افغان باقی کوہسار باقی

افغان طالبان کوہساروں کی پناہ لیتے ہوئے اپنے ملک و قوم اور ملت اسلامیہ کےلیے اپنی جانیں قربان کرتے رہے

اسلام کے فاقہ مست جیت گئے، ٹیکنالوجی ہار گئی اور اللہ پر یقین جیت گیا۔ (فوٹو: فائل)

11 ستمبر2001 کا دن امریکا کی عظمت کا نشان مانی جانے والی 2 بڑی عمارتوں کی تباہی، امریکی دفاعی ادارے پنٹاگان پر خودکش فضائی حملہ اور ہزاروں امریکی شہریوں کی موت، امریکا کا بغیر تصدیق کے اسامہ بن لادن پر حملوں کا الزام اور افغانستان میں حکمران طالبان سے اسے امریکا کے حوالے کرنے کا حکم۔ طالبان رہنما، مرد درویش ملاعمر کا امریکی حکومت سے شیخ اسامہ بن لادن پر ان حملوں میں ملوث ہونے کے شواہد کی فراہمی اور اس کے بعد اس پر مقدمہ چلانے کا اعلان۔ تاہم امریکا کی رعونت کہ نہ شواہد کی فراہمی، نہ طالبان کی حکومت پر اعتبار۔ 21 ویں صدی کے اوائل میں اس وقت کے فرعون اور امریکی صدر بش جونیئر کا صلیبی جنگوں کے آغاز کا اعلان۔

پھر کیا تھا، آن واحد میں نیٹو اور اس کے ساتھ 46 ملکوں کا اتحاد دنیا کی تمام ٹیکنالوجی، افواج اور دفاعی بجٹ ایک چھوٹے سے ملک کی تباہی کےلیے جمع ہوگیا۔ افغانستان کے حکمران طالبان نے ہمسائیوں کی جانب دیکھا تو ہمسائیوں نے بھی منہ موڑ لیا اور اپنے مسلمان بھائیوں کے قتل عام کےلیے اپنے گھروں کی چابیاں اغیار کے حوالے کردیں۔ امت مسلمہ کے خیرخواہوں نے اس فیصلے کے خلاف آواز اٹھائی تو آہنی ہتھیاروں اور بوٹوں کے ساتھ ان کی آواز کو دبا دیا گیا اور بہت سوں کو گرفتار کرکے جیلوں اور نامعلوم عقوبت خانوں میں بھیج دیا گیا۔

افغانستان کے سابقہ وار لارڈز نے اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھایا اور ایک دفعہ پھر افغان عوام پر ظلم و بربریت کی داستانیں رقم کرنے کےلیے تیار ہوگئے۔ ان میں سرفہرست جنرل عبدالرشید دوستم، جنرل فہیم، جنرل عبدالمالک، کریم خلیلی جیسے لوگ شامل تھے، جنہوں نے اس سے قبل دشت لیلیٰ اور کبھی مزار شریف میں طالبان کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔ پھر کیا تھا، فضا میں امریکی و نیٹو طیاروں کی بمباری تھی اور نیچے ان وار لارڈز کی شیطانیاں اور نشانہ بننے والی صرف ایک ہی قوت تھی، اور وہ تھے جذبہ ایمان سے سرشار تحریک اسلامی طالبان کے مردان سرفروش۔

افغانستان کی سرزمین ان سرفروشوں اور خدا مست لوگوں کےلیے آہن و آتش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ اور جو جان بچا کر پاکستان میں آرہے، ان کےلیے ایک قید خانہ بن گئی تھی۔ ہماری جیلیں اور عقوبت خانے کثیر تعداد میں ان سرفروشوں سے بھر چکے تھے جو کہ پاکستان کی سرحد کو دریائے آمو سے لے ہرات تک محفوظ بنانے کےلیے بغیر تنخواہ کے اپنی جانیں قربان کرنے کےلیے گھروں سے نکلے تھے۔ اس کے بعد ان کی چھانٹی کرکے اپنے نوجوانوں کو پکڑ کر ڈالروں کے بدلے امریکی افواج کے حوالے کیا جارہا تھا، جو ان کو لے کر سات سمندر پار کالے پانیوں میں لوہے کے پنجروں میں ڈال رہے تھے۔ ہماری کم بختی کی انتہا کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنی بیٹیاں تک اغیار کے ہاتھوں بیچ دیں۔

عام افغانی شہریوں کی جانیں بچانے کےلیے طالبان نے کابل سمیت افغانستان کے اہم شہروں کا کنٹرول چھوڑ دیا۔ جس کے بعد کابل میں ایسی حکومت تشکیل دی گئی جوکہ مکمل طور پر انڈیا کی سرپرستی میں کام کررہی تھی۔ پھرکیا ہوا؟

