بے دلی کیا یونہی دن گذر جائیں گے

کچھ کر گذرنے کی تمنا ہو تو ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔

چین میں اکتوبر انیس سو انچاس میں کمیونسٹ انقلاب آیا۔تب چین تیسری دنیا کا ایک پسماندہ ملک تھا۔اگلے دس برس بھی نئے نظام کی تعمیری تگ و دو ، طبقاتی کھینچا تانی اور نت نئے معاشی تجربات میں گذر گئے۔

لیکن جب انیس سو انسٹھ میں انقلاب کے دس برس مکمل ہونے کو آئے تو ملکی قیادت نے تمام تردرپیش چیلنجوںکے باوجود یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس ملک کو اب کبھی بھی مظلوم صورت غریب کی جورو نہیں دکھائیں گے بلکہ قومی تعمیرِ نو کا عزم باوقار انداز میں ظاہر کرنے کے لیے اگلے دس ماہ میں دس عظیم الشان عمارات تعمیر کریں گے۔

انیس سو اٹھاون میں منصوبہ بندی مکمل ہوئی اور جنوری انیس سو انسٹھ میں ان دس عمارات کی تعمیر کا کام ایک ساتھ شروع ہوا تاکہ اکتوبر میں جشنِ عشرہِ انقلاب کی باضابطہ تقریبات کے دوران اور اس کے بعد بھی یہ عمارات ریاست اور عوام کے کام آ سکیں۔

چونکہ سالگرہ کا مرکز بیجنگ تھا لہٰذا عمارتی تعمیر کا چیلنج بھی اسی شہر کی انتظامیہ اور کارکنوں نے قبول کیا۔ شہر کے مرکزی تئین آن من اسکوائر کے ایک سرے پر عظیم عوامی ہال تعمیر کیا گیا۔تاکہ مجلسِ قانون ساز نیشنل پیپلز کانگریس کو ایک بہتر جگہ میسر آ سکے اور چینی قیادت اس عمارت میں اعلیٰ غیر ملکی مہمانوں کا استقبال کر سکے۔

اسکوائر کے دوسرے سرے پر قومی عجائب گھر تعمیر کیا گیا تاکہ چین کی ڈھائی ہزار سالہ تہذیبی وراثت کو مناسب اور جدید انداز میں متعارف کرایا جا سکے۔

چائنیز پیپلز ریولوشنری میوزیم کی سات منزلہ عمارت تعمیر ہوئی۔آج بھی یہ ملک کا سب سے بڑا عسکری عجائب گھر ہے۔اس میں قدیم و جدید سامانِ حرب کے مشاہدے اور مختلف ادوار کی عسکری تاریخ سمجھنے کا انتظام ہے۔

چینی قومیتوں کی ثقافت ، شناخت اور اپچ اجاگر کرنے کے لیے چنگن ایونیو پر کلچرل پیلس آف نیشنلٹیز کی تعمیر مکمل ہوئی۔ایک ورکرز اسٹیڈیم تعمیر ہوا جس میں چھیاسٹھ ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔اسی اسٹیڈیم میں پہلے قومی کھیل منعقد ہوئے۔ وزیرِ اعظم چو این لائی کی نگرانی میں قومی زرعی نمائش کا ہال تعمیر ہوا تاکہ زرعی ترقی کی سالانہ نمائش کا سہولت سے انعقاد ہو سکے۔

غیر ملکی مہمانوں اور پیپلز کانگریس کے ارکان کی سہولت کے لیے آٹھ سو برس قدیم شاہی باغ کے سامنے روائتی چینی فنِ تعمیر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ریاستی مہمان خانہ تعمیر ہوا۔کئی برس بعد یہ مہمان خانہ عوامی استفادے کے لیے کھول دیا گیا۔

کانفرنسوں کے انعقاد اور غیر ملکی سفارت کاروں اور شہریوں کی رہائش کے لیے تب تک بیجنگ میں کوئی مناسب جگہ نہیں تھی۔چنانچہ اس کمی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے منزو ہوٹل بنایا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ اوورسیز چائنیز ہوٹل بھی تعمیر ہوا ( اس کا انتظام ان دنوں نجی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے )۔

انیس سو ایک سے قائم پرانا بیجنگ ریلوے اسٹیشن بڑھتی ہوئی سفری ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھا چنانچہ ایک جدید وسیع ریلوے اسٹیشن قائم کیا گیا جو اس دور میں ملک کا سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن کہلایا۔ یہاں سے نہ صرف ملک کے کونے کونے تک ریل جاتی تھی بلکہ ماسکو ، اولان بتور اور پیونگ یانگ کے لیے بھی بین الاقوامی ریل سروس شروع ہوئی۔


