کراچی گھر میں آتشزدگی سے سابق پولیس سرجن سمیت 5 افراد جاں بحق
جاں بحق افراد کی شناخت سلطان مرزا، شازیہ مرزا، فرحت مرزا، صبیحہ مرزا اور اکبر کے نام سے ہوئی ہے، پولیس
محمد علی سوسائٹی کے ایک گھر میں آتشزدگی سے سابق پولیس سرجن ڈاکٹر فرحت مرزا، ان کے بڑے بھائی، دوبہنیں اور خانساماں جاں بحق ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ٹیپو سلطان روڈ پر واقع سابق پولیس سرجن ڈاکٹر فرحت حسین مرزا کے گھر میں آگ لگ گئی ، آگ کے باعث گھر میں دھواں بھرگیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس ہیلپ لائن مددگار ون فائیو کے اہلکار، ریسکیو ورکرز اور فائر بریگیڈ حکام موقع پر پہنچ گئے اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
گھر کی بالائی منزل پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بھی استعمال کی گئیں جبکہ لوہے کی گرل کو بھی کاٹا گیا، فائر فائٹرز اور ریسکیو ورکرز کو جب مختلف کمروں تک رسائی حاصل ہوئی تو انھیں پانچ معمر افراد جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں بے ہوشی کی حالت میں ملے جنھیں فوری طور پر چھیپا ایمبولینسز کے ذریعے جناح اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
پولیس حکام کے مطابق واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں 60 سالہ سابق پولیس سرجن ڈاکٹر فرحت حسین مرزا، ان کے بڑے بھائی 80 سالہ سلطان مرزا، ان کی بہنیں 78 سالہ صبیحہ، 72 سالہ شازیہ مرزا اور ایک ملازم 50 سالہ اکبر شامل ہیں۔ اس دوران ایک فائر فائٹر 50 سالہ صادق بے ہوش ہوگیا جسے طبی امداد کے لیے جناح اسپتال پہنچایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گھر میں دھواں بھرجانے کے باعث دیگر افراد بھی متاثر ہوئے جن میں ڈاکٹر فرحت مرزا کی اہلیہ سمیت دیگر شامل ہیں تاہم ابتدائی طبی امداد کے فوری بعد ہی انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ پولیس نے قانونی کارروائی کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کردیں اور واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
چیف فائر آفیسر محمد مبین نے ایکسپریس کو بتایا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب فائر بریگیڈ کو اطلاع ملتے ہی شب تین بج کر چالیس منٹ پر پہلی گاڑی موقع پر روانہ کردی گئی جس کے بعد چار بجے دوسری گاڑی اور چار بج کر بائیس منٹ پر تیسری گاڑی بھی بنگلے پر بھیج دی گئی ، چھ بجے سے سوا چھ بجے کے درمیان آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا جس کے بعد کولنگ کا عمل جاری رہا۔
چیف فائر آفیسر کا کہنا تھا کہ جمعرات کی صبح آٹھ بج کر پانچ منٹ پر تمام گاڑیاں موقع سے واپس روانہ ہوگئیں، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو ٹینکر کے ذریعے پانی بھی فراہم کیا جاتا رہا، فوری طور پر آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی جبکہ گھر میں یو پی ایس بھی لگے ہوئے ہیں، آگ 2 منزلہ گھر کے گراؤنڈ فلور پر لگی تھی، پہلی منزل پر موجود 3 افراد خود باہر نکل آئے تھے جبکہ گراؤنڈ فلور پر ملازم سمیت 7 افراد موجود تھے دو خواتین کو ریسکیو کیا گیا۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ تیار
ایس ایچ او بہادر آباد معراج انور نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں پولیس کو شبہ ہے کہ گراؤنڈ فلور پر ڈیپ فریزر کے سوئچ میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگی، گشت پر مامور پولیس اہل کاروں نے اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر گھر والوں کو ریسکیو کیا، پہلے دونوں خواتین کو ریکسیو کیا گیا، آگ گراؤنڈ فلور پر لگی۔
دوسری منزل پر 3 افراد موجود تھے، پولیس کے مطابق لواحقین نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا، جاں بحق ہونے والوں کی میتیں جناح اسپتال سے چھیپا سرد خانے منتقل کی گئیں۔
میتوں کی عیسیٰ نگری قبرستان میں تدفین
ڈاکٹر فرحت مرزا، ان کے بھائی اور 2 بہنوں کو نماز جنازہ کے بعد عیسی نگری قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ جنازہ و تدفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بحق خانساماں اکبر کی میت جمعرات کی دوپہر ہی تدفین کے لیے آبائی شہر خیرپور روانہ کر دی گئی۔
ڈاکٹر فرحت مرزا بابائے فارنسک میڈیسن کہلاتے تھے
