دکھی بیٹیوں کے مظلوم باپ
میں کل ہوں پاکستان کا۔ وہ کل جس کو ہمیں بہترکرنے کی شدید ضرورت ہے، میری عمر پانچ سال ہے اور میرے...
میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور محبت کے دھاگے سے بندھا ہوتا ہے۔ بچے اس ڈور کو مضبوط کر دیتے ہیں۔ اس کے باوجود اگر رشتہ ٹوٹ جائے تو؟ شوہر کا گھر چھوڑنے والی کہاں جاتی ہے؟ وہ مظلوم شخص ہوتا ہے جسے اب تک ہمارے ادب وکالم نگاری میں نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور وہ ہے لڑکی کا باپ۔ وہ درماندہ انسان جس پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اس ماہ کے مقدمات میں دو ایسے آدمی نظر آئے جن کے چہرے پر مظلومیت تھی، بے چارگی تھی، مایوسی تھی۔ آئیے! ہم اس شخص کی نفسیات بھی سمجھتے ہیں اور معاشرے میں ابھرنے والے میاں بیوی کے تنازعوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں اس میں وہ بچے بھی مظلوم دکھائی دیں گے جن پر ماں باپ میں سے کسی ایک کی جدائی کے علاوہ ایک نیا ظلم بھی سامنے آیا ہے۔ ظلم تو پرانا ہے لیکن مقدمے کی نوعیت الگ و منفرد ہے جس پر ''عزم نو'' میں پہلی مرتبہ اظہار خیال کیا جا رہا ہے۔
شادی شدہ شخص بیٹے کے علاوہ بیٹی کی پیدائش پر بھی فرحت محسوس کرتا ہے۔ راحت کے علاوہ اس کے اندر ذمے داری کا احساس بھی ہوتا ہے جب وہ پہلی مرتبہ بیٹی کا باپ بنتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ ہر عورت کو اب بہن بیٹی کی نگاہ سے دیکھتا ہوگا۔ راقم کو تو بیٹی کا باپ ہونے کا اعزاز نہیں ملا جسے رب کی مرضی کہا جاسکتا ہے۔ قیاس کی بنیاد پر ہر بیٹی کے باپ کو ذمے دار فرد سمجھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ جوں جوں بیٹی بڑی ہوتی جاتی ہوگی تو لگتا ہے کہ اس کے ابو ، پاپا، ڈیڈی، بابا کہلانے والے کی خوشی بھی بڑھتی جاتی ہوگی۔ اسے ہر دم یہ احساس رہتا ہوگا کہ ایک دن بچی کو رخصت کرنا ہے۔ رشتہ آنے پر وہ ممکنہ حد تک تحقیقات کرتا ہوگا۔ رشتہ دینے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ اس پر ہم ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کالم ایسا ہے جس میں بیٹیوں کے باپ مظلوم سے نظر آتے ہیں جب کہ کچھ بچے وقت سے پہلے بڑے بن جاتے ہیں۔
ٹی وی پر ڈرامہ آرہا ہے۔ بیس سالہ زبیر برابر میں بیٹھا تھا۔ ایک آدمی کی دو بیٹیاں ہوتی ہیں۔ بڑی کی عمر زیادہ ہوچکی ہوتی ہے اور وہ قبول صورت ہوتی ہے۔ چھوٹی خوبصورت ہوتی ہے اور کالج میں پڑھتی ہے۔ باپ کا کردار بہروز سبزواری نے ادا کیا تھا۔ ایک دن وہ باپ گھر کے دروازے تک آتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان اس کے گھر پر پتھر میں کوئی کاغذ باندھ کر پھینک رہا ہوتا ہے۔ باپ اس نوجوان کو پیچھے سے پکڑ لیتا ہے۔ پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ وہ بڑی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ سیدھا سادھا نوجوان بارہویں جماعت پاس ہوتا ہے اور کسی دفتر میں نوکری کرتا ہے۔ باپ اس سے کہتا ہے کہ اگر تم سنجیدہ ہو تو اپنے ماں باپ کو بھیجو۔ بالآخر وہ رشتہ طے پا جاتا ہے۔ ڈرامہ ختم ہوا کہ ہر رشتہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زبیر سے پوچھا کہ اگر یہ لڑکا اس آدمی کی چھوٹی بیٹی سے رشتہ مانگتا تو یہ ہاں کرتا؟ نوجوان کا جواب تھا کہ نہیں۔ یہ جواب درست تھا۔ گویا رشتہ کب اور کسے دینا ہے؟ جب یہ بیس سال کا جانتا ہے تو وہ کہیں بہتر سمجھتا ہوگا جو چالیس سے ساٹھ کا ہے اور بالغ بیٹی کا باپ ہے۔ بچی کا رشتہ آنے پر ہاں یا ناں کرنے میں اس سے زیادہ فکرمند اور محتاط اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی غلطی ہوجاتی ہے۔ بیٹی اس شخص کے داماد سے لڑ کر واپس آجاتی ہے اور اس کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ اب غلطی کس کی ہے؟ ہم اسے ففٹی ففٹی ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں پسنے والا ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہوتا ہے اور کچھ بچے۔ ہم آج اسی موضوع پر ایک مظلوم یعنی اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو نانا بن کر اب اپنے نواسوں یا نواسیوں کی پرورش کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
دفترکی کرسیوں پر سامنے چار لوگ بیٹھے تھے۔ سسر و داماد اور ان کے دو رشتے دار جو صلح چاہتے ہیں۔عامر اور فوزیہ کی دو برس کی بیٹی ہے۔ فوزیہ کے والد نے بیٹی بھی دی اور ساتھ میں اچھی خاصی مالیت کا مکان بھی، جس میں جوڑا رہائش پذیر تھا۔ جب جھگڑا ہوتا تو عامر گھر چھوڑ کر اپنی ماں کے گھر چلا جاتا جو ایک بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ فوزیہ مجبوراً اپنی بیمار بیٹی کو لے کر والدین کے گھر آجاتی۔ عامر کے سسر کے بقول ان کا داماد بیمار بچی کی پیدائش کے بعد فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ سلسلہ دو سال سے چل رہا ہے اور اب کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے یہ چار حضرات دفتر میں بیٹھے تھے۔ یہ ان کے ساتھ علیحدہ اور ساتھ کل ملاکر یہ ساتویں ملاقات تھی۔ کئی مرتبہ عامر کو سمجھا بجھا کر بھیجا جاچکا ہے۔ وہ کوئی شکایت بیان نہیں کر رہا تھا جو عموماً شوہروں کو بیویوں سے ہوتی ہے۔ آمدنی سے زیادہ اخراجات، بدتمیزی، والدین کے گھر زیادہ جانا یا ماں کو چھوٹی چھوٹی باتیں بتانا؟ عامر نے کسی سوال کے جواب میں ہاں نہ کہی۔ وہ بیمار بیٹی کی ذمے داریوں سے فرار چاہتا ہے۔ پورے معاملے میں عامر کے سسر حفیظ صاحب کی مظلومیت، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ وہ ہر صورت میں چاہتے تھے کہ بچی کا گھر بس جائے۔ ایک شخص بیٹی کے رشتے کے بعد فرض سے سبکدوشی محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بچی سے جدائی کا صدمہ تو ہوتا ہے لیکن باپ سمجھتا ہے کہ اب اس کے کندھے کچھ ہلکے ہو گئے ہیں۔ اب جب کہ وہ دوسرے بچوں کے فرائض پر متوجہ ہونا چاہتا ہے تو خبر ملتی ہے کہ جس بچی کی شادی کی تھی اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس آگئی ہے۔ وہ اسے آزمائش سمجھ کر اور رب کی رضا قرار دے کر دکھی دل کے ساتھ قبول کرتا ہے۔
