مودی کی بد انتظامی ’ جس نے ڈیلٹا وائرس کی جنم دیا
بہترین منتظم سمجھے جانے والے بھارتی وزیراعظم کی انتظامی صلاحیتیں ایک ننھے وائرس نے ملیامیٹ کر ڈالیں…چشم کشا داستان
آزادی کی سالگرہ تزک واحتشام سے مناتے ہوئے اہل پاکستان کو مد نظر رکھنا چاہیے کہ رب ذوالجلال نے رواں سال اپنی نہ دکھائی دینے والی چھوٹی سی تخلیق کے ہاتھوں مغرور ومتکبر بھارتی وزیراعظم ،نریندر مودی کا غرور اور گھمنڈ پاش پاش کر ڈالا۔مودی اپنے آپ کو بہترین منتظم سمجھتا تھا۔
بھارتی میڈیا نے اس سلسلے میں مودی کے گرد دیومالائی ہالہ بنانے کی کوشش کی تھی۔مگر بہروپ بدلتے ننھے منے کورونا وائرس نے اہل زمین پہ واضح کر دیا کہ مودی کے اندر ایک بہترین منتظم کی صلاحیتیں موجود نہیں۔
آج گڈ گورنس کا مودی ماڈل آئینے کی طرح چکنا چور ہو چکا ۔بھارتی وزیراعظم ماضی کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ بوڑھا اور تھکا ہوا لیڈر لگتا ہے جس کے سارے کس بل وائرس نے نکال دئیے۔اس کی ساری شیخی وہیکڑی کافور ہو چکی۔خاص طور پہ پچھلے سال تک مودی اور اس کا لاؤ لشکر اٹھتے بیٹھتے اسلام،پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بڑھکیں مارتا رہتا تھا۔
مگر ان سے کورونا کی پھیلائی وبا سنبھل نہیں پائی جو گذشتہ چند ماہ سے بھارت بھر میں زبردست جانی و مالی نقصان پہنچا چکی۔پچھلے سال کے آغاز میں مودی نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ 2025ء تک بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔مگر ایک معمولی سے وائرس نے مودی کے خواب خاک میں ملا دئیے۔بھارت آج بیروزگاری،مہنگائی اور غربت کے عفریتوں سے نبردآزما ہے۔بھارت کو سپر پاور بنانے کی تمنا کچلی جا چکی۔مودی کو احساس ہوا ہو گا کہ بڑے دعوی نہیں کرنے چاہیں،وہ پورے نہ ہوں تو ذلت وخواری ہی مقدر بنتی ہے۔
داستان ِرسوائی کا آغاز
نفرت و تعصب کے پرچارک،مودی نے کروڑوں بھارتی شہریوں کی آنکھوں پہ مذہبی انتہاپسندی کی پٹی باندھ کر انھیں اندھا کر دیا تھا۔اسی لیے انھیں اس کے پہلے دور حکومت(2014 ء تا 2019ء )کی فاش غلطیاں نظر نہ آ سکیں۔انھوں نے الیکشن 2019ء میں دوبارہ مودی کو راج سنگھاسن پہ بٹھا دیا۔بھارتی عوام کو اس خوفناک لغزش کا خمیازہ بعد ازاں بھگتنا پڑا۔مگر تب الیکشن جیت کر مودی فتح کے نشے میں بدمست ومخمور ہو گیا۔اس نے پہلے زرخرید عدلیہ کے ذریعے شہید بابری مسجد کے مقام پہ قبضہ کیا ۔پھر جموں وکشمیر پر بھی جبراً قابض ہو گیا۔
اس کے پالتو غنڈے مسلمانان ِکشمیر اور بھارتی مسلمانوں پہ ظلم وستم کرنے لگے۔اس اذیت ناک صورت حال میں کروڑوں بھارتی مسلمانوں نے دعائیں مانگی ہوں گی کہ اے اللہ!ظالم و مغرور مودی کو ایسا سبق سکھا کہ اس کا سارا طنطنہ وتکبر جاتا رہے۔اس کی جھوٹی آن بان کا بت پاش پاش ہو جائے۔بارگاہ الہی میں یہ دعائیں منظور ہوئیں اور مارچ 2020ء سے مودی کی داستان ِرسوائی کا آغاز ہو گیا۔اس حیرت انگیز داستان نے کوورونا وائرس کے بطن سے جنم لیا۔یہ وائرس حقیقتاً مودی ہی نہیں بھارتی انتہا پسند ہندو جماعتوں،آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے بھی کابوس(ڈراؤنا خواب)بن گیا۔
نئے کورونا وائرس نے کب،کیسے اور کہاں جنم لیا...یہ سوالات اب تک تشنہ تکمیل ہیں۔چینی سائنس داں کہتے ہیں کہ وائرس امریکی لیبارٹریوں میں بنا کر چین میں چھوڑ دیا گیا۔امریکی ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ چین کی لیبارٹریوں میں تخلیق ہوا اور وہاں سے کسی طرح فرار ہو کے انسانوں کے درمیان جا پہنچا۔
چینی سائنس دانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ نے تو یہ انکشاف کیا کہ عین ممکن ہے،کورونا وائرس نے بھارت میں جنم لیا ہو۔غرض اب تک قطیعت سے نہیں کہا جا سکتا کہ کوویڈ 19وبا پھیلانے والا نیا کورونا وائرس کہاں اور کیونکر پیدا ہوا۔بہرحال دسمبر 2019ء میں سب سے پہلے چینی ڈاکٹروں نے اسے دریافت کیا ۔اس باعث مشہور ہو گیا کہ وائرس کا مسکن چین ہے۔
پورا بھارت بند
اس زمانے میں چین اور بھارت کے مابین لداخ میں سرحدی تنازع جنم لے رہا تھا۔جب کورونا وائرس سامنے آیا تو بھارتی وزیراعظم نے سوچا کہ اس کے ذریعے عالمی سطح پہ چین کو بدنام کیا جائے۔یورپی و امریکی میڈیا پہلے ہی چین کو معطون کرنے لگا تھا۔مثلاً صدر ٹرمپ نے اسے ''چینی وائرس''کہہ کو پکارا۔یہی وجہ ہے،مارچ 2020ء کے اواخر میں مودی نے اچانک ملک بھر میں نہایت سخت لاک ڈاؤن لگانے کا اعلان کر دیا۔حالانکہ تب بھارت میں کوویڈ 19کے صرف ''360''مریض سامنے آئے تھے۔
اور محض ''7''اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔گویا انتہائی سخت لاک ڈاؤن لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ بھارتی بیوروکریسی کی مجال نہ تھی کہ بادشاہ کے حکم سے سرتابی کر سکے۔چناں چہ دنیا میں چین کی بھَد اڑانے کے لیے مودی نے پورا بھارت بند کر دیا۔بظاہراحمق عوام کو یہ بتایا گیا کہ یہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی احتیاطی تدبیر ہے۔
مودی نے اپنی دانست میں اہم چال چلی تھی۔وہ من ہی من میں بہت خوش تھا۔وہ پاکستان اور چین کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر جسے اللہ رکھے،اسے کون چکھے!مودی کی چال مہلک غلطی ثابت ہوئی اور اس سے پے در پے غلطیاں کراتی چلی گئی۔یوں مودی نے دنیا بھر میں گڈ گورنس کا جو طلسم کھڑا کیا تھا،وہ زمین بوس ہو گیا۔
لاک ڈائون کیا بلا ہے!