ہم سب نے دیکھا کہ جنگ کے یہ شعلے انڈین ایجنسیاں ہمارے پیارے وطن میں لے آئیں۔ جس کے باعث ہمارے بہترین سپاہی اس غلط پالیسی کا شکار ہوکر شہید ہوتے رہے۔ کہیں مساجد میں نمازی لہو رنگ تھے تو کہیں مزارات بم دھماکوں سے گونج رہے تھے۔ مدارس و اسکولوں میں بچے سفید وردی پہن کر جاتے تھے اور خون رنگ سرخی میں نہا کر ماؤں کو واپس ملتے تھے۔ ہمارے پیارے وطن کے بہت سے علما، پروفیسرز، ڈاکٹرز اساتذہ اور عوام اپنے ناکردہ گناہوں اور حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی سزا پاتے ہوئے اس صلیبی جنگ کا شکار ہوکر خالق حقیقی سے جاملے۔ فرقہ واریت کی ایک آگ اٹھی اور پورا ملک اس میں جلنے لگا۔


تاہم دوسری طرف افغانستان کے خدامست اور سرفروشوں نے وقت کے فرعونوں کے سامنے سرینڈر ہونے سے انکار کردیا اور افغانی کوہساروں کی پناہ لیتے ہوئے اپنے ملک و قوم اور ملت اسلامیہ کےلیے اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔ ہر طرح کی ٹیکنالوجی سے لیس ان افواج اور طاقت کے نشے میں چور بدمست ہاتھی کے خلاف لڑتے رہے۔ پوری امت مسلمہ کے ہزاروں شہزادے اس صلیبی جنگ میں شہید ہوگئے۔ تاہم اللہ کے ان شیروں نے ہمت نہیں ہاری اور صلیبی و سامراجی سانپ کی طاقت کے سامنے ڈٹے رہے اور اپنی جانوں کی پرواہ کیے بغیر ملت اسلامیہ کےلیے لڑتے رہے۔ کہیں تورا بورا کا چورا بنایا گیا، تو کہیں قندھار کے قبرستان سجائے گئے۔ کہیں قلعہ جنگی میں سیکڑوں سرفروس شہید ہوئے تو کہیں صحراؤں میں کنٹینر تنوروں میں دم گھٹنے سے جان کی بازی ہار گئے۔ افغانی جیلوں اور گوانتاناموبے کے پنجروں میں ظلم و تشدد برداشت کرتے رہے اور آہوں و سسکیوں میں اسلام کی فتح کےلیے دعا کرتے رہے۔

ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو دشمن کے پاس سب کچھ تھا، بلکہ سب کچھ سے بھی زيادہ تھا۔ ان کے ایک فوجی کی وردی اور اسباب کی قیمت 27700 امریکی ڈالر ہے، جو کہ پاکستانی روپوں میں تقریباً 45 لاکھ روپے بنتی ہے۔ جبکہ طالبان سرفروشوں کے پاس ٹوٹے جوتے بھی نہیں ہوتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ جدید جنگی طیارے، ڈرون ٹیکنالوجی، تھرموبیرک میزائل، کروز میزائل، F16 ،F18 ،B52، بحری جہازوں کی معاونت اگر اس کے علاوہ بھی ہتھیاروں کے نام لیے جائیں تو کئی صفحات بھر جائیں گے۔

اس 20 سالہ جنگ میں دشمن افواج نے اپنی رپورٹس کے مطابق جہاں پر 50 ہزار کھرب روپے سے زیادہ کے اخراجات کیے، جوکہ تاریخ انسانی میں ایک بہت بڑا جنگی بجٹ ہے۔ تاہم یہ صرف امریکا کا جنگی بجٹ ہے جبکہ دیگر نیٹو اتحاد کا بجٹ جمع کیا جائے تو پتا نہیں اعداد و شمار کہاں سے کہاں تک چلے جائیں گے۔

لیکن آخر پھر فیصلے کی گھڑی آن پہنچی اور 15 اگست 2021 کو اس عالمی ہاتھیوں کے لشکر کو ابابیلوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اہل ایمان جیت گئے، کفرکا ٹڈی دل لشکر ہار گیا۔ اسلام کے فاقہ مست جیت گئے، ٹیکنالوجی ہار گئی اور اللہ پر یقین جیت گیا۔

اہل ایمان کو ایک ہنستا بستا ملک مل گیا، کھربوں روپے کا مال غنیمت، کارپٹ روڈز، ایئرپورٹس، بڑے بڑے ڈیمز ہاتھ آئے۔

طالبان نے فتح کابل کے بعد اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیتے ہوئے فتح مکہ کی یاد تازہ کردی اور اپنے لاکھوں زخموں کو پس پشت ڈالتے ہوئے عام معافی کا اعلان کیا اور جو لوگ افغانستان سے جانا چاہتے تھے انہیں جانے سے نہ روکا، نہ کسی سے بدلہ لینے کا اعلان کیا اور نہ ہی مستقبل میں کسی کے خلاف انتقامی کارروائی کا عندیہ دیا۔ جس سے ظاہر ہورہا ہے کہ یہ فتح واقعی اسلامی فتوحات کا ایک سلسلہ ہے، جو کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ تک قائم رہے گا۔ ان شاء اللہ

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story