دنیا میں کتنا غم ہے۔۔۔
زندگی میں ملنے والے دکھوں سے کیسے نبردآزما ہوا جا سکتا ہے
غم انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ انسان کی زندگی میں آنے والی تکالیف اور دکھ اُسے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیتے ہیں۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔
آگے بڑھنے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔ انسان ایک زندہ نعش بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک غم زدہ شخص کے لئے دنیا کی کوئی رنگینی باقی نہیں رہتی۔ بھلا جس کا دل ہی اداس ہو اسے کوئی شئے کیسے بھلی لگ سکتی ہے۔غم ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی چیز کے کھو جانے پر سامنے آنے والا ردعمل ہوتا ہے۔
عموماً جب کسی کا کوئی عزیز اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو وہ غم میں مبتلا ہو جاتا ہے، یا اگر کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار تکلیف بیماری یا پریشانیوں کا شکار ہو تو انسان غمزدہ رہتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نقصان کے ہو جانے کی خدشے میں ہی انسان غمزدہ رہنے لگتا ہے، اور یہ خاصی بدترین صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
بالفرض کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار شدید بیماری میں مبتلا ہوجیسے موزی امراض اور وہ شخص دل کے بے حد قریب بھی ہو تو اس دوسرے شخص کو تکلیف میں دیکھنا خود ایک بڑی اذیت ہے اور اس سے بھی بڑی اذیت اپنی بے بسی پہ کلسنا ۔
زندگی میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں انسان کو اس کی بے بسی کا ادراک شدت سے ہوتا ہے۔ جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان کسی کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہو تو وہ احساس زہر قاتل کی مانند انسان کی نس نس میں بس جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی میں صدمات الگ نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے کہ کسی اپنے کا بچھڑ جانا، معاشرے میں ساکھ کا متاثر ہونا، ازدواجی زندگی کی ناکامی، بچے کی حادثاتی موت یا حالات کی ستم گیری جیسی مختلف وجوہات انسان کوغم کا شکار کر دیتی ہیں۔ اب اس صورت میں لوگوں کا عمومی طور پر پہلا ردعمل رونا یا چیخنا چلانا ہوتا ہے۔
احتجاجاً اپنی بے بسی کا اظہار لوگ یوں کرتے ہیں کچھ اس سے مختلف برتاؤ کرتے ہیں جو کہ شدت کو ظاہر کرتا ہے جیسے صدمہ میں چلے جانا یا بہت توڑ پھوڑ کرنا اور ہائیپر ہو جانا۔ یہ تو ابتدائی نوعیت کا ردعمل ہوتا ہے مگر اس کے بعد چند افراد میں ایسے رویوں کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
جیسے کچھ لوگ مسلسل ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غم کی ایک اور قسم شایدجو سننے میں مختلف لگے اور عجیب بھی مگر احقیقت یہ ہے کہ یہ قسم سب سے خطرناک ہو سکتی ہے ، جس کی بڑی وجہ سماجی طور پہ ملنے والا کوئی بھی غم ہے۔
جیسے کہ کسی کی معاشرتی حیثیت کو قبول نہ کیا جائے، یا بعض خواتین کا حمل ضائع ہو جائے ، شریک حیات کی بے وفائی ، کوئی حادثہ جس میں جانی و مالی نقصان ہوا ہو۔کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں کر پاتا کہ صدمے سے گزر کر غم کا شکارہونے والا شخص کس ذہنی کرب میں مبتلا ہوتا ہے ۔وہ اپنے اندر چھڑی مسلسل جنگ سے کس طرح لڑ رہا ہوتا ہے، اس کا اندزہ کرنا ممکن نہیں۔ذرہ سوچیئے ایک خاتون جب پہلی بار تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے آنے والے بچے کے حوالے سے کس قدر حساس ہوتی ہے وہ ہر پل ہر لمحہ اپنے آنے والے بچے کے لئے خواب بنتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اگر اس کا بچہ اس دنیا میں آنے سے قبل دم توڑ دیتا ہے تو یہ ناقابلِ تلافی نقصان اسے پاگل کر دینے کو کافی ہوتا ہے۔ اور تحقیق یہ بات ثابت بھی ہوئی ہے کہ اکثر خواتین حمل ضائع ہونے کے بعد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں اور انھیں زندگی کی جانب واپس لانے کے لئے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ایسا ہی حادثات کا شکارہونے والے افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے عموماً کسی ایکسیڈینٹ یا پھر کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں جانی نقصان اٹھانے والے شدید غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔جیسے کچھ لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیں یا پھر زندگی بھر کی کوئی محرومی لاحق ہو جاتی ہے تو ایسے لوگ بہت تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور دنیا سے شاکی رہنے لگتے ہیں، اپنا میل جول انتہائی محدود کر لیتے ہیں اور دنیا سے کٹ کہ جینے لگتے ہیں۔
بعض لوگوں سے جانے انجانے میں کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجاتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا اور وہ غم کے ساتھ احساسِ ندامت کے بوجھ تلے دب کر ساری عمر گزار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اگر ان کے شریک سفر ہی دھوکا سے دیں تو وہ جینے کے قابل نہیں رہتے اور دنیا سے ان کا اعتبار اٹھ جاتا ہے انھیں ہر شخص میں اپنے ساتھی کا عکس دکھائی دیتا ہے اور یہ غم انھیں چین سے جینے نہیں دیتا۔
کچھ لوگ اپنے کیرئیر کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور کسی امتحان یا میدان میں اگر نتیجہ ان کی توقعات کے برعکس آجائے تو وہ دل ہار بیٹھتے ہیں۔ اور مورال اس قدر ڈاؤن ہو جاتا ہے کہ زندگی میں پھر کبھی اٹھ بیٹھنے کا حوصلہ ہی کھو دیتے ہیں اور بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کے اپنے ہاتھوں سے زندگی کا خاتمہ کربیٹھتے ہیں۔کچھ لوگوں کا اپنے مالک سے تعلق کمزورپڑ جاتا ہے اور وہ غلط راہوں کا انتخاب کر لیتے ہیں تو جس لمحے انھیں یہ احساس ہوتاکہ کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں وہ لمحہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
مگر اس غم کا علاج انتہائی آسان ہے جو ندامت کے آنسوں کے چند قطروں سے دھل کرصاف ہوجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن لوگ اکثر معافی کے طلب گار ہونے کے بجائے ایک خود فریبی کی کیفیت میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ غم چاہے جس بھی نوعیت کا ہو اس میں سب سے اہم ہے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا ۔ اللہ اپنے بندے کو غم دے کر آزماتا ہے اور اسے یہ یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ 'میرے' سوا 'تیرا' کوئی نہیں۔
انسان اپنی چاہت کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے ۔ دنیا کی چکا چوند میں کھو کر گناہوں کی لذت میں گم ہوجاتا ہے یا جب بھی اپنے رب کی بنائی ہوئی حدود کے بار جانے کی سعی کرتا ہے تو اللہ کی ذات اسے ایک زبردست جھٹکا دے کر اپنی حیثیت یاد دلاتی ہے۔جب بھی کوئی غم آئے انسان کو کچھ چیزوں کو اپنا شعار بنا لینا چاہیئے۔ جیسے صدقہ دینا ۔ اللہ سے معافی طلب کرنا ۔اپنے کردہ ونا کردہ گناہوں کے لئے معافی کی درخواست کرنا۔ اس کے ساتھ حیرت انگیز طور پہ چند ایسی چیزیں سائنس بھی ثابت کر تی ہے جو کہ اللہ نے مذہب کے ذریعے بتائی ہیں۔
