سارے رنگ
’بازی گری‘ کے حوالے سے اِس ’دو نمبری‘ کو سب سے پہلے ہمارے ملک کے ممتاز محقق عقیل عباس جعفری نے بے نقاب کیا۔
'بازی گر' سے بازی گری۔۔۔
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
'دیکھیے ناں۔۔۔! 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے نئے مالکان نے 'بازی گر' بہت سے دیگر لکھاریوں سے بھی لکھوایا، لیکن قارئین ابھی تک اسی 'بازی گر' کو یاد رکھتے ہیں، جہاں تک میں نے لکھا تھا۔۔۔!'
ہماری تشویش پر شکیل عادل زادہ صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا تھا، لیکن اس عہد ساز ادبی وعلمی شخصیت کے عشاق اسے فون کر کے 'جعلی بازی گر' کی اشاعت سے متعلق اپنی تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں۔۔۔ جس کے نتیجے میں اب وہ قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہے ہیں۔۔۔! لیکن بطور ایک ادنیٰ سے طالب علم کے ہمارا بھی تو یہ فرض ہے کہ اِس قبیح حرکت پر نہ صرف اپنا احتجاج درج کرائیں، بلکہ لوگوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں۔
واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں لاہور کے ایک ناشر کی جانب سے شکیل عادل زادہ کے مشہور ومعروف ناول 'بازی گار' کی آخری قسط شایع کر دی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ یہ وہ 'بازی گر' ہے کہ جس کے 'بنیادی مصنف' شکیل عادل زادہ ہیں، جب کہ شکیل عادل زادہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے اس ادبی کارنامے کے ساتھ کیا جعل سازی کر دی گئی ہے۔۔۔ کتاب کے 'پس ورق' پر نئے 'مصنف' کے ساتھ شکیل عادل زادہ کی تصویر بھی چھاپی گئی ہے، یعنی انتہائی بھرپور طریقے سے شکیل عادل زادہ کے نام اور ان کی نیک نامی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔
شکیل عادل زادہ تو اِن دنوں خود 'بازی گر' کی آخری قسط پر کام کر رہے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ چور بازاری کے ذریعے اِن کے نام اور کام کو چند پیسے کمانے کے کی خاطر استعمال کیا گیا ہے۔۔۔ دراصل انٹرنیٹ نے جہاں علم اور معلومات کا حصول آسان اور تیز کیا ہے، وہیں تحریروں کی نقل درنقل کی کہنا چاہیے کہ ایک ایسی روایت سی ڈل گئی ہے کہ اگر کسی کی توجہ بھی دلائی جائے یا یہ دریافت کر لیا جائے کہ یہ جو مضمون آپ نے اپنی فیس بک کی 'دیوار' پر چپکایا ہے۔
کیا آپ نے خود لکھا ہے۔۔۔؟ اور اگر نہیں تو اس پر لکھنے والے کا نام بھی تو دینا چاہیے۔۔۔! تو اس پر بڑے بڑے سمجھ دار اور باشعور لوگ منہ بنانے لگتے ہیں اور بعضے وقت تو بہ جائے شرم سار ہونے کے الٹا ہم ہی پر 'علم دشمنی' کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔۔۔ بہت سے نقل کرنے والے ساتھ میں 'منقول' لکھ کر اپنے اس فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ہمارے خیال میں کسی کا نام حذف کرنے کا نعم البدل نہیں، اسی طرح لکھنے والے کا نام تحریر کے آخر میں دینا بھی نہایت غیر مناسب امر ہے، آخر کسی تحریر کے عنوان کے بعد اس کے لکھنے والے کا نام دینے میں کیا قباحت ہے؟ ہمارے اخبار، رسائل وجرائد میں نام شروع میں ہی دیا جاتا ہے، لیکن لوگ طویل تحریر کے آخر میں نام دے کر بھی اپنی اس بری عادت کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خود ہم بھی کئی بار علمی 'بد دیانتی' کا شکار ہوئے۔ روزنامہ ایکسپریس میں 2008ء میں شایع ہونے والا ہمارا پہلا مضمون ''قومی زبان کی فریاد'' ایک معاصر روزنامے کے 'مڈویک میگزین' میں ایک نہیں دو بار کسی غفور گلگتی کے نام سے نقل ہوا۔ یہی نہیں اردو ہی کے حوالے سے ایک ویب سائٹ پر شایع ہونے والے ہمارے بلاگ ''اردو لکھتے ہوئے کی جانے والی 12 بڑی غلطیاں'' نہ جانے کون کون سے ناموں کے ساتھ 'واٹس ایپ'، 'فیس بک' اور مختلف ویب سائٹوں پر بڑے پیمانے پر نقل کیا جا رہا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بہت سے قارئین کو بتایا جائے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ اچھا یہ آپ کی تحریر ہے، ہم نے تو فلاں گروپ پر فلاں نام سے پڑھی تھی۔ اگر 'فیس بک' پر ایسی کسی نقل پر مع ثبوت یہ کہا جائے کہ یہ تحریر تو دراصل ہماری ہے، تو شاذونادر ہی کوئی اصلاح کی زحمت کرتا ہے۔
