلت کی وجہ سے کرپشن ہوتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کے ذریعے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے۔
ویب بیس ایپلی کیشن کامقصد پی سی آر پر دبائو کم کرناتھا
حماد ندیم نے بتایا کہ اس ویب بیسڈ ایپلی کیشن کا مقصد پی سی آر پر پڑنے والے دبائوکو کم کرنا ہے اگر کسی شخص میں علامات ہیں اور 50 فیصد سے زائد امکانات کورونا میں مبتلا ہونے کے ہیں تو ایسے فرد کو ہی پی سی آر کے مہنگے ٹیسٹ سے گزرنے کی ضرورت ہوگی۔
یہ تکنیک تعلیمی اداروں، ایئرپورٹ سے روانگی، کھیلوں کے مقابلوں کیلیے اسٹیڈیم وغیرہ میں کارگر ہوسکتے ہیں، ٹیسٹ کیلیے الکحل پیڈز بلک میں فروخت کیے جارہے ہیں کم سے کم 20 پیڈز خریدے جاسکتے ہیں جن کے لیے آن لائن آرڈر دینا ہوگا، حماد کے مطابق اس سہولت کو عام کرنے کے لیے انڈس اسپتال، عیسیٰ لیبارٹری اور دیگر بڑی اور مستند فارمیسیز کے ساتھ بات چل رہی ہے۔
اس ایپلی کیشن کی سب سے بڑی جانچ خود نیکسر کالج میں کی گئی جہاں طلبہ میں 500 الکحل پیڈز تقسیم کیے گئے اس ایپلی کیشن کی تیاری پر 27 ہزار روپے کی لاگت آئی اور یہ تمام سرمایہ کاری ان کے کالج کے ڈین کی جانب سے کی جانے والی 30 ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے کی گئی، حماد اور ان کی ٹیم کی تیار کردہ اس ایپلی کیشن کو پاکستان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ میں بھی استعمال کیا گیا یہ تکنیک ابھی تک دنیا کے کسی ملک میں متعارف نہیں کرائی گئی۔
عزم اور ارادے مضبوط ہونا ضروری ہیں ہر مشکل کا حل نکالا جاسکتا ہے، حماد ندیم او لیول کے اسٹوڈنٹ ہیں اور نکسر کالج میں زیر تعلیم ہیں، حماد ندیم نے 50 ہزار روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری سے دو اہم ترین ایپلی کیشنز تیار کی ہیں۔
جن میں سے ایک econoxe اسٹاک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو معلومات پر مبنی فیصلہ کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے جبکہ دوسری ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org ہے جس کی مدد سے 150روپے کی لاگت سے سونگھنے کی صلاحیت اور علامات کی بنیاد پر کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے کورونا ہونے کے امکانات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حماد ندیم کہتے ہیں کہ پاکستان میں مالیاتی خواندگی بہت محدود ہے بالخصوص اسٹاک مارکیٹ میں چھوٹے سرمایہ کار روایتی انداز میں افواہوں یا غیرمصدقہ معلومات کی بنیاد پر سرمایہ کرتے ہیں۔
اس کے برعکس بڑے سرمایہ کار معاشی میدان میں ہونے والی اہم پیش رفت یا تبدیلیوں کے اسٹاک مارکیٹ پر اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے سرمایہ کاری کرتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ چھوٹے سرمایہ کار کے پاس مصدقہ معاشی معلومات تک رسائی نہیں ہوتی یا محدود ہوتی ہے تو یہ بات درست ہوگی کہ بڑے سرمایہ دار اور چھوٹے سرمایہ کاروں کے درمیان یہ نالج گیپ ہی کسی اسٹاک مارکیٹ کے فوائد میں زیادہ سے زیادہ افراد کو شامل کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
