کراچی کیسے فتح ہوگا
میں کل ہوں پاکستان کا۔ وہ کل جس کو ہمیں بہترکرنے کی شدید ضرورت ہے، میری عمر پانچ سال ہے اور میرے...
لاہور:
سندھ بھر میں 27 ہزار پولیس اہلکاروں کی نفری، جب کہ کراچی کے لیے 7 ہزار پولیس اہلکار کروڑوں کی آبادی میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کے مطابق ان 27 ہزار پولیس اہلکاروں میں 12 ہزار سے 13 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی تھانوں میں کی گئی ہے۔ 7 ہزار پولیس اہلکاروں کی مجموعی تعداد جہاں ناکافی ہے تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد سیاسی اور نامور شخصیات سمیت مختلف اداروں اور وی آئی پی پروٹوکول میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اور ڈیوٹیوں سے چھٹی پر بھی ہوتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی شاہد حیات کے مطابق حکومت کی جانب سے انھیں فنڈز ملے ہیں جس سے ان کا محکمہ بلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹ اور اسلحہ خرید رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کا محکمہ انویسٹی گیشن اور انسداد دہشت گردی پر خصوصی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہی ہے کہ پولیس جدید تقاضوں کے مطابق ڈھلی ہوئی نہیں ہے، اگر ان کا موازنہ ترقی یافتہ جرائم پیشہ افراد، گروہ سے کیا جائے۔ پولیس کے پاس روایتی اسلحہ، تو جرائم پیشہ گروہ کے پاس ہینڈ گرینیڈ، راکٹ لانچر سے لے کر اینٹی ٹینک گولے و ایمونیشن موجود ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کے پاس جرائم کی ترویج کے لیے جدید مواصلاتی رابطے اور انٹرنیٹ سمیت تمام جدید آلات و وسائل، جب کہ پولیس کے پاس ایسے وائرلیس سیٹ جو کہ جرائم پیشہ عناصر کے پاس بھی موجود ہیں جو ان کی فریکوئنسی سے پولیس کی نقل و حمل کی تمام حرکات کو باآسانی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کو اطلاعات تک رسائی کے لیے پولیس میں موجود کالی بھیڑیں وافر مقدار میں دستیاب، جب کہ پولیس مخبری کے لیے جرائم پیشہ عناصر کی محتاج۔
غرض یہ کہ پولیس کا محکمہ جرائم پیشہ گروہ کے سامنے انتہائی کمزور وسائل کا مالک ہے اور دوسری سب سے اہم وجہ خود پولیس میں ایسے افسران و اہلکاروں کی بہتات ہے جن کا منشور زیادہ سے زیادہ رشوت کا حصول ہے اور اس کے لیے ہر حربہ جائز پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کو سخت چیلنج دینا ناممکن ہے، کیوںکہ پولیس کے اندر وہ استعداد کار موجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے رینجرز کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اختیارات کی تقسیم سمیت دیگر معاملات میںجرائم پیشہ گروہوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ گو کہ کراچی پولیس کے لیے 1200 ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو جلد بھرتی کرنے کی نوید سنائی جارہی ہے اور دوسرے مرحلے میں مزید 1000 سابق فوجیوں کو بھرتی کرنے کی پلاننگ موجود ہے۔ لیکن اب بھی پولیس کے ارباب اختیار اس اہم نکتے پر یکسو نہیں ہوسکے ہیں کہ جرائم کے خاتمے کے لیے آزمودہ کار نسخہ مقامی پولیس ہے۔