مودی سے پہلی کوتاہی یہ ہوئی کہ اچانک لگائے گئے لاک ڈائون سے نمٹنے کی خاطر اس نے کروڑوں شہریوں کو صرف چار گھنٹے دئیے۔بیشتر شہریوں نے یہ مختصر عرصہ یہی سمجھنے میں لگا دیا کہ لاک ڈائون کیا بلا ہے اور کورونا نامی وائرس کہاں سے آن ٹپکا۔جب تک معاملہ انھیں سمجھ آیا،مودی حکومت ملک کے طول وعرض میں سخت بندشیں و پابندیاں لگا چکی تھی۔شہروں سے لے کر دیہات تک میں پولیس پھیل گئی اور باہر نکلنے والوںکو ڈنڈے مارنے لگی۔
اس بد حرکت سے پہلی بار ہندو شہریوں میں بھی مودی جنتا کے خلاف اشتعال پھیل گیا۔شہری سوشل میڈیا پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔بھارت میں دیہات وقصبات سے کروڑوں بھارتی شہروں میں جا کر محنت مزدوری کرتے اور اپنا و بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ان میں سے اکثر ''ڈیلی ویجر''یا روزانہ تنخواہ پانے والے کہلاتے ہیں۔
جب لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ بند ہوا تو لاکھوں ایسے کارکنوں کو جلد بھوک نے آ گھیرا کیونکہ چند ہی دن میں ان کی جمع پونجی ختم ہو گئی۔وہ پھر اپنے آبائی دیہات اور قصبوں جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس موقع پر1947ء کے بعد انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت بھارت میں دیکھنے کو ملی۔لاکھوں بھارتی دیہات وقصبات کی جانب سفر کرنے لگے۔جن کے پاس سواری نہیں تھی،وہ پیدل ہی چل پڑے۔بہت سے مجبور ہو گئے کہ کئی سو میل کی مسافت پیدل طے کریں کہ ٹرانسپورٹ بند تھی۔اس عظیم ہجرت کے دوران ٹریفک حادثات،بھوک پیاس اور پولیس کی مارپیٹ کی وجہ سے ایک ہزار بھارتی چل بسے۔ان کی موت کا ذمے دار مودی کو ٹھہرایا گیا۔
تبلیغی جماعت پہ تنقید
لاکھوں بھارتیوں کی ہجرت اور نقل مکانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو بھارتی کورونا وائرس رکھتے تھے،وہ اس کو اپنے آبائی علاقوں میں لے گئے اور اسے وہاں بھی پھیلا دیا ۔یوں مودی کے لاک ڈائون سے کورونا کے پھیلائو کی روک تھام کیا ہوتی،الٹا وہ پورے بھارت میں پھیل گیا۔
چناں چہ لاک ڈائون لگانے والا مودی کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔لاکھوں بھارتیوں کی نقل مکانی سے کوویڈ 19بھارت میں پھیلی تو مودی نے روایتی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ تبلیغی جماعت سے منسلک مسلمان اس پھیلائو کے ذمے دار ہیں۔مودی کا زرخرید میڈیا بھی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے لگا۔یوں بھارتی میڈیا نے پھر دکھا دیاکہ وہ نفرت وتعصب کا پرچارک کرنے والوں کا بھونپو ہے۔
نمائش پسند وزیراعظم
بھارت میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ویکسینیں بنانے والی طبی کمپنی ہے۔اس نے اپریل 2020ء میں اعلان کیا کہ جیسے ہی آکسفورڈ ۔آسٹرازینکا ویکسین بنی، وہ اسے تیار کرلے گی۔کمپنی نے بتایا کہ وہ 2020ء میں اس ویکسین کی ''چھ کروڑ''خوراکیں تیار کرے گی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ ہر سال ڈیرھ ارب ویکسینیں بناتی ہے۔لہذا اس کے لیے چھ کروڑ ویکسینیں بنانا مشکل نہ تھا۔کمپنی کے ارب پتی مالک نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ نریندر مودی بھی ویکسین کی تیاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔اپریل 2020ء کے اواخر میں مودی نے کمپنی کے صدر دفتر دورہ ضرور کیا مگر اس سے ویکسین خریدنے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔اور نہ ہی کمپنی کو سرکاری امداد دی تاکہ وہ کوویڈ19کے خلاف زیادہ سے زیادہ ویکسینیں تیار کر سکے۔ یہ حرکت بھی مودی کی ایک اور بڑی کوتاہی و غلطی ثابت ہوئی۔
پاکستان سمیت دیگر ممالک کی حکومتیں ویکسینیں بنانے اور خریدنے کے لیے زبردست کوششیں کر رہی تھیں جبکہ نمائش پسند مودی اپنی مشہوری کرنے میں جُتا ہوا تھا۔امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے اپنی کمپنیوں کو اربوں ڈالر دئیے تاکہ وہ ویکسین جلد تیار کر لیں۔مگر مودی نے بھارتی کمپنیوں کو پھوٹی کوڑی نہ دی اور یہی راگ الاپتا رہا کہ کورونا وائرس بھارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔یہ پیشین گوئی کرنا مودی کی ایک اور فاش خطا بن گئی۔مودی درحقیقت ہوش وحواس کھو کر غلطیوں کی شاہراہ پہ چل نکلا تھا۔
ظالمانہ ا اقدام
جب سیرم انسٹی ٹیوٹ کو مودی سرکار نے گھاس نہ ڈالی تو کمپنی نے ویکسین بیچنے کے لیے بیرون ملک پارٹیوں سے معاہدے کر لیے۔مثلاً اقوام متحدہ کے زیراہتمام جاری منصوبے،کوویکس(COVAX)میں شراکت دار بن گئی۔کینیڈا اور برطانیہ کو بھی ویکسینیں فراہم کرنے لگی۔آخر جنوری 2021ء میں کہیں جا کر مودی نے ویکسین خریدنے کی خاطر سیرم سے رابطہ کیا۔مگر تب تک کمپنی'' 90فیصد'' ویکسینیں فروخت کر چکی تھی۔مودی نے اس موقع پر ایک اور غلط قدم اٹھا ڈالا...موصوف نے دسمبر2021ء تک بھارتی ویکسینیں برآمد کرنے پہ پابندی لگا دی۔
یوں مودی نے دنیا کے ان غریب'' 92ممالک ''کو خطرناک وبا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔سیرم کمپنی ان ترقی پذیر ملکوں کو سستے داموں ویکسین فراہم کر رہی تھی۔امریکی ویورپی کمپنیوں کی ویکسینیں کافی مہنگی پڑتی ہیں۔اس طرح مودی سرکار کے ظالمانہ و ناروا اقدام سے غریب ممالک میں عوام کو ویکسین لگانے کا عمل تقریباً ٹھپ ہو گیا۔
لاپروائی اور سستی
بھارت میں لگا سخت لاک ڈائون 31مئی2020ء کو ختم ہوا۔اس نے کم ازکم پندرہ کروڑ بھارتیوںکو بیروزگار کر ڈالا۔خاص بات یہ کہ ایک ماہ سے عرصے کے دوران مودی سرکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔اس نے کوویڈ 19کا مقابلہ کرنے کے لیے ہسپتال تعمیر کیے نہ ویکسین سینٹر بنائے۔ہسپتالوں میں ادویہ جمع نہ کیں اور ہی انھیں جدید طبی آلات سے لیس کیا۔یہ لاپروائی اور سستی بھارتی وزیراعظم کی ایک اور مہلک غلطی بن گئی۔موصوف اس خوفناک سچائی سے بے خبر تھے کہ کورونا وائرس بھارت میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس خطرناک صورت حال میں مودی حکومت سے ایک اور غلط اقدام سرزد ہوا۔اس نے بھارتی کمپنیوں کو آکسیجن برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔چناں چہ پچھلے برس کی نسبت دگنی آکسیجن باہر بھیج دی گئی۔یہی نہیں،وائرس کو قابو کرنے والی دوا،ریمڈیسویر (remdesivir)بھی گیارہ لاکھ کی تعداد میں ایکسپورٹ کی گئی۔
