شاہ کارِرسالتؐ سیّد ناعمر فاروقؓ
عہدِ فاروقی کا عدل و انصاف وہ زرّیں باب ہے تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔
یوں تو حضور ختمی مرتبت سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی کریم ﷺ کے تمام رفقاء جذبۂ جاں سپاری، خلوص و ایثار، محبت و انسیت، مہر وفا، مروت و مودت اور قرآن و صاحب قرآن ﷺ کے ساتھ فداکارانہ الفت میں اپنی مثال آپ تھے۔
ہر ایک صحابی رسولؐ ان اوصاف و کمالات کے اعتبار سے ''کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا'' کا منظر پیش کررہا تھا۔ شرف صحابیت وہ اعزاز و شرف ہے جس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔ اسی لیے حضورؐ نے اپنے رفقاء سے متعلق اصحابی ''کاالنجوم'' کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔
مگر خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کو بجا طور پر اگر ''شاہ کار رسالتؐ'' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حضور اکرمؐ کے قلب اطہر میں مخالفین اسلام کی دو قد آور شخصیات کے قبول اسلام کی تمنا بار بار پیدا ہوتی تھی۔
تدبر و فراست نبوتؐ اس حقیقت کا اچھی طرح مشاہدہ کر رہی تھی کہ ان دو شخصیات عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے قبول اسلام سے تحریک اسلامی کی کام رانی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ اگرچہ تحاریک کی کام یابیوں کی تاریخ میں عوام الناس کا ہر طبقہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر بااثر اور صاحبانِ ثروت اگر اس قافلے کے نقیب و معاون بن جائیں تو منزل مقصود قریب تر آجاتی ہے۔
یہی وجہ تھی حضور نبی کریمؐ غلاف ِ کعبہ کو تھام کر اس دعائیہ آرزو کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ مذکورہ ناموں میں اگر ایک رفیق اسلام بن جائے تو اب تک دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور ہم ہمہ مل سکتا ہے۔ چناں چہ اﷲ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی بے قرار تمنا کو عمر بن خطابؓ کے حق میں شرف قبولیت سے نوازا۔ یہ سراسر لطف خداوندی اور مقدر کی بات ہے کہ آقا ﷺ کی دعا نے جس کے حق میں شرف قبولیت پایا وہ خلیفہ دوم، مراد رسول ؐ اور فاروق اعظم جیسے عظیم الشان القابات سے سرفراز ہوا۔
آپؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بڑا منفرد، بڑا نادر اور وجد آفرین ہے۔ اس سے قرآن میں پائے جانے والے فطری سوز و گداز، تنویر تاثیر اور عظمت و ہیبت کا بھی پتا چلتا ہے کہ یہ کلام حق جس کے دل میں گھر کر جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت خوف زدہ نہیں کرسکتی۔ حضور سرور عالمؐ نے جس شب اﷲ کے حضور عمر بن خطابؓ کے قبولِ اسلام کے لیے دعا فرمائی تھی اور جسے فوراً قبولیت ملی اس سے اگلے روز تقدیر عمرؓ کا دھارا تبدیل ہونے والا تھا۔ ادھر حضورؐ کو یقین کامل تھا کہ عمرؓ جیسا صاحب جلال و سطوت انسان خادم اسلام بن جائے گا۔