اندرون سندھ یا دیگر صوبوں سے پولیس یا فورس لانے سے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں اور شہر کے مسائل میں دگرگوں اضافہ ہورہا ہے۔ مقامی افراد کی بھرتی نے بجائے شہر سے ناواقف، دور دراز علاقوں سے سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر بھرتی کیے جانے والے افراد، مقامی ضروریات و مسائل سے ناآشنا ہونے کے سبب، مسائل کو حل کرنے اور جرائم کے خاتمے کے لیے اہل نہیں ہیں۔ تاہم اس کے باوجود پولیس چیف کی جانب سے اس بات پر اصرار ہے کہ جرائم میں کمی واقع ہورہی ہے اور ستمبر 2013 تک جرائم کے مقابلے میں دسمبر 2013 تک 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے، تو ایسے حالات سے آگاہی اختیار کرنے والے واضح طورپر خوش فہمی قرار دے رہے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن میں جس طرح پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کردار ادا کررہے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا واقعی آپریشن سے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کیا کراچی اس طرح فتح ہوگا؟
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں دید و شنید کے ساتھ ایسے معاملات کو منظر عام پر لاچکا ہوں کہ متنازعہ کراچی آپریشن میں بغاوت، انارکی اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے سوچی سمجھی سازش کی جارہی ہے اور یہ سازش کرنے والے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔
لانڈھی تھانے سے گرفتار ایک ملزم نایاب کو زخمی حالت میں جیل لایا گیا، زخمی ملزم پنکھے بنانے کا کام کرتا ہے اور روایتی طورپر اسے بھی 23-A کے تحت گرفتار کیا گیا۔ غیر قانونی اسلحہ کے الزام کے تحت آنے والے اس ملزم کی حالت دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ بہت خطرناک ملزم ہے۔ صحافتی رگ پھڑک رہی تھی اس لیے دوسرے دن بڑی مشکل سے خود کو ڈرتے ڈرتے اس قابل بنایا کہ اس ''خطرناک'' ملزم سے احوال خیریت دریافت کروں۔ موصوف نے بتایاکہ اسے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کام سے گھر آرہا تھا۔ سرکاری اہلکار اسے گھر کے سامنے سے اٹھا کر لے گئے۔ پھر ایک عقوبت خانے میں اس پر تشدد کا آغاز ہوا۔ اس نے بتایا کہ تکلیف کی شدت سے اس نے اپنے آپ کو دانتوں سے کاٹنا شروع کردیا۔ تشدد کی یہ ہولناک داستان یہیں ختم نہیں ہوئی۔
اس کی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تشدد کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہا تھا اور اس کی کہانی سن کر یقین اس لیے آیا کہ اس کی حالت انتہائی خستہ و دیدنی تھی جو اس کے بیان کی تصدیق کررہی تھی۔ اس کی پنڈلیوں میں زخم دیکھے تو اس نے بتایاکہ یہاں اسے بید سے مار مار کر زخمی کیا گیا اور زخمی پنڈلیوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ جب اس پر الزام دیکھا تو 23-A کا نکلا جو کہ 3 ماہ کے اس آپریشن میں سب سے زیادہ ملزمان کی گرفتاریوں میں نظر آئے۔ غیر قانونی اسلحے کے جرم کے اس ملزم سے پوچھا کہ کیا اس نے واہ کینٹ، واہ فیکٹری کے مقابل کوئی غیر قانونی اسلحہ فیکٹری بنائی ہے یا پھر اس کے گھر میں اسلحہ بنانے کا کارخانے ہے یا پھر جہازوں یا لانچوں سے اسلحہ لاتے ہوںگے۔ بھلا اس قدر تشدد کے بعد کچھ نہ کچھ تو تم پر ثابت ہوا ہوگا تو صرف اس کا ایک جواب تھا کہ ''میں کراچی کا شہری ہوں''۔
پھر اس کے بعد مجھ میں پوچھنے کا حوصلہ نہ رہا اور میں ابھی تک اس کیفیت سے باہر بھی نہیں نکل سکا ہوں کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدلیہ سمیت ارباب اختیار اس نوجوان جسے سیکڑوں نوجوانوں کے دل و دماغ کی کیفیت سے آگاہ ہیں کہ جب یہ اپنے دل میں نفرت کا طوفان لے کر جیل سے باہر نکلیںگے تو کیا وہ ان کا احترام کریںگے۔
یقینی طورپر ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ افراد یا ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے۔ سوات میں فوج، عوام کی مدد سے ہی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بھلا جس شہر کی عوام کو حکومتی ادارے اپنے مخالف کردیں تو کیا وہ جنگ جیتی جاسکتی ہے؟
