’نظریہ پاکستان‘ اور ’پاکستانیت‘ کے احیاء میں ہی بقاء ہے

ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف قدم بڑھانے سے قومی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔

ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی طرف قدم بڑھانے سے قومی مقاصد کا حصول ممکن ہے۔ فوٹو: فائل

امسال پاکستان کا74واں یوم آزادی جو در حقیقت یوم تاسیس بھی ہے، حسب دستور 14 اگست کو منایا جا رہا ہے۔

14اگست کو یوم تاسیس منانے کا فیصلہ وزیر اعظم لیاقت علی خان کی زیر صدارت پاکستان کی پہلی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا تھا جس کا ایک پس منظر ہے۔ گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں بر صغیر کے لوگوں نے ڈوگرا راج کے محکوم مسلمانان جموں و کشمیر کے ساتھ یکجہتی کا دن منایا تھا۔اس تحریک کے روح رواں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال تھے۔

پاکستان کا یوم تاسیس جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا تسلسل ہے۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے دور ہی میں اقتدار کی ہوس میں مبتلا سیاسی و غیر سیاسی عناصر نے "دو قومی نظریہ"کے سیاسی نور اور پاکستانیت کے شعور کو گھائل کرنا شروع کردیا تھا۔ان عناصر کا داؤ اس وقت چلا جب آہستہ آہستہ شعوری اور لاشعوری طور پر پاکستان کی منزل کو دور کرنے کیلئے عوام کو ماضی سے کاٹنے کا عمل تیز ہوگیا۔

عجب اتفاق ہے کہ آج قوم پاکستان کی تاریخ کو16دسمبر1971 کے بعد سے شروع کرتی ہے جس روز قائد اعظم کا پاکستان جغرافیائی اعتبار سے دو لخت ہوگیا تھا۔ خصوصاً ملک کے بیشتر ٹی وی چینلز میں اسکرین پر آنے والے دانشور،صحافی و سیاستکار حالات کو اسی تناظر میں دیکھتے ہیں،البتہ پرنٹ میڈیا میں 1947 سے لے کر 15دسمبر1971 کے متحدہ پاکستان کا ذکر بھی نظر آتا ہے اور مخصوص قومی ایام 23 مارچ، 14 اگست، 11 ستمبر، 16 اکتوبر، 9 نومبر یا 25 دسمبر کے مواقع پر ٹی وی پروگرامز میں آل انڈیا مسلم لیگ کی جدو جہد سے تشکیل پانے والے پاکستان کا تذکرہ بھی ہوتا ہے لیکن ان میں اکثر تحقیقی مواد شامل نہیں ہوتا ہے۔

پاکستان برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کی مشترکہ جدو جہد کا ثمر ہے جس کے لئے انہوں نے 1945-46 کے انتخابات میں اپنا حق خود اداریت استعمال کیا تھا اور اس رائے دہی میں بر صغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے علاوہ اقلیتی صوبوں کے مسلمانوں نے بھی ووٹ دیا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پاکستان معرض وجود میں آنا مشکل ہوتا۔ غیر منقسم مسلمانان ہند نے اپنے اسلامی تشخص اور مسلم قومیت کے جذبے کے اظہار کے ذریعے برصغیر میں مسلمانوں کے قومی وطن کی بنیاد رکھی تھی۔

برصغیر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کا اتحاد تحریک خلافت کا ثمر تھا جس نے مسلمانوں کو ایک نکتے پر مجتمع کیا ،بعد ازاں آل انڈیا مسلم لیگ نے قائد اعظم کی سر براہی میں مسلم قومیت کے اس جذبے کو منظم کرکے علیحدہ قومی وطن کا مطالبہ کیا جو کامیابی سے ہمکنار ہوا ۔ملی وحدت کے جذبے کی بیداری میں جہاں عوام الناس شامل تھے وہیں سر سید اور ان کے رفقاء کی جانب سے جدید تعلیم کا فروغ بھی اہم حصہ تھا۔

ملک بھر میں جدید تعلیم کا نصاب یکساں تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قومی وحدت کے لئے یکساں نظام تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔ ہمارے ہاں اب کہیں جا کر یکساں نظام تعلیم کے نفاذ پر عملی کام کا آغاز ہوا ہے۔ بد قسمتی سے قیام پاکستان کے اولین سالوں کے بعد مسلم قومیت کا یہ جذبہ ڈھلنے لگا ۔جبکہ پاکستانیت کا جذبہ پوری طرح بیدار نہ ہوسکا۔ حالات کو اس تناظر میں دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم قومیت کا جذبہ فرقوں اور مسالک میں منتقل ہوکر آہستہ آہستہ اپنی گرفت کم کرتا رہا جبکہ پاکستان میں صوبائیت، علاقائیت و نسل پرستی پروان چڑھتی رہی۔