جب امریکی صدر ٹرمپ نے ہائڈروآکسی کلوروکوین کو بطور علاج تجویز کیا ،بھارتی کمپنیوں نے اس کی بھی پانچ کروڑ خوراکیں امریکا بھجوا دیں۔حیران کن امر یہ کہ جب بھارت عوام میں کوویڈ وبا بہ سرعت پھیل رہی تھی،مودی نے بھارت کو سپرپاور ثابت کرنے کے لیے بھارتی کمپنیوں کی تیار کردہ چھیاسٹھ لاکھ ویکسینیں مختلف ممالک کو بھیج دیں۔یوں مودی چین کو نیچا دکھا کر اپنی انا کی تسکین چاہتا تھامگر اس کا اقدام گلے پڑ گیا کیونکہ بھارت میں ویکسینیوں کی شدید قلت ہو گئی۔یہ مودی کی ایک اور فاش غلطی تھی۔
ویرینٹ کیا ہے؟
انسان یا حیوان کے جسم میں پہنچ کر وائرس کو مطلوبہ غذائیت میسّر آئے تو وہ تیزی سے اپنی نقول (یا بچے)تیار کرتا ہے۔عموماً ہر نئی نقل جینیاتی لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔یعنی اس میں تبدیلی (mutation)جنم لیتی ہے۔اس طرح وائرس اپنی بقا مزید محفوظ بناتا ہے۔جب وائرس کی کسی نقل میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں تو وہ ''ویرینٹ''(variant)کہلاتی ہے۔کورونا وائرس کی نقول بھی کئی تبدیلیوں سے گذریں۔یوں اس کی نت نئی ویرینٹس سامنے آ گئیں۔جو وائرس جتنا زیادہ پھیل جائے،اس کی نقول میں اتنی ہی زیادہ تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔چناں چہ ویرینٹس بھی زیادہ بنتی ہیں۔ہر ویرینٹ اپنے جد وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے اندر مرض پھیلانے کی قوی صلاحیت رکھتی ہے۔
حد سے بڑھی خوداعتمادی اور گھمنڈ نے مودی کو اندھا کر دیا۔وہ نہیں دیکھ سکا کہ کورونا وائرس کی ویرینٹس بھارت میں پیدا ہو رہی ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے وائرس کی اربوں نقول نے جنم لیاجو تبدیلیوں سے گذر کر ویرینٹ بننے لگیں۔ان میں ''ڈیلٹا''ویرینٹ سب سے خطرناک وموذی ثابت ہوئی۔یہ ستمبر 2020ء تک جنم لے چکی تھی۔
اسی ڈیلٹا نے فروری 2021ء سے بھارت میں کوویڈ 19کی دوسری لہر کا آغاز کر دیا۔ڈیلٹا ویرینٹ کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے جدی وائرس کی نسبت زیادہ آسانی سے انسانی خلیوں سے جا چمٹتی ہے۔دوسری یہ کہ جو لوگ ویکسین لے چکے،انھیں بھی بیمار کر سکتی ہے۔یہ لوگ پھر ڈیلٹا کو دوسرے انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔تیسری یہ کہ بچوں کو بھی اپنا شکار بناتی ہے۔انہی خصوصیات کے باعث یہ بھارت میں تیزی سے پھیل گئی اور لاکھوں بھارتیوں کو وبا میں مبتلا کرنے لگی۔
قوم کو ''خوش خبری''
مودی مگر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے یہی راگ الاپتا رہا کہ بھارت میں وبا پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ حکومت نے بہترین انتظامات کر رکھے ہیں۔حالانکہ ستمبر2020ء سے ڈیلٹا ویرینٹ نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔20اکتوبر کو مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپیل کی کہ وہ وبا سے بچنے کے لیے حفاظتی تادبیر اپنا لیں۔
مگر ساتھ ہی قوم کو یہ ''خوش خبری''بھی سنائی کہ بھارت میں ہر دس لاکھ افراد میں صرف 83 اموات ہوئی ہیں۔گویا مودی نے اپنی تقریر سے بھارتی قوم کو یہ پیغام دیا کہ گھبرانے کی بات نہیں،وبا سے بھارت محفوظ ہے۔یہی وجہ ہے،بھارتی شہریوں نے حفاظتی طریقے اپنانے میں خاص دلچسپی نہیں لی اور پہلے کی طرح گھلتے ملتے رہے۔میل ملاپ کے ایسے ماحول میں ڈیلٹا کو پھیلنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔
غلط ڈیٹا کا گورکھ دھندا
وبا نے جلد ہی مگر مودی کو جھوٹا اور دھوکے باز بھی ثابت کر دیا۔ اس طرح کہ مودی حکومت اموات کے حقیقی اعدادوشمار قوم سے پوشیدہ رکھتی رہی تاکہ اپنے آپ کو عوامی تنقید سے محفوظ رکھ سکے۔پچھلے چند ماہ سے ایسی کئی تحقیقی رپورٹیں سامنے آ چکیں جنھوں نے افشا کیا کہ مودی حکومت نے وبا کے مریضوں اور اموات سے متعلق درست ڈیٹا پیش نہیں کیا۔تادم تحریر کوویڈ 19سے بھارت میں چار لاکھ چھبیس ہزار مردوزن مارے جا چکے۔مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ''تیس سے چالیس لاکھ''کے درمیان ہے۔
اسی طرح مودی سرکار کے مطابق بھارت میں کل تین کروڑ سترہ لاکھ شہری وبا سے متاثر ہوئے۔مگر تحقیقی رپورٹوں کی رو سے یہ تعداد تیس سے پچاس کروڑ کے درمیان ہے۔ پچھلے سال بھارتی سرکاری تحقیقی اداروں کی تحقیق سے افشا ہوا کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح پچھلے پینتالیس برس میں سب سے زیادہ سطح پر پہنچ چکی۔مودی نے مگر سرکاری رپورٹیں منظرعام پہ نہ آنے دیں اور عوامی جلسوں میں یہ جھوٹ بولتا رہا کہ بیروزگاری میں خاص اضافہ نہیں ہوا۔ماہرین معاشیات مودی حکومت پہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ شرح ترقی بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے تاکہ خود کو گڈ گورنس کا چیمپئن ثابت کیا جا سکے۔غرض کوویڈ 19وبا ایک بار پھر مودی کی دروغ گوئی دنیا والوں کے سامنے لے آئی۔
ڈاکٹر ارون کی رپورٹ
بھارت میں سب سے پہلے ریاست کیرالہ کے ایک ڈاکٹر،ارون مدھون نے یہ حقیقت واضح کی کہ وفاقی و ریاستی حکومتیں وبا سے مرنے والوں کی اموات اور مریضوں کی تعداد کم بتا رہی ہیں۔ڈاکٹر ارون نے اخبارات،ٹی وی نیوز،انٹرنیٹ اور ہسپتالوں کی دستاویز کا مطالعہ کر کے افشا کیا کہ ریاست کیرالہ میں ''60سے 70فیصد''اموات سرکاری رپورٹ میں شامل ہی نہیں۔کیرالہ حکومت نے ریاست میں وبا سے نمٹنے کی خاطر عمدہ انتظام کیا تھا۔لہذا ڈاکٹر ارون نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اگر ریاست کیرالہ میں اموات کم بتائی گئیں تو دیگر ریاستوں میں اور بُرا حال ہو گا۔غرض بھارتی اور غیر ملکی ماہرین کی رپورٹوں سے آشکارا ہے کہ دنیا میں وبا نے سب سے زیادہ بھارتی باشندوں کو لقمہ اجل بنایا...اور اس خوفناک تباہی کا بنیادی ذمے دار نریندر مودی ہے۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے کورونا وائرس کی پھیل