سندھ بھر میں 27 ہزار پولیس اہلکاروں کی نفری، جب کہ کراچی کے لیے 7 ہزار پولیس اہلکار کروڑوں کی آبادی میں جرائم کو کنٹرول کرنے کے لیے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی کراچی شاہد حیات کے مطابق ان 27 ہزار پولیس اہلکاروں میں 12 ہزار سے 13 ہزار اہلکاروں کی تعیناتی تھانوں میں کی گئی ہے۔ 7 ہزار پولیس اہلکاروں کی مجموعی تعداد جہاں ناکافی ہے تو دوسری طرف ایک بڑی تعداد سیاسی اور نامور شخصیات سمیت مختلف اداروں اور وی آئی پی پروٹوکول میں ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں اور ڈیوٹیوں سے چھٹی پر بھی ہوتے ہیں۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی شاہد حیات کے مطابق حکومت کی جانب سے انھیں فنڈز ملے ہیں جس سے ان کا محکمہ بلٹ پروف جیکٹ، ہیلمٹ اور اسلحہ خرید رہے ہیں۔ ان کے مطابق ان کا محکمہ انویسٹی گیشن اور انسداد دہشت گردی پر خصوصی توجہ مرکوز کررہے ہیں۔
قابل ذکر بات یہی ہے کہ پولیس جدید تقاضوں کے مطابق ڈھلی ہوئی نہیں ہے، اگر ان کا موازنہ ترقی یافتہ جرائم پیشہ افراد، گروہ سے کیا جائے۔ پولیس کے پاس روایتی اسلحہ، تو جرائم پیشہ گروہ کے پاس ہینڈ گرینیڈ، راکٹ لانچر سے لے کر اینٹی ٹینک گولے و ایمونیشن موجود ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کے پاس جرائم کی ترویج کے لیے جدید مواصلاتی رابطے اور انٹرنیٹ سمیت تمام جدید آلات و وسائل، جب کہ پولیس کے پاس ایسے وائرلیس سیٹ جو کہ جرائم پیشہ عناصر کے پاس بھی موجود ہیں جو ان کی فریکوئنسی سے پولیس کی نقل و حمل کی تمام حرکات کو باآسانی مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ عناصر کو اطلاعات تک رسائی کے لیے پولیس میں موجود کالی بھیڑیں وافر مقدار میں دستیاب، جب کہ پولیس مخبری کے لیے جرائم پیشہ عناصر کی محتاج۔
غرض یہ کہ پولیس کا محکمہ جرائم پیشہ گروہ کے سامنے انتہائی کمزور وسائل کا مالک ہے اور دوسری سب سے اہم وجہ خود پولیس میں ایسے افسران و اہلکاروں کی بہتات ہے جن کا منشور زیادہ سے زیادہ رشوت کا حصول ہے اور اس کے لیے ہر حربہ جائز پولیس کی جانب سے جرائم پیشہ عناصر کو سخت چیلنج دینا ناممکن ہے، کیوںکہ پولیس کے اندر وہ استعداد کار موجود ہی نہیں ہے۔ اس لیے پولیس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بجائے رینجرز کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا لیکن اختیارات کی تقسیم سمیت دیگر معاملات میںجرائم پیشہ گروہوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ گو کہ کراچی پولیس کے لیے 1200 ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کو جلد بھرتی کرنے کی نوید سنائی جارہی ہے اور دوسرے مرحلے میں مزید 1000 سابق فوجیوں کو بھرتی کرنے کی پلاننگ موجود ہے۔ لیکن اب بھی پولیس کے ارباب اختیار اس اہم نکتے پر یکسو نہیں ہوسکے ہیں کہ جرائم کے خاتمے کے لیے آزمودہ کار نسخہ مقامی پولیس ہے۔