اکثر تو برا مانتے ہیں، بہت سے 'بلاک' کر کے ہمارا راستہ ہی روک دیتے ہیں۔۔۔ تاہم اس خرابی میں یہ 'اچھی بات' سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ چلو ایک سیکھنے والی چیز ہی لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ تاہم یہ رویہ اخلاقی پستی کی علامت ہے۔ اسی ذہنیت نے اب شکیل عادل زادہ صاحب کے نام کو متاثر کرنے کی مذموم کوشش کی ہے، اس پر ہمیں بھرپور طریقے سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کوئی چپڑ قنات 'بازی گر' سے بازی گری کرنے کا سوچ بھی نہ سکے!
'بازی گری' کے حوالے سے اِس 'دو نمبری' کو سب سے پہلے ہمارے ملک کے ممتاز محقق عقیل عباس جعفری نے بے نقاب کیا، اِن کی 'فیس بک' پوسٹ کے ذریعے ہمیں بھی آگاہی ہو سکی۔۔۔ مدیر ماہ نامہ 'سرگزشت' پرویز بلگرامی لکھتے ہیں کہ انھوں نے 'فیس بک' پر اس جعل سازی کے مرتکب ناشر کی 'پوسٹ' پر توجہ دلائی، تو جواباً بدتمیزی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا، یعنی چوری اور سینہ زوری۔۔۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ اس 'جعلی کتاب' کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تیاری کی جا رہی ہے۔۔۔ ہر چند کہ شکیل عادل زادہ ایک نہایت بلند قامت اور ایک عہد ساز قلم کار اور زبان دان ہیں اور وہ یقیناً بدقسمت ہیں، جو ان کے مرتبے سے واقف نہیں، اور ان کے بلند قد کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں، زمانہ خود ہی ایسے لوگوں کی قامت تراش دے گا، لیکن اگر اہل دل نے اپنے عہد کے اس جوہر کی بے قدری کرنے کے شرم ناک فعل پر آنکھیں موندے رکھیں، تو یہ فعل کسی قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔
ساتھ ہی ہمیں اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی یہ تربیت بھی کرنی ہوگی کہ لفظوں کی چوری بھی بعینہ کسی مادّی چیز کے چرائے جانے کے مترادف ہی ہے۔۔۔ یہ مذہباً اور قانوناً ہی غلط نہیں، بلکہ اخلاقی طور پر بھی نہایت بدترین عمل ہے۔ اس لیے چاہے ہم 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) پر لکھ رہے ہوں یا کوئی اور عام تحریر، کہیں سے کچھ بھی اخذ کیجیے، تو فخر سے بتائیے کہ یہ فقرہ یا جملہ فلاں صاحب کا ہے یا یہ مصرع یا خیال فلاں دانش وَر یا کسی فلاں عام فرد کا ہے، ایسا کرنے سے آپ کے کام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ زمانے میں آپ کا اعتبار قائم ہوگا، کیوں کہ ہمارے 'اپنے' خیالات بھی دراصل کہیں نہ کہیں سے تو منعکس ہو کر ہی آتے ہیں، بقول سیف الدین سیف؎
سیفؔ اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات، نئی بات نہیں
حقیقت یہی ہے کہ گھوم پھر کر بہت سے عام خیالات ہی ہمیں نئے معلوم ہونے لگتے ہیں، حالاں کہ وہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہوتی ہے یا پھر لوگون کو پہلے ہی معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ آپ کے کہنے کے انداز کی داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ بس، شاید اسی واہ واہ اور داد کے ڈونگروں کے لیے ہم اِدھر اُدھر سے نقل مار کر ہی لکھنا اپنا ہنر سمجھنے لگتے ہیں، جو کہ اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
۔۔۔
اب فساد کا کوئی خطرہ نہیں مگر ۔۔۔
شاہد احمد دہلوی
(شاہد احمد دہلوی نے بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان کی راجدھانی دلّی کی کتھا بہ عنوان 'دلی کی بپتا' رقم کی ہے،جس میں انھوں نے بہت جامعیت اور اختصار کے ساتھ اس وقت کا احوال رقم کیا ہے۔ وہ اپنی جنم بھومی کو 'ماں' سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس سے دوری کا احوال بیان کرتے ہیں۔)
''دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔ کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد۔۔۔! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک 'ڈائن ماں' بن گئی تھی۔ وہ 'ڈائن' ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔ اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہوکر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں۔۔۔
میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہوگیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرادیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔
اﷲ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔ میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔
یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ''میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتاردو۔'' مگر وہ ہنس کر بولے ''مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔'' تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔ تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز 'چوڑی والاں' میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرادو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔
اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ''یہ رہا مسلمان'' کہہ کر ان کی طرف جَھپٹے۔ سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔
قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو بائولی سے لے آئو۔ رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہوکر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔
ہمت کرکے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ''وہ تمھارا کون تھا؟'' انھوں نے بتایا ''بھائی۔'' سکھوں نے کہا ''لاش اندر ہوگی، جا کر اندر پہچان لو۔'' یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔
جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔ بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آرہی تھی۔ جب رو دھوکر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ''تم کیوں رو رہے ہو؟'' انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلی، دلاسا دیا اور بولا ''میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبرائو مت سب انتظام ہو جائے گا۔'' اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔
سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔
۔۔۔
محترمہ فاطمہ جناح
کی ایسی بے عزتی کی گئی کہ ۔۔۔
رضا علی عابدی
ایوب خان کے کیمپ نے اہل کراچی کو فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا دینے کی ٹھانی اور ایک بار یوں لگا کہ ایوب خان اور ان کے حمایتی پاکستان کے نہیں بلکہ گندھارا کے لیڈر ہیں۔
انھوں نے کراچی میں ایک جلوس نکلوایا، جس نے خاص طور پر مہاجر بستیوں میں لالٹین آویزاں کرنے والے مکانوں کے درمیان جا کر محترمہ کی ایسی بے عزتی کی کہ لوگوں سے یہ منظر دیکھے نہ گئے اور وہ اپنے گھروں میں سہم کر اور بند کر کے بیٹھ گئے۔
گستاخی کی وہ کارروائی کچھ ایسی تھی کہ یہاں لکھی نہیں جا سکتی کہ اس تحریر کو عورتیں بھی پڑھیں گی اور بچے بھی۔ الطاف گوہر اپنی کتاب میں اس مقتل گاہ کا ذکر صاف ٹال گئے۔
مجھے وہ رات یاد ہے۔ یہ سارا واقعہ ناظم آباد میں ہمارے گھر سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور لالو کھیت میں ہو رہا تھا، جہاں سے لوگوں کی آہ وبکا کا ایسا شور بلند ہو رہا تھا کہ دلّی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی
سفّاکی کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہمارے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ بھارت میں تو ہندو ہمیں مار رہے تھے، ہم یہاں آگئے۔ یہاں مسلمان ہمیں مار رہے ہیں۔ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں گے۔
ایک بزرگ نے جواب دیا ''گھبرائو نہیں، آگے سمندر ہے۔''
(تصنیف 'اخبار کی راتیں' سے اخذ کی گئی چند سطریں)
خانہ پری
ر۔ ط۔ م
'دیکھیے ناں۔۔۔! 'سب رنگ' ڈائجسٹ کے نئے مالکان نے 'بازی گر' بہت سے دیگر لکھاریوں سے بھی لکھوایا، لیکن قارئین ابھی تک اسی 'بازی گر' کو یاد رکھتے ہیں، جہاں تک میں نے لکھا تھا۔۔۔!'