حماد اور ان کے دوستوں نے اسٹاک مارکیٹ پر اثرا نداز ہونے والی معاشی صورتحال، خبروں اور تجزیوں کو بلامعاوضہ عام طبقے اور چھوٹے سرمایہ کاروں تک پہنچانے کا عزم کیا، اس عزم کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انھوں نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایپلی کیشن تیار کرنا شروع کی جس پر ابتدائی طور پر 20 ہزار روپے کی لاگت آئی حماد کے اس مشن میں آہستہ آہستہ 100نوجوان جڑگئے جنھوں نے ایپلی کیشن کو بھرپور بنانے۔
معلومات اکھٹا کرنے،تجزیہ، گرافکس اور سب سے بڑھ کر اسے عام سرمایہ کار تک پہنچانے میں حماد کی مدد کی، یہ 100 نوجوان ہی اس ایپلی کیشن کی بانی ٹیم ہیں جو ایک فنانشل لٹریسی کمیونٹی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org کی تیاری میں سال لگا
دوسری ویب بیسڈ ایپلی کیشن Nitoxi.org کی تیاری میں ایک سال کا عرصہ لگا ہے،اس ایپلی کیشن کا استعمال کرکے کرونا سے متاثر ہونے کے امکانات کا کمپیوٹر الگورتھم کی مدد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یہ ایپلی کیشن ایک الکحل پیڈ فراہم کرتی ہے جو آن لائن خریدا جاسکتا ہے، ٹیسٹ کرنے والے کو الکحل پیڈ سونگھنے کے بعد اس کی خوشبو کی شدت کو ویب سائٹ کے سوالنامہ میں درج کرنا ہوتا ہے دیگر سوالات کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ گزشتہ چند روز میں بخار کی علامات کا سامنا رہا، سانس لینے میں دشواری یا عوامی تقریبات میں شرکت اور اس طرح کے کچھ سوالات کے جواب دینے کے بعد الکحل پیڈ کے ساتھ کارڈ پر بنے کیو آر سی کوڈ کو اسکین کرنا ہوتا ہے۔
ان سوالات اور دی گئی معلومات کا کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعے تجزیہ کرکے ویب سائٹ ٹیسٹ کرنے والے کو صحت مند، احتیاط کرنے یا پی سی آر ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیتی ہے، یہ بات حماد نے گفتگو میں بتائی حماد نے مزید بتایا کہ یہ صرف کرونا میں مبتلا ہونے کے امکانات کا جائزہ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ایک سے زائد بار ٹیسٹ کرنے پر بھی اگر ویب سائٹ آپ کو ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دے تو فوری طور پر ٹیسٹ کرائیں تاکہ وائر س کو پھیلنے یا شدت اختیار کرنے سے روکا جاسکے اس ایپلی کیشن کا تجزیہ غیرملکی یونیورسٹیوں کے لاکھوں طلبہ کے ڈیٹا پر کیا گیا جس میں کافی حد تک درست نتائج ملے۔
مغرب کے نئے کاروباری آئیڈیازکیلیے پاکستان میں بہت گنجائش ہے
امریکا کینیڈا برطانیہ میں جو کمپنیاں کھل چکی ہیں جو اسٹارٹ اپس کامیاب ہوچکے ہیں وہ پاکستان میں ابھی آنا باقی ہیں اس لیے غیرملکی کمپنیاں اور خود بیرون ملک مقیم پاکستانی اس طرف آرہے ہیں یا تو پاکستان میں کمپنیاں کھولی جارہی ہیں یا پھر پاکستان سے خدمات حاصل کی جارہی ہیں انھوں نے کہا کہ امریکا اور مغرب کے نئے کاروباری آئیڈیاز کے لیے پاکستان میں بہت گنجائش ہے ہمیں ان آئیڈیاز کو اپنے ماحول اور تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا، حماد کے مطابق مشکلات کی وجہ سے اپنا تمام کام چھوڑ کر ساری توانائی تنقید پر ہی صرف نہ کریں بلکہ حکومت کا اس کے کردار کا احساس دلاتے رہیں لیکن ساتھ میں اپنا کام بھی کرتے رہیں۔