1947 میں قیام پاکستان کے وقت سارے لوگ پاکستانی تھے اور ان کا ایک ہی جذبہ تھا کہ وہ مسلمان ہیں اور پاکستانی بس۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے ایک وفاق کی حیثیت سے ملکی بقاء کی خاطر اپنی زمینی شناخت اور عددی اکثریت کو قربان کرکے پہلے مغربی پاکستان میں ون یونٹ قائم کیا جس میں مغربی بازو کے چاروں صوبوں نے مد غم ہوکر مغربی پاکستان کی شکل میں ایک صوبائی وحدت کی تشکیل کی جس کے لئے سیاستدانوں نے اپنی سیاسی انا اور صوبائی شناخت کو بھی پس پشت ڈال دیا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وحدت مغربی پاکستان میں شامل ہونے والے صوبہ پنجاب نے 15 سال کے لئے صوبائی اسمبلی میں اپنی عددی اکثریت کو ایک وحدت میں شامل تینوں چھوٹے صوبوں میں تقسیم کر دیا تھا اور یہی حال 1956 کے آئین کی ترتیب کے وقت مشرقی پاکستان نے اپنی عددی اکثریت کو فراموش کرکے مغربی پاکستان کے ساتھ مساوی نمائندگی (پیریٹی)کو تسلیم کر لیا تھا لیکن1956 کے آئین کے مطابق فروری 1959 میں ہونے والے انتخابات سے قبل ہی امریکہ کی آشیر باد سے پاکستان میں جنرل اسکندر مرزا اور ایوب خان نے آئین منسوخ کرکے مار شل لاء نافذ کر دیا۔

اس آمرانہ دور کا عجیب الخلقت کارنامہ یہ ہے کہ اس دور میں نہ صرف ان سیاستدانوں کو مطعون کیا گیا جنہوں نے حصول پاکستان میں حصہ لیا تھا بلکہ عوام کو ماضی سے فطری طور پر کاٹ کر علیحدہ کردیا گیا، جس کے باعث اخلاقی اقدار کمزور ہوئیں اور تعمیری قدریں بھی پروان نہ چڑھ سکیں۔ دسمبر1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد سے لے کر آج تک ماضی کی یادوں سے دوری کا عمل دانستہ طور پر جاری ہے جس سے ریاست کا استحکام متاثر ہوا ہے ۔

تاریخ میں شخصیات اور ادوار کتنے ہی نا پسندیدہ کیوں نہ ہو ں ،انہیں ریکارڈ سے حذف نہیں کیا جا سکتا ۔پاکستان کی74سالہ تاریخ میں اولین 6سالوں کو چھوڑ کر 1958 کا عرصہ کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہے ۔1969کے اوائل تک ملک میں آمریت کا راج رہا جس کی یادیں بھی قابل فخر نہیں ۔دسمبر1971 کے بعد پاکستان کی سیاسی تاریخ میں منتخب اور غیر منتخب حکومتیں آتی رہیں اور ان ادوار کی یادیں بھی قابل تحسین قرار نہیں دی جاسکتیں لیکن بہر صورت یہ ادوار ہماری ملی تاریخ کا حصہ ہیں۔

آج جس امر کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ تحریک پاکستان ،قیام پاکستان کی یادوں اور ان سے جڑے واقعات کو یاد رکھنے کی ہے تاکہ بحیثیت قوم ہم ماضی سے سبق سیکھ کر مستقبل کی جانب قدم بڑھا سکیں لیکن اگر ماضی کو فراموش کرنے اور قومی رہنماؤں کے کار ہائے نمایاں کو نظر انداز کرکے آگے کی جانب پیش قدمی کی گئی تو وہ لا یعنی ہوگی ۔

مورخ1947 سے 1958 کے عرصہ میں 'جس کے آخری 5سال ملک میں سیاسی عدم استحکام رہا' ہونے والی اقتصادی ترقی کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔

اس دور کی ترقی بیرونی امداد اور قرضوں کے بغیر ہوئی تھی ۔یہ المیہ ہی ہے کہ آج پاکستان کے سالانہ بجٹ ملکی وسائل کے ذریعے نہیں بلکہ غیر ملکی قرضوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے زر مبادلہ کی ترسیل سے تیار کئے جاتے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ملک میں 1956 کے آئین کو اس کے تحت منعقد ہونے والے پہلے انتخابات سے قبل ہی منسوخ کر دیا گیا۔

