محرم الحرام کے تقاضے‘ اتحاد امت…

یہ مہینہ تاریخ اسلام کی عظیم شہادتوں خصوصاً حضرت امام حسینؓ و اہل بیتؓ سے خصوصی نسبت رکھتا ہے۔

محرم الحرام کے مہینے کی آمد کے ساتھ ہی باہمی رواداری و فرقہ وارانہ ہم آہنگی و یگانگت کو حکومتی و دینی سطح پر اجاگر کرنے کی حکومتی اجلاسوں و میڈیا میں مہم شروع ہو جاتی ہے۔

ضابطہ اخلاق و متفقہ نکات ترتیب دیے جاتے ہیں، صوبائی گورنرز، وزارت داخلہ و مذہبی امور و بین المذاہب، ہم آہنگی کی وزارت و دیگر وفاقی و صوبائی وزرا اختلاف مکاتب فکر کے علما و ذاکرین و قائدین کے ساتھ باہمی مشاورت پر مبنی امن اجلاس منعقد کرتے ہیں جہاں متفقہ اعلامیہ جاری کیا جاتا ہے جس میں قوم سے اتحاد و اتفاق برقرار رکھنے کی اپیل کی جاتی ہے۔

یہ سب انتظامات قابل تعریف اور وقت کی ضرورت ہیں ان کی اہمیت سے انکار نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام انتظامات و اپیلیں صرف ایک خاص مہینے و ایام کے لیے مخصوص کیوں؟ کیا قومی و دینی اتحاد و اتفاق مستقل بنیادوں پر ہمارے دین کا تقاضا نہیں، محرم الحرام اسلام میں حرمت والا مہینہ قرار دیا گیا جس کا احترام مشرکین مکہ بھی کرتے تھے اس کی حرمت اہل اسلام پر فرض ہے اس کی حرمت کا تقاضا ہے کہ باہمی اخوت و رواداری کو ہمیشہ و مستقل بنیادوں پر برقرار رکھا جائے۔

یہ مہینہ تاریخ اسلام کی عظیم شہادتوں خصوصاً حضرت امام حسینؓ و اہل بیتؓ سے خصوصی نسبت رکھتا ہے اور اس سے پہلے حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت علیؓ سمیت کئی صحابہ کرامؓ نے شہادت کا منصب حاصل کیا ان تمام مقدس شخصیات کی شہادت کا سبق ہے کہ اسلام کے اصولوں و عقیدہ توحید کی خاطر کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے موجودہ دور و حالات کا تقاضا ہے کہ ہم فرقہ وارانہ تنازعات کو ہوا دینے والی سازشوں سے ہوشیار رہیں جوکہ اسلام و مسلمان حکومتوں کے خلاف عالمی سازشوں کا پرانا حربہ ہے فرقہ وارانہ جوش خطابت سے ان تنازعات کو ہوا ملتی ہے ہر فرقہ میں کالی بھیڑیں موجود ہوتی ہیں ان کی شناخت ضروری ہے عوام کو ایسے عناصر کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہیے جو ہمارے درمیان فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے لیے بطور مہرہ استعمال ہوتے ہیں۔

شہیدین ؓ کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ ان کی سیرت و کردار کا مطالعہ کرنا اور اس کی روشنی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے ،تمام مسالک و فقہی گروہ محرم الحرام کی حرمت و تقدس پر متفق ہیں اور امام حسینؓ و اہل بیتؓ کی عظیم شہادتوں اور ان کی شخصیات و افکار سے عقیدت و محبت رکھتے ہیں اور ان پر عمل کرنا جز ایمان و عقیدہ سمجھتے ہیں لہٰذا یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کون عناصر ہم میں اختلاف پھیلا کر باہمی رواداری کو نشانہ بناتے ہیں جب کہ اس ماہ میں اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے ہونے والے حکومتی اجلاس میں شریک مختلف مکاتب فکر کے علما کرام ہمیشہ باہمی رواداری کا منظر پیش کرتے ہیں جس کا اندازہ راقم الحروف کو ایسے اجلاسوں میں شرکت کا موقعہ ملنے پر ہوا ہے۔


ان اجلاسوں میں کئی تجاویز بھی پیش کیں جس کی تفصیل اپنی تازہ کتاب ''کھلے دریچے'' میں اتحاد امت پر تحریر مضامین میں موجود ہے جو قومی اخبارات میں شایع ہوئے ، وفاقی حکومت نے بھی اس ضمن میں کئی اہم اقدامات اٹھائے ہیں، اس سلسلے کا ایک اہم قدم قومی تاریخی دستاویز ''پیغام پاکستان '' کا اجرا ہے جو گزشتہ سالوں میں دہشت گردی، انتہا پسندی، خودکش حملوں و فرقہ وارانہ تشدد کے حوالے سے ایک اہم دستاویز ہے۔

اس قومی سطح کی دستاویز میں تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے ذمے دار علما کرام کے متفقہ فتویٰ و تجاویز کی روشنی میں ترتیب دیے ہوئے نکات و ضابطہ اخلاق پر مبنی اس دستاویز پر خلوص نیت سے اگر عملدرآمد کیا جائے تو ملک فرقہ واریت، دہشت گردی، تعصب و مذہبی لسانی منافرت سے نجات حاصل کرسکتا ہے اور آئین پاکستان کے مطابق ایک اسلامی فلاحی جمہوری مملکت کا تصور عملی شکل اختیار کرسکتا ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کا تصور پاکستان تھا ۔

قائد اعظم نے فرقہ و فقہی اختلاف کے حوالے سے ایک اخباری رپورٹر کے سوال کے جواب میں جو عظیم اتحاد و یکجہتی کا درس دیا ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث فخر اور عین اسلامی اخوت و اتحاد کا مظہر ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ رپورٹر نے سوال کیا کہ'' آپ شیعہ ہیں یا سنی؟'' تو جواب میں قائد اعظم نے سوال کیا کہ خاتم النبین حضرت محمدؐ شیعہ تھے یا سنی؟

رپورٹر نے کہا ''وہ نہ شیعہ تھے نہ سنی'' تو قائد اعظم نے سنہری الفاظ میں لکھے جانے کے قابل یہ الفاظ ادا کیے کہ'' میں بھی نہ سنی ہوں نہ شیعہ بلکہ 'مسلمان' ہوں۔'' آج ہمیں بھی اسلام کی بالادستی اور ملک کے استحکام و بقا کے لیے خود کو ''مسلمان'' شناخت پر متحد ہونا ہوگا یہی دعوت اسلام ہے اور یہی مقدس شخصیات کی شہادتوں کا عظیم پیغام ہے جس پر چل کر ہم آج بھی فلاح و کامرانی حاصل کرسکتے ہیں۔

پاکستان کا تصور اور آئین ایک اسلامی آئین ہے قرارداد مقاصد بھی آئین کا حصہ ہے اس کی منظوری بھی علما کرام کے اتحاد کی مثال ہے جو انھوں نے ہر موقع پر پیش کی خصوصاً اسلامی فقہی اختلاف کے حوالے سے درپیش معاملات میں بھی علما کرام و دینی تنظیموں نے روشن خیالی کا ثبوت دیا اور نفاذ اسلام کے چیلنج کرنے والوں کو 1951 میں ''22 متفقہ نکات'' کی صورت میں باہمی فرقہ وارانہ و فقہی اختلافات کا بہترین حل پیش کیا جس میں شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث کے جید اکابر کے دستخط موجود ہیں اور حالیہ ''پیغام پاکستان'' کی دستاویز بھی موجود ہے یہ حالات کے تقاضوں اور 1973 کے دستور اسلامی کی روشنی میں ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد نے تمام فقہی مدارس دینیہ، علما کرام و محققین کے تعاون و باہمی مشاورت و اتفاق رائے سے تیار کی گئی حکمران اس کی افادیت امن اجلاسوں میں تسلیم کرتے ہیں ضرورت ہے کہ ان تمام اقدامات کو عملی شکل دی جائے۔
Load Next Story