ادھر عمرؓ اپنے گھر سے تیغ براں ہاتھ میں لیے (معاذ اﷲ) آپؐ کے قتل کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ مشیت ایزدی عمرؓ کے ان معاندانہ عزائم پر مسکرا رہی ہے کہ اے عمر! تمہارے سر پر تو غلامی رسولؐ کا تاج رکھا جانے والا ہے۔ راستے میں ایک صحابی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ناپاک ارادے کی تکمیل سے قبل اپنی بہن کی خبر لو۔ عمر بن خطابؓ آتش زیر پا ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ غایت غیض و غضب سے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔
بہن کے دروازے پر دستک دی اس وقت خواہر عمرؓ وحی حق کی تلاوت میں مصروف تھیں جلال عمر تو پہلے سے ہی مشہور تھا، بہن سے استفسار کیا: کیا پڑھ رہی تھی ؟ نتائج سے بے نیاز حضورؐ کی اس خادمہ صادق نے بلاتامل جواب دیا: وہی جس سے آپ کو نفرت ہے۔ بس پھر کیا تھا مشق ستم گری شروع ہوگئی۔ بے رحمانہ مار پیٹ کے بعد تھک کر بیٹھ گئے اور ساتھ یہ بھی کہا: یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تم پر رحم آ گیا ہے۔
مگر تحسین و سلام ہو حضورؐ کی اس خادمہ اور قرآن کی قاریہ پر کہ ایک لحظے کے لیے بھی پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔ بھائی سے پورے جذبہ استقامت و بسالت سے کہہ دیا: اے بھائی! قبول حق کے جرم میں جو چاہو سزا دو اب حب رسول کریمؐ اور لطافت قرآن دل سے نہیں نکل سکتی۔
عمر بن خطابؓ نے جب اپنی بہن کی یہ غیر معمولی عزیمت و جرأت دیکھی تو سوچنے لگے کہ یہ کوئی نادرالوجود کلام ہے، جس نے بہن کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہے۔ تو دل یوں انقلاب آفرین انگڑئیاں لینے لگا جیسے صحرا میں ہولے سے باد ِ نسیم چل کر کسی بیمار کو بے وجہ قرار بخش دے۔ بہن سے کہا: مجھے بھی دکھاؤ جو پڑھ رہی تھی۔ بہن نے ایک بار پھر جرأت مندانہ لہجے میں جواب دیا: یہ مقدس و پاکیزہ کلام ہے جسے پاکیزہ جسم کے ساتھ ہی چُھوا اور پڑھا جاسکتا ہے ۔
بہن نے اپنے اس اصرار پر عمل کروا کر ہی آیات مقدسہ کی زیارت کروائی، ایک دو آیات کی قرأت نے ہی سخت جان و دل عمرؓ پر لرزہ طاری کردیا۔ گوشہ ہائے چشم سے آنسو ڈھلک پڑے عالم از خود رفتگی کی کیفیت طاری ہوگئی، تخیل کی اڑان یہاں تک پہنچ گئی ۔
مجھے تو ناز تھا ضبط ِ غم درد ِ محبت پر
یہ آنسو آج کیوں بے چین ہو ہو کر نکلتے ہیں
حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے قبول اسلام، قرآن کے سوز و گداز اور خواہر عمرؓ کے پُرخلوص جذبے کی بہت خوب صورت انداز میں عکاسی کی ہے
زشام ِ ما بروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
تو می دانی کہ سوز قرات او
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را
سیدنا عمر فاروقؓ اسی عالم وجد میں صاحب قرآن کو تلاش کرتے سیدھے دار ارقم پہنچے۔ جہاں محسن کائناتؐ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ درواز اندر سے بند تھا، آپؓ نے دستک دی، صحابہؓ نے جھانک کر دیکھا تو ''مرادِ رسولؐ'' مرید کی صورت میں کھڑا تھا۔ صحابہؓ نے انداز خشیت میں عرض کیا: حضور ﷺ باہر عمر بن خطاب تلوار حمائل کیے کھڑے ہیں۔
