مہنگی ترین ایل این جی کی خریداری اور تبدیلی کے مزے
بجلی اور پٹرول تو آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے مہنگا ہوا ہے تو گیس کس کی وجہ سے مہنگی ہوئی ہے؟
یہ بات تقریباً ختم ہوچکی تھی لیکن حکومت کو شاید عادت ہے کہ اُس نے کوئی بھی اڑتا ہوا تیر ضائع نہیں جانے دینا۔ اُس کا رخ کہیں اور ہوگا لیکن انہوں نے فلائنگ جمپ کرکے اس کو بغل میں لینا ہے۔
خلیق کیانی نامور صحافی ہیں جو کہ ایک موقر روزنامے سے وابستہ ہیں۔ ان کا تجربہ اتنا ہوچکا ہے کہ ان کی خبر کی تردید سے پہلے کوئی بھی ذی شعور تین مرتبہ سوچے گا۔ انہوں نے ایک خبر دی کہ حکومت پاکستان کے ادارے پی ایس او نے گرمیوں میں تاریخ کی مہنگی ترین گیس خریدی ہے۔ یہ وزارت حماد اظہر کے ماتحت آتی ہے۔ اب حماد اظہر کے مشیران کے بھی صدقے واری جائیں جنہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ اس خبر کی تردید کر دیں۔ انہوں نے نہ یہ دیکھا کہ سامنے کون ہے اور کس کی خبر کی تردید کرنی ہے اور کس کی خبر پر چپ سادھ کر آگے نکلنا ہے، انہوں نے ٹویٹر کے پبلک فورم پر خلیق کیانی کی خبر کو تضحیک آمیز رویے سے مسترد کیا۔ جواب میں خلیق کیانی نے ان کی ہی وزارت کے ڈاکومنٹس نکال نکال کر ٹویٹ کردیے۔ جس کے بعد حکومتی کیمپ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ خلیق کیانی نے اپنی خبر پر مکمل اسٹینڈ لیا۔
تاریخ میں اس سے مہنگی ایل این جی کی بکنگ نہیں ہوئی۔ یہ بکنگ پچھلی حکومتوں سے بھی مہنگی بکنگ ہے۔
مسئلہ شاید یہ بھی نہیں ہے۔ مسئلہ اس حکومت کی نالائقی اور نااہلی ہے۔ کیسے؟ آگے بتاتا ہوں۔ پہلے یہ دیکھیے کہ ایل این جی کیا ہوتی ہے؟ اس میں گیس کو ٹھنڈا کرکے مائع بنایا جاتا ہے اور ایک مخصوص وقت تک کےلیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو جہازوں میں خصوصی طور پر بنائے گئے کنٹینرز میں محفوظ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ دنیا بھر میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر بھی ان کو زیادہ دور تک نہیں لے جاسکتے، بلکہ ساحل کے نزدیک ہی اس مائع کو دوبارہ گیس میں منتقل کیا جاتا ہے، جس کےلیے پلانٹس وغیرہ لگے ہوتے ہیں اور اس کو پھر سپلائی لائن میں شامل کردیا جاتا ہے۔ سفر کی وجہ سے ان ٹینکس کو زیادہ گھسیٹنا وغیرہ ناممکن ہوتا ہے کہ رگڑ کی وجہ سے آگ لگ سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی قطر نے ایجاد کی تھی، جس کےلیے میاں شریف مرحوم کی معاونت شامل تھی۔ اس کے بعد جب 20 سالہ دور حقوق ختم ہوا تو اس میں منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک بھی کود پڑے، جن میں امریکا سرفہرست تھا۔ امریکا کے آنے کے بعد فیئر گیم ختم ہوئی اور اس میدان میں اب ڈرٹی گیم کھیلی جارہی ہے۔ اس میدان میں عرب ممالک بھی آئے، آسٹریلیا بھی آیا، لیکن عرب ممالک کے منصوبے مناسب گاہکوں کی وجہ سے مزید آگے نہ بڑھے اور میدان میں قابل ذکر بس یہی رہے۔
جن دنوں دنیا میں پٹرول کا بحران تھا تو ایل این جی کی قیمت بھی بہت نیچے آچکی تھی۔ کورونا کے باعث دنیا بھر کی انڈسٹریز بند تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب تاریخ کی سستی ترین ایل این جی خریدی جاسکتی تھی۔ لیکن ہم تو عقل کل ہوتے ہیں، لہٰذا ہم نے اس وقت میں ایل این جی نہ خریدی۔ باوجود اس کے کہ دنیا بھر کی ریسرچ یہ کہہ رہی تھیں کہ جب بھی دنیا بیک ٹو نارمل کی جانب جائے گی تو دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں بحرانی حد تک اوپر جائیں گی۔ ہم نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ اب جب دنیا بھر کی انڈسٹریز کھل رہی ہیں اور دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں یکدم بڑھ رہی ہیں تو ہم نے عین اس وقت خریداری کی جب سر پر آن پڑی تھی۔ یعنی ہمارے عقل کل طبقے نے تقریباً ایک سال ضائع کیا اور سستی ایل این جی کی بکنگ نہ کی۔