ائی وبا کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔مودی نے لاک ڈائون بھی اس لیے لگایا تاکہ چین کو بدنام کر سکے۔جب اس نے بھارتی معیشت جام کر دی تو مودی کو ہوش آیا اور لاک ڈائون ختم کیا گیا۔تب بھی مودی سرکار نے وبا سے نمٹنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔مودی کی لاپروائی کے سبب بھارتی عوام بھی وبا کو غیر اہم اور معمولی بیماری سمجھتے رہے۔ہر کسی کو یہی یقین رہا کہ وبا اسے نشانہ نہیں بنا سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دسمبر2020ء تک وبا دس لاکھ بھارتیوں کو اپنا شکار کر چکی تھی۔گویا تب امریکا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مریض بھارت میں تھے۔اور حقیقی ڈیٹا دیکھا جائے تو بھارت ہی مریضوں کی سب سے بڑی تعداد رکھتا تھا۔
بھارتی بیوروکریسی کے رحم وکرم پر
کوویڈ 19کا اصلی ڈیٹا چھپانے کے لیے مودی نے یہ چال چلی کہ وبا سے نمٹنے کا سارا بندوبست اپنے وفادار سرکاری افسروں کو سونپ دیا۔یہ افسر سائنس داں اور ماہرین طب نہ تھے۔اسی باعث انھوں نے وبا سے نمٹنے کی خاطر مناسب اقدامات نہ کیے۔بس مودی کا بھونپو بنے یہ راگ الاپتے رہے کہ وبا قابومیں ہے۔وبا سے نمٹنے کی پالیسی طبی ماہرین کے ہاتھوں میں ہوتی تو وہ ضرور کچھ ٹھوس قدم اٹھا لیتے جن کے ذریعے کوویڈ سے نمٹنا آسان ہو جاتا۔خاص طور پہ لاکھوں بھارتیوں کی جانیں بچ جاتیں۔
وبا سے نمٹنے کی پالیسیاں تشکیل دینے کا کام بیوروکریسی کے سپرد کرنا مودی کی ایک اور کوتاہی ثابت ہوئی اور اسے بعد ازاں پشیمان و شرمندہ کر گئی۔دسمبر 2020ء تک ڈیلٹا ویرینٹ بہ شدت بھارت میں پھیلنے لگی۔مگر مودی سرکار بدستور مجرمانہ غفلت کا شکار رہی۔وہ کورونا وائرس کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھی۔
یہی وجہ ہے،کرسمس اور سال نو کے موقع پر کئی بھارتی ریاستوں میں عوامی تقریبات منعقد ہوئیں۔ان میں لوگوں نے حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑا دیں اور گھل مل گئے۔ماسک نہ پہننے کا مظاہرہ ہوا اور تین فٹ کی دوری بھی ہوا ہو گئی۔گویا ڈیلٹا ویرینٹ کو پنپنے کا سازگار ماحول مل گیا۔اس کی تو چاندی ہو گئی اور وہ مزے سے بھارتی شہریوں میں نفوذ کرنے لگی۔
انسانیت کو بچا لیا
بھارتی وزیراعظم مگر اس پھوں پھاں میں تھا کہ وفاقی حکومت کی ''بہترین ''منصوبہ بندی کے باعث وبا بھارت میں نہیں پھیل سکتی۔وہ بے خبر رہا کہ ڈیلٹا ویرینٹ خاموشی سے پھیل کر اس کی شہرت کا جنازہ نکالنے والی ہے۔اس دوران نئے سال کا سورج طلوع ہو گیا۔28جنوری 2021ء کو مودی نے بڑے غرور وفخر سے عالمی تنظیم،ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں اعلان کیا:''بھارت نے کوویڈ 19پہ قابو پا کر انسانیت کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔''مودی اس بات پر بھی غرور کرتا رہا کہ بھارت دنیا بھر کو ویکسینیں فراہم کر رہا ہے۔
کورونا وائرس سے نبردآزما مودی کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ اس نے کمبھ میلا منعقد کرنے کا اجازت دے دی۔یہ بھارتی ریاست،اترکھنڈ میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تقریب سمجھی جاتی ہے۔یوں مودی ہندو رہنمائوں کو خوش کرنا چاہتا تھا۔وجہ یہ کہ عنقریب بھارتی ریاستوں میں مقامی الیکشن ہونے والے تھے۔مودی کو یقین تھا کہ ہندو رہنما خوش ہو کر الیکشنوں میں بے جے پی کی کامیابی کے لیے سرگرمی سے انتخابی مہم چلائیں گے۔
ڈیلٹا کی دریافت
یہ مذہبی میلا مگر بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے والا عظیم واقعہ(super spreader)ثابت ہوا۔اس میں دنیا بھر سے نوے لاکھ انسان شریک ہوئے۔ان کے مابین وائرس نے خوب دھما چوکڑی مچائی۔اور جب یہ لوگ واپس اپنے گھر گئے تو وائرس بھی ان کے ساتھ تھا۔یوں بھارت کے ان علاقوں میں بھی کورونا پہنچ گیا جہاں پہلے موجود نہ تھا۔وائرس کی ڈیلٹا ویرینٹ کو تو سوا ارب انسانوں کی وسیع منڈی مل گئی جہاں وہ خود کو بہتر بنانے کی خاطر اپنے جینیاتی مواد میں مذید تبدیلیاں لانے لگی۔
ڈاکٹر سبھاش سلون کے ریاست مہاراشٹر کے محکمہ صحت سے منسلک ہیں۔اواخر فروری2021ء میں انھیں محسوس ہوا کہ وائرس زیادہ تیزی کے ساتھ شہریوں سے چمٹ رہا ہے۔وہ جان گئے کہ کورونا کی نئی ویرینٹ نمودار ہو چکی۔انھوں نے ریاست سے لے کر وفاق تک،سبھی متعلقہ کارپردازان کو مطلع کیا کہ نئی ویرینٹ پیدا ہو چکی۔لیکن بھارتی بیوروکریسی اپنے حال میں مست تھی۔اس نے ایک معمولی ڈاکٹر کی دہائی پہ کان نہ دھرے اور خواب غفلت میں مدہوش رہی۔چناں چہ نئی ویرینٹ کو میدان صاف ملا اور وہ سرگرمی سے بھارتیوں کو شکار بنانے لگی۔عالمی ادارہ صحت نے بعد ازاں اس ویرینٹ کو'' ڈیلٹا ''کا نام دیا۔
کٹائی شروع ہوتی ہے
اُدھر نریندر مودی ریاستی الیکشنوں میں بی جے پی کی فتح چاہتا تھا۔خاص طور پہ اس کی نظر بنگال پر تھی۔وہاں وزیراعلی ممتا بینر جی آئے دن اس پر شدید تنقید کرتی تھیں۔مودی اپنے دست راست،امیت شاہ کو لیے بنگال پہنچا اور وہاں کئی جلسے منعقد کیے۔ان جلسوں میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔یہ صورت حال دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ بھارت میں خطرناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ان جلسوں نے ڈیلٹا کو مذید پھلنے پھولنے کا موقع عطا کر دیا۔آخر فصل پک کر تیار ہو گئی۔مارچ 2021ء سے کٹائی کا آغاز ہو گیا۔
اواخرمارچ سے ڈیلٹا نے بھارتی قوم کو سان پہ دھر لیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔حتی کہ برآمدوں میں بھی جگہ نہ رہی۔آکسیجن اور متعلقہ ادویہ کی زبردست قلت دیکھنے کو ملی۔لوگ ان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔جلد مریض مرنے لگے اور انھیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔پورے بھارت میں ہلچل مچ گئی۔اس دوران مودی کبوتر کی طرح ڈربے میں جا چھپا اور آنکھیں میچ لیں۔اِدھر موت بے دردی سے عوام کو نشانہ بنانے لگی۔روزانہ چار پانچ ہزار مریض چل بستے۔یوں مودی سرکار کی مجرمانہ غیر ذمے داری کا پول کھل گیا۔تب لاکھوں بھارتیوں نے سوشل میڈیا پہ مودی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔بھارتی وزیراعظم اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر سکا۔
ایک شعبدہ باز