ضیغم اسلام حضرت حمزہؓ نے کہا: دروازہ کھول دو، اس کا ارادہ نیک ہوا تو ٹھیک ورنہ نمٹ لیں گے۔ حضور ﷺ کو اپنی دعا کی قبولیت کا طلوع خورشید ِ فردا کی طرح یقین تھا۔ دروازہ کھولا گیا تو حضورؐ نے دوش عمرؓ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک دور رہو گے۔ دست نبوتؐ کے لمس سے عمرؓ سیسے کی طرح پگھل گیا، عمرؓ کی نیاز مندانہ اشک باری نے گداز انگیز سماں پیدا کردیا۔
عرض کیا: آقاﷺ! قلاوہ ِ غلامی زیب گلو کرنے کے لیے حاضر ہُوا ہوں۔ حضور ﷺ نے غایت ِ فرحت و انبساط سے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس جلالیت سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ عالم کفر لرزہ براندام ہوگیا ۔ سیّدنا عمرؓ نے عرض کیا: آقا ﷺ! کیا ہم حق پر نہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: بلاشبہ! ہم صراط ِ مستقیم پر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: تو پھر عبادت گزاری کنج عزلت میں کیو ں۔ ہم بہ بانگ دہل اعلائے کلمۃ الحق کرتے ہو ئے بیت اﷲ میں اﷲ کے حضور سر بہ سجود ہوں گے۔ چناں چہ اعلان نبوتؐ کے بعد پہلی بار مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں نماز ادا کی۔
وہ کتنا جلال انگیز اور سرور آفرین منظر تھا جب حضور ﷺ اپنے رفقاء اور اپنی مراد سیدنا عمرؓ کے ساتھ عبادت الٰہی کے لیے بیت اﷲ شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے داخل ہوتے ہی قائدین کفر کو للکارا: جس نے اپنے بچوں کو یتیم کرنا ہے وہ سامنے آجائے۔ حضرت عمرؓ کے اس نعرہ رندانہ سے باطل دبک گیا۔
انہی ایمان پرور لمحوں میں حضور ؐ نے سیدنا عمرؓ کو فاروق کا لامثال لقب عطا فرمایا۔ آج تک تاریخ انہیں فاروق اعظم کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی بے مثال بسالت و اولولعزمی کا ایک واقعہ ہجرت ِ مدینہ کا بھی ہے، دیگر صحابہؓ رات کی تاریکی میں عازم ِ مدینہ ہوئے مگر حضرت فاروق اعظمؓ نے دن کے اجالوں میں بیت اﷲ پہنچ کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنی مدینہ روانگی کا اعلان کیا۔ کسی مائی کے لعل کو انہیں روکنے کی جرأت نہ ہوئی۔
حب ِ رسول کریم ﷺ آپؓ کی رگ رگ میں اس حد تک سرایت کر چکی تھی کہ حضورؐ کے وصال کے وقت آپؓ تلوار میان سے نکال کر کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا: اگر کسی نے حضورؐ کی وفات کا نام لیا تو تیغ عمر اس کا سر تن سے جدا کر دے گی۔ آپؓ پر بار خلافت پڑا تو جلال و سطوت ِ عمرؓ حلیمی و بردباری میں بدل گئی۔ تقسیم مال غنیمت کے وقت بھرے دربار میں آپؓ سے بے باکانہ سوال کیا جاتا ہے: اے امیر المومنین! سب کوایک ایک چادر ملی آپؓ کے پاس دو کیوں ؟ تربیت یافتۂ فیضان رسالتؐ سیّدنا عمرؓ کمال تحمل سے جبین پر شکن ڈالے بغیر اس کا شافی جواب دیتے ہیں۔