ہماری تشویش پر شکیل عادل زادہ صاحب کا یہ کہنا بالکل بجا تھا، لیکن اس عہد ساز ادبی وعلمی شخصیت کے عشاق اسے فون کر کے 'جعلی بازی گر' کی اشاعت سے متعلق اپنی تشویش سے آگاہ کر رہے ہیں۔۔۔ جس کے نتیجے میں اب وہ قانونی چارہ جوئی کی تیاری کر رہے ہیں۔۔۔! لیکن بطور ایک ادنیٰ سے طالب علم کے ہمارا بھی تو یہ فرض ہے کہ اِس قبیح حرکت پر نہ صرف اپنا احتجاج درج کرائیں، بلکہ لوگوں کو بھی اس حوالے سے آگاہ کریں۔
واقعہ یہ ہے کہ گذشتہ دنوں لاہور کے ایک ناشر کی جانب سے شکیل عادل زادہ کے مشہور ومعروف ناول 'بازی گار' کی آخری قسط شایع کر دی گئی ہے، اور کہا گیا ہے کہ یہ وہ 'بازی گر' ہے کہ جس کے 'بنیادی مصنف' شکیل عادل زادہ ہیں، جب کہ شکیل عادل زادہ کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ ان کے اس ادبی کارنامے کے ساتھ کیا جعل سازی کر دی گئی ہے۔۔۔ کتاب کے 'پس ورق' پر نئے 'مصنف' کے ساتھ شکیل عادل زادہ کی تصویر بھی چھاپی گئی ہے، یعنی انتہائی بھرپور طریقے سے شکیل عادل زادہ کے نام اور ان کی نیک نامی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے۔۔۔
شکیل عادل زادہ تو اِن دنوں خود 'بازی گر' کی آخری قسط پر کام کر رہے ہیں، لیکن افسوس کی بات ہے کہ چور بازاری کے ذریعے اِن کے نام اور کام کو چند پیسے کمانے کے کی خاطر استعمال کیا گیا ہے۔۔۔ دراصل انٹرنیٹ نے جہاں علم اور معلومات کا حصول آسان اور تیز کیا ہے، وہیں تحریروں کی نقل درنقل کی کہنا چاہیے کہ ایک ایسی روایت سی ڈل گئی ہے کہ اگر کسی کی توجہ بھی دلائی جائے یا یہ دریافت کر لیا جائے کہ یہ جو مضمون آپ نے اپنی فیس بک کی 'دیوار' پر چپکایا ہے۔
کیا آپ نے خود لکھا ہے۔۔۔؟ اور اگر نہیں تو اس پر لکھنے والے کا نام بھی تو دینا چاہیے۔۔۔! تو اس پر بڑے بڑے سمجھ دار اور باشعور لوگ منہ بنانے لگتے ہیں اور بعضے وقت تو بہ جائے شرم سار ہونے کے الٹا ہم ہی پر 'علم دشمنی' کا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔۔۔ بہت سے نقل کرنے والے ساتھ میں 'منقول' لکھ کر اپنے اس فعل پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، جو کہ ہمارے خیال میں کسی کا نام حذف کرنے کا نعم البدل نہیں، اسی طرح لکھنے والے کا نام تحریر کے آخر میں دینا بھی نہایت غیر مناسب امر ہے، آخر کسی تحریر کے عنوان کے بعد اس کے لکھنے والے کا نام دینے میں کیا قباحت ہے؟ ہمارے اخبار، رسائل وجرائد میں نام شروع میں ہی دیا جاتا ہے، لیکن لوگ طویل تحریر کے آخر میں نام دے کر بھی اپنی اس بری عادت کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خود ہم بھی کئی بار علمی 'بد دیانتی' کا شکار ہوئے۔ روزنامہ ایکسپریس میں 2008ء میں شایع ہونے والا ہمارا پہلا مضمون ''قومی زبان کی فریاد'' ایک معاصر روزنامے کے 'مڈویک میگزین' میں ایک نہیں دو بار کسی غفور گلگتی کے نام سے نقل ہوا۔ یہی نہیں اردو ہی کے حوالے سے ایک ویب سائٹ پر شایع ہونے والے ہمارے بلاگ ''اردو لکھتے ہوئے کی جانے والی 12 بڑی غلطیاں'' نہ جانے کون کون سے ناموں کے ساتھ 'واٹس ایپ'، 'فیس بک' اور مختلف ویب سائٹوں پر بڑے پیمانے پر نقل کیا جا رہا ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بہت سے قارئین کو بتایا جائے تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ اچھا یہ آپ کی تحریر ہے، ہم نے تو فلاں گروپ پر فلاں نام سے پڑھی تھی۔ اگر 'فیس بک' پر ایسی کسی نقل پر مع ثبوت یہ کہا جائے کہ یہ تحریر تو دراصل ہماری ہے، تو شاذونادر ہی کوئی اصلاح کی زحمت کرتا ہے۔
اکثر تو برا مانتے ہیں، بہت سے 'بلاک' کر کے ہمارا راستہ ہی روک دیتے ہیں۔۔۔ تاہم اس خرابی میں یہ 'اچھی بات' سوچ کر خوش ہوتے ہیں کہ چلو ایک سیکھنے والی چیز ہی لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔ تاہم یہ رویہ اخلاقی پستی کی علامت ہے۔ اسی ذہنیت نے اب شکیل عادل زادہ صاحب کے نام کو متاثر کرنے کی مذموم کوشش کی ہے، اس پر ہمیں بھرپور طریقے سے آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کوئی چپڑ قنات 'بازی گر' سے بازی گری کرنے کا سوچ بھی نہ سکے!
'بازی گری' کے حوالے سے اِس 'دو نمبری' کو سب سے پہلے ہمارے ملک کے ممتاز محقق عقیل عباس جعفری نے بے نقاب کیا، اِن کی 'فیس بک' پوسٹ کے ذریعے ہمیں بھی آگاہی ہو سکی۔۔۔ مدیر ماہ نامہ 'سرگزشت' پرویز بلگرامی لکھتے ہیں کہ انھوں نے 'فیس بک' پر اس جعل سازی کے مرتکب ناشر کی 'پوسٹ' پر توجہ دلائی، تو جواباً بدتمیزی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا گیا، یعنی چوری اور سینہ زوری۔۔۔
بہرحال یہ اچھی بات ہے کہ اس 'جعلی کتاب' کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی تیاری کی جا رہی ہے۔۔۔ ہر چند کہ شکیل عادل زادہ ایک نہایت بلند قامت اور ایک عہد ساز قلم کار اور زبان دان ہیں اور وہ یقیناً بدقسمت ہیں، جو ان کے مرتبے سے واقف نہیں، اور ان کے بلند قد کو گھٹانے کی کوشش کرتے ہیں، زمانہ خود ہی ایسے لوگوں کی قامت تراش دے گا، لیکن اگر اہل دل نے اپنے عہد کے اس جوہر کی بے قدری کرنے کے شرم ناک فعل پر آنکھیں موندے رکھیں، تو یہ فعل کسی قومی جرم سے کم نہ ہوگا۔
ساتھ ہی ہمیں اپنی اور اپنے آنے والی نسلوں کی یہ تربیت بھی کرنی ہوگی کہ لفظوں کی چوری بھی بعینہ کسی مادّی چیز کے چرائے جانے کے مترادف ہی ہے۔۔۔ یہ مذہباً اور قانوناً ہی غلط نہیں، بلکہ اخلاقی طور پر بھی نہایت بدترین عمل ہے۔ اس لیے چاہے ہم 'سماجی ذرایع اِبلاغ' (سوشل میڈیا) پر لکھ رہے ہوں یا کوئی اور عام تحریر، کہیں سے کچھ بھی اخذ کیجیے، تو فخر سے بتائیے کہ یہ فقرہ یا جملہ فلاں صاحب کا ہے یا یہ مصرع یا خیال فلاں دانش وَر یا کسی فلاں عام فرد کا ہے، ایسا کرنے سے آپ کے کام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ زمانے میں آپ کا اعتبار قائم ہوگا، کیوں کہ ہمارے 'اپنے' خیالات بھی دراصل کہیں نہ کہیں سے تو منعکس ہو کر ہی آتے ہیں، بقول سیف الدین سیف؎
