درپیش مسائل کے حل کیلئے قومی یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہوگا
شرکاء کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
وطن عزیز کو آزاد ہوئے 74 برس مکمل ہوچکے ہیں اور اس سال پوری قوم نے ملی جوش و جذبے سے 75 واں یوم آزادی منایا۔یہ دن کسی بھی قوم کیلئے خود احتسابی اور تجدید عہد کا دن ہوتا ہے جس کی روشنی میں مستقبل کا تعین کیا جاتا ہے۔
اس یوم آزادی کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''75 واں یوم آزادی۔۔۔کیا کھویا کیا پایا؟'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سینیٹر اعجاز چودھری
(مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)
14 اگست کے حوالے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایسا دن ہے جب دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی حکومت آئی جس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد تھی۔ اس کا خواب اقبال ؒ نے دیکھا جبکہ برصغیر کے رہنماؤں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ اس وقت کی قیادت مصلحتوں کا شکار نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ آج نریندر مودی اور توا کی سوچ نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ پاکستان کی صورت میں الگ وطن کا قیام کتنا ضروری تھا۔
وہ لوگ جو دو قومی نظریے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، آج ان کی غالب اکثریت پر یہ واضح ہوچکا کہ دنیا کے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے درست نظریہ دیا، ان کے پائے کا دوسراکوئی لیڈر موجود نہیں ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایک الگ وطن بنایا بلکہ دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھا کر دیا، یہ کام بڑے بڑے حکمران، سیاستدان اور علماء نہیں کر سکے۔
پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں، یہاں کی اکثریت ان کا تحفظ کرتی ہے اور ریاستی سطح پر ان کے مخالف کوئی پالیسی نہیں ہے جبکہ بھارت میں تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ ہندوتوا کی سوچ کے تحت ان کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھی ہے۔ گزشتہ 75 برسوں سے ان کا بدترین استحصال ہو رہا ہے، ان کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا بلکہ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی جو انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔
اب وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، ڈیموگرافی تبدیل کی جارہی ہے جو افسوسناک ہے، ہمیں اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے ہر ممکن آواز اٹھانی چاہیے ۔موجودہ حکومت کشمیریوں کے حوالے سے جو کام کر رہی ہے، ماضی میں کسی نے نہیں کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیا اور وہ عالمی فورمز پر بھی اس حوالے سے پرزور آواز اٹھارہے ہیں۔
افغانستان اور خطے کے حوالے سے پاکستان نے ماضی میں جو پالیسی اختیار کی وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں تھی، ہم نے 40 سال اس کو بھگتا ہے مگر آج پاکستان نے خطے کی پالیسی میں زبردست تبدیلی کی ہے۔ ہم نے دنیا کو واضح کر دیا کہ ہم امن کیلئے ہیں، جنگ کیلئے نہیں۔ افغانستان کے معاملے میں بھارت، امریکا سے زیادہ ناکام ہوا ہے، اس نے وہاں جگہ جگہ قونصل خانے بنائے، سرمایہ کاری کی مگر آج وہ ناکامی سے دوچار ہے۔ وہ اپنی خفت مٹانے کیلئے شرارت کر سکتا ہے لہٰذا ہمیں اس سے محتاط رہنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں تیسری جمہوری حکومت کا تسلسل ہے جو خوش آئند ہے۔ میرے نزدیک اتحاد کیلئے پارلیمنٹ سب سے بہترین جگہ ہے لہٰذا ہم پارلیمنٹ کو جتنا استعمال کریں گے اتنے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ سڑکوں کی سیاست کی ممانعت نہیں ہے مگر ہمیں ملکی مسائل کا حل نکالنے کیلئے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔
انتخابات کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کی وجہ ہے، ہمیں اس جدید صدی میں جدید ٹیکنالوجی سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کیلئے لائحہ عمل بنانا چاہیے، اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ کرپشن، لوٹ مار، چوری، ہیرا پھیری و دیگر مسائل نے ملک کو کھوکھلا کر دیا، ہمیں ان مسائل کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، اس کیلئے احتساب اور انصاف ضروری ہے، یہی ہمارا مشن ہے۔
نوید چودھری
(مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی )
یوم آزادی تجدید عہد اور خود احتسانی کا دن ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ جس مقصد کیلئے آزادی لی کیا وہ پورا ہورہا ہے؟ اس میں کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ صرف آزادی کا دن منا لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ کسی میں بھی حب الوطنی کے جذبے کی کمی نہیں ہے، جب بھی کوئی مشکل گھڑی یا آفت آئی تو پوری قوم متحد ہوکر سامنے آئی ہے، سیاستدانوں نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے مگر بدقسمتی سے انہیں ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایا گیا، ان کے بارے میں غلط تاثر کو فروغ دیکر ملکی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
آمریت کے ادوار میں ملک کو نقصان ہوا جبکہ سیاستدان ملک سنوارتے رہے مگر انہیں پھانسی، جلا وطنی اور جیلوں کی صورت میں سزادی گئی۔ سپریم کورٹ میں صدراتی نظام کیلئے ریفرنس منظور ہوچکا ہے،اب ملک کا نظام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری جدوجہد پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کی ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سے ہی جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام کیا، ہم نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ دیا اور اس پر ابھی تک آگے چل رہے ہیں۔
ہم نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیکر ملک کو مضبوط کیا اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ پاکستان کیلئے جمہوری قوتیں ہمیشہ سے ہی اکٹھی رہی ہیں ، موجودہ حکومت کی سوچ مختلف ہے مگر اس کے باوجود ملکی مفادکے معاملات میں اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا،آصف زرداری اور شہباز شریف نے ملکی مفاد کی خاطر میثاق معیشت اور ملکر چلنے کی پیش کش کی مگر ان کو برا بھلا کہا گیا ، اس وقت ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے، معاشی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے لہٰذا ہمیں ذات کے بجائے قومی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔
امیر العظیم
(سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)
1947ء کے حالات و واقعات کے ساتھ اگر موجودہ ملکی حالات کا موازنہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اب حالات بہت بہتر ہیں۔ پاکستان کے وجود کے حوالے سے یہ سوال تھا کہ کیا تحریک پاکستان کامیاب ہوگی اور پاکستان بن جائے گا؟یہ قابل ستائش ہے کہ انتہائی مختصر عرصے میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور اس کا کریڈٹ قائد اعظم ؒ کو جاتا ہے۔
دنیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیں تو تحریک آزادی پاکستان کے علاوہ کوئی دوسری مثال نہیں ملتی جو 8 سے10 برسوں میں اتنی کامیاب ہوئی ہو کہ الگ وطن حاصل کرلے۔ یہ آزادی کوئی معمولی آزادی نہیں تھی بلکہ دو آزادیاں تھی، ایک انگریز سے اور دوسری ہندوؤں سے۔ پاکستان کے حوالے سے خیال تھا کہ یہ بن نہیں سکے گا اور جب بن گیا تو کہاگیا کہ چل نہیں سکے گا، چند ماہ میں دوبارہ ہندوستان سے جاملے گا۔ باوجود طویل جنگی تاریخ کے پاکستان نے ہر طرح کے حالات کا بخوبی مقابلہ کیا۔
بھارت شروع سے ہمارے خلاف کام کر رہا ہے، اثاثوں کی تقسیم میں اس نے رکاوٹیں ڈالی، پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پھر سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور مشرقی پاکستان سمیت ہمارے ملک میں مختلف سازشیں بھی کی۔ ہمارے ساتھ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگیں ہوئی مگر ہم کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ان کا بخوبی مقابلہ کرتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ہمیں ناکامی ملی مگر اس کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ہم نے سندھو دیش، گریٹر بلوچستان، پختونستان جیسی سازشوں کا مقابلہ کیا۔