اندرون سندھ یا دیگر صوبوں سے پولیس یا فورس لانے سے مسائل سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہے ہیں اور شہر کے مسائل میں دگرگوں اضافہ ہورہا ہے۔ مقامی افراد کی بھرتی نے بجائے شہر سے ناواقف، دور دراز علاقوں سے سیاسی اثر و رسوخ کی بناء پر بھرتی کیے جانے والے افراد، مقامی ضروریات و مسائل سے ناآشنا ہونے کے سبب، مسائل کو حل کرنے اور جرائم کے خاتمے کے لیے اہل نہیں ہیں۔ تاہم اس کے باوجود پولیس چیف کی جانب سے اس بات پر اصرار ہے کہ جرائم میں کمی واقع ہورہی ہے اور ستمبر 2013 تک جرائم کے مقابلے میں دسمبر 2013 تک 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے، تو ایسے حالات سے آگاہی اختیار کرنے والے واضح طورپر خوش فہمی قرار دے رہے ہیں۔ کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن میں جس طرح پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کردار ادا کررہے ہیں وہ اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سوچنے کا مقام یہ ہے کہ کیا واقعی آپریشن سے جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہوجائے گا؟ کیا کراچی اس طرح فتح ہوگا؟
اپنے گزشتہ کئی کالموں میں دید و شنید کے ساتھ ایسے معاملات کو منظر عام پر لاچکا ہوں کہ متنازعہ کراچی آپریشن میں بغاوت، انارکی اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے سوچی سمجھی سازش کی جارہی ہے اور یہ سازش کرنے والے ڈھکے چھپے نہیں رہے۔
لانڈھی تھانے سے گرفتار ایک ملزم نایاب کو زخمی حالت میں جیل لایا گیا، زخمی ملزم پنکھے بنانے کا کام کرتا ہے اور روایتی طورپر اسے بھی 23-A کے تحت گرفتار کیا گیا۔ غیر قانونی اسلحہ کے الزام کے تحت آنے والے اس ملزم کی حالت دیکھ کر سوچا کہ شاید یہ بہت خطرناک ملزم ہے۔ صحافتی رگ پھڑک رہی تھی اس لیے دوسرے دن بڑی مشکل سے خود کو ڈرتے ڈرتے اس قابل بنایا کہ اس ''خطرناک'' ملزم سے احوال خیریت دریافت کروں۔ موصوف نے بتایاکہ اسے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ کام سے گھر آرہا تھا۔ سرکاری اہلکار اسے گھر کے سامنے سے اٹھا کر لے گئے۔ پھر ایک عقوبت خانے میں اس پر تشدد کا آغاز ہوا۔ اس نے بتایا کہ تکلیف کی شدت سے اس نے اپنے آپ کو دانتوں سے کاٹنا شروع کردیا۔ تشدد کی یہ ہولناک داستان یہیں ختم نہیں ہوئی۔
اس کی تکلیف کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ تشدد کی تفصیلات بتاتے ہوئے وہ زار و قطار رو رہا تھا اور اس کی کہانی سن کر یقین اس لیے آیا کہ اس کی حالت انتہائی خستہ و دیدنی تھی جو اس کے بیان کی تصدیق کررہی تھی۔ اس کی پنڈلیوں میں زخم دیکھے تو اس نے بتایاکہ یہاں اسے بید سے مار مار کر زخمی کیا گیا اور زخمی پنڈلیوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ جب اس پر الزام دیکھا تو 23-A کا نکلا جو کہ 3 ماہ کے اس آپریشن میں سب سے زیادہ ملزمان کی گرفتاریوں میں نظر آئے۔ غیر قانونی اسلحے کے جرم کے اس ملزم سے پوچھا کہ کیا اس نے واہ کینٹ، واہ فیکٹری کے مقابل کوئی غیر قانونی اسلحہ فیکٹری بنائی ہے یا پھر اس کے گھر میں اسلحہ بنانے کا کارخانے ہے یا پھر جہازوں یا لانچوں سے اسلحہ لاتے ہوںگے۔ بھلا اس قدر تشدد کے بعد کچھ نہ کچھ تو تم پر ثابت ہوا ہوگا تو صرف اس کا ایک جواب تھا کہ ''میں کراچی کا شہری ہوں''۔
پھر اس کے بعد مجھ میں پوچھنے کا حوصلہ نہ رہا اور میں ابھی تک اس کیفیت سے باہر بھی نہیں نکل سکا ہوں کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے ادارے یا عدلیہ سمیت ارباب اختیار اس نوجوان جسے سیکڑوں نوجوانوں کے دل و دماغ کی کیفیت سے آگاہ ہیں کہ جب یہ اپنے دل میں نفرت کا طوفان لے کر جیل سے باہر نکلیںگے تو کیا وہ ان کا احترام کریںگے۔
یقینی طورپر ارباب اختیار کو سمجھنا چاہیے کہ جنگ افراد یا ہتھیاروں سے نہیں بلکہ جذبوں سے جیتی جاتی ہے۔ سوات میں فوج، عوام کی مدد سے ہی جنگ جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بھلا جس شہر کی عوام کو حکومتی ادارے اپنے مخالف کردیں تو کیا وہ جنگ جیتی جاسکتی ہے؟