دس ماہ میں دس عمارتوں کا تجربہ آنے والے وقت میں ایسی بیسیوں تعمیرات کا موجب بنا جس کا نکتہ ِ عروج دو ہزار آٹھ کے بیجنگ اولمپکس کے وسیع تعمیراتی ڈھانچے اور رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے عالمی ایرپورٹ داکشنگ انٹرنیشنل کی شکل میں دنیا کے سامنے آیا۔

ایوب خان سے عمران خان تک پاکستان کا ہر حکمران چینیوں سے سیکھنے کا شدید خواہش مند رہا ہے۔ پاکستان کو ہر اس بنیادی سہولت کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی چودہ اگست انیس سو سینتالیس کو تھی۔

ہر برس یومِ آزادی کے موقع پر ہم چاق و چوبند پریڈ دیکھتے ہیں ، فلائی پاسٹ کے مزے لیتے ہیں ، ملکی و غیر ملکی ساختہ اسلحے کی نمائش کر کے یہ بتاتے ہیں کہ ہمارا وطن کس قدر مستحکم ہے۔ پریڈ میں چاروں صوبوں کے پہیوں والے فلوٹ ٹرک بھی شامل ہوتے ہیں۔ ان پر لڈی ، بھنگڑا ، لیوا اور خٹک ڈانس کے ذریعے ثقافتی نمایندگی ظاہر کی جاتی ہے۔

ٹی وی چینلز پر چودہ اگست سے ایک ہفتے قبل خصوصی نشریات شروع ہو جاتی ہیں۔ بچے اپنے اپنے اسکولوں میں اساتذہ کی رہنمائی میں طرح طرح کی تقاریر و نغموں کی ریہرسل کرتے ہیں۔قومی پرچم ، بیجز اور ٹوپیوں کا کاروبار چمک اٹھتا ہے اور پھر پندرہ اگست سے زندگی واپس تیرہ اگست کے ڈھرے پر آ جاتی ہے۔

ذرا یادداشت پر زور دے کر بتائیے کہ قیامِ پاکستان کی دسویں ، پچیسویں اور پچاسویں سالگرہ پر اس کے سوا بھی کچھ خاص ہوا تھا جو کہ ہر سال کے چودہ اگست کا ایس او پی ہے ؟

آج پاکستان پچھترویں برس میں داخل ہو گیا۔ ہمہ وقت عوام سے طرح طرح کی قربانیاں طلب کرنے کے عادی کسی سرکاری عمل دار سے سنا کہ ہم قیامِ پاکستان کی پلاٹینم جوبلی پر قوم کو جدید اسپتالوں، تحقیقی مراکز، بین الاقوامی معیار کے تعلیمی و تربیتی اداروں، سانس لینے کے لیے پارکس، ٹرانسپورٹ اور روزگار کی پلاٹینم جوبلی اسکیموں سمیت ایسے پچھتر تحائف دینے کا منصوبہ بنا رہے ہیں کہ جس کے ثمرات اس ملک کی آزادی کی صد سالہ تقریبات کا لمحہ آنے تک بھی فیض پہنچاتے رہیں گے۔

دنیا کا ایسا کون سا ملک ہے جو خود کو کسی نہ کسی سطح پر نازک دوراہے پر نہیں دیکھتا یا کسی اندرونی و بیرونی مشکل سے دوچار نہیں یا شعوری و لاشعوری طور پر کسی بھی طرح کے احساسِ عدم تحفظ کا شکار نہیں۔لیکن ان محرومیوں اور مشکلات کو گڈ گورننس یا فروغِ خود اعتمادی کی راہ میں رکاوٹ تو نہیں بنایا جا سکتا۔

کچھ کر گذرنے کی تمنا ہو تو ہر مسئلے کا حل موجود ہے۔محض وقت گذاری ہی منشور ہو تو ہر بنیادی مسئلے کے حل کی راہ میں داخلی و خارجی مسائل کو ڈھال بنا کر راہِ فرار اختیار کرنے کے متعدد راستے بھی مستقل کھلے ہوئے ہیں۔

بے دلی کیا یونہی دن گذر جائیں گے
صرف زندہ رہے ہم تو مر جائیں گے

(جون ایلیا)

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story