عدل عمرؓ، عہد ِ فاروقی کا وہ زرّیں باب ہے تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مے نوشی پر گواہی ثابت ہو جانے پر اپنے صاحب زادے پر بھی شرعی حد کا سختی سے نفاذ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاید اسی لیے مائیکل ہارٹ نے کہا تھا: اگر اسلام کو ایک اور عمر مل جاتا تو دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوتا۔
ہر ایک صحابی رسولؐ ان اوصاف و کمالات کے اعتبار سے ''کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جا'' کا منظر پیش کررہا تھا۔ شرف صحابیت وہ اعزاز و شرف ہے جس پر جتنا بھی ناز کیا جائے کم ہے۔ اسی لیے حضورؐ نے اپنے رفقاء سے متعلق اصحابی ''کاالنجوم'' کے الفاظ ارشاد فرمائے تھے۔
مگر خلیفہ دوم امیر المومنین سیدنا عمر فاروقؓ کو بجا طور پر اگر ''شاہ کار رسالتؐ'' کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ حضور اکرمؐ کے قلب اطہر میں مخالفین اسلام کی دو قد آور شخصیات کے قبول اسلام کی تمنا بار بار پیدا ہوتی تھی۔
تدبر و فراست نبوتؐ اس حقیقت کا اچھی طرح مشاہدہ کر رہی تھی کہ ان دو شخصیات عمر بن ہشام یا عمر بن خطاب کے قبول اسلام سے تحریک اسلامی کی کام رانی کے امکانات بہت بڑھ جائیں گے۔ اگرچہ تحاریک کی کام یابیوں کی تاریخ میں عوام الناس کا ہر طبقہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے مگر بااثر اور صاحبانِ ثروت اگر اس قافلے کے نقیب و معاون بن جائیں تو منزل مقصود قریب تر آجاتی ہے۔
یہی وجہ تھی حضور نبی کریمؐ غلاف ِ کعبہ کو تھام کر اس دعائیہ آرزو کا اظہار فرمایا کرتے تھے کہ مذکورہ ناموں میں اگر ایک رفیق اسلام بن جائے تو اب تک دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے مسلمانوں کے حوصلوں کو نیا ولولہ اور ہم ہمہ مل سکتا ہے۔ چناں چہ اﷲ رب العزت نے اپنے محبوبؐ کی بے قرار تمنا کو عمر بن خطابؓ کے حق میں شرف قبولیت سے نوازا۔ یہ سراسر لطف خداوندی اور مقدر کی بات ہے کہ آقا ﷺ کی دعا نے جس کے حق میں شرف قبولیت پایا وہ خلیفہ دوم، مراد رسول ؐ اور فاروق اعظم جیسے عظیم الشان القابات سے سرفراز ہوا۔
آپؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بڑا منفرد، بڑا نادر اور وجد آفرین ہے۔ اس سے قرآن میں پائے جانے والے فطری سوز و گداز، تنویر تاثیر اور عظمت و ہیبت کا بھی پتا چلتا ہے کہ یہ کلام حق جس کے دل میں گھر کر جائے اس کو دنیا کی کوئی طاقت خوف زدہ نہیں کرسکتی۔ حضور سرور عالمؐ نے جس شب اﷲ کے حضور عمر بن خطابؓ کے قبولِ اسلام کے لیے دعا فرمائی تھی اور جسے فوراً قبولیت ملی اس سے اگلے روز تقدیر عمرؓ کا دھارا تبدیل ہونے والا تھا۔ ادھر حضورؐ کو یقین کامل تھا کہ عمرؓ جیسا صاحب جلال و سطوت انسان خادم اسلام بن جائے گا۔