سیفؔ اندازِ بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات، نئی بات نہیں
حقیقت یہی ہے کہ گھوم پھر کر بہت سے عام خیالات ہی ہمیں نئے معلوم ہونے لگتے ہیں، حالاں کہ وہ بات پہلے بھی کہی جا چکی ہوتی ہے یا پھر لوگون کو پہلے ہی معلوم ہوتی ہے، لیکن وہ آپ کے کہنے کے انداز کی داد دیے بغیر نہیں رہتے۔ بس، شاید اسی واہ واہ اور داد کے ڈونگروں کے لیے ہم اِدھر اُدھر سے نقل مار کر ہی لکھنا اپنا ہنر سمجھنے لگتے ہیں، جو کہ اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
۔۔۔
اب فساد کا کوئی خطرہ نہیں مگر ۔۔۔
شاہد احمد دہلوی
(شاہد احمد دہلوی نے بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان کی راجدھانی دلّی کی کتھا بہ عنوان 'دلی کی بپتا' رقم کی ہے،جس میں انھوں نے بہت جامعیت اور اختصار کے ساتھ اس وقت کا احوال رقم کیا ہے۔ وہ اپنی جنم بھومی کو 'ماں' سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس سے دوری کا احوال بیان کرتے ہیں۔)
''دلّی کا دلّی والوں سے جدا ہونا گوشت سے ناخن کا جدا ہونا ہے، مہینوں اس جدائی کے صدمے سے طبیعت نڈھال رہی۔ کتنی پیاری ہوگئی دلّی اس فراق کے بعد۔۔۔! دلّی کے ایک ایک ذرّے کی یاد ستارہی تھی۔ جی چاہتا تھا کہ پر لگ جائیں تو اُڑ کر دلّی پہنچیں۔ لیکن ساری راہیں مسدود تھیں اور جو دلّی ہم چھوڑ کر آئے تھے، وہ اس درجے وحشت ناک تھی کہ اس کے تصوّر ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے تھے۔
اس کے باوجود ایک دل فریب کشش تھی کہ خوف و ہراس کو محو کیے دیتی تھی، جیسے کسی ماں نے اپنے بچے کو مارا ہو اور بچہ سہم کر دور ہوگیا ہو، لیکن تسکین کے لیے ماں ہی کی مامتا بھری آغوش میں دبک جانا چاہتا ہو اور دلّی جو اب ہمارے لیے ایک 'ڈائن ماں' بن گئی تھی۔ وہ 'ڈائن' ہوتے ہوئے بھی ہماری ماں تو بہرحال تھی ہی۔ اس کی خونی کچلیاں اب دکھائی نہ دیتی تھیں، لبوں پر سے خون کا لاکھا صاف ہو چکا تھا۔ مامتا کے مارے دلّی والے برباد ہوکر بھی ماں کی گود میں جانا چاہتے تھے۔ ڈائن کی گود میں، ماں کی گود میں۔۔۔
میری والدہ اور چھوٹے بہن بھائی دلّی ہی میں تھے، ان کے خط آنے لگے تھے کہ اب امن ہوگیا ہے اور فساد کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ میں بیوی بچوں کے بندھنوں سے مجبور تھا۔ دلّی جانے کا جب بھی ارادہ کیا، انھوں نے ملتوی کرادیا کہ ابھی اور ٹھیرو۔ اس عرصے میں میرے ایک قریبی عزیز اور ساتھ کے کھیلے ہوئے دوست دو مرتبہ دلّی جاکر اپنے بہت کچھ معاملات طے کر آئے تھے۔ یہ صاحب بہت پکّے مسلمان تھے۔ حج کر آئے تھے، دو انگشت داڑھی بھی رکھتے تھے۔ ان سے بار بار کہا کہ یہ موقع ایسا نہیں ہے آپ دلّی میں رہیں اور صورت شکل اور لباس سے یہ بھی ظاہر ہو کہ آپ مسلمان ہیں۔