جسے کہ یہ بے حد ضروری ہے کہ جو نقصان ہوا ہو اس کا تعین کیا جائے۔ اگر کچھ کھو گیا ہے تو اس بات کو تسلیم کی اجائے کہ فلاں چیز یا شخص کھو گیا ہے اور اب وہ دوبارہ مل نہیں سکتا۔ مگر جب تک غم کی اصل وجہ کو تسلیم ہی نہیں کریں گے خود فریبی کا لبادہ اوڑھے رکھیں گے کچھ نہیں کر پائیں گے۔اس بات کا ادراک ہونا غم سے نجات پانے کو بے حد ضروری ہے کہ غم کا ملنا قدرتی ہے کسی شخص کا دنیا سے چلے جانا ایک حقیقت ہے کسی قیمتی چیز کا کھو جانا زندگی میں سب کچھ کھو دینے کے مترادف نہیں۔جس کو اس دنیا میں آنا ہے ایک نا ایک دن جان ابھی ہے ۔ ہر چیز کو فنا ہے۔پھرغم سے نگلنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے غم کو کسی سے بانٹ لیں۔
بعض اوقات بات انسان کی سکت سے باہر ہوتی ہے، دکھ کی نوعیت اس قدر شدید ہوتی ہے کے انسان کے اعصاب اسے جھیل نہیں پاتے۔کسی کے کندھے پہ سر رکھ کر رو لینے سے یہ بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ یا ایک بار اللہ کے سامنے سجدے میں گر کر رونے سے بھی دل کا ملال کم ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں یہ بوجھ بڑھتا چلا جائے گا اور ایک دن اسے اٹھانے کی سکت ختم ہو جائے گی۔ اگر رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ مل کر یہ غم بانٹ لیا جائے تو اس کیفیت سے نکلنے میں آسانی ہوگی ورنہ دوسری صورت میں غم اندر ہی اندر انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
لیکن کچھ لوگ طبیعتاً تنہائی پسند اور اپنے آپ میں رہنے والے بھی ہوتے ہیں ایسے افراد اپنے غم کو کسی سے بانٹنا نہیں چاہتے تو اپنی ڈائری پہ لکھ سکتے ہیں وہ ایک ایسے دوست کا کام دے سکتے ہے جو راز کو اپنت سینے میں دفن کرنے کافن جانتا ہو۔ غم کی کیفیت کے حوالے سے اپنے احسات کو قلم بند کرنے سے اپنا بوجھ ہلکا محسوس ہوگا۔
ایسے صورت میں بعض لوگ چور دروازوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔جیسے نشہ وغیرہ مگر یہ خود کو غم سے نکالنے کے بجائے خود کو برباد کرنے کی بدترین کوشش کے سوا کچھ نہیں۔اپنے لئے کچھ کرنا ہے تو اپنی ذات پہ توجہ دیں اچھا کھائیں پیئں، پہنیں اوڑھیں اور رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔اپنی کامیابیوں کو یاد کر کے ان کا اعتراف کریں، خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیں اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو کسی اچھے معالج سے رابطہ کریں۔ یاد رکھیں غم اس دنیا کی ایک حقیقت ہے اسے اپنی طاقت بنائیں کمزوری نہیں! ! ! .....
آگے بڑھنے کا حوصلہ چھین لیتے ہیں۔ انسان ایک زندہ نعش بن کر رہ جاتا ہے۔ ایک غم زدہ شخص کے لئے دنیا کی کوئی رنگینی باقی نہیں رہتی۔ بھلا جس کا دل ہی اداس ہو اسے کوئی شئے کیسے بھلی لگ سکتی ہے۔غم ایک ایسی نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جو کسی بھی چیز کے کھو جانے پر سامنے آنے والا ردعمل ہوتا ہے۔
عموماً جب کسی کا کوئی عزیز اس دنیا سے چلا جاتا ہے تو وہ غم میں مبتلا ہو جاتا ہے، یا اگر کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار تکلیف بیماری یا پریشانیوں کا شکار ہو تو انسان غمزدہ رہتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نقصان کے ہو جانے کی خدشے میں ہی انسان غمزدہ رہنے لگتا ہے، اور یہ خاصی بدترین صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔
بالفرض کسی کا کوئی قریبی رشتہ دار شدید بیماری میں مبتلا ہوجیسے موزی امراض اور وہ شخص دل کے بے حد قریب بھی ہو تو اس دوسرے شخص کو تکلیف میں دیکھنا خود ایک بڑی اذیت ہے اور اس سے بھی بڑی اذیت اپنی بے بسی پہ کلسنا ۔