1962 کا آئین ایک فرد واحد نے نافذ کیا جس کے ذریعے محدود جمہوریت کو متعارف کرایا گیا۔ستم ظریفی ہے کہ جس شخص نے آئین دیا تھا اس نے خود ہی اپنے آئین سے رو گردانی کرکے اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے فوج کے سربراہ کو دے دیا، جنہوں نے آئین کو منسوخ کر دیا اور بعض ایسے فیصلے بھی کئے جو دستور ساز اسمبلی کے کرنے کے تھے۔ ون یونٹ کو رائے عام کی منظوری کے بغیر ختم کرکے نئے صوبے تشکیل دیئے گئے،بہاولپور اور کراچی کی ماضی کی صوبائی حیثیت کو بحال نہیں کیا گیا۔

مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین مساوی نمائندگی (پیریٹی) کے مسلمہ اصول کو بہ جنبش سنگین منسوخ کر دیا گیا،حالانکہ یہ آئینی اقدامات دستور سازی کے بغیر نہیں ہونے چاہیے تھے۔ محض دستور ساز اسمبلی ہی اس طرح کے آئینی اقدامات کی مجاز تھی۔1970 کے عام انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آنے والی آئین ساز اسمبلی کا اجلاس بھی منعقد نہ ہوسکا اور ملک کا مشرقی حصہ علیحدہ ہوگیا۔

یہ انتخابات متحدہ پاکستان کی آئین سازی کیلئے منعقد ہوئے تھے لیکن16 دسمبر کو سقوط ڈھاکہ کے بعد اقتدار ملک میں اقلیتی سیاسی پارٹی کے سپرد کردیا گیا جس نے مغربی پاکستان کی دیگر سیاسی جماعتوں سے مل کر1973کا آئین مرتب کیا۔ مغربی پاکستان سے منتخب اراکین دستور ساز اسمبلی جو محض متحدہ پاکستان کے عوامی مینڈیٹ پر منتخب ہوئے تھے قانونی اور اخلاقی اعتبار سے عملاً مغربی پاکستان کے لئے دستور سازی کے مجاز نہ تھے۔ اس کے لئے مغربی پاکستان میں نئے انتخابات اور عوامی مینڈیٹ کے حصول کی ضرورت تھی۔


قبل ازیں1972 میں صوبہ سندھ کی اسمبلی نے اپنی قانون حدود سے تجاوز کرتے ہوئے ایک لسانی بل منظور کیا جو درحقیقت آئین ساز اسمبلی کا امتحان تھا۔1977اور1999 میں اس آئین کو بھی دو مرتبہ معطل کیا گیا لیکن اس میں مندرج "مسلمان کی تعریف" اور" ختم نبوت" سے متعلق باب اور آئین پر اسمبلی اور عوام میں طویل بحث و مباحثہ نیز اسمبلی میں موجود اس کی تمام متفقہ سیاسی پارٹیوں سے منطوری کے باعث آئین منسوخی سے محفوظ رہا لیکن کسی آئینی ترمیم کی پارلیمانی اور عوامی مباحث کے بغیر منظوری اس کے مستند ہونے کی ضمانت نہیں۔

بد قسمتی سے18ویں آئینی ترمیم سمیت بیشتر ترامیم مفاد عامہ کے بجائے گروہی ،سیاسی یا شخصی مفاد کے لئے ہی کی گئیں ہیں جن پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

سقوط ڈھاکہ کے بعد قوم لا شعوری طور پر مایوسی کا شکار ہوگئی تھی جس کے نتیجے میں موجودہ پاکستان کے لوگوں میں ملکی معاملات سے لاتعلقی اور رویوں میں غیر سنجیدگی بڑھنے لگی ۔عوام کے مختلف طبقات کی سیاست سے عدم دلچسپی کے ساتھ ساتھ غیر سنجیدگی لمحہ فکریہ ہے جو خطر ناک نتائج کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

آج لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ملکی معاملات اور زندگی کے مراحل میں نہ تو ان کی کوئی شنوائی ہے اور نہ ہی وہ کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔گذشتہ کئی دہائیوں سے ہونے والے انتخابات نتائج کے اعتبار سے لایعنی ثابت ہوئے ہیں جس کی بناء پر عوام اور خواص دونوں گہری مایوسی میں مبتلا ہیں ۔اگر ان کی مایوسی دور کرکے انہیں سیاست میں حصہ لینے پر آمادہ نہیں کیا جا سکا اور زندگی کے مراحل میں ان کی شنوائی پر توجہ مبذول نہ کی گئی تو قوم کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