ڈاکٹر فرحت حسین مرزا ''بابائے فارنسک میڈیسن ''کہلاتے تھے۔ وہ پاکستان میں فارنسک میڈیسن پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ وہ 25 مارچ 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1975ء میں انھوں نے ڈائو یونیورسٹی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
وہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کنٹریکٹ پر سال تک فارنسک ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بھی تعینات کیا گیا، کراچی میں جتنے بھی پولیس کیسز سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جاتے وہ ان کی سربراہی بھی کرتے رہے۔ وہ کئی ہائی پروفائل کیسز میں بطور فارنسک میڈیسن کام کرتے رہے، اس حوالے سے پاکستان بھر میں ان کی رائے کو مستند مانا جاتا تھا۔
ان کے قریبی ساتھیوں نے مزید بتایا کہ وہ تین بیٹیوں کے باپ تھے جن میں سے دو کی شادی ہوچکی تھی جبکہ تیسری غیر شادی شدہ اور ان کے ساتھ ہی رہتی ہے ، گھر میں ایسی آگ لگنا جس میں پانچ افراد جان سے چلے گئے یقیناً تشویش ناک بات ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں نے واقعے کی اعلیٰ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
واقعہ کی تحقیقات کی جائیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر فرحت مرزا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گھر میں آگ لگنے کی حقیقی وجہ جاننے کے لیے حکومت سندھ سے انکوائری کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا۔ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا ہے کہ پروفیسر فرحت مرزا کو ان کی پیشہ ورانہ مہارت، لگن اور اپنے کام سے وابستگی کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
وزیراعلی کا اظہار افسوس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پروفیسر فرحت مرزا اور ان کے اہل خانہ کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تمام مرحومین کی مغفرت، بلند درجات اور خاندان کے صبر کے لیے دعا کی۔
پیما رہنماؤں کی ڈاکٹر فرحت مرزا کے انتقال پر تعزیت
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے رہنماؤں نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پیما کراچی کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ متقی نے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ پروفیسر فرحت اپنے شعبے کے ایک ماہر ڈاکٹر تھے، وہ ہمیشہ اپنے طلباء اور ساتھیوں میں اپنی عاجزی، مہربانی اور دوسروں کے ساتھ نرم رویہ کی وجہ سے مقبول رہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ٹیپو سلطان روڈ پر واقع سابق پولیس سرجن ڈاکٹر فرحت حسین مرزا کے گھر میں آگ لگ گئی ، آگ کے باعث گھر میں دھواں بھرگیا۔ اطلاع ملتے ہی پولیس ہیلپ لائن مددگار ون فائیو کے اہلکار، ریسکیو ورکرز اور فائر بریگیڈ حکام موقع پر پہنچ گئے اور امدادی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔
گھر کی بالائی منزل پر پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بھی استعمال کی گئیں جبکہ لوہے کی گرل کو بھی کاٹا گیا، فائر فائٹرز اور ریسکیو ورکرز کو جب مختلف کمروں تک رسائی حاصل ہوئی تو انھیں پانچ معمر افراد جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں بے ہوشی کی حالت میں ملے جنھیں فوری طور پر چھیپا ایمبولینسز کے ذریعے جناح اسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔
پولیس حکام کے مطابق واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں 60 سالہ سابق پولیس سرجن ڈاکٹر فرحت حسین مرزا، ان کے بڑے بھائی 80 سالہ سلطان مرزا، ان کی بہنیں 78 سالہ صبیحہ، 72 سالہ شازیہ مرزا اور ایک ملازم 50 سالہ اکبر شامل ہیں۔ اس دوران ایک فائر فائٹر 50 سالہ صادق بے ہوش ہوگیا جسے طبی امداد کے لیے جناح اسپتال پہنچایا گیا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ گھر میں دھواں بھرجانے کے باعث دیگر افراد بھی متاثر ہوئے جن میں ڈاکٹر فرحت مرزا کی اہلیہ سمیت دیگر شامل ہیں تاہم ابتدائی طبی امداد کے فوری بعد ہی انھیں گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔ پولیس نے قانونی کارروائی کے بعد لاشیں ورثا کے حوالے کردیں اور واقعے کی تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے۔