مستقبل میںeconoxeکادائرہ میوچل فنڈزاوربینکنگ وانشورنس تک پھیلے گا
حماد فنانشل لٹریسی اور اسٹاک مارکیٹ سے متعلق معلوماتی ایپلی کیشن کو وسعت دینے کے خواہش مند ہیں اور اپنی تمام صلاحیتیں اسی پلیٹ فارم کو مضبوط بنانے کے لیے بروئے کار لانا چاہتے ہیں وہ مستقبل میں اس ایپلی کیشن کا دائرہ میوچل فنڈز اور بینکنگ و انشورنس پراڈکٹس تک وسیع کرنے کے بھی خواہش مند ہیں۔
ایپلی کیشن بلامعاوضہ معلومات فراہم کرتی ہے
econoxe نامی ایپلی کیشن کی تیاری میں حماد نے اپنی جیب خرچ سے 20ہزار روپے خرچ کیے جبکہ کالج کی پرنسپل نے بھی اس آئیڈیے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے بطور اینجل انویسٹر 20 ہزار روپے کی سرمایہ کاری کی، یہ ایپلی کیشن بلاکسی معاوضہ کے معلومات فراہم کرتی ہے، پاکستان اسٹاک ایکس چینج کے آل انڈیکس اور 100انڈیکس کے علاوہ جاپان، برطانیہ اور امریکا کی اسٹاک مارکیٹ کے انڈیکس کے بارے میں معلومات اور تجزیے بھی اس ایپلی کیشن کا حصہ ہیں یہ ایپلی کیشن جون 2021 میں متعارف کرائی گئی آئندہ چل کر اس پر انگریزی کے ساتھ اردو میں بھی معلومات مہیا کی جائے گی۔
معاشیات کی کتاب سے econoxe کا آئیڈیا ملا، حماد
عالمی معاشیات کی ایک کتاب سے econoxe کا آئیڈیا ملا، کتاب میں مصنف نے اسٹاک مارکیٹ میں نقصان اٹھانے و الے چھوٹے سرمایہ کاروں کی ناکامی کو معلومات کی کمی یا فقدان کا نتیجہ قرار دیا تھا، یہ درست اور بروقت معلومات ہی ہیں جو کامیاب اور ناکام سرمایہ کاروں کے فرق کو واضح کرتی ہیں۔
ان معلومات اور اسٹاک مارکیٹ پر ان کے اثرات کا جس کو پہلے اندازہ ہوتا ہے وہ فائدے میں رہتا ہے، کم وسائل رکھنے والے چھوٹے سرمایہ کاروں کے لیے ان معلومات تک رسائی مشکل ہوتی ہے، یہ بات حماد نے گفتگو میں بتائی انھوں نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ میں سٹہ کی بنیاد ہی انفارمیشن فیلیئر ہے جن سرمایہ کاروں کو زیادہ معلومات ہوتی ہیں۔
وہ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اگر چھوٹے بڑے دونوں طرح کے سرمایہ کاروں کو ایک جیسی معلومات ہوں گی تو سٹہ کا امکان اور چھوٹے سرمایہ کاروں کا نقصان ختم ہوجائے گا اور اسٹاک مارکیٹ بھی مستحکم بنیاد پر ترقی کرے گی اس تصور کو لے کر انھوں نے اپنے اساتذہ اور سرمایہ کاروں اور کچھ بینکرز سے مشاورت کی جنھوں نے آئیڈیے کو سراہا اور پھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایپلی کیشن ڈیولپ کی جو سماجی و معاشی پس منظر کے فرق کے بغیر ہر کسی فرد کو اسٹاک مارکیٹ پر اثرا انداز ہونے والی معلومات آسان فہم انداز میں بروقت فراہم کرتی ہے۔
نجی شعبے میں ڈیجیٹلائزیشن تیزی سےجاری اور اسٹارٹ اپس بڑھ رہی ہیں