ادھر عمرؓ اپنے گھر سے تیغ براں ہاتھ میں لیے (معاذ اﷲ) آپؐ کے قتل کے لیے گھر سے نکلتے ہیں۔ مشیت ایزدی عمرؓ کے ان معاندانہ عزائم پر مسکرا رہی ہے کہ اے عمر! تمہارے سر پر تو غلامی رسولؐ کا تاج رکھا جانے والا ہے۔ راستے میں ایک صحابی کی زبانی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے ناپاک ارادے کی تکمیل سے قبل اپنی بہن کی خبر لو۔ عمر بن خطابؓ آتش زیر پا ہو جاتے ہیں ان کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔ غایت غیض و غضب سے ہاتھ کانپنے لگتے ہیں۔
بہن کے دروازے پر دستک دی اس وقت خواہر عمرؓ وحی حق کی تلاوت میں مصروف تھیں جلال عمر تو پہلے سے ہی مشہور تھا، بہن سے استفسار کیا: کیا پڑھ رہی تھی ؟ نتائج سے بے نیاز حضورؐ کی اس خادمہ صادق نے بلاتامل جواب دیا: وہی جس سے آپ کو نفرت ہے۔ بس پھر کیا تھا مشق ستم گری شروع ہوگئی۔ بے رحمانہ مار پیٹ کے بعد تھک کر بیٹھ گئے اور ساتھ یہ بھی کہا: یہ نہ سمجھنا کہ مجھے تم پر رحم آ گیا ہے۔
مگر تحسین و سلام ہو حضورؐ کی اس خادمہ اور قرآن کی قاریہ پر کہ ایک لحظے کے لیے بھی پائے استقلال میں جنبش نہیں آئی۔ بھائی سے پورے جذبہ استقامت و بسالت سے کہہ دیا: اے بھائی! قبول حق کے جرم میں جو چاہو سزا دو اب حب رسول کریمؐ اور لطافت قرآن دل سے نہیں نکل سکتی۔
عمر بن خطابؓ نے جب اپنی بہن کی یہ غیر معمولی عزیمت و جرأت دیکھی تو سوچنے لگے کہ یہ کوئی نادرالوجود کلام ہے، جس نے بہن کو اس حد تک متاثر کر دیا ہے کہ اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں ہے۔ تو دل یوں انقلاب آفرین انگڑئیاں لینے لگا جیسے صحرا میں ہولے سے باد ِ نسیم چل کر کسی بیمار کو بے وجہ قرار بخش دے۔ بہن سے کہا: مجھے بھی دکھاؤ جو پڑھ رہی تھی۔ بہن نے ایک بار پھر جرأت مندانہ لہجے میں جواب دیا: یہ مقدس و پاکیزہ کلام ہے جسے پاکیزہ جسم کے ساتھ ہی چُھوا اور پڑھا جاسکتا ہے ۔
بہن نے اپنے اس اصرار پر عمل کروا کر ہی آیات مقدسہ کی زیارت کروائی، ایک دو آیات کی قرأت نے ہی سخت جان و دل عمرؓ پر لرزہ طاری کردیا۔ گوشہ ہائے چشم سے آنسو ڈھلک پڑے عالم از خود رفتگی کی کیفیت طاری ہوگئی، تخیل کی اڑان یہاں تک پہنچ گئی ۔
مجھے تو ناز تھا ضبط ِ غم درد ِ محبت پر
یہ آنسو آج کیوں بے چین ہو ہو کر نکلتے ہیں
حکیم الامت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے سیدنا عمر فاروقؓ کے قبول اسلام، قرآن کے سوز و گداز اور خواہر عمرؓ کے پُرخلوص جذبے کی بہت خوب صورت انداز میں عکاسی کی ہے
زشام ِ ما بروں آور سحر را
بہ قرآں باز خواں اہل نظر را
تو می دانی کہ سوز قرات او
دگرگوں کرد تقدیر عمرؓ را
سیدنا عمر فاروقؓ اسی عالم وجد میں صاحب قرآن کو تلاش کرتے سیدھے دار ارقم پہنچے۔ جہاں محسن کائناتؐ اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ درواز اندر سے بند تھا، آپؓ نے دستک دی، صحابہؓ نے جھانک کر دیکھا تو ''مرادِ رسولؐ'' مرید کی صورت میں کھڑا تھا۔ صحابہؓ نے انداز خشیت میں عرض کیا: حضور ﷺ باہر عمر بن خطاب تلوار حمائل کیے کھڑے ہیں۔