دوسرا مقدمہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ ہے۔ ایسے واقعات تو پیش آتے رہتے ہوں گے لیکن واسطہ نہ پڑا تو ہم نے اپنے کالم میں اس کا اظہار نہیں کیا۔ ثمینہ کے چار بچوں میں سے ایک اس کے پاس ہے۔ باپ تین بچوں کو لے کر علیحدہ رہ رہا ہے۔ کل جب مقدمہ داخل کرنے کے لیے ثمینہ کو عدالت میں بلایا تو اس کے ساتھ پانچ سالہ عبداللہ بھی تھا۔ نہ صرف باپ سے محرومی بلکہ بھائی بہنوں سے بھی محرومی کے صدمے سے بے خبر۔ دوسری طرف وہ تین بچے ہوں گے جو ماں کی ممتا کو ترستے ہوں گے تو وہیں انھیں یہ بھی احساس ہوتا ہوگا کہ ان کا ایک اور بھائی ہے جو کہیں دور رہتا ہے۔ یہ ہے وہ انوکھی اور دل دکھانے والی بات جو اس سے قبل ہم نے اپنے کالم میں نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ بارہ تیرہ برسوں میں اس نوعیت کا کوئی مقدمہ نہیں آیا۔ پروفیشن کے ابتدائی دور میں سینئر کے ساتھ ایک آدھ معاملہ ہی سامنے آیا تھا جس میں ماں باپ نے بچوں کو کسی چیز کی طرح تقسیم کرلیا تھا۔ قلم وکالت کی یکجائی کے دوران دل دکھانے والا پہلا واقعہ ہے۔ اب ہم اس مظلوم کی طرف آتے ہیں جسے معاشرے نے بھلایا ہوا ہے اور ہم جس پر توجہ کم ہی کرتے ہیں۔ وہ ہے بیٹی کا گھر ٹوٹنے کے صدمے سے دوچار ایک مظلوم باپ۔
یہ ہم وکلا کے لیے چھوٹا صدمہ تھا۔ سوچتا ہوں کہ اگلی تاریخ کو جب ایک ماں اپنے تین بچوں سے ملے گی تو کیا ہوگا؟ ایسے مناظر اکثر نظر آتے ہیں۔ ان سے زیادہ دلگیر منظر وہ ہوگا جب ایک بھائی اپنے تین بہن بھائیوں سے ملے گا۔ ایک سال سے جدا ہوچکنے والے عدیل، شمائل اور مریم جب اپنے بھائی عبداللہ سے ملیں گے تو کیا ہوگا؟ وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ خوش ہونگے جس طرح کچھ عرصے کے بعد الگ ہونیوالے دوست ملتے ہیں۔انھیں دیکھنے والے اور ان کے حالات سے واقف جج صاحب، وکلا اور عدالتی عملہ اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی کو نہیں روک سکیں گے۔ ہم سب کچھ دیر بعد اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوجائیں گے۔ایک آدھ دن بعد یہ واقعہ نگاہوں سے اوجھل ہوچکا ہوگا۔ اگلی تاریخوں کو یہی ماں باپ اور بہن بھائی آپس میں مل رہے ہوں گے تو کیا ہوگا؟ دیکھنے والے عادی ہوچکے ہوں گے۔ شاید ایک دفعہ صدمے کی کیفیت سے گزرنے کے بعد ہم سب بے حس ہوچکے ہوں گے۔ ایک شخص گھٹ گھٹ کر جیتا ہوگا اور جی جی کر مرتا ہوگا۔ وہ شخص ہے بدقسمت بیٹی کا پریشان باپ۔ اس کا نام رفیق ہو یا حفیظ ہو یا یعقوب۔ دنیا اسے کسی بھی نام سے پکارے لیکن ہمارے لیے یہ سب ہیں دکھی بیٹیوں کے مظلوم باپ۔
شادی شدہ شخص بیٹے کے علاوہ بیٹی کی پیدائش پر بھی فرحت محسوس کرتا ہے۔ راحت کے علاوہ اس کے اندر ذمے داری کا احساس بھی ہوتا ہے جب وہ پہلی مرتبہ بیٹی کا باپ بنتا ہے۔ لگتا ہے کہ وہ ہر عورت کو اب بہن بیٹی کی نگاہ سے دیکھتا ہوگا۔ راقم کو تو بیٹی کا باپ ہونے کا اعزاز نہیں ملا جسے رب کی مرضی کہا جاسکتا ہے۔ قیاس کی بنیاد پر ہر بیٹی کے باپ کو ذمے دار فرد سمجھ کر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ جوں جوں بیٹی بڑی ہوتی جاتی ہوگی تو لگتا ہے کہ اس کے ابو ، پاپا، ڈیڈی، بابا کہلانے والے کی خوشی بھی بڑھتی جاتی ہوگی۔ اسے ہر دم یہ احساس رہتا ہوگا کہ ایک دن بچی کو رخصت کرنا ہے۔ رشتہ آنے پر وہ ممکنہ حد تک تحقیقات کرتا ہوگا۔ رشتہ دینے کی نوعیت کیا ہوتی ہے؟ اس پر ہم ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ کالم ایسا ہے جس میں بیٹیوں کے باپ مظلوم سے نظر آتے ہیں جب کہ کچھ بچے وقت سے پہلے بڑے بن جاتے ہیں۔