دنیا بھر میں صنعتی انقلاب کے بعد عوامی حاکمیت کا جو شعور پیدا ہوا ہے اسے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ہمارے سامنے برصغیر میں برطانوی راج کی تاریخ موجود ہے ۔انگریزوں نے اپنی حکمرانی کو دوام بخشنے کے لئے محض جلیانوالہ باغ اور حروں کے روحانی پیشوا کا سہارا ہی نہیں لیا بلکہ صنعتی ترقی کے فوائد کو بھی بر صغیر میں منتقل کیا۔

سیاسی طور پر ہوم رول (Homerule) سے لے کر مقامی حکومتوں کے نظام کے اجراء ،مرکز اور صوبوں میں قانون ساز اداروں کے قیام اور وفاقی و صوبائی سطح پر اسمبلیوں کی تشکیل وہ اقدامات تھے جو ایک سامراجی طاقت نے برصغیر کے لوگوں کو اقتدار میں شامل کرنے کے لئے کئے تھے نیزمعاشرہ کے با اثر افراد کی عزت افزائی کرکے ان کو بھی جہانبانی کے عمل میں شامل کیا تھا۔

یہ اقدامات ایک طرح کی سیاسی مصالحت یا سمجھوتے (Political Compromises) تھے اور ایسے اقدامات آج بھی عوام میں اعتماد کی بحالی کے لئے کار آمد ثابت ہو سکتے ہیں۔ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ سیاسی یا انتظامی اقدامات خاص وقت (Time Bound) کے لئے اور خاص تاثر پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں ۔وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔

معاشرتی جائزے سے بعض حقائق منظر عام پر آتے ہیں اور مشاہدہ بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ عوام الناس ہوں یا خواص ،اسلام کے ساتھ ان کی قلبی وابستگی اظہر من الشمس ہے ۔وہ کبھی کسی غلط کام کو ،کسی خونریزی کو ،کسی بد عنوانی جعلسازی ،بے انصافی کو مذہب کے تناظر میں جائز قرار نہیں دیتے بلکہ واشگاف الفاظ میں کہتے ہیں کہ یہ کام مسلمانیت کے شایان شان نہیں اور ایسے کام کرنے والا مسلمان نہیں ہو سکتا۔

سماج کے اس تاثر کے مطابق انتہائی وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں "دو قومی نظریہ" ایک زندہ حقیقت ہے ۔بد نصیبی یہ ہے کہ پاکستانیت کے حوالے سے عوام اور خواص کے جذبات عموماً منفی ہیں ۔معاشرے میں کسی غلطی کے ارتکاب پر یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ "یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے" لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام اور خواص میں "نظریہ پاکستان "اور" پاکستانیت "کے جذبے کو جاگزیں کیا جائے اور معاشرہ میں عدل وانصاف اور اسلامی اخوت کے ساتھ ساتھ "انسانی بھائی چارہ" کو فروغ دیا جائے۔

بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ہمیشہ معاشرہ میں "انسانی اخوت "اور "سماجی انصاف " کے قیام و فروغ پر زور دیا ہے اور 1949 کی قرارداد مقاصد قائد اعظم کی سیاسی بصیرت، بین الاقوامی رجحانات اور برصغیر کے مسلمانوں کی امنگوں کی ترجمان ہے جس کو "نظریہ پاکستان" کی آئینی شکل قرار دیا جا سکتا ہے۔

دعائے وطن


اللہ میرے باغ کو توقیر عطا ہو
جو دل میں اتر جائے وہ تاثیر عطا ہو


ہر طائرِ خوش لحن چہکتا رہے مولا
یہ باغ وطن یوں ہی مہکتا رہے مولا


چھاے نہ اداسی درودیوار پہ اس کے
ہو روشنی ہر گنبد و مینار پہ اس کے


ہر فرد ہو خوش حال و خوش اطوار خدایا
اس خاک پہ آتے رہیں انوار خدایا


ہر دل میں یہاں خوے وفا پھیلتی جاے
ہر گھر میں محبت کی ہوا پھیلتی جاے


آنگن میں مہکتے رہیں پر نور سویرے
قائم رہیں دائم یہاں خوشبوؤں کے ڈیرے


(تابش کمال)


 
Load Next Story