ضیغم اسلام حضرت حمزہؓ نے کہا: دروازہ کھول دو، اس کا ارادہ نیک ہوا تو ٹھیک ورنہ نمٹ لیں گے۔ حضور ﷺ کو اپنی دعا کی قبولیت کا طلوع خورشید ِ فردا کی طرح یقین تھا۔ دروازہ کھولا گیا تو حضورؐ نے دوش عمرؓ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: کب تک دور رہو گے۔ دست نبوتؐ کے لمس سے عمرؓ سیسے کی طرح پگھل گیا، عمرؓ کی نیاز مندانہ اشک باری نے گداز انگیز سماں پیدا کردیا۔
عرض کیا: آقاﷺ! قلاوہ ِ غلامی زیب گلو کرنے کے لیے حاضر ہُوا ہوں۔ حضور ﷺ نے غایت ِ فرحت و انبساط سے اپنے رفقاء کے ساتھ مل کر اس جلالیت سے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ عالم کفر لرزہ براندام ہوگیا ۔ سیّدنا عمرؓ نے عرض کیا: آقا ﷺ! کیا ہم حق پر نہیں؟ حضورؐ نے فرمایا: بلاشبہ! ہم صراط ِ مستقیم پر ہیں۔ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: تو پھر عبادت گزاری کنج عزلت میں کیو ں۔ ہم بہ بانگ دہل اعلائے کلمۃ الحق کرتے ہو ئے بیت اﷲ میں اﷲ کے حضور سر بہ سجود ہوں گے۔ چناں چہ اعلان نبوتؐ کے بعد پہلی بار مسلمانوں نے بیت اﷲ شریف میں نماز ادا کی۔
وہ کتنا جلال انگیز اور سرور آفرین منظر تھا جب حضور ﷺ اپنے رفقاء اور اپنی مراد سیدنا عمرؓ کے ساتھ عبادت الٰہی کے لیے بیت اﷲ شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے داخل ہوتے ہی قائدین کفر کو للکارا: جس نے اپنے بچوں کو یتیم کرنا ہے وہ سامنے آجائے۔ حضرت عمرؓ کے اس نعرہ رندانہ سے باطل دبک گیا۔
انہی ایمان پرور لمحوں میں حضور ؐ نے سیدنا عمرؓ کو فاروق کا لامثال لقب عطا فرمایا۔ آج تک تاریخ انہیں فاروق اعظم کے لقب سے یاد کرتی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی بے مثال بسالت و اولولعزمی کا ایک واقعہ ہجرت ِ مدینہ کا بھی ہے، دیگر صحابہؓ رات کی تاریکی میں عازم ِ مدینہ ہوئے مگر حضرت فاروق اعظمؓ نے دن کے اجالوں میں بیت اﷲ پہنچ کر ڈنکے کی چوٹ پر اپنی مدینہ روانگی کا اعلان کیا۔ کسی مائی کے لعل کو انہیں روکنے کی جرأت نہ ہوئی۔
حب ِ رسول کریم ﷺ آپؓ کی رگ رگ میں اس حد تک سرایت کر چکی تھی کہ حضورؐ کے وصال کے وقت آپؓ تلوار میان سے نکال کر کھڑے ہوگئے اور اعلان کیا: اگر کسی نے حضورؐ کی وفات کا نام لیا تو تیغ عمر اس کا سر تن سے جدا کر دے گی۔ آپؓ پر بار خلافت پڑا تو جلال و سطوت ِ عمرؓ حلیمی و بردباری میں بدل گئی۔ تقسیم مال غنیمت کے وقت بھرے دربار میں آپؓ سے بے باکانہ سوال کیا جاتا ہے: اے امیر المومنین! سب کوایک ایک چادر ملی آپؓ کے پاس دو کیوں ؟ تربیت یافتۂ فیضان رسالتؐ سیّدنا عمرؓ کمال تحمل سے جبین پر شکن ڈالے بغیر اس کا شافی جواب دیتے ہیں۔
عدل عمرؓ، عہد ِ فاروقی کا وہ زرّیں باب ہے تاریخ جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ مے نوشی پر گواہی ثابت ہو جانے پر اپنے صاحب زادے پر بھی شرعی حد کا سختی سے نفاذ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شاید اسی لیے مائیکل ہارٹ نے کہا تھا: اگر اسلام کو ایک اور عمر مل جاتا تو دنیا میں اسلام ہی اسلام ہوتا۔