ٹی وی پر ڈرامہ آرہا ہے۔ بیس سالہ زبیر برابر میں بیٹھا تھا۔ ایک آدمی کی دو بیٹیاں ہوتی ہیں۔ بڑی کی عمر زیادہ ہوچکی ہوتی ہے اور وہ قبول صورت ہوتی ہے۔ چھوٹی خوبصورت ہوتی ہے اور کالج میں پڑھتی ہے۔ باپ کا کردار بہروز سبزواری نے ادا کیا تھا۔ ایک دن وہ باپ گھر کے دروازے تک آتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان اس کے گھر پر پتھر میں کوئی کاغذ باندھ کر پھینک رہا ہوتا ہے۔ باپ اس نوجوان کو پیچھے سے پکڑ لیتا ہے۔ پوچھنے پر وہ بتاتا ہے کہ وہ بڑی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ سیدھا سادھا نوجوان بارہویں جماعت پاس ہوتا ہے اور کسی دفتر میں نوکری کرتا ہے۔ باپ اس سے کہتا ہے کہ اگر تم سنجیدہ ہو تو اپنے ماں باپ کو بھیجو۔ بالآخر وہ رشتہ طے پا جاتا ہے۔ ڈرامہ ختم ہوا کہ ہر رشتہ برابری کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ زبیر سے پوچھا کہ اگر یہ لڑکا اس آدمی کی چھوٹی بیٹی سے رشتہ مانگتا تو یہ ہاں کرتا؟ نوجوان کا جواب تھا کہ نہیں۔ یہ جواب درست تھا۔ گویا رشتہ کب اور کسے دینا ہے؟ جب یہ بیس سال کا جانتا ہے تو وہ کہیں بہتر سمجھتا ہوگا جو چالیس سے ساٹھ کا ہے اور بالغ بیٹی کا باپ ہے۔ بچی کا رشتہ آنے پر ہاں یا ناں کرنے میں اس سے زیادہ فکرمند اور محتاط اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اس کے باوجود بھی غلطی ہوجاتی ہے۔ بیٹی اس شخص کے داماد سے لڑ کر واپس آجاتی ہے اور اس کے ساتھ بچے بھی ہوتے ہیں۔ اب غلطی کس کی ہے؟ ہم اسے ففٹی ففٹی ہی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں پسنے والا ایک ادھیڑ عمر کا شخص ہوتا ہے اور کچھ بچے۔ ہم آج اسی موضوع پر ایک مظلوم یعنی اس شخص کی بات کر رہے ہیں جو نانا بن کر اب اپنے نواسوں یا نواسیوں کی پرورش کی ذمے داریاں نبھا رہے ہیں۔
دفترکی کرسیوں پر سامنے چار لوگ بیٹھے تھے۔ سسر و داماد اور ان کے دو رشتے دار جو صلح چاہتے ہیں۔عامر اور فوزیہ کی دو برس کی بیٹی ہے۔ فوزیہ کے والد نے بیٹی بھی دی اور ساتھ میں اچھی خاصی مالیت کا مکان بھی، جس میں جوڑا رہائش پذیر تھا۔ جب جھگڑا ہوتا تو عامر گھر چھوڑ کر اپنی ماں کے گھر چلا جاتا جو ایک بیٹے کے ساتھ رہتی تھی۔ فوزیہ مجبوراً اپنی بیمار بیٹی کو لے کر والدین کے گھر آجاتی۔ عامر کے سسر کے بقول ان کا داماد بیمار بچی کی پیدائش کے بعد فرار کے راستے ڈھونڈ رہا ہے۔ یہ سلسلہ دو سال سے چل رہا ہے اور اب کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے کے لیے یہ چار حضرات دفتر میں بیٹھے تھے۔ یہ ان کے ساتھ علیحدہ اور ساتھ کل ملاکر یہ ساتویں ملاقات تھی۔ کئی مرتبہ عامر کو سمجھا بجھا کر بھیجا جاچکا ہے۔ وہ کوئی شکایت بیان نہیں کر رہا تھا جو عموماً شوہروں کو بیویوں سے ہوتی ہے۔ آمدنی سے زیادہ اخراجات، بدتمیزی، والدین کے گھر زیادہ جانا یا ماں کو چھوٹی چھوٹی باتیں بتانا؟ عامر نے کسی سوال کے جواب میں ہاں نہ کہی۔ وہ بیمار بیٹی کی ذمے داریوں سے فرار چاہتا ہے۔ پورے معاملے میں عامر کے سسر حفیظ صاحب کی مظلومیت، بے چارگی اور بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ وہ ہر صورت میں چاہتے تھے کہ بچی کا گھر بس جائے۔ ایک شخص بیٹی کے رشتے کے بعد فرض سے سبکدوشی محسوس کرتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ بچی سے جدائی کا صدمہ تو ہوتا ہے لیکن باپ سمجھتا ہے کہ اب اس کے کندھے کچھ ہلکے ہو گئے ہیں۔ اب جب کہ وہ دوسرے بچوں کے فرائض پر متوجہ ہونا چاہتا ہے تو خبر ملتی ہے کہ جس بچی کی شادی کی تھی اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ واپس آگئی ہے۔ وہ اسے آزمائش سمجھ کر اور رب کی رضا قرار دے کر دکھی دل کے ساتھ قبول کرتا ہے۔
دوسرا مقدمہ اپنی نوعیت کا عجیب مقدمہ ہے۔ ایسے واقعات تو پیش آتے رہتے ہوں گے لیکن واسطہ نہ پڑا تو ہم نے اپنے کالم میں اس کا اظہار نہیں کیا۔ ثمینہ کے چار بچوں میں سے ایک اس کے پاس ہے۔ باپ تین بچوں کو لے کر علیحدہ رہ رہا ہے۔ کل جب مقدمہ داخل کرنے کے لیے ثمینہ کو عدالت میں بلایا تو اس کے ساتھ پانچ سالہ عبداللہ بھی تھا۔ نہ صرف باپ سے محرومی بلکہ بھائی بہنوں سے بھی محرومی کے صدمے سے بے خبر۔ دوسری طرف وہ تین بچے ہوں گے جو ماں کی ممتا کو ترستے ہوں گے تو وہیں انھیں یہ بھی احساس ہوتا ہوگا کہ ان کا ایک اور بھائی ہے جو کہیں دور رہتا ہے۔ یہ ہے وہ انوکھی اور دل دکھانے والی بات جو اس سے قبل ہم نے اپنے کالم میں نہیں کی۔ شاید اس لیے کہ بارہ تیرہ برسوں میں اس نوعیت کا کوئی مقدمہ نہیں آیا۔ پروفیشن کے ابتدائی دور میں سینئر کے ساتھ ایک آدھ معاملہ ہی سامنے آیا تھا جس میں ماں باپ نے بچوں کو کسی چیز کی طرح تقسیم کرلیا تھا۔ قلم وکالت کی یکجائی کے دوران دل دکھانے والا پہلا واقعہ ہے۔ اب ہم اس مظلوم کی طرف آتے ہیں جسے معاشرے نے بھلایا ہوا ہے اور ہم جس پر توجہ کم ہی کرتے ہیں۔ وہ ہے بیٹی کا گھر ٹوٹنے کے صدمے سے دوچار ایک مظلوم باپ۔
یہ ہم وکلا کے لیے چھوٹا صدمہ تھا۔ سوچتا ہوں کہ اگلی تاریخ کو جب ایک ماں اپنے تین بچوں سے ملے گی تو کیا ہوگا؟ ایسے مناظر اکثر نظر آتے ہیں۔ ان سے زیادہ دلگیر منظر وہ ہوگا جب ایک بھائی اپنے تین بہن بھائیوں سے ملے گا۔ ایک سال سے جدا ہوچکنے والے عدیل، شمائل اور مریم جب اپنے بھائی عبداللہ سے ملیں گے تو کیا ہوگا؟ وہ اتنے چھوٹے ہیں کہ خوش ہونگے جس طرح کچھ عرصے کے بعد الگ ہونیوالے دوست ملتے ہیں۔انھیں دیکھنے والے اور ان کے حالات سے واقف جج صاحب، وکلا اور عدالتی عملہ اپنی آنکھوں میں آنے والی نمی کو نہیں روک سکیں گے۔ ہم سب کچھ دیر بعد اپنے اپنے کاموں میں مگن ہوجائیں گے۔ایک آدھ دن بعد یہ واقعہ نگاہوں سے اوجھل ہوچکا ہوگا۔ اگلی تاریخوں کو یہی ماں باپ اور بہن بھائی آپس میں مل رہے ہوں گے تو کیا ہوگا؟ دیکھنے والے عادی ہوچکے ہوں گے۔ شاید ایک دفعہ صدمے کی کیفیت سے گزرنے کے بعد ہم سب بے حس ہوچکے ہوں گے۔ ایک شخص گھٹ گھٹ کر جیتا ہوگا اور جی جی کر مرتا ہوگا۔ وہ شخص ہے بدقسمت بیٹی کا پریشان باپ۔ اس کا نام رفیق ہو یا حفیظ ہو یا یعقوب۔ دنیا اسے کسی بھی نام سے پکارے لیکن ہمارے لیے یہ سب ہیں دکھی بیٹیوں کے مظلوم باپ۔