زندگی میں بعض مقامات ایسے آتے ہیں جہاں انسان کو اس کی بے بسی کا ادراک شدت سے ہوتا ہے۔ جب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی انسان کسی کے لئے کچھ بھی کرنے سے قاصر ہو تو وہ احساس زہر قاتل کی مانند انسان کی نس نس میں بس جاتا ہے۔ کچھ لوگوں کی زندگی میں صدمات الگ نوعیت کے ہوتے ہیں جیسے کہ کسی اپنے کا بچھڑ جانا، معاشرے میں ساکھ کا متاثر ہونا، ازدواجی زندگی کی ناکامی، بچے کی حادثاتی موت یا حالات کی ستم گیری جیسی مختلف وجوہات انسان کوغم کا شکار کر دیتی ہیں۔ اب اس صورت میں لوگوں کا عمومی طور پر پہلا ردعمل رونا یا چیخنا چلانا ہوتا ہے۔
احتجاجاً اپنی بے بسی کا اظہار لوگ یوں کرتے ہیں کچھ اس سے مختلف برتاؤ کرتے ہیں جو کہ شدت کو ظاہر کرتا ہے جیسے صدمہ میں چلے جانا یا بہت توڑ پھوڑ کرنا اور ہائیپر ہو جانا۔ یہ تو ابتدائی نوعیت کا ردعمل ہوتا ہے مگر اس کے بعد چند افراد میں ایسے رویوں کی شدت بڑھتی چلی جاتی ہے۔
جیسے کچھ لوگ مسلسل ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غم کی ایک اور قسم شایدجو سننے میں مختلف لگے اور عجیب بھی مگر احقیقت یہ ہے کہ یہ قسم سب سے خطرناک ہو سکتی ہے ، جس کی بڑی وجہ سماجی طور پہ ملنے والا کوئی بھی غم ہے۔
جیسے کہ کسی کی معاشرتی حیثیت کو قبول نہ کیا جائے، یا بعض خواتین کا حمل ضائع ہو جائے ، شریک حیات کی بے وفائی ، کوئی حادثہ جس میں جانی و مالی نقصان ہوا ہو۔کوئی بھی اس بات کا اندازہ نہیں کر پاتا کہ صدمے سے گزر کر غم کا شکارہونے والا شخص کس ذہنی کرب میں مبتلا ہوتا ہے ۔وہ اپنے اندر چھڑی مسلسل جنگ سے کس طرح لڑ رہا ہوتا ہے، اس کا اندزہ کرنا ممکن نہیں۔ذرہ سوچیئے ایک خاتون جب پہلی بار تخلیق کے عمل سے گزر رہی ہوتی ہے تو وہ اپنے آنے والے بچے کے حوالے سے کس قدر حساس ہوتی ہے وہ ہر پل ہر لمحہ اپنے آنے والے بچے کے لئے خواب بنتی ہے۔
لیکن بدقسمتی سے اگر اس کا بچہ اس دنیا میں آنے سے قبل دم توڑ دیتا ہے تو یہ ناقابلِ تلافی نقصان اسے پاگل کر دینے کو کافی ہوتا ہے۔ اور تحقیق یہ بات ثابت بھی ہوئی ہے کہ اکثر خواتین حمل ضائع ہونے کے بعد نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں اور انھیں زندگی کی جانب واپس لانے کے لئے بہت جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
ایسا ہی حادثات کا شکارہونے والے افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے عموماً کسی ایکسیڈینٹ یا پھر کسی قدرتی آفت کے نتیجے میں جانی نقصان اٹھانے والے شدید غم کا شکار ہو جاتے ہیں۔جیسے کچھ لوگ اپنے اعضاء سے محروم ہوجاتے ہیں یا پھر زندگی بھر کی کوئی محرومی لاحق ہو جاتی ہے تو ایسے لوگ بہت تنہائی پسند ہو جاتے ہیں اور دنیا سے شاکی رہنے لگتے ہیں، اپنا میل جول انتہائی محدود کر لیتے ہیں اور دنیا سے کٹ کہ جینے لگتے ہیں۔
بعض لوگوں سے جانے انجانے میں کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجاتی ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں ہوتا اور وہ غم کے ساتھ احساسِ ندامت کے بوجھ تلے دب کر ساری عمر گزار دیتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو اگر ان کے شریک سفر ہی دھوکا سے دیں تو وہ جینے کے قابل نہیں رہتے اور دنیا سے ان کا اعتبار اٹھ جاتا ہے انھیں ہر شخص میں اپنے ساتھی کا عکس دکھائی دیتا ہے اور یہ غم انھیں چین سے جینے نہیں دیتا۔
کچھ لوگ اپنے کیرئیر کے حوالے سے بہت حساس ہوتے ہیں اور کسی امتحان یا میدان میں اگر نتیجہ ان کی توقعات کے برعکس آجائے تو وہ دل ہار بیٹھتے ہیں۔ اور مورال اس قدر ڈاؤن ہو جاتا ہے کہ زندگی میں پھر کبھی اٹھ بیٹھنے کا حوصلہ ہی کھو دیتے ہیں اور بعض تو اس حد تک چلے جاتے ہیں کے اپنے ہاتھوں سے زندگی کا خاتمہ کربیٹھتے ہیں۔کچھ لوگوں کا اپنے مالک سے تعلق کمزورپڑ جاتا ہے اور وہ غلط راہوں کا انتخاب کر لیتے ہیں تو جس لمحے انھیں یہ احساس ہوتاکہ کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں وہ لمحہ اذیت ناک ہوتا ہے۔