سابق حکومت کی نفرت میں ہم نے تمام پچھلے معاہدے بھی منسوخ کردیے تھے۔ یادش بخیر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گرفتار بھی اسی ایل این جی کیس کے سلسلے میں کیا گیا تھا کہ انہوں نے غلط معاہدے کیے ہیں۔ ہم نے اُن کی اچھی مٹی پلید بھی کی تھی، سوشل میڈیا پر ان کا جلوس بھی نکالا تھا، حتیٰ کہ انھوں نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ان کو ایک ہی مرتبہ لمبا ریمانڈ دیں تاکہ میں ان کو ایل این جی کا کیس سمجھا سکوں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلی چور حکومت نے جو معاہدہ 8 ڈالر میں کیا تھا، ہماری اس صادق و امین حکومت کے ادارے پی ایل ایل نے وہی معاہدہ 15 ڈالر سے کیا ہے اور پی ایس او کا معاہدہ دیگر اخراجات ملا کر 20 ڈالر تک جائے گا۔ اس ساری مشق میں ہمیں تقریباً 95 ملین کا نقصان ہوا ہے۔ اگر یہی فیصلے بروقت کیے جاتے، لانگ ٹرم پلاننگ ہوتی تو قوم کو تقریباً 422 ملین ڈالرز کا فائدہ ہوسکتا تھا۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ صرف خلیق کیانی ہی جھوٹا نہیں ہے بلکہ پاکستان بھر کا میڈیا جھوٹ بول رہا ہے تو کیا بین الاقوامی میڈیا بھی جھوٹ بول رہا ہے؟ کیونکہ بلوم برگ نے بھی یہی رپورٹ کیا ہے۔ اس نقصان کا، اس مہنگے معاہدے کا ذمے دار کون ہے؟ اس وجہ سے اب جو گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا وہ تو عوام نے برداشت کرنا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیوں؟ بجلی اور پٹرول تو آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے مہنگا ہوا ہے تو گیس کس کی وجہ سے مہنگی ہوئی ہے؟ کیا یہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف نہیں ہے؟
خان صاحب! آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ کیونکہ اس زندگی میں آپ کی حکومت نے سکون لینے ہی کہاں دینا ہے۔ چلیے جی، قوم کو مہنگی گیس بھی مبارک ہو۔ تبدیلی کے مزے لیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
خلیق کیانی نامور صحافی ہیں جو کہ ایک موقر روزنامے سے وابستہ ہیں۔ ان کا تجربہ اتنا ہوچکا ہے کہ ان کی خبر کی تردید سے پہلے کوئی بھی ذی شعور تین مرتبہ سوچے گا۔ انہوں نے ایک خبر دی کہ حکومت پاکستان کے ادارے پی ایس او نے گرمیوں میں تاریخ کی مہنگی ترین گیس خریدی ہے۔ یہ وزارت حماد اظہر کے ماتحت آتی ہے۔ اب حماد اظہر کے مشیران کے بھی صدقے واری جائیں جنہوں نے ان کو مشورہ دیا کہ اس خبر کی تردید کر دیں۔ انہوں نے نہ یہ دیکھا کہ سامنے کون ہے اور کس کی خبر کی تردید کرنی ہے اور کس کی خبر پر چپ سادھ کر آگے نکلنا ہے، انہوں نے ٹویٹر کے پبلک فورم پر خلیق کیانی کی خبر کو تضحیک آمیز رویے سے مسترد کیا۔ جواب میں خلیق کیانی نے ان کی ہی وزارت کے ڈاکومنٹس نکال نکال کر ٹویٹ کردیے۔ جس کے بعد حکومتی کیمپ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ خلیق کیانی نے اپنی خبر پر مکمل اسٹینڈ لیا۔
تاریخ میں اس سے مہنگی ایل این جی کی بکنگ نہیں ہوئی۔ یہ بکنگ پچھلی حکومتوں سے بھی مہنگی بکنگ ہے۔
مسئلہ شاید یہ بھی نہیں ہے۔ مسئلہ اس حکومت کی نالائقی اور نااہلی ہے۔ کیسے؟ آگے بتاتا ہوں۔ پہلے یہ دیکھیے کہ ایل این جی کیا ہوتی ہے؟ اس میں گیس کو ٹھنڈا کرکے مائع بنایا جاتا ہے اور ایک مخصوص وقت تک کےلیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان کو جہازوں میں خصوصی طور پر بنائے گئے کنٹینرز میں محفوظ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ دنیا بھر میں کہیں بھی جا سکتے ہیں۔ مطلوبہ مقام پر پہنچ کر بھی ان کو زیادہ دور تک نہیں لے جاسکتے، بلکہ ساحل کے نزدیک ہی اس مائع کو دوبارہ گیس میں منتقل کیا جاتا ہے، جس کےلیے پلانٹس وغیرہ لگے ہوتے ہیں اور اس کو پھر سپلائی لائن میں شامل کردیا جاتا ہے۔ سفر کی وجہ سے ان ٹینکس کو زیادہ گھسیٹنا وغیرہ ناممکن ہوتا ہے کہ رگڑ کی وجہ سے آگ لگ سکتی ہے۔