آج اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان نے مختلف محاذوں پر ترقی کی ہے۔ آزادی کے وقت ہمارے ہاں کتنے کارخانے اور فیکٹریاں تھی اور آج کتنی ہیں؟ پبلک سیکٹر نے بے انتہا پوٹینشل دکھایا۔ سڑکیں، تعلیمی ادارے و دیگر شعبوں میں بہت زیادہ ترقی نظر آئی ہے۔ ملک میں کھیلوں کی سرپرستی نہیں ہوئی، کھیل کے میدان نہیں تھے، وسائل نہیں تھے مگر اس کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں عالمی سطح پر ملک کا نام روش کیا۔ کرکٹ، ہاکی و دیگر کھیلوں میں پاکستان عالمی چیمپیئن رہا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، کالج، یونیورسٹیوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے باوجود ہم نے کامیاب نیوکلیئر تجربات کیے اور ایٹمی طاقت بنے جو یقینا بڑی کامیابی ہے۔ ہم ہر میدان میں آگے بڑھے ہیں۔ پاکستان سے محبت کا جذبہ اور اظہار تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
آج بھی جب ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ'' کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ رگوں میں خون نہیں جوش دوڑ رہا ہے۔ آج نوجوان نسل بھی باشعور ہے اور اس کے جذبے جوان ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت دیمک زدہ ہے۔ جمہوریت کی ناکامی نے ہماری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا لہٰذا جب تک صحیح معنوں میں ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی تب تک استحکام نہیں آسکتا۔
جاگیرداروں، وڈیروں، خاندانوں اور اشرافیہ کی اجارہ داری اور سیاست میں عام آدمی کے پیچھے رہنے کی وجہ سے قومی محبت اور قومی مفاد کی روح کچلی جاتی ہے، عام آدمی کو سیاست میں آنے کا جمہوری حق دینے سے ملک میں امن و استحکام آئے گا اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو اپنے قوانین پر عملدرآمد کرانا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہمیں متناسب نمائندگی کے نظام کی طرف جانا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو مضبوط ہونا چاہیے، اس کیلئے حکومت کو اپنا اعتماد بحال اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
خواجہ عمران نذیر
(مرکزی رہنماپاکستان مسلم لیگ ،ن)
پاکستان کے تمام مسائل کا حل اتحاد سے ہی ہوکر گزرتا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے سب اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی خامیاں دور کریں اور ملک کی خاطر متحد ہوکر کام کریں، یہی یوم آزادی کا تقاضہ ہے۔ قائد اعظمؒ کو صرف خراج عقیدت ہی پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی تعلیمات اور عقائد پر عمل کرنا ہی ان کی اصل تقلید ہے لہٰذا ہمیں قائد اعظمؒ کے ویژن اور فرمودات کے مطابق ملک کو آگے لیجانا چاہیے۔
قائد اعظمؒ کی سوچ کے مطابق تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں ہمیشہ حکومتی بینچوں سے اتحاد، ملکی تعمیر و ترقی کی باتیں ہوتی ہیں مگر موجودہ دور حکومت میں سب کچھ الٹ ہے، یہاں حکومتی بینچوں سے انتشار کو ہوا دی جاتی ہے جبکہ اپوزیشن بینچ اتحاد اور ملکی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔ احتساب کے نام پر انتقام کے ذریعے ملک اور پارلیمنٹ کو کمزور کیا جارہا ہے، سیاستدانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ناانصافی اور ظلم پر مبنی معاشرہ چل نہیں سکتا۔ موجودہ لیڈر شپ اپنے ذاتی مفاد سے باہر نہیں نکلتی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں مگر دونوں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور محاذ، تقسیم اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو نقصان ہورہا ہے۔
یوم کشمیر پر ہر سال مال روڈ پر سیاسی جماعتوں کے کیمپ لگتے ہیں مگریہ پہلی مرتبہ ہوا کہ یوم کشمیر پر حکومتی جماعت کے علاوہ کسی کو کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس طرح کشمیر جیسے مسئلے پر بھی قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی اور آج تک اسے بحال نہیں کیا، ہم اس کو رول بیک نہیں کروا سکے۔ ہمیں کشمیر سمیت تمام ملکی مفاد کے مسائل پر صحیح معنوں میں کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے جمہوری رویے درست کرنا ہونگے، احتساب کے نام پر انتقام کی روش کو ختم کرنا ہوگا اور قوم کو تقسیم کے بجائے متحد کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔
اس یوم آزادی کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ''75 واں یوم آزادی۔۔۔کیا کھویا کیا پایا؟'' کے موضوع پر خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ ان سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
سینیٹر اعجاز چودھری
(مرکزی رہنما پاکستان تحریک انصاف)
14 اگست کے حوالے سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ ایسا دن ہے جب دنیا میں مسلمانوں کی سب سے بڑی حکومت آئی جس کے پیچھے ایک طویل جدوجہد تھی۔ اس کا خواب اقبال ؒ نے دیکھا جبکہ برصغیر کے رہنماؤں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں اس خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ اس وقت کی قیادت مصلحتوں کا شکار نہیں تھی یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ آج نریندر مودی اور توا کی سوچ نے دنیا کو یہ بتا دیا کہ پاکستان کی صورت میں الگ وطن کا قیام کتنا ضروری تھا۔
وہ لوگ جو دو قومی نظریے کی مخالفت کرتے آرہے ہیں، آج ان کی غالب اکثریت پر یہ واضح ہوچکا کہ دنیا کے عظیم لیڈر قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے درست نظریہ دیا، ان کے پائے کا دوسراکوئی لیڈر موجود نہیں ہے۔ انہوں نے نہ صرف ایک الگ وطن بنایا بلکہ دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھا کر دیا، یہ کام بڑے بڑے حکمران، سیاستدان اور علماء نہیں کر سکے۔
پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے حقوق حاصل ہیں، یہاں کی اکثریت ان کا تحفظ کرتی ہے اور ریاستی سطح پر ان کے مخالف کوئی پالیسی نہیں ہے جبکہ بھارت میں تمام اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔ ہندوتوا کی سوچ کے تحت ان کا بدترین استحصال کیا جارہا ہے جو افسوسناک ہے۔ کشمیر کے معاملے میں بھارت نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رکھی ہے۔ گزشتہ 75 برسوں سے ان کا بدترین استحصال ہو رہا ہے، ان کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا بلکہ بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرکے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی جو انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔
اب وہاں کشمیریوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، ڈیموگرافی تبدیل کی جارہی ہے جو افسوسناک ہے، ہمیں اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے ہر ممکن آواز اٹھانی چاہیے ۔موجودہ حکومت کشمیریوں کے حوالے سے جو کام کر رہی ہے، ماضی میں کسی نے نہیں کیا۔ وزیراعظم عمران خان نے خود کو کشمیر کا سفیر قرار دیا اور وہ عالمی فورمز پر بھی اس حوالے سے پرزور آواز اٹھارہے ہیں۔
افغانستان اور خطے کے حوالے سے پاکستان نے ماضی میں جو پالیسی اختیار کی وہ ہمارے حق میں بہتر نہیں تھی، ہم نے 40 سال اس کو بھگتا ہے مگر آج پاکستان نے خطے کی پالیسی میں زبردست تبدیلی کی ہے۔ ہم نے دنیا کو واضح کر دیا کہ ہم امن کیلئے ہیں، جنگ کیلئے نہیں۔ افغانستان کے معاملے میں بھارت، امریکا سے زیادہ ناکام ہوا ہے، اس نے وہاں جگہ جگہ قونصل خانے بنائے، سرمایہ کاری کی مگر آج وہ ناکامی سے دوچار ہے۔ وہ اپنی خفت مٹانے کیلئے شرارت کر سکتا ہے لہٰذا ہمیں اس سے محتاط رہنا ہوگا۔
اس وقت ملک میں تیسری جمہوری حکومت کا تسلسل ہے جو خوش آئند ہے۔ میرے نزدیک اتحاد کیلئے پارلیمنٹ سب سے بہترین جگہ ہے لہٰذا ہم پارلیمنٹ کو جتنا استعمال کریں گے اتنے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ سڑکوں کی سیاست کی ممانعت نہیں ہے مگر ہمیں ملکی مسائل کا حل نکالنے کیلئے پارلیمنٹ کو مضبوط کرنا ہوگا۔
انتخابات کا معاملہ سیاسی جماعتوں کے درمیان لڑائی کی وجہ ہے، ہمیں اس جدید صدی میں جدید ٹیکنالوجی سے انکار نہیں کرنا چاہیے بلکہ شفاف اور غیر جانبدار انتخابات کیلئے لائحہ عمل بنانا چاہیے، اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ کرپشن، لوٹ مار، چوری، ہیرا پھیری و دیگر مسائل نے ملک کو کھوکھلا کر دیا، ہمیں ان مسائل کو جڑ سے اکھاڑنا ہے، اس کیلئے احتساب اور انصاف ضروری ہے، یہی ہمارا مشن ہے۔
