معیار تعلیم اور طلبہ کی کردار سازی

معیار تعلیم، نظام تعلیم کے جائزے کا ایک پیمانہ ہے۔

معیار تعلیم، نظام تعلیم کے جائزے کا ایک پیمانہ ہے۔ فوٹو: فائل

ہم اپنی روز مرہ زندگی میں مختلف اشیاء کے معیاری یا غیر معیاری، اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ دیتے ہیں، لیکن جب ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں تو پہلے سے ہمارے پاس اسی معیار کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔

اس دنیا کی ہر چیز اور تصور کی پرکھ اور جانچ کے بارے میں ہمارے ذہن میں پہلے سے ایک معیار کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہی معیار ہمیں بتاتا ہے کہ کسی مخصوص چیز میں کون سی صفات اور خوبیاں ہیں، جو اس میں اس قسم کی دوسری چیزوں سے زیادہ ہیں ۔ لہذا جب ہر چیز کا ایک معیار ہے تو تعلیم کی پرکھ کا بھی ایک معیار ہے، جسے معیار تعلیم کہا جاتا ہے۔ معیار تعلیم، نظام تعلیم کے جائزے کا ایک پیمانہ ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقاصد تعلیم کس حد تک حاصل کرلیے گئے ہیں اور مختلف تعلیمی سطحوں پر طلبہ کے کردار میں کون سی تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں۔ کیوں کہ تعلیم ایک ایساعمل ہے جس کے ذریعے فرد کی شخصیت کے جملہ پہلوئوں کی تربیت و نشوونما کر کے اسے معاشرے میں فعال شہری کا کردار ادا کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے۔ تعلیمی عمل میں قدم قدم پر اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ ہم نے تعلیم کے جو مقاصد متعین کئے تھے وہ کس حد تک حاصل کئے جارہے ہیں۔ طلبہ کو جو معلومات اور مہارتیں فراہم کی گئی تھیں وہ کس قدر ان کے کردار اور شخصیت کا حصہ بن گئی ہیں۔ ملکی سطح پر معیار تعلیم کی جانچ کے لیے تین بنیادیں ہو سکتی ہیں۔

اعداد و شمار

ہر سال ہمیں مختلف اعداد و شمار حاصل ہوتے ہیں۔ ملکی سطح پر شرح داخلہ ، ڈراپ آئوٹ ، تعداد طلبہ، مختلف سطحوں میں پاس یا فیل ہونے کی تعداد ، زیادہ نمبر حاصل کرنے والوں کی تعداد، مختلف امتحانات میں پاس ہونے والوں کی تعداد کا جائزہ لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہر سال اس میں تیزی آرہی ہے یا کمی۔




عملی زندگی میں فعالیت

خواندہ افراد کی عملی زندگی مشکل ہے یا آسان۔ اس بات کا اگر حقیقی طور پر جائزہ لیا جائے تو ملکی سطح پر شرح آمدن اور بے روزگاری کی شرح اس بات کا ثبوت ہے کہ زیور تعلیم سے آراستہ لوگوں کے لیے روز گار نہایت مشکل سے حاصل ہوتا ہے۔ ایک بہت بڑی تعداد بے روز گاری کی وجہ سے ہمارے لیے بے کار ہے۔ تو گویا ہمارے نظام تعلیم کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے۔

کردار سازی

معیارتعلیم کی بنیاد میں تیسری اہم چیز طلبہ کی کردار سازی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ تعلیم سے اس کی سیرت میں کون سی مثبت تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ہمارے ہاں اخلاقی گراوٹ اور معاشرتی زندگی مختلف بری عادات، جو افراد کی شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں، اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہم معیار تعلیم میں قدم آگے بڑھانے کی بجائے پیچھے کی طرف جارہے ہیں۔

مقاصد تعلیم وہ قومی خواہشات ہوتی ہیں جن کی تکمیل کے لیے نظام تعلیم وضع کیا جاتا ہے، یعنی قومی نظریے کے تحت معاشرتی و معاشی تقاضوں کی روشنی میں مقاصد کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ ہمارے مقاصد تعلیم کی بنیاد بھی ایک اچھا مسلمان یا پاکستانی شہری بنانا ہے مگر صورتحال کچھ مختلف ہے۔ ملکی سطح پر کئی طرح کے ادارے کام کررہے ہیں جن کے نجی مقاصد ہیں۔ وہ مغربی نظریے کے پیروکار ہیں اور ان کے نظریات ہمارے مشرقی و اسلامی نظریات سے قطعی طور مختلف واقع ہوئے ہیں۔ لہذا موجودہ ملکی نظام تعلیم طلبہ کی کردار سازی میں مکمل طور پر اپنا کردار ادا نہیں کررہا۔ کمزور اور نقائص سے بھر پور نظام تعلیم کی وجہ سے نوجوانوں میں ایسے ناپسندیدہ اعمال پیدا ہو جاتے ہیں، جو بحثیت قوم ہمارے لئے کسی طور پر بھی درست نہیں۔ ابتدائی تعلیم کے اثرات بچے کی شخصیت پر زندگی بھر برقرار رہتے ہیں۔ علم ، عادتیں ، رجحانات ، روّے، تجربات، جو وہ ابتدائی تعلیم کے دوران سیکھتے ہیں، ساری زندگی اس کے اثرات اس کی شخصیت میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ معیار تعلیم کو بہتر کرنے کے لیے حکومت کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ طلبہ میں اچھی عادتیں پروان چڑھ سکیں کیونکہ اعلیٰ معیار تعلیم اور اعلیٰ کردار سازی ہی طلبہ کی ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں استعمال میں لانے کے مواقع فراہم کرسکتی ہے۔
Load Next Story