یہ ٹیکنالوجی قطر نے ایجاد کی تھی، جس کےلیے میاں شریف مرحوم کی معاونت شامل تھی۔ اس کے بعد جب 20 سالہ دور حقوق ختم ہوا تو اس میں منافع کی شرح کو دیکھتے ہوئے دیگر ممالک بھی کود پڑے، جن میں امریکا سرفہرست تھا۔ امریکا کے آنے کے بعد فیئر گیم ختم ہوئی اور اس میدان میں اب ڈرٹی گیم کھیلی جارہی ہے۔ اس میدان میں عرب ممالک بھی آئے، آسٹریلیا بھی آیا، لیکن عرب ممالک کے منصوبے مناسب گاہکوں کی وجہ سے مزید آگے نہ بڑھے اور میدان میں قابل ذکر بس یہی رہے۔
جن دنوں دنیا میں پٹرول کا بحران تھا تو ایل این جی کی قیمت بھی بہت نیچے آچکی تھی۔ کورونا کے باعث دنیا بھر کی انڈسٹریز بند تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب تاریخ کی سستی ترین ایل این جی خریدی جاسکتی تھی۔ لیکن ہم تو عقل کل ہوتے ہیں، لہٰذا ہم نے اس وقت میں ایل این جی نہ خریدی۔ باوجود اس کے کہ دنیا بھر کی ریسرچ یہ کہہ رہی تھیں کہ جب بھی دنیا بیک ٹو نارمل کی جانب جائے گی تو دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں بحرانی حد تک اوپر جائیں گی۔ ہم نے اس جانب کوئی توجہ نہ دی۔ اب جب دنیا بھر کی انڈسٹریز کھل رہی ہیں اور دنیا بھر میں ایندھن کی قیمتیں یکدم بڑھ رہی ہیں تو ہم نے عین اس وقت خریداری کی جب سر پر آن پڑی تھی۔ یعنی ہمارے عقل کل طبقے نے تقریباً ایک سال ضائع کیا اور سستی ایل این جی کی بکنگ نہ کی۔
سابق حکومت کی نفرت میں ہم نے تمام پچھلے معاہدے بھی منسوخ کردیے تھے۔ یادش بخیر سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو گرفتار بھی اسی ایل این جی کیس کے سلسلے میں کیا گیا تھا کہ انہوں نے غلط معاہدے کیے ہیں۔ ہم نے اُن کی اچھی مٹی پلید بھی کی تھی، سوشل میڈیا پر ان کا جلوس بھی نکالا تھا، حتیٰ کہ انھوں نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ان کو ایک ہی مرتبہ لمبا ریمانڈ دیں تاکہ میں ان کو ایل این جی کا کیس سمجھا سکوں۔
رپورٹ کے مطابق پچھلی چور حکومت نے جو معاہدہ 8 ڈالر میں کیا تھا، ہماری اس صادق و امین حکومت کے ادارے پی ایل ایل نے وہی معاہدہ 15 ڈالر سے کیا ہے اور پی ایس او کا معاہدہ دیگر اخراجات ملا کر 20 ڈالر تک جائے گا۔ اس ساری مشق میں ہمیں تقریباً 95 ملین کا نقصان ہوا ہے۔ اگر یہی فیصلے بروقت کیے جاتے، لانگ ٹرم پلاننگ ہوتی تو قوم کو تقریباً 422 ملین ڈالرز کا فائدہ ہوسکتا تھا۔
ہم فرض کرلیتے ہیں کہ صرف خلیق کیانی ہی جھوٹا نہیں ہے بلکہ پاکستان بھر کا میڈیا جھوٹ بول رہا ہے تو کیا بین الاقوامی میڈیا بھی جھوٹ بول رہا ہے؟ کیونکہ بلوم برگ نے بھی یہی رپورٹ کیا ہے۔ اس نقصان کا، اس مہنگے معاہدے کا ذمے دار کون ہے؟ اس وجہ سے اب جو گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا وہ تو عوام نے برداشت کرنا ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ کیوں؟ بجلی اور پٹرول تو آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے مہنگا ہوا ہے تو گیس کس کی وجہ سے مہنگی ہوئی ہے؟ کیا یہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مترادف نہیں ہے؟
خان صاحب! آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ سکون صرف قبر میں ہے۔ کیونکہ اس زندگی میں آپ کی حکومت نے سکون لینے ہی کہاں دینا ہے۔ چلیے جی، قوم کو مہنگی گیس بھی مبارک ہو۔ تبدیلی کے مزے لیجئے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