بھارت سے ڈیلٹا ویرینٹ دیگر ممالک میں بھی پھیل گئی۔اس نے امریکا، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائشیا، جنوبی کوریا،سنگاپور،پاکستان اور دیگر ملکوں میں وبا کی نئی لہر چلا دی۔ حتی کہ جو مردوزن صحتیاب ہو چکے تھے،انھیں دوبارہ بستر پہ لٹا ڈالا۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فی الوقت کورونا وائرس کی تمام ویرینٹس یا اقسام میں سب سے زیادہ ڈیلٹا ہی خطرناک و سرگرم ہے۔وہ کم ازکم'' 130''ممالک میں پھیل چکی۔ نیز ڈیلٹا کے ذریعے ہی بیشتر اموات ہوئی ہیں۔حقائق سے آشکارا ہے کہ نریندر مودی کی غیر ذمے داری،غفلت اور سستی کی وجہ سے ڈیلٹا ویرینٹ نے جنم لیا۔
اس نے کورونا وائرس کو زیادہ خطرناک بننے کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔اگر مودی مارچ 2020ء ہی سے وائرس کی روک تھام کے مناسب اقدامات کر لیتا تو ڈیلٹا وجود میں نہ آتی جو کئی ملکوں میں تباہی مچا رہی ہے۔اب تو بے وقوف بھارتی عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ مودی کوئی بہترین منتظم نہیں بلکہ شعبدہ باز ہے جو محض خوف ودہشت کے ہتھیار سے کام کراتا ہے۔مودی کی اصلیت عیاں ہو چکی۔پھر بھی اگلے الیکشن میں ہندو عوام نے اسے ووٹ دیا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ مودی بھارت میں مذہبی انتہا پسندی پھیلانے میں کامیاب ہو چکا۔تب بھارتی مسلمانوں کو مذید ظلم وستم برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔
بھارتی میڈیا نے اس سلسلے میں مودی کے گرد دیومالائی ہالہ بنانے کی کوشش کی تھی۔مگر بہروپ بدلتے ننھے منے کورونا وائرس نے اہل زمین پہ واضح کر دیا کہ مودی کے اندر ایک بہترین منتظم کی صلاحیتیں موجود نہیں۔
آج گڈ گورنس کا مودی ماڈل آئینے کی طرح چکنا چور ہو چکا ۔بھارتی وزیراعظم ماضی کے مقابلے میں ایک شکست خوردہ بوڑھا اور تھکا ہوا لیڈر لگتا ہے جس کے سارے کس بل وائرس نے نکال دئیے۔اس کی ساری شیخی وہیکڑی کافور ہو چکی۔خاص طور پہ پچھلے سال تک مودی اور اس کا لاؤ لشکر اٹھتے بیٹھتے اسلام،پاکستان اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بڑھکیں مارتا رہتا تھا۔
مگر ان سے کورونا کی پھیلائی وبا سنبھل نہیں پائی جو گذشتہ چند ماہ سے بھارت بھر میں زبردست جانی و مالی نقصان پہنچا چکی۔پچھلے سال کے آغاز میں مودی نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ 2025ء تک بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن جائے گا۔مگر ایک معمولی سے وائرس نے مودی کے خواب خاک میں ملا دئیے۔بھارت آج بیروزگاری،مہنگائی اور غربت کے عفریتوں سے نبردآزما ہے۔بھارت کو سپر پاور بنانے کی تمنا کچلی جا چکی۔مودی کو احساس ہوا ہو گا کہ بڑے دعوی نہیں کرنے چاہیں،وہ پورے نہ ہوں تو ذلت وخواری ہی مقدر بنتی ہے۔
داستان ِرسوائی کا آغاز
نفرت و تعصب کے پرچارک،مودی نے کروڑوں بھارتی شہریوں کی آنکھوں پہ مذہبی انتہاپسندی کی پٹی باندھ کر انھیں اندھا کر دیا تھا۔اسی لیے انھیں اس کے پہلے دور حکومت(2014 ء تا 2019ء )کی فاش غلطیاں نظر نہ آ سکیں۔انھوں نے الیکشن 2019ء میں دوبارہ مودی کو راج سنگھاسن پہ بٹھا دیا۔بھارتی عوام کو اس خوفناک لغزش کا خمیازہ بعد ازاں بھگتنا پڑا۔مگر تب الیکشن جیت کر مودی فتح کے نشے میں بدمست ومخمور ہو گیا۔اس نے پہلے زرخرید عدلیہ کے ذریعے شہید بابری مسجد کے مقام پہ قبضہ کیا ۔پھر جموں وکشمیر پر بھی جبراً قابض ہو گیا۔
اس کے پالتو غنڈے مسلمانان ِکشمیر اور بھارتی مسلمانوں پہ ظلم وستم کرنے لگے۔اس اذیت ناک صورت حال میں کروڑوں بھارتی مسلمانوں نے دعائیں مانگی ہوں گی کہ اے اللہ!ظالم و مغرور مودی کو ایسا سبق سکھا کہ اس کا سارا طنطنہ وتکبر جاتا رہے۔اس کی جھوٹی آن بان کا بت پاش پاش ہو جائے۔بارگاہ الہی میں یہ دعائیں منظور ہوئیں اور مارچ 2020ء سے مودی کی داستان ِرسوائی کا آغاز ہو گیا۔اس حیرت انگیز داستان نے کوورونا وائرس کے بطن سے جنم لیا۔یہ وائرس حقیقتاً مودی ہی نہیں بھارتی انتہا پسند ہندو جماعتوں،آر ایس ایس اور بی جے پی کے لیے بھی کابوس(ڈراؤنا خواب)بن گیا۔
نئے کورونا وائرس نے کب،کیسے اور کہاں جنم لیا...یہ سوالات اب تک تشنہ تکمیل ہیں۔چینی سائنس داں کہتے ہیں کہ وائرس امریکی لیبارٹریوں میں بنا کر چین میں چھوڑ دیا گیا۔امریکی ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ چین کی لیبارٹریوں میں تخلیق ہوا اور وہاں سے کسی طرح فرار ہو کے انسانوں کے درمیان جا پہنچا۔
چینی سائنس دانوں کی ایک تحقیقی رپورٹ نے تو یہ انکشاف کیا کہ عین ممکن ہے،کورونا وائرس نے بھارت میں جنم لیا ہو۔غرض اب تک قطیعت سے نہیں کہا جا سکتا کہ کوویڈ 19وبا پھیلانے والا نیا کورونا وائرس کہاں اور کیونکر پیدا ہوا۔بہرحال دسمبر 2019ء میں سب سے پہلے چینی ڈاکٹروں نے اسے دریافت کیا ۔اس باعث مشہور ہو گیا کہ وائرس کا مسکن چین ہے۔
پورا بھارت بند
اس زمانے میں چین اور بھارت کے مابین لداخ میں سرحدی تنازع جنم لے رہا تھا۔جب کورونا وائرس سامنے آیا تو بھارتی وزیراعظم نے سوچا کہ اس کے ذریعے عالمی سطح پہ چین کو بدنام کیا جائے۔یورپی و امریکی میڈیا پہلے ہی چین کو معطون کرنے لگا تھا۔مثلاً صدر ٹرمپ نے اسے ''چینی وائرس''کہہ کو پکارا۔یہی وجہ ہے،مارچ 2020ء کے اواخر میں مودی نے اچانک ملک بھر میں نہایت سخت لاک ڈاؤن لگانے کا اعلان کر دیا۔حالانکہ تب بھارت میں کوویڈ 19کے صرف ''360''مریض سامنے آئے تھے۔
اور محض ''7''اموات رپورٹ ہوئی تھیں۔گویا انتہائی سخت لاک ڈاؤن لگانے کی ضرورت نہ تھی۔ بھارتی بیوروکریسی کی مجال نہ تھی کہ بادشاہ کے حکم سے سرتابی کر سکے۔چناں چہ دنیا میں چین کی بھَد اڑانے کے لیے مودی نے پورا بھارت بند کر دیا۔بظاہراحمق عوام کو یہ بتایا گیا کہ یہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ روکنے کی احتیاطی تدبیر ہے۔
مودی نے اپنی دانست میں اہم چال چلی تھی۔وہ من ہی من میں بہت خوش تھا۔وہ پاکستان اور چین کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،مگر جسے اللہ رکھے،اسے کون چکھے!مودی کی چال مہلک غلطی ثابت ہوئی اور اس سے پے در پے غلطیاں کراتی چلی گئی۔یوں مودی نے دنیا بھر میں گڈ گورنس کا جو طلسم کھڑا کیا تھا،وہ زمین بوس ہو گیا۔
لاک ڈائون کیا بلا ہے!