چیف فائر آفیسر محمد مبین نے ایکسپریس کو بتایا کہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب فائر بریگیڈ کو اطلاع ملتے ہی شب تین بج کر چالیس منٹ پر پہلی گاڑی موقع پر روانہ کردی گئی جس کے بعد چار بجے دوسری گاڑی اور چار بج کر بائیس منٹ پر تیسری گاڑی بھی بنگلے پر بھیج دی گئی ، چھ بجے سے سوا چھ بجے کے درمیان آگ پر مکمل طور پر قابو پالیا گیا جس کے بعد کولنگ کا عمل جاری رہا۔
چیف فائر آفیسر کا کہنا تھا کہ جمعرات کی صبح آٹھ بج کر پانچ منٹ پر تمام گاڑیاں موقع سے واپس روانہ ہوگئیں، فائر بریگیڈ کی گاڑیوں کو ٹینکر کے ذریعے پانی بھی فراہم کیا جاتا رہا، فوری طور پر آگ لگنے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی جبکہ گھر میں یو پی ایس بھی لگے ہوئے ہیں، آگ 2 منزلہ گھر کے گراؤنڈ فلور پر لگی تھی، پہلی منزل پر موجود 3 افراد خود باہر نکل آئے تھے جبکہ گراؤنڈ فلور پر ملازم سمیت 7 افراد موجود تھے دو خواتین کو ریسکیو کیا گیا۔
حادثے کی ابتدائی رپورٹ تیار
ایس ایچ او بہادر آباد معراج انور نے بتایا کہ ابتدائی تحقیقات میں پولیس کو شبہ ہے کہ گراؤنڈ فلور پر ڈیپ فریزر کے سوئچ میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ لگی، گشت پر مامور پولیس اہل کاروں نے اطلاع دی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر گھر والوں کو ریسکیو کیا، پہلے دونوں خواتین کو ریکسیو کیا گیا، آگ گراؤنڈ فلور پر لگی۔
دوسری منزل پر 3 افراد موجود تھے، پولیس کے مطابق لواحقین نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا، جاں بحق ہونے والوں کی میتیں جناح اسپتال سے چھیپا سرد خانے منتقل کی گئیں۔
میتوں کی عیسیٰ نگری قبرستان میں تدفین
ڈاکٹر فرحت مرزا، ان کے بھائی اور 2 بہنوں کو نماز جنازہ کے بعد عیسی نگری قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ جنازہ و تدفین میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ بحق خانساماں اکبر کی میت جمعرات کی دوپہر ہی تدفین کے لیے آبائی شہر خیرپور روانہ کر دی گئی۔
ڈاکٹر فرحت مرزا بابائے فارنسک میڈیسن کہلاتے تھے
ڈاکٹر فرحت حسین مرزا ''بابائے فارنسک میڈیسن ''کہلاتے تھے۔ وہ پاکستان میں فارنسک میڈیسن پر کام کرنے والے اولین لوگوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ ان کے قریبی ساتھیوں نے بتایا کہ وہ 25 مارچ 1951ء کو پیدا ہوئے تھے۔ 1975ء میں انھوں نے ڈائو یونیورسٹی میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔
وہ جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی سے بھی منسلک رہے، ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں کنٹریکٹ پر سال تک فارنسک ڈپارٹمنٹ کا سربراہ بھی تعینات کیا گیا، کراچی میں جتنے بھی پولیس کیسز سے متعلق میڈیکل بورڈ تشکیل دیے جاتے وہ ان کی سربراہی بھی کرتے رہے۔ وہ کئی ہائی پروفائل کیسز میں بطور فارنسک میڈیسن کام کرتے رہے، اس حوالے سے پاکستان بھر میں ان کی رائے کو مستند مانا جاتا تھا۔
ان کے قریبی ساتھیوں نے مزید بتایا کہ وہ تین بیٹیوں کے باپ تھے جن میں سے دو کی شادی ہوچکی تھی جبکہ تیسری غیر شادی شدہ اور ان کے ساتھ ہی رہتی ہے ، گھر میں ایسی آگ لگنا جس میں پانچ افراد جان سے چلے گئے یقیناً تشویش ناک بات ہے۔ ان کے قریبی ساتھیوں نے واقعے کی اعلیٰ تحقیقات کا بھی مطالبہ کیا۔
واقعہ کی تحقیقات کی جائیں، پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈاکٹر فرحت مرزا کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے گھر میں آگ لگنے کی حقیقی وجہ جاننے کے لیے حکومت سندھ سے انکوائری کمیٹی بنانے کا مطالبہ کردیا۔ جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے کہا ہے کہ پروفیسر فرحت مرزا کو ان کی پیشہ ورانہ مہارت، لگن اور اپنے کام سے وابستگی کے لیے یاد رکھا جائے گا۔
وزیراعلی کا اظہار افسوس
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پروفیسر فرحت مرزا اور ان کے اہل خانہ کی ہلاکت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے تمام مرحومین کی مغفرت، بلند درجات اور خاندان کے صبر کے لیے دعا کی۔
پیما رہنماؤں کی ڈاکٹر فرحت مرزا کے انتقال پر تعزیت
پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما) کے رہنماؤں نے حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پیما کراچی کے صدر ڈاکٹر عبد اللہ متقی نے تعزیتی پیغام میں کہا ہے کہ پروفیسر فرحت اپنے شعبے کے ایک ماہر ڈاکٹر تھے، وہ ہمیشہ اپنے طلباء اور ساتھیوں میں اپنی عاجزی، مہربانی اور دوسروں کے ساتھ نرم رویہ کی وجہ سے مقبول رہے۔