مگر اس غم کا علاج انتہائی آسان ہے جو ندامت کے آنسوں کے چند قطروں سے دھل کرصاف ہوجانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن لوگ اکثر معافی کے طلب گار ہونے کے بجائے ایک خود فریبی کی کیفیت میں زندگی گزار دیتے ہیں۔ غم چاہے جس بھی نوعیت کا ہو اس میں سب سے اہم ہے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا ۔ اللہ اپنے بندے کو غم دے کر آزماتا ہے اور اسے یہ یاد دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ 'میرے' سوا 'تیرا' کوئی نہیں۔
انسان اپنی چاہت کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھاتا ہے ۔ دنیا کی چکا چوند میں کھو کر گناہوں کی لذت میں گم ہوجاتا ہے یا جب بھی اپنے رب کی بنائی ہوئی حدود کے بار جانے کی سعی کرتا ہے تو اللہ کی ذات اسے ایک زبردست جھٹکا دے کر اپنی حیثیت یاد دلاتی ہے۔جب بھی کوئی غم آئے انسان کو کچھ چیزوں کو اپنا شعار بنا لینا چاہیئے۔ جیسے صدقہ دینا ۔ اللہ سے معافی طلب کرنا ۔اپنے کردہ ونا کردہ گناہوں کے لئے معافی کی درخواست کرنا۔ اس کے ساتھ حیرت انگیز طور پہ چند ایسی چیزیں سائنس بھی ثابت کر تی ہے جو کہ اللہ نے مذہب کے ذریعے بتائی ہیں۔
جسے کہ یہ بے حد ضروری ہے کہ جو نقصان ہوا ہو اس کا تعین کیا جائے۔ اگر کچھ کھو گیا ہے تو اس بات کو تسلیم کی اجائے کہ فلاں چیز یا شخص کھو گیا ہے اور اب وہ دوبارہ مل نہیں سکتا۔ مگر جب تک غم کی اصل وجہ کو تسلیم ہی نہیں کریں گے خود فریبی کا لبادہ اوڑھے رکھیں گے کچھ نہیں کر پائیں گے۔اس بات کا ادراک ہونا غم سے نجات پانے کو بے حد ضروری ہے کہ غم کا ملنا قدرتی ہے کسی شخص کا دنیا سے چلے جانا ایک حقیقت ہے کسی قیمتی چیز کا کھو جانا زندگی میں سب کچھ کھو دینے کے مترادف نہیں۔جس کو اس دنیا میں آنا ہے ایک نا ایک دن جان ابھی ہے ۔ ہر چیز کو فنا ہے۔پھرغم سے نگلنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے غم کو کسی سے بانٹ لیں۔
بعض اوقات بات انسان کی سکت سے باہر ہوتی ہے، دکھ کی نوعیت اس قدر شدید ہوتی ہے کے انسان کے اعصاب اسے جھیل نہیں پاتے۔کسی کے کندھے پہ سر رکھ کر رو لینے سے یہ بوجھ ہلکا کیا جا سکتا ہے۔ یا ایک بار اللہ کے سامنے سجدے میں گر کر رونے سے بھی دل کا ملال کم ہو سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں یہ بوجھ بڑھتا چلا جائے گا اور ایک دن اسے اٹھانے کی سکت ختم ہو جائے گی۔ اگر رشتے داروں اور دوستوں کے ساتھ مل کر یہ غم بانٹ لیا جائے تو اس کیفیت سے نکلنے میں آسانی ہوگی ورنہ دوسری صورت میں غم اندر ہی اندر انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ہے۔
لیکن کچھ لوگ طبیعتاً تنہائی پسند اور اپنے آپ میں رہنے والے بھی ہوتے ہیں ایسے افراد اپنے غم کو کسی سے بانٹنا نہیں چاہتے تو اپنی ڈائری پہ لکھ سکتے ہیں وہ ایک ایسے دوست کا کام دے سکتے ہے جو راز کو اپنت سینے میں دفن کرنے کافن جانتا ہو۔ غم کی کیفیت کے حوالے سے اپنے احسات کو قلم بند کرنے سے اپنا بوجھ ہلکا محسوس ہوگا۔
ایسے صورت میں بعض لوگ چور دروازوں کا بھی استعمال کرتے ہیں۔جیسے نشہ وغیرہ مگر یہ خود کو غم سے نکالنے کے بجائے خود کو برباد کرنے کی بدترین کوشش کے سوا کچھ نہیں۔اپنے لئے کچھ کرنا ہے تو اپنی ذات پہ توجہ دیں اچھا کھائیں پیئں، پہنیں اوڑھیں اور رب سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔اپنی کامیابیوں کو یاد کر کے ان کا اعتراف کریں، خدمت خلق کا کوئی موقع ہاتھ سے نا جانے دیں اور اگر پھر بھی افاقہ نہ ہو تو کسی اچھے معالج سے رابطہ کریں۔ یاد رکھیں غم اس دنیا کی ایک حقیقت ہے اسے اپنی طاقت بنائیں کمزوری نہیں! ! ! .....