مودی سے پہلی کوتاہی یہ ہوئی کہ اچانک لگائے گئے لاک ڈائون سے نمٹنے کی خاطر اس نے کروڑوں شہریوں کو صرف چار گھنٹے دئیے۔بیشتر شہریوں نے یہ مختصر عرصہ یہی سمجھنے میں لگا دیا کہ لاک ڈائون کیا بلا ہے اور کورونا نامی وائرس کہاں سے آن ٹپکا۔جب تک معاملہ انھیں سمجھ آیا،مودی حکومت ملک کے طول وعرض میں سخت بندشیں و پابندیاں لگا چکی تھی۔شہروں سے لے کر دیہات تک میں پولیس پھیل گئی اور باہر نکلنے والوںکو ڈنڈے مارنے لگی۔
اس بد حرکت سے پہلی بار ہندو شہریوں میں بھی مودی جنتا کے خلاف اشتعال پھیل گیا۔شہری سوشل میڈیا پر اپنی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔بھارت میں دیہات وقصبات سے کروڑوں بھارتی شہروں میں جا کر محنت مزدوری کرتے اور اپنا و بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ان میں سے اکثر ''ڈیلی ویجر''یا روزانہ تنخواہ پانے والے کہلاتے ہیں۔
جب لاک ڈائون کی وجہ سے سب کچھ بند ہوا تو لاکھوں ایسے کارکنوں کو جلد بھوک نے آ گھیرا کیونکہ چند ہی دن میں ان کی جمع پونجی ختم ہو گئی۔وہ پھر اپنے آبائی دیہات اور قصبوں جانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔
بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس موقع پر1947ء کے بعد انسانوں کی سب سے بڑی ہجرت بھارت میں دیکھنے کو ملی۔لاکھوں بھارتی دیہات وقصبات کی جانب سفر کرنے لگے۔جن کے پاس سواری نہیں تھی،وہ پیدل ہی چل پڑے۔بہت سے مجبور ہو گئے کہ کئی سو میل کی مسافت پیدل طے کریں کہ ٹرانسپورٹ بند تھی۔اس عظیم ہجرت کے دوران ٹریفک حادثات،بھوک پیاس اور پولیس کی مارپیٹ کی وجہ سے ایک ہزار بھارتی چل بسے۔ان کی موت کا ذمے دار مودی کو ٹھہرایا گیا۔
تبلیغی جماعت پہ تنقید
لاکھوں بھارتیوں کی ہجرت اور نقل مکانی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ جو بھارتی کورونا وائرس رکھتے تھے،وہ اس کو اپنے آبائی علاقوں میں لے گئے اور اسے وہاں بھی پھیلا دیا ۔یوں مودی کے لاک ڈائون سے کورونا کے پھیلائو کی روک تھام کیا ہوتی،الٹا وہ پورے بھارت میں پھیل گیا۔
چناں چہ لاک ڈائون لگانے والا مودی کا فیصلہ غلط ثابت ہوا۔لاکھوں بھارتیوں کی نقل مکانی سے کوویڈ 19بھارت میں پھیلی تو مودی نے روایتی خباثت کا مظاہرہ کرتے ہوئے قرار دیا کہ تبلیغی جماعت سے منسلک مسلمان اس پھیلائو کے ذمے دار ہیں۔مودی کا زرخرید میڈیا بھی اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے پروپیگنڈا کرنے لگا۔یوں بھارتی میڈیا نے پھر دکھا دیاکہ وہ نفرت وتعصب کا پرچارک کرنے والوں کا بھونپو ہے۔
نمائش پسند وزیراعظم
بھارت میں سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا دنیا میں سب سے زیادہ ویکسینیں بنانے والی طبی کمپنی ہے۔اس نے اپریل 2020ء میں اعلان کیا کہ جیسے ہی آکسفورڈ ۔آسٹرازینکا ویکسین بنی، وہ اسے تیار کرلے گی۔کمپنی نے بتایا کہ وہ 2020ء میں اس ویکسین کی ''چھ کروڑ''خوراکیں تیار کرے گی۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ ہر سال ڈیرھ ارب ویکسینیں بناتی ہے۔لہذا اس کے لیے چھ کروڑ ویکسینیں بنانا مشکل نہ تھا۔کمپنی کے ارب پتی مالک نے صحافیوں کو یہ بھی بتایا کہ نریندر مودی بھی ویکسین کی تیاری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔اپریل 2020ء کے اواخر میں مودی نے کمپنی کے صدر دفتر دورہ ضرور کیا مگر اس سے ویکسین خریدنے میں کوئی دلچسپی نہ لی۔اور نہ ہی کمپنی کو سرکاری امداد دی تاکہ وہ کوویڈ19کے خلاف زیادہ سے زیادہ ویکسینیں تیار کر سکے۔ یہ حرکت بھی مودی کی ایک اور بڑی کوتاہی و غلطی ثابت ہوئی۔
پاکستان سمیت دیگر ممالک کی حکومتیں ویکسینیں بنانے اور خریدنے کے لیے زبردست کوششیں کر رہی تھیں جبکہ نمائش پسند مودی اپنی مشہوری کرنے میں جُتا ہوا تھا۔امریکا اور برطانیہ کی حکومتوں نے اپنی کمپنیوں کو اربوں ڈالر دئیے تاکہ وہ ویکسین جلد تیار کر لیں۔مگر مودی نے بھارتی کمپنیوں کو پھوٹی کوڑی نہ دی اور یہی راگ الاپتا رہا کہ کورونا وائرس بھارت کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔یہ پیشین گوئی کرنا مودی کی ایک اور فاش خطا بن گئی۔مودی درحقیقت ہوش وحواس کھو کر غلطیوں کی شاہراہ پہ چل نکلا تھا۔
ظالمانہ ا اقدام
جب سیرم انسٹی ٹیوٹ کو مودی سرکار نے گھاس نہ ڈالی تو کمپنی نے ویکسین بیچنے کے لیے بیرون ملک پارٹیوں سے معاہدے کر لیے۔مثلاً اقوام متحدہ کے زیراہتمام جاری منصوبے،کوویکس(COVAX)میں شراکت دار بن گئی۔کینیڈا اور برطانیہ کو بھی ویکسینیں فراہم کرنے لگی۔آخر جنوری 2021ء میں کہیں جا کر مودی نے ویکسین خریدنے کی خاطر سیرم سے رابطہ کیا۔مگر تب تک کمپنی'' 90فیصد'' ویکسینیں فروخت کر چکی تھی۔مودی نے اس موقع پر ایک اور غلط قدم اٹھا ڈالا...موصوف نے دسمبر2021ء تک بھارتی ویکسینیں برآمد کرنے پہ پابندی لگا دی۔
یوں مودی نے دنیا کے ان غریب'' 92ممالک ''کو خطرناک وبا کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔سیرم کمپنی ان ترقی پذیر ملکوں کو سستے داموں ویکسین فراہم کر رہی تھی۔امریکی ویورپی کمپنیوں کی ویکسینیں کافی مہنگی پڑتی ہیں۔اس طرح مودی سرکار کے ظالمانہ و ناروا اقدام سے غریب ممالک میں عوام کو ویکسین لگانے کا عمل تقریباً ٹھپ ہو گیا۔
لاپروائی اور سستی
بھارت میں لگا سخت لاک ڈائون 31مئی2020ء کو ختم ہوا۔اس نے کم ازکم پندرہ کروڑ بھارتیوںکو بیروزگار کر ڈالا۔خاص بات یہ کہ ایک ماہ سے عرصے کے دوران مودی سرکار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔اس نے کوویڈ 19کا مقابلہ کرنے کے لیے ہسپتال تعمیر کیے نہ ویکسین سینٹر بنائے۔ہسپتالوں میں ادویہ جمع نہ کیں اور ہی انھیں جدید طبی آلات سے لیس کیا۔یہ لاپروائی اور سستی بھارتی وزیراعظم کی ایک اور مہلک غلطی بن گئی۔موصوف اس خوفناک سچائی سے بے خبر تھے کہ کورونا وائرس بھارت میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
اس خطرناک صورت حال میں مودی حکومت سے ایک اور غلط اقدام سرزد ہوا۔اس نے بھارتی کمپنیوں کو آکسیجن برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔چناں چہ پچھلے برس کی نسبت دگنی آکسیجن باہر بھیج دی گئی۔یہی نہیں،وائرس کو قابو کرنے والی دوا،ریمڈیسویر (remdesivir)بھی گیارہ لاکھ کی تعداد میں ایکسپورٹ کی گئی۔