اﷲ کوئی بری گھڑی نہ لائے، احتیاط کرنا تو ہر انسان کا فرض ہے، مگر وہ توکّل کے بندے تھے۔ انھوں نے اپنی وضع قطع نہیں بدلی۔ داڑھی اور جناح کیپ پہنے رہے اور کئی کئی دن دلّی میں رہ کر لاہور واپس آئے۔ آخری بار محرم کے شروع میں دلّی گئے۔ میرے بڑے بھائی ان دنوں اپنی کوٹھی، موٹر اور بندوقیں بچانے دلّی گئے ہوئے تھے۔
یہ صاحب انھیں کہیں چلتے پھرتے مل گئے۔ عشرہ کا دن تھا اور یہ صاحب روزے سے تھے۔ بھائی نے مذاقاً کہا ''میاں سلطان اس جھالر کو اب تو اتاردو۔'' مگر وہ ہنس کر بولے ''مرنا ہے تو بغیر اس کے بھی کوئی مار دے گا۔'' تیسرے پہر صدر بازار میں بم پھٹا۔ مسلمانوں کی باقی ماندہ دکانیں ٹوٹی گئیں اور ستّر، اسی آدمیوں کے چُھرا گھونپا گیا۔ تین دن بعد معلوم ہوا کہ سلطان اشرف کا منشی اسپتال میں پڑا ہوا ہے اس کی ایک ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ اس نے پولیس میں اطلاع دی ہے کہ قطب روڈ پر سلطان اشرف اپنے دفتر میں مارے گئے۔ ان کی لاش وہیں کمرے میں پڑی ہے۔ ان کی بہن اور قریبی عزیز 'چوڑی والاں' میں رہتے تھے انھیں اطلاع کرادو۔ جب گھر میں یہ منحوس خبر پہنچی ہے، تو صف ماتم بچھ گئی۔ بڑی بہن پچھاڑیں کھا رہی تھی اور بوڑھی ماں پاگلوں کی طرح ایک ایک کی شکل دیکھ رہی تھی۔
اس کے آنسو خشک ہو گئے تھے اور گویائی کے ساتھ ادراک بھی سَلَب ہوگیا تھا۔ منشی کا بیان ہے کہ جب بم پھٹا اور ہنگامہ ہوا تو سلطان اشرف نے جلدی جلدی اپنا دفتر بند کیا اور زینے سے اتر کر بازار میں آنا چاہتے تھے کہ چند مسلح غنڈوں نے انھیں دیکھ لیا اور ''یہ رہا مسلمان'' کہہ کر ان کی طرف جَھپٹے۔ سلطان اور منشی الٹے پیروں زینے پر چڑھنے لگے۔
قاتلوں نے ان کا پیچھا کیا، نہتے آدمی بھلا تلوار اور برچھوں کا کیا مقابلہ کرتے۔ منشی تو گھبرا کر برآمدے میں سے بازار میں کود پڑا اور پھر اسے خبر نہیں کہ کیا ہوا۔ تین دن بعد پولیس کا آدمی اطلاع دے گیا کہ سلطان اشرف کی لاش کا پوسٹ مارٹم ہو چکا ہے۔ اگر لاش لینا چاہتے ہو تو بائولی سے لے آئو۔ رشتے کے دو بھائیوں نے ہمت کر کے سبزی منڈی کا رخ کیا اور گویا جان سے بیزار ہوکر مردہ گھر پہنچے۔ وہاں کچھ سکھ دکھائی دیے۔
ہمت کرکے ان سے لاش کے بارے میں دریافت کیا۔ سکھوں نے پوچھا ''وہ تمھارا کون تھا؟'' انھوں نے بتایا ''بھائی۔'' سکھوں نے کہا ''لاش اندر ہوگی، جا کر اندر پہچان لو۔'' یہ تو بے تاب تھے ہی ان کے اشاروں کنایوں کی پروا کیے بغیر اندر گھس گئے، سلطان کی لاش میز پر کٹی پھٹی پڑی تھی۔