حماد کے مطابق پبلک سیکٹر میں عزم کا فقدان ہے یا روایتی بیوروکریسی تبدیلی نہیں چاہتی لیکن نجی شعبہ میں ڈیجیٹلائزیشن بہت تیزی سے ہورہی ہے، پاکستان میں اسٹارٹ اپس ک تعداد بڑھ رہی ہے دنیا کے بڑے وینچر کیپیٹل پاکستان کا رخ کررہے ہیں اور پاکستانی اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ بحیثیت یوتھ ہماری نظر میں پاکستان کا مستقبل روشن ہے، حکومت سے امید لگانے سے بہتر ہے کہ اپنے اپنے شعبہ میں کام کیا جائے، حماد کے مطابق پاکستان میں ڈیجیٹلائزشن کا ابھی بہت پوٹینشل ہے۔
ملک کے بڑے مسائل ٹیکنالوجی سے حل کیے جا سکتے ہیں
حماد ندیم کی ان کاوشوں کو بیان کرنے کا مقصد ان کی پذیرائی سے زیادہ اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر عزم ہو تو پاکستان کے بڑے مسائل بھی ٹیکنالوجی کی مدد سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ حماد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کسی بھی مسئلے کا حل ٹیکنالوجی کی مدد سے نکالا جاسکتا ہے بالخصوص بہتر گورننس، کرپشن کے خاتمہ، عوام سے متعلق منصوبوں میں شفافیت کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت نے ڈیجیٹل پاکستان کے بارے میں بہت بات کی لیکن عملی طور پر بہت کم کام ہوا، مثال کے طور پر سٹیژن پورٹل بنایا گیا لیکن عوام کے بڑے مسائل حل نہ ہوسکے انھوں نے کہا کہ حکومت ہائوسنگ کے مسائل، کاروبار کی ترقی کے لیے آسانیوں، کمپنی رجسٹریشن وغیرہ کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد لے کر ان مسائل کو حل کرسکتی ہے اسی طرح جہاں جہاں انسانی مداخلت کی وجہ سے کرپشن ہوتی ہے وہاں ٹیکنالوجی کے ذریعے کرپشن ختم کی جاسکتی ہے۔
ویب بیس ایپلی کیشن کامقصد پی سی آر پر دبائو کم کرناتھا
حماد ندیم نے بتایا کہ اس ویب بیسڈ ایپلی کیشن کا مقصد پی سی آر پر پڑنے والے دبائوکو کم کرنا ہے اگر کسی شخص میں علامات ہیں اور 50 فیصد سے زائد امکانات کورونا میں مبتلا ہونے کے ہیں تو ایسے فرد کو ہی پی سی آر کے مہنگے ٹیسٹ سے گزرنے کی ضرورت ہوگی۔
یہ تکنیک تعلیمی اداروں، ایئرپورٹ سے روانگی، کھیلوں کے مقابلوں کیلیے اسٹیڈیم وغیرہ میں کارگر ہوسکتے ہیں، ٹیسٹ کیلیے الکحل پیڈز بلک میں فروخت کیے جارہے ہیں کم سے کم 20 پیڈز خریدے جاسکتے ہیں جن کے لیے آن لائن آرڈر دینا ہوگا، حماد کے مطابق اس سہولت کو عام کرنے کے لیے انڈس اسپتال، عیسیٰ لیبارٹری اور دیگر بڑی اور مستند فارمیسیز کے ساتھ بات چل رہی ہے۔
اس ایپلی کیشن کی سب سے بڑی جانچ خود نیکسر کالج میں کی گئی جہاں طلبہ میں 500 الکحل پیڈز تقسیم کیے گئے اس ایپلی کیشن کی تیاری پر 27 ہزار روپے کی لاگت آئی اور یہ تمام سرمایہ کاری ان کے کالج کے ڈین کی جانب سے کی جانے والی 30 ہزار روپے کی سرمایہ کاری سے کی گئی، حماد اور ان کی ٹیم کی تیار کردہ اس ایپلی کیشن کو پاکستان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ میں بھی استعمال کیا گیا یہ تکنیک ابھی تک دنیا کے کسی ملک میں متعارف نہیں کرائی گئی۔