جب امریکی صدر ٹرمپ نے ہائڈروآکسی کلوروکوین کو بطور علاج تجویز کیا ،بھارتی کمپنیوں نے اس کی بھی پانچ کروڑ خوراکیں امریکا بھجوا دیں۔حیران کن امر یہ کہ جب بھارت عوام میں کوویڈ وبا بہ سرعت پھیل رہی تھی،مودی نے بھارت کو سپرپاور ثابت کرنے کے لیے بھارتی کمپنیوں کی تیار کردہ چھیاسٹھ لاکھ ویکسینیں مختلف ممالک کو بھیج دیں۔یوں مودی چین کو نیچا دکھا کر اپنی انا کی تسکین چاہتا تھامگر اس کا اقدام گلے پڑ گیا کیونکہ بھارت میں ویکسینیوں کی شدید قلت ہو گئی۔یہ مودی کی ایک اور فاش غلطی تھی۔
ویرینٹ کیا ہے؟
انسان یا حیوان کے جسم میں پہنچ کر وائرس کو مطلوبہ غذائیت میسّر آئے تو وہ تیزی سے اپنی نقول (یا بچے)تیار کرتا ہے۔عموماً ہر نئی نقل جینیاتی لحاظ سے مختلف ہوتی ہے۔یعنی اس میں تبدیلی (mutation)جنم لیتی ہے۔اس طرح وائرس اپنی بقا مزید محفوظ بناتا ہے۔جب وائرس کی کسی نقل میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں تو وہ ''ویرینٹ''(variant)کہلاتی ہے۔کورونا وائرس کی نقول بھی کئی تبدیلیوں سے گذریں۔یوں اس کی نت نئی ویرینٹس سامنے آ گئیں۔جو وائرس جتنا زیادہ پھیل جائے،اس کی نقول میں اتنی ہی زیادہ تبدیلیاں جنم لیتی ہیں۔چناں چہ ویرینٹس بھی زیادہ بنتی ہیں۔ہر ویرینٹ اپنے جد وائرس سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے کیونکہ وہ اپنے اندر مرض پھیلانے کی قوی صلاحیت رکھتی ہے۔
حد سے بڑھی خوداعتمادی اور گھمنڈ نے مودی کو اندھا کر دیا۔وہ نہیں دیکھ سکا کہ کورونا وائرس کی ویرینٹس بھارت میں پیدا ہو رہی ہیں۔دیکھتے ہی دیکھتے وائرس کی اربوں نقول نے جنم لیاجو تبدیلیوں سے گذر کر ویرینٹ بننے لگیں۔ان میں ''ڈیلٹا''ویرینٹ سب سے خطرناک وموذی ثابت ہوئی۔یہ ستمبر 2020ء تک جنم لے چکی تھی۔
اسی ڈیلٹا نے فروری 2021ء سے بھارت میں کوویڈ 19کی دوسری لہر کا آغاز کر دیا۔ڈیلٹا ویرینٹ کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ وہ اپنے جدی وائرس کی نسبت زیادہ آسانی سے انسانی خلیوں سے جا چمٹتی ہے۔دوسری یہ کہ جو لوگ ویکسین لے چکے،انھیں بھی بیمار کر سکتی ہے۔یہ لوگ پھر ڈیلٹا کو دوسرے انسانوں میں منتقل کر سکتے ہیں۔تیسری یہ کہ بچوں کو بھی اپنا شکار بناتی ہے۔انہی خصوصیات کے باعث یہ بھارت میں تیزی سے پھیل گئی اور لاکھوں بھارتیوں کو وبا میں مبتلا کرنے لگی۔
قوم کو ''خوش خبری''
مودی مگر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبائے یہی راگ الاپتا رہا کہ بھارت میں وبا پھیلنے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ حکومت نے بہترین انتظامات کر رکھے ہیں۔حالانکہ ستمبر2020ء سے ڈیلٹا ویرینٹ نے اپنا کام دکھانا شروع کر دیا تھا۔20اکتوبر کو مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپیل کی کہ وہ وبا سے بچنے کے لیے حفاظتی تادبیر اپنا لیں۔
مگر ساتھ ہی قوم کو یہ ''خوش خبری''بھی سنائی کہ بھارت میں ہر دس لاکھ افراد میں صرف 83 اموات ہوئی ہیں۔گویا مودی نے اپنی تقریر سے بھارتی قوم کو یہ پیغام دیا کہ گھبرانے کی بات نہیں،وبا سے بھارت محفوظ ہے۔یہی وجہ ہے،بھارتی شہریوں نے حفاظتی طریقے اپنانے میں خاص دلچسپی نہیں لی اور پہلے کی طرح گھلتے ملتے رہے۔میل ملاپ کے ایسے ماحول میں ڈیلٹا کو پھیلنے کی کھلی چھٹی مل گئی۔
غلط ڈیٹا کا گورکھ دھندا
وبا نے جلد ہی مگر مودی کو جھوٹا اور دھوکے باز بھی ثابت کر دیا۔ اس طرح کہ مودی حکومت اموات کے حقیقی اعدادوشمار قوم سے پوشیدہ رکھتی رہی تاکہ اپنے آپ کو عوامی تنقید سے محفوظ رکھ سکے۔پچھلے چند ماہ سے ایسی کئی تحقیقی رپورٹیں سامنے آ چکیں جنھوں نے افشا کیا کہ مودی حکومت نے وبا کے مریضوں اور اموات سے متعلق درست ڈیٹا پیش نہیں کیا۔تادم تحریر کوویڈ 19سے بھارت میں چار لاکھ چھبیس ہزار مردوزن مارے جا چکے۔مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تعداد ''تیس سے چالیس لاکھ''کے درمیان ہے۔
اسی طرح مودی سرکار کے مطابق بھارت میں کل تین کروڑ سترہ لاکھ شہری وبا سے متاثر ہوئے۔مگر تحقیقی رپورٹوں کی رو سے یہ تعداد تیس سے پچاس کروڑ کے درمیان ہے۔ پچھلے سال بھارتی سرکاری تحقیقی اداروں کی تحقیق سے افشا ہوا کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح پچھلے پینتالیس برس میں سب سے زیادہ سطح پر پہنچ چکی۔مودی نے مگر سرکاری رپورٹیں منظرعام پہ نہ آنے دیں اور عوامی جلسوں میں یہ جھوٹ بولتا رہا کہ بیروزگاری میں خاص اضافہ نہیں ہوا۔ماہرین معاشیات مودی حکومت پہ یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ وہ شرح ترقی بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے تاکہ خود کو گڈ گورنس کا چیمپئن ثابت کیا جا سکے۔غرض کوویڈ 19وبا ایک بار پھر مودی کی دروغ گوئی دنیا والوں کے سامنے لے آئی۔
ڈاکٹر ارون کی رپورٹ
بھارت میں سب سے پہلے ریاست کیرالہ کے ایک ڈاکٹر،ارون مدھون نے یہ حقیقت واضح کی کہ وفاقی و ریاستی حکومتیں وبا سے مرنے والوں کی اموات اور مریضوں کی تعداد کم بتا رہی ہیں۔ڈاکٹر ارون نے اخبارات،ٹی وی نیوز،انٹرنیٹ اور ہسپتالوں کی دستاویز کا مطالعہ کر کے افشا کیا کہ ریاست کیرالہ میں ''60سے 70فیصد''اموات سرکاری رپورٹ میں شامل ہی نہیں۔کیرالہ حکومت نے ریاست میں وبا سے نمٹنے کی خاطر عمدہ انتظام کیا تھا۔لہذا ڈاکٹر ارون نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ اگر ریاست کیرالہ میں اموات کم بتائی گئیں تو دیگر ریاستوں میں اور بُرا حال ہو گا۔غرض بھارتی اور غیر ملکی ماہرین کی رپورٹوں سے آشکارا ہے کہ دنیا میں وبا نے سب سے زیادہ بھارتی باشندوں کو لقمہ اجل بنایا...اور اس خوفناک تباہی کا بنیادی ذمے دار نریندر مودی ہے۔
سچ یہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نے کورونا وائرس کی پھیل
ائی وبا کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔مودی نے لاک ڈائون بھی اس لیے لگایا تاکہ چین کو بدنام کر سکے۔جب اس نے بھارتی معیشت جام کر دی تو مودی کو ہوش آیا اور لاک ڈائون ختم کیا گیا۔تب بھی مودی سرکار نے وبا سے نمٹنے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی۔مودی کی لاپروائی کے سبب بھارتی عوام بھی وبا کو غیر اہم اور معمولی بیماری سمجھتے رہے۔ہر کسی کو یہی یقین رہا کہ وبا اسے نشانہ نہیں بنا سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق دسمبر2020ء تک وبا دس لاکھ بھارتیوں کو اپنا شکار کر چکی تھی۔گویا تب امریکا کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ مریض بھارت میں تھے۔اور حقیقی ڈیٹا دیکھا جائے تو بھارت ہی مریضوں کی سب سے بڑی تعداد رکھتا تھا۔
بھارتی بیوروکریسی کے رحم وکرم پر