نوید چودھری
(مرکزی رہنما پاکستان پیپلز پارٹی )
یوم آزادی تجدید عہد اور خود احتسانی کا دن ہے کہ ہم جائزہ لیں کہ جس مقصد کیلئے آزادی لی کیا وہ پورا ہورہا ہے؟ اس میں کیا پایا اور کیا کھویا ہے۔ صرف آزادی کا دن منا لینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے کام بھی کرنا ہوتا ہے۔ کسی میں بھی حب الوطنی کے جذبے کی کمی نہیں ہے، جب بھی کوئی مشکل گھڑی یا آفت آئی تو پوری قوم متحد ہوکر سامنے آئی ہے، سیاستدانوں نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے مگر بدقسمتی سے انہیں ہمیشہ قربانی کا بکرا بنایا گیا، ان کے بارے میں غلط تاثر کو فروغ دیکر ملکی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
آمریت کے ادوار میں ملک کو نقصان ہوا جبکہ سیاستدان ملک سنوارتے رہے مگر انہیں پھانسی، جلا وطنی اور جیلوں کی صورت میں سزادی گئی۔ سپریم کورٹ میں صدراتی نظام کیلئے ریفرنس منظور ہوچکا ہے،اب ملک کا نظام بدلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری جدوجہد پارلیمانی نظام کو مضبوط کرنے کی ہے، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سے ہی جمہوریت کی مضبوطی کیلئے کام کیا، ہم نے جمہوریت بہترین انتقام کا نعرہ دیا اور اس پر ابھی تک آگے چل رہے ہیں۔
ہم نے 18 ویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو اختیارات دیکر ملک کو مضبوط کیا اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنایا۔ پاکستان کیلئے جمہوری قوتیں ہمیشہ سے ہی اکٹھی رہی ہیں ، موجودہ حکومت کی سوچ مختلف ہے مگر اس کے باوجود ملکی مفادکے معاملات میں اپوزیشن نے حکومت کا ساتھ دیا،آصف زرداری اور شہباز شریف نے ملکی مفاد کی خاطر میثاق معیشت اور ملکر چلنے کی پیش کش کی مگر ان کو برا بھلا کہا گیا ، اس وقت ملک مسائل میں گھرا ہوا ہے، معاشی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے لہٰذا ہمیں ذات کے بجائے قومی سوچ کو فروغ دینا ہوگا۔
امیر العظیم
(سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی)
1947ء کے حالات و واقعات کے ساتھ اگر موجودہ ملکی حالات کا موازنہ کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ شکر ہے کہ اب حالات بہت بہتر ہیں۔ پاکستان کے وجود کے حوالے سے یہ سوال تھا کہ کیا تحریک پاکستان کامیاب ہوگی اور پاکستان بن جائے گا؟یہ قابل ستائش ہے کہ انتہائی مختصر عرصے میں تحریک پاکستان کامیاب ہوئی اور اس کا کریڈٹ قائد اعظم ؒ کو جاتا ہے۔
دنیا میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا جائزہ لیں تو تحریک آزادی پاکستان کے علاوہ کوئی دوسری مثال نہیں ملتی جو 8 سے10 برسوں میں اتنی کامیاب ہوئی ہو کہ الگ وطن حاصل کرلے۔ یہ آزادی کوئی معمولی آزادی نہیں تھی بلکہ دو آزادیاں تھی، ایک انگریز سے اور دوسری ہندوؤں سے۔ پاکستان کے حوالے سے خیال تھا کہ یہ بن نہیں سکے گا اور جب بن گیا تو کہاگیا کہ چل نہیں سکے گا، چند ماہ میں دوبارہ ہندوستان سے جاملے گا۔ باوجود طویل جنگی تاریخ کے پاکستان نے ہر طرح کے حالات کا بخوبی مقابلہ کیا۔
بھارت شروع سے ہمارے خلاف کام کر رہا ہے، اثاثوں کی تقسیم میں اس نے رکاوٹیں ڈالی، پاکستان کو دل سے تسلیم نہیں کیا اور پھر سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا اور مشرقی پاکستان سمیت ہمارے ملک میں مختلف سازشیں بھی کی۔ ہمارے ساتھ اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگیں ہوئی مگر ہم کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی ان کا بخوبی مقابلہ کرتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کی صورت میں ہمیں ناکامی ملی مگر اس کے باوجود پاکستان قائم رہا۔ ہم نے سندھو دیش، گریٹر بلوچستان، پختونستان جیسی سازشوں کا مقابلہ کیا۔
