حُسن و رنگ سے چہکتی خوش بُو سے مہکتی وادی یاسین
فلک بوش کوہ ساروں، گنگناتی آب شاروں، شافی چشموں، مچلتی ندیوں، شہیدوں، غازیوں اورسادگی میں بسی بے ریا انسانوں کی بستی.
وادی یاسین ضلع غذر کے انتظامی چار سب ڈویژنوں میں سے ایک ہے۔ اسے شہیدوں اور غازیوں کی وادی بھی کہا جاتا ہے۔
یہ وادی گلگت سے شمال کی جانب 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سڑک بھی یاسین کے گاؤں ترست تک پکی، کشادہ اور ہم وار ہے۔ اس سڑک پر مال بردار ٹرکوں، بسوں، کوچز، کاروں اور جیپوں کی آمد و رفت ہر موسم میں سارا سال جاری رہتی ہے۔ غذر روڈ کشادہ قصبوں سے گزرتا ہے۔ اس سڑک پر چڑھائی، ڈھلان اور تنگ موڑ وغیرہ نہ ہونے کے برار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس سڑک پر ٹریفک حادثات کے خطرات انتہائی کم ہیں۔ حالیہ طوفانی بارشوں کے دوران بھی یہ سڑک 'لینڈ سلائیڈنگ' سے محفوظ رہی ہے۔ اس لیے بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ غذر روڈ پر سفر انتہائی محفوظ ہے۔ گاڑی یا جیپ گلگت سے روانگی کے پانچ گھنٹے بعد وادی یاسین پہنچ جاتی ہے۔ یاسین خاص اور لالک جان شہید نشان حیدر کے گاؤں ہندور میں اچھے اور معیاری ہوٹل موجود ہیں۔
یہاں سے بہ جانب شمال ہم وار میدانی سرسبز و شاداب گاؤں تخت طاؤس، سلطان آباد، سندھی، برکولتی، ہندور اور املست سے ہوتے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے سفر کے بعد یاسین کے آخری گاؤں درکوت جو کہ گلگت بلتستان کا انتہائی آخری شمالی گاؤں ہے، میں آپ داخل ہوں گے۔ درکوت کا نصف رہائشی قصبہ میدانی ہے۔
دریائے سندھ کے تین سرچشموں میں سے ایک منبع درکوت کے مغربی، