آپریشن کا آغاز اور بعد کے حالات
ہشت گردوں کے اڈے تو ختم ہو گئے مگر جو قیمت مقامی لوگوں کو چکانی پڑی اس کا اندازہ کرنا بھی محال ہے.
وفاقی حکومت نے شمالی وزیرستان میں سخت اور ممکنہ طور پر طویل تادیبی کارروائی کا فیصلہ کر لیا ہے آپریشن یا دہشت گردی کے اڈوں کو ختم کرنے کی کارروائی کافی دنوں سے جاری تو تھی ہی لیکن اس کے ساتھ قانونی اور انتظامی اہتمام کرنے کا عمل بھی اب تیز ہو گیا ہے، یہاں پر کون سا گروہ کہاں پر موجود ہے؟ اس کی تعداد کتنی ہے؟ اور دہشت گردی کرنے کی صلاحیت کیا ہے' اس قسم کے سوالوں کے جواب مقامی عسکری قیادت اور جنرل ہیڈ کوارٹرز کے افسران کے پاس پہلے سے موجود ہیں۔ فوجی دستے اور ایف سی ان تمام مقامات پر تعینات ہو چکی ہیں۔ جو ان کارروائیوں کو کرنے کے لیے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہاڑیوں کی چوٹیاں اور گھاٹیاں سب نظر میں ہیں۔ رسد کے رستے محفوظ کیے جا چکے ہیں۔ آپریشن کے بعد ان گروپوں کے ممبران ان رستوں سے کہاں جا سکتے ہیں 'یہ بھی معلوم ہے۔ فوج کی طرف سے کیے گئے تجزیوں میں ممکنہ شہادتوں اور زخمیوں کی تعداد بھی موجود ہے۔
بہت سی جگہوں پر مزاحمت نہ ہونے کے باوجود خطرات کے بارے میں بھی پلاننگ کی جا چکی ہے۔ کون سی عمارتیں بموں اور آتشگیر مادے کے ذریعے خطرناک اہداف میں تبدیل کی گئی ہیں۔ کہاں پر سڑکوں کے نیچے بارودی سرنگیں لگائی گئی ہیں۔ اور کون سے قصبوں میں مقامی افراد کے جھرمٹ میں عسکری گروپ پناہ لے سکتے ہیں یہ سب نقشوں اور پلان کے کاغذوں میں درج کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کارروائی شروع ہونے کے بعد چھ ہفتوں کے اندر بڑے خطرات کو مکمل طور پر مفلوج کیا جا سکے گا۔ فوج برف سے ڈھکے پہاڑوں اور بند گزرگاہوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت کو بھی بروئے کار لائے گی۔ عرصہ دراز سے اس خیال کی تشہیر کی جا رہی تھی کہ ان علاقوں میں سردی میں کارروائیاں نہیں کی جا سکتیں۔ اس تصور کو فوج کے اپنے حلقوں نے اپنے بیانات کے ذریعے کافی تقویت دی تھی۔ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے جو فوج سیاچن پر لڑائی کر سکتی ہے اس کے لیے ان علاقوں میںمنفی درجہ حرارت میں نقل و حرکت کرنا آسان ہے۔
چند ایک معاملات بہر حال ابھی زیر غور ہیں۔ دنیا میں کبھی کوئی بھی کارروائی کاغذی پلاننگ کے مطابق نہیں چلتی۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر جنگی پلان پہلی گولی چلتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ بر وقت اور ضروری فیصلے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ اگر ایسے حالات بنے تو سیاسی قیادت کی ذمے داریاں بڑھ جائیں گی۔ غیر متوقع واقعات کے اثرات کو وہ کس حد تک سنبھال پائے گی؟ یا اس حوالے سے ہونے والی تنقید کو کتنا برداشت کرے گی؟ ۔ آپریشن کی صحت ان معاملات سے متاثر ہو سکتی ہے۔ فی الحال حکومت تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نئی کوششوں کا آغاز کر چکی ہے ۔ مگر یہ کوششیں کارروائی کے باقاعدہ آغاز سے متعلق ہیں نہ کہ ان ممکنہ دھچکوں یارد عمل کو سنبھالنے کے لیے جو آنے والے دنوں میں سامنے آسکتے ہیں۔ اس وقت قوم اور تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت کو یہ بھی باور کروانا چاہیے کہ سب کچھ کاغذ پر تحریر شدہ الفاظ کے مطابق نہیں ہو گا۔
عین ممکن ہے کہ بعض کارروائیوں کا رد عمل ملک کے مختلف شہروں میں نظر آئے۔ بڑے نقصانات بھی ہوں۔ جب اس قسم کی تصویر بنے تو قوم اور حزب اختلاف کا کیا کردار ہو سکتا ہے اس کی تیاری ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں مقامی آبادی پر جو امتحان آتا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں ڈی آئی خان سے ایک مقامی سوشل ورکر اور کالم نگار نے ٹیلی فون پر مجھے گِلوں سے بھری ہوئی لمبی سی درخواست سنائی۔ وہ درخواست کم اور طعنہ زیادہ تھا بلکہ طعنہ بھی نہیں تھا۔ وہ بپتا تھی جو کارروائیوں کے بعد شروع ہوتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد ذرایع ابلاغ اور پالیسی ساز ادارے اس کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ کس طرح جنوبی وزیرستان میں ہونے والی کارروائیوں کے متاثرین اپنی ٹوٹی پھوٹی زندگیوں کو سنبھالنے کی جہدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس علاقے سے دہشت گردوں کے اڈے تو ختم ہو گئے مگر جو قیمت مقامی لوگوں کو چکانی پڑی اس کا اندازہ کرنا بھی محال ہے اس کے مطابق ترقیاتی کام خاص حد سے زیادہ اثر نہیں دکھا پائے۔ دہشت گردی اور تباہ حالی برداشت کرنے کا پھل بھی اتنا میٹھا نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے۔ سیاسی عمل کے ذریعے لوگوں کی تکالیف کو منظر عام پر لانے کا نظام دھاندلی اور دھونس کا شکار ہو چکا ہے۔ ان علاقوں کے نمایندگان نام نہاد ہیں۔ بد عنوانی کا دور دورہ ہے۔ نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلیم ایک خواب ہے۔ اس تمام بیان میں چھپی ہوئی استدعا یہ ہے کہ دہشت گردی نے ان علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کا تو جو کیا سو کیا، اس سے نجات حاصل کرنے کے بعد بننے والی صورت حال کسی کے قابو میں نظر نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر سیاسی صورت حال بھی امید افزا نہ بن پائی۔
چونکہ انسانی ذہن فوری حالات کے تابع ہوتا ہے اور ماضی کی تکالیف کو بھلا دینے کی خاص خصلت سے بھی لیس ہوتا ہے۔ لہذا دہشت گردوں کی وجہ سے اجیرن کی ہوئی زندگی عموماً پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ روزی، روٹی اور روزانہ کی مشقت جذبوں کو ڈھا دیتی ہے۔ جنوبی وزیرستان اور اس کے ساتھ فاٹا میں دوسرے علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں سے آبادی کے نقصانات کا صحیح ازالہ نہ کر کے، عام شہریوں کی خلش کو دور نہ کر کے ان آپریشن سے ہونے والے بہت سے فوائد کو زائل کیا جا چکا ہے۔ موجودہ کارروائی کو ان غلطیوں سے اگر پاک نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم بہت حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ حکومت کی اصل پلاننگ کا مقصد فوجی کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا نہیں ہے۔ وہ کارروائیاں تو شروع ہو چکی ہیں ۔ عمران خان بھی اپنی پالیسی میں رد و بدل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اصل چیلنج آپریشن کے بعد کے حالات سے نمٹنا ہے۔ حکومت کی کارکردگی اور آپریشن کی کامیابی کی پرکھ عسکری کارروائیوں کے بعد بننے والے منظر نامے کے بنیاد پر ہو گی۔ اصل توجہ اس پہلو پر ہونی چاہیے ۔
بہت سی جگہوں پر مزاحمت نہ ہونے کے باوجود خطرات کے بارے میں بھی پلاننگ کی جا چکی ہے۔ کون سی عمارتیں بموں اور آتشگیر مادے کے ذریعے خطرناک اہداف میں تبدیل کی گئی ہیں۔ کہاں پر سڑکوں کے نیچے بارودی سرنگیں لگائی گئی ہیں۔ اور کون سے قصبوں میں مقامی افراد کے جھرمٹ میں عسکری گروپ پناہ لے سکتے ہیں یہ سب نقشوں اور پلان کے کاغذوں میں درج کیا جا چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کارروائی شروع ہونے کے بعد چھ ہفتوں کے اندر بڑے خطرات کو مکمل طور پر مفلوج کیا جا سکے گا۔ فوج برف سے ڈھکے پہاڑوں اور بند گزرگاہوں میں کارروائی کرنے کی صلاحیت کو بھی بروئے کار لائے گی۔ عرصہ دراز سے اس خیال کی تشہیر کی جا رہی تھی کہ ان علاقوں میں سردی میں کارروائیاں نہیں کی جا سکتیں۔ اس تصور کو فوج کے اپنے حلقوں نے اپنے بیانات کے ذریعے کافی تقویت دی تھی۔ یہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے جو فوج سیاچن پر لڑائی کر سکتی ہے اس کے لیے ان علاقوں میںمنفی درجہ حرارت میں نقل و حرکت کرنا آسان ہے۔
چند ایک معاملات بہر حال ابھی زیر غور ہیں۔ دنیا میں کبھی کوئی بھی کارروائی کاغذی پلاننگ کے مطابق نہیں چلتی۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر جنگی پلان پہلی گولی چلتے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ بر وقت اور ضروری فیصلے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ اگر ایسے حالات بنے تو سیاسی قیادت کی ذمے داریاں بڑھ جائیں گی۔ غیر متوقع واقعات کے اثرات کو وہ کس حد تک سنبھال پائے گی؟ یا اس حوالے سے ہونے والی تنقید کو کتنا برداشت کرے گی؟ ۔ آپریشن کی صحت ان معاملات سے متاثر ہو سکتی ہے۔ فی الحال حکومت تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے نئی کوششوں کا آغاز کر چکی ہے ۔ مگر یہ کوششیں کارروائی کے باقاعدہ آغاز سے متعلق ہیں نہ کہ ان ممکنہ دھچکوں یارد عمل کو سنبھالنے کے لیے جو آنے والے دنوں میں سامنے آسکتے ہیں۔ اس وقت قوم اور تمام سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیتے ہوئے حکومت کو یہ بھی باور کروانا چاہیے کہ سب کچھ کاغذ پر تحریر شدہ الفاظ کے مطابق نہیں ہو گا۔
عین ممکن ہے کہ بعض کارروائیوں کا رد عمل ملک کے مختلف شہروں میں نظر آئے۔ بڑے نقصانات بھی ہوں۔ جب اس قسم کی تصویر بنے تو قوم اور حزب اختلاف کا کیا کردار ہو سکتا ہے اس کی تیاری ابھی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسی کارروائیوں کے نتیجے میں مقامی آبادی پر جو امتحان آتا ہے اس کو سنبھالنے کے لیے خصوصی کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں ڈی آئی خان سے ایک مقامی سوشل ورکر اور کالم نگار نے ٹیلی فون پر مجھے گِلوں سے بھری ہوئی لمبی سی درخواست سنائی۔ وہ درخواست کم اور طعنہ زیادہ تھا بلکہ طعنہ بھی نہیں تھا۔ وہ بپتا تھی جو کارروائیوں کے بعد شروع ہوتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد ذرایع ابلاغ اور پالیسی ساز ادارے اس کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیتے ہیں۔ اس نے بتایا کہ کس طرح جنوبی وزیرستان میں ہونے والی کارروائیوں کے متاثرین اپنی ٹوٹی پھوٹی زندگیوں کو سنبھالنے کی جہدوجہد میں مصروف ہیں۔
اس علاقے سے دہشت گردوں کے اڈے تو ختم ہو گئے مگر جو قیمت مقامی لوگوں کو چکانی پڑی اس کا اندازہ کرنا بھی محال ہے اس کے مطابق ترقیاتی کام خاص حد سے زیادہ اثر نہیں دکھا پائے۔ دہشت گردی اور تباہ حالی برداشت کرنے کا پھل بھی اتنا میٹھا نہیں ہے جتنا بتایا جا رہا ہے۔ سیاسی عمل کے ذریعے لوگوں کی تکالیف کو منظر عام پر لانے کا نظام دھاندلی اور دھونس کا شکار ہو چکا ہے۔ ان علاقوں کے نمایندگان نام نہاد ہیں۔ بد عنوانی کا دور دورہ ہے۔ نوکریاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تعلیم ایک خواب ہے۔ اس تمام بیان میں چھپی ہوئی استدعا یہ ہے کہ دہشت گردی نے ان علاقوں میں رہنے والے پاکستانیوں کا تو جو کیا سو کیا، اس سے نجات حاصل کرنے کے بعد بننے والی صورت حال کسی کے قابو میں نظر نہیں آتی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہاں پر سیاسی صورت حال بھی امید افزا نہ بن پائی۔
چونکہ انسانی ذہن فوری حالات کے تابع ہوتا ہے اور ماضی کی تکالیف کو بھلا دینے کی خاص خصلت سے بھی لیس ہوتا ہے۔ لہذا دہشت گردوں کی وجہ سے اجیرن کی ہوئی زندگی عموماً پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ روزی، روٹی اور روزانہ کی مشقت جذبوں کو ڈھا دیتی ہے۔ جنوبی وزیرستان اور اس کے ساتھ فاٹا میں دوسرے علاقوں میں ہونے والی کارروائیوں سے آبادی کے نقصانات کا صحیح ازالہ نہ کر کے، عام شہریوں کی خلش کو دور نہ کر کے ان آپریشن سے ہونے والے بہت سے فوائد کو زائل کیا جا چکا ہے۔ موجودہ کارروائی کو ان غلطیوں سے اگر پاک نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم بہت حد تک بچایا جا سکتا ہے۔ حکومت کی اصل پلاننگ کا مقصد فوجی کارروائیوں کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنا نہیں ہے۔ وہ کارروائیاں تو شروع ہو چکی ہیں ۔ عمران خان بھی اپنی پالیسی میں رد و بدل کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اصل چیلنج آپریشن کے بعد کے حالات سے نمٹنا ہے۔ حکومت کی کارکردگی اور آپریشن کی کامیابی کی پرکھ عسکری کارروائیوں کے بعد بننے والے منظر نامے کے بنیاد پر ہو گی۔ اصل توجہ اس پہلو پر ہونی چاہیے ۔