جسم کا کوئی حصہ ایسا نہیں تھا جہاں زخم نہ ہو، ہاتھوں سے معلوم ہوتا تھا جب تک دم رہا قاتلوں کے وار روکتا رہا اور جتنے زخم تھے، سب آگے کے رخ تھے اور پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ سلطان مرتے مرگیا، مگر اس نے اپنی پیٹھ نہیں دکھائی۔ بھائیوں نے جو یہ منظر دیکھا، تو ان کی چیخیں نکل گئیں۔ باہر سے قہقہوں کی آواز آرہی تھی۔ جب رو دھوکر دل کا غبار نکل گیا، تو انھیں فکر ہوئی کہ لاش کو گھر کیسے لے کر جائیں؟ باہر جھانکا تو تیور بگڑے ہوئے دکھائی دیے۔ حیران پریشان کھڑے ہوئے تھے کہ ایک انگریز کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے ان سے پوچھا ''تم کیوں رو رہے ہو؟'' انھوں نے مختصراً ساری کیفیت سنائی۔ اس بھلے آدمی نے انھیں تسلی، دلاسا دیا اور بولا ''میں ادھر سے گزر رہا تھا، تمھاری چیخیں سن کر چلا آیا۔ گھبرائو مت سب انتظام ہو جائے گا۔'' اور واقعی سب انتظام ہوگیا کہ ایمبولنس آگئی اور وہ انگریز انھیں اور لاش کو گھر تک پہنچا گیا۔
سلطان اشرف کی ناگہانی موت نے لاہور میں ان کے بیوی بچوں کو زندہ درگور کر دیا۔ مرحوم کے دم سے بارہ، پندرہ سو روپے ماہوار کی آمدنی تھی، وہ یک لخت بند ہوگئی اور پس ماندگان پردیس میں بالکل بے آسرا رہ گئے۔ عزیز انہیں دیکھ کر آٹھ آٹھ آنسو روتے تھے۔ یہ بے چارے بھی بالآخر مرحوم کا چہلم کر کے دلّی چلے گئے۔
۔۔۔
محترمہ فاطمہ جناح
کی ایسی بے عزتی کی گئی کہ ۔۔۔
رضا علی عابدی
ایوب خان کے کیمپ نے اہل کراچی کو فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا دینے کی ٹھانی اور ایک بار یوں لگا کہ ایوب خان اور ان کے حمایتی پاکستان کے نہیں بلکہ گندھارا کے لیڈر ہیں۔
انھوں نے کراچی میں ایک جلوس نکلوایا، جس نے خاص طور پر مہاجر بستیوں میں لالٹین آویزاں کرنے والے مکانوں کے درمیان جا کر محترمہ کی ایسی بے عزتی کی کہ لوگوں سے یہ منظر دیکھے نہ گئے اور وہ اپنے گھروں میں سہم کر اور بند کر کے بیٹھ گئے۔
گستاخی کی وہ کارروائی کچھ ایسی تھی کہ یہاں لکھی نہیں جا سکتی کہ اس تحریر کو عورتیں بھی پڑھیں گی اور بچے بھی۔ الطاف گوہر اپنی کتاب میں اس مقتل گاہ کا ذکر صاف ٹال گئے۔
مجھے وہ رات یاد ہے۔ یہ سارا واقعہ ناظم آباد میں ہمارے گھر سے ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور لالو کھیت میں ہو رہا تھا، جہاں سے لوگوں کی آہ وبکا کا ایسا شور بلند ہو رہا تھا کہ دلّی میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والی
سفّاکی کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہمارے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ بھارت میں تو ہندو ہمیں مار رہے تھے، ہم یہاں آگئے۔ یہاں مسلمان ہمیں مار رہے ہیں۔ اب ہم یہاں سے کہاں جائیں گے۔
ایک بزرگ نے جواب دیا ''گھبرائو نہیں، آگے سمندر ہے۔''
(تصنیف 'اخبار کی راتیں' سے اخذ کی گئی چند سطریں)