رسد میں رکاوٹیں اورلچکدار شرح مبادلہ مہنگائی مزید بڑھنے کا خطرہ

مارچ سے درآمدی افراطِ زر میں مسلسل اضافہ، اشیا کی پیداواری لاگت بلندی کی جانب گامزن

حکومت نے ترقیاتی فنڈز منصوبوں میں استعمال کرنے کے بجائے لائن ایجنسیوں کو منتقل کیے ۔ فوٹو : فائل

پاکستانی معیشت بتدریج کے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ تاہم رسد کی فراہمی میں رکاوٹوں کی وجہ سے قیمتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

کووڈ کی بار بار آنے والی لہریں خام مال، مشینری اور تیار مصنوعات کی ہموار رسد میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہیں۔ ان رکاوٹوں کی وجہ سے شپنگ فریٹ ریٹس بھی بڑھ گئے ہیں جو کووڈ سے پہلے برائے نام ہوا کرتے تھے۔ سپلائی چین میں آنے والی رکاوٹوں اور تعطل کی وجہ سے ٹرانزیکشن کی لاگت میں اضافہ ہوگیا ہے۔


حکومت نے گذشتہ مالی سال میں پی ایس ڈی پی کے تحت 680 ارب روپے خرچ کیے۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق لائن ایجنسیز سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی فنڈز ترقیاتی منصوبوں کے بجائے لائن ایجنسیوں کو منتقل کیے گئے۔

کووڈ کی وجہ سے غیریقینی صورتحال پیدا ہونے کے باعث سرمایہ کاروں نے ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ حکومت کی لائی گئی ایمنسٹی اسکیم کی وجہ سے بھی اس سیکٹر میں سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا۔ اس کے نتیجے میں ملکی معیشت میں بحالی کے آثار نمودار ہونے لگے ہیں۔

اسٹیٹ بینک نے زرمبادلہ کے ذخائر کو برقرا رکھنے پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے روپے کی قدر میں کمی ہونے دی۔ شرح مبادلہ لچکدار ہے۔ اس اپروچ کی وجہ سے درآمدی افراط زر میں مارچ سے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے مقامی سطح پر بھی اشیائے صرف مزید مہنگی ہونے کا خطرہ ہوگا۔
Load Next Story