کوویڈ 19کا اصلی ڈیٹا چھپانے کے لیے مودی نے یہ چال چلی کہ وبا سے نمٹنے کا سارا بندوبست اپنے وفادار سرکاری افسروں کو سونپ دیا۔یہ افسر سائنس داں اور ماہرین طب نہ تھے۔اسی باعث انھوں نے وبا سے نمٹنے کی خاطر مناسب اقدامات نہ کیے۔بس مودی کا بھونپو بنے یہ راگ الاپتے رہے کہ وبا قابومیں ہے۔وبا سے نمٹنے کی پالیسی طبی ماہرین کے ہاتھوں میں ہوتی تو وہ ضرور کچھ ٹھوس قدم اٹھا لیتے جن کے ذریعے کوویڈ سے نمٹنا آسان ہو جاتا۔خاص طور پہ لاکھوں بھارتیوں کی جانیں بچ جاتیں۔
وبا سے نمٹنے کی پالیسیاں تشکیل دینے کا کام بیوروکریسی کے سپرد کرنا مودی کی ایک اور کوتاہی ثابت ہوئی اور اسے بعد ازاں پشیمان و شرمندہ کر گئی۔دسمبر 2020ء تک ڈیلٹا ویرینٹ بہ شدت بھارت میں پھیلنے لگی۔مگر مودی سرکار بدستور مجرمانہ غفلت کا شکار رہی۔وہ کورونا وائرس کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہ تھی۔
یہی وجہ ہے،کرسمس اور سال نو کے موقع پر کئی بھارتی ریاستوں میں عوامی تقریبات منعقد ہوئیں۔ان میں لوگوں نے حفاظتی اقدامات کی دھجیاں اڑا دیں اور گھل مل گئے۔ماسک نہ پہننے کا مظاہرہ ہوا اور تین فٹ کی دوری بھی ہوا ہو گئی۔گویا ڈیلٹا ویرینٹ کو پنپنے کا سازگار ماحول مل گیا۔اس کی تو چاندی ہو گئی اور وہ مزے سے بھارتی شہریوں میں نفوذ کرنے لگی۔
انسانیت کو بچا لیا
بھارتی وزیراعظم مگر اس پھوں پھاں میں تھا کہ وفاقی حکومت کی ''بہترین ''منصوبہ بندی کے باعث وبا بھارت میں نہیں پھیل سکتی۔وہ بے خبر رہا کہ ڈیلٹا ویرینٹ خاموشی سے پھیل کر اس کی شہرت کا جنازہ نکالنے والی ہے۔اس دوران نئے سال کا سورج طلوع ہو گیا۔28جنوری 2021ء کو مودی نے بڑے غرور وفخر سے عالمی تنظیم،ورلڈ اکنامک فورم کے سالانہ اجلاس میں اعلان کیا:''بھارت نے کوویڈ 19پہ قابو پا کر انسانیت کو بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔''مودی اس بات پر بھی غرور کرتا رہا کہ بھارت دنیا بھر کو ویکسینیں فراہم کر رہا ہے۔
کورونا وائرس سے نبردآزما مودی کو اپنی فتح کا اتنا یقین تھا کہ اس نے کمبھ میلا منعقد کرنے کا اجازت دے دی۔یہ بھارتی ریاست،اترکھنڈ میں ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی مذہبی تقریب سمجھی جاتی ہے۔یوں مودی ہندو رہنمائوں کو خوش کرنا چاہتا تھا۔وجہ یہ کہ عنقریب بھارتی ریاستوں میں مقامی الیکشن ہونے والے تھے۔مودی کو یقین تھا کہ ہندو رہنما خوش ہو کر الیکشنوں میں بے جے پی کی کامیابی کے لیے سرگرمی سے انتخابی مہم چلائیں گے۔
ڈیلٹا کی دریافت
یہ مذہبی میلا مگر بھارت میں کورونا وائرس پھیلانے والا عظیم واقعہ(super spreader)ثابت ہوا۔اس میں دنیا بھر سے نوے لاکھ انسان شریک ہوئے۔ان کے مابین وائرس نے خوب دھما چوکڑی مچائی۔اور جب یہ لوگ واپس اپنے گھر گئے تو وائرس بھی ان کے ساتھ تھا۔یوں بھارت کے ان علاقوں میں بھی کورونا پہنچ گیا جہاں پہلے موجود نہ تھا۔وائرس کی ڈیلٹا ویرینٹ کو تو سوا ارب انسانوں کی وسیع منڈی مل گئی جہاں وہ خود کو بہتر بنانے کی خاطر اپنے جینیاتی مواد میں مذید تبدیلیاں لانے لگی۔
ڈاکٹر سبھاش سلون کے ریاست مہاراشٹر کے محکمہ صحت سے منسلک ہیں۔اواخر فروری2021ء میں انھیں محسوس ہوا کہ وائرس زیادہ تیزی کے ساتھ شہریوں سے چمٹ رہا ہے۔وہ جان گئے کہ کورونا کی نئی ویرینٹ نمودار ہو چکی۔انھوں نے ریاست سے لے کر وفاق تک،سبھی متعلقہ کارپردازان کو مطلع کیا کہ نئی ویرینٹ پیدا ہو چکی۔لیکن بھارتی بیوروکریسی اپنے حال میں مست تھی۔اس نے ایک معمولی ڈاکٹر کی دہائی پہ کان نہ دھرے اور خواب غفلت میں مدہوش رہی۔چناں چہ نئی ویرینٹ کو میدان صاف ملا اور وہ سرگرمی سے بھارتیوں کو شکار بنانے لگی۔عالمی ادارہ صحت نے بعد ازاں اس ویرینٹ کو'' ڈیلٹا ''کا نام دیا۔
کٹائی شروع ہوتی ہے
اُدھر نریندر مودی ریاستی الیکشنوں میں بی جے پی کی فتح چاہتا تھا۔خاص طور پہ اس کی نظر بنگال پر تھی۔وہاں وزیراعلی ممتا بینر جی آئے دن اس پر شدید تنقید کرتی تھیں۔مودی اپنے دست راست،امیت شاہ کو لیے بنگال پہنچا اور وہاں کئی جلسے منعقد کیے۔ان جلسوں میں لاکھوں لوگ شریک ہوئے۔یہ صورت حال دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ بھارت میں خطرناک وبا پھیلی ہوئی ہے۔ان جلسوں نے ڈیلٹا کو مذید پھلنے پھولنے کا موقع عطا کر دیا۔آخر فصل پک کر تیار ہو گئی۔مارچ 2021ء سے کٹائی کا آغاز ہو گیا۔
اواخرمارچ سے ڈیلٹا نے بھارتی قوم کو سان پہ دھر لیا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہسپتال مریضوں سے بھر گئے۔حتی کہ برآمدوں میں بھی جگہ نہ رہی۔آکسیجن اور متعلقہ ادویہ کی زبردست قلت دیکھنے کو ملی۔لوگ ان کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔جلد مریض مرنے لگے اور انھیں بچانے والا کوئی نہیں تھا۔پورے بھارت میں ہلچل مچ گئی۔اس دوران مودی کبوتر کی طرح ڈربے میں جا چھپا اور آنکھیں میچ لیں۔اِدھر موت بے دردی سے عوام کو نشانہ بنانے لگی۔روزانہ چار پانچ ہزار مریض چل بستے۔یوں مودی سرکار کی مجرمانہ غیر ذمے داری کا پول کھل گیا۔تب لاکھوں بھارتیوں نے سوشل میڈیا پہ مودی سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔بھارتی وزیراعظم اپنے فرائض بخوبی ادا نہیں کر سکا۔
ایک شعبدہ باز
بھارت سے ڈیلٹا ویرینٹ دیگر ممالک میں بھی پھیل گئی۔اس نے امریکا، برطانیہ، انڈونیشیا، ملائشیا، جنوبی کوریا،سنگاپور،پاکستان اور دیگر ملکوں میں وبا کی نئی لہر چلا دی۔ حتی کہ جو مردوزن صحتیاب ہو چکے تھے،انھیں دوبارہ بستر پہ لٹا ڈالا۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ فی الوقت کورونا وائرس کی تمام ویرینٹس یا اقسام میں سب سے زیادہ ڈیلٹا ہی خطرناک و سرگرم ہے۔وہ کم ازکم'' 130''ممالک میں پھیل چکی۔ نیز ڈیلٹا کے ذریعے ہی بیشتر اموات ہوئی ہیں۔حقائق سے آشکارا ہے کہ نریندر مودی کی غیر ذمے داری،غفلت اور سستی کی وجہ سے ڈیلٹا ویرینٹ نے جنم لیا۔
اس نے کورونا وائرس کو زیادہ خطرناک بننے کے بھرپور مواقع فراہم کیے۔اگر مودی مارچ 2020ء ہی سے وائرس کی روک تھام کے مناسب اقدامات کر لیتا تو ڈیلٹا وجود میں نہ آتی جو کئی ملکوں میں تباہی مچا رہی ہے۔اب تو بے وقوف بھارتی عوام کو سمجھ جانا چاہیے کہ مودی کوئی بہترین منتظم نہیں بلکہ شعبدہ باز ہے جو محض خوف ودہشت کے ہتھیار سے کام کراتا ہے۔مودی کی اصلیت عیاں ہو چکی۔پھر بھی اگلے الیکشن میں ہندو عوام نے اسے ووٹ دیا تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ مودی بھارت میں مذہبی انتہا پسندی پھیلانے میں کامیاب ہو چکا۔تب بھارتی مسلمانوں کو مذید ظلم وستم برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