آج اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان نے مختلف محاذوں پر ترقی کی ہے۔ آزادی کے وقت ہمارے ہاں کتنے کارخانے اور فیکٹریاں تھی اور آج کتنی ہیں؟ پبلک سیکٹر نے بے انتہا پوٹینشل دکھایا۔ سڑکیں، تعلیمی ادارے و دیگر شعبوں میں بہت زیادہ ترقی نظر آئی ہے۔ ملک میں کھیلوں کی سرپرستی نہیں ہوئی، کھیل کے میدان نہیں تھے، وسائل نہیں تھے مگر اس کے باوجود پاکستانی کھلاڑیوں نے مختلف کھیلوں میں عالمی سطح پر ملک کا نام روش کیا۔ کرکٹ، ہاکی و دیگر کھیلوں میں پاکستان عالمی چیمپیئن رہا۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، کالج، یونیورسٹیوں کے لیے وسائل نہ ہونے کے باوجود ہم نے کامیاب نیوکلیئر تجربات کیے اور ایٹمی طاقت بنے جو یقینا بڑی کامیابی ہے۔ ہم ہر میدان میں آگے بڑھے ہیں۔ پاکستان سے محبت کا جذبہ اور اظہار تسلسل کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔
آج بھی جب ''پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ'' کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ رگوں میں خون نہیں جوش دوڑ رہا ہے۔ آج نوجوان نسل بھی باشعور ہے اور اس کے جذبے جوان ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جمہوریت دیمک زدہ ہے۔ جمہوریت کی ناکامی نے ہماری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا لہٰذا جب تک صحیح معنوں میں ملک میں جمہوریت نہیں آئے گی تب تک استحکام نہیں آسکتا۔
جاگیرداروں، وڈیروں، خاندانوں اور اشرافیہ کی اجارہ داری اور سیاست میں عام آدمی کے پیچھے رہنے کی وجہ سے قومی محبت اور قومی مفاد کی روح کچلی جاتی ہے، عام آدمی کو سیاست میں آنے کا جمہوری حق دینے سے ملک میں امن و استحکام آئے گا اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔ الیکشن کمیشن کو اپنے قوانین پر عملدرآمد کرانا چاہیے، اس کے ساتھ ساتھ سیاسی نظام کو بدلنے کی کوشش کرنی چاہیے، ہمیں متناسب نمائندگی کے نظام کی طرف جانا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو مضبوط ہونا چاہیے، اس کیلئے حکومت کو اپنا اعتماد بحال اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ بند کرنا ہوگا۔
خواجہ عمران نذیر
(مرکزی رہنماپاکستان مسلم لیگ ،ن)
پاکستان کے تمام مسائل کا حل اتحاد سے ہی ہوکر گزرتا ہے لہٰذا ایک دوسرے پر تنقید کے بجائے سب اپنے گریبان میں جھانکیں، اپنی خامیاں دور کریں اور ملک کی خاطر متحد ہوکر کام کریں، یہی یوم آزادی کا تقاضہ ہے۔ قائد اعظمؒ کو صرف خراج عقیدت ہی پیش نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کی تعلیمات اور عقائد پر عمل کرنا ہی ان کی اصل تقلید ہے لہٰذا ہمیں قائد اعظمؒ کے ویژن اور فرمودات کے مطابق ملک کو آگے لیجانا چاہیے۔
قائد اعظمؒ کی سوچ کے مطابق تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر اپنا اپنا کام کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں ہمیشہ حکومتی بینچوں سے اتحاد، ملکی تعمیر و ترقی کی باتیں ہوتی ہیں مگر موجودہ دور حکومت میں سب کچھ الٹ ہے، یہاں حکومتی بینچوں سے انتشار کو ہوا دی جاتی ہے جبکہ اپوزیشن بینچ اتحاد اور ملکی تعمیر کی بات کرتے ہیں۔ احتساب کے نام پر انتقام کے ذریعے ملک اور پارلیمنٹ کو کمزور کیا جارہا ہے، سیاستدانوں کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔
یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ناانصافی اور ظلم پر مبنی معاشرہ چل نہیں سکتا۔ موجودہ لیڈر شپ اپنے ذاتی مفاد سے باہر نہیں نکلتی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی مخالف رہی ہیں مگر دونوں نے ہمیشہ ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دی۔ مسئلہ کشمیر ہو یا کوئی اور محاذ، تقسیم اور غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو نقصان ہورہا ہے۔
یوم کشمیر پر ہر سال مال روڈ پر سیاسی جماعتوں کے کیمپ لگتے ہیں مگریہ پہلی مرتبہ ہوا کہ یوم کشمیر پر حکومتی جماعت کے علاوہ کسی کو کیمپ لگانے کی اجازت نہیں دی گئی اور اس طرح کشمیر جیسے مسئلے پر بھی قوم کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ بھارت نے کشمیر کی حیثیت تبدیل کی اور آج تک اسے بحال نہیں کیا، ہم اس کو رول بیک نہیں کروا سکے۔ ہمیں کشمیر سمیت تمام ملکی مفاد کے مسائل پر صحیح معنوں میں کام کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنے جمہوری رویے درست کرنا ہونگے، احتساب کے نام پر انتقام کی روش کو ختم کرنا ہوگا اور قوم کو تقسیم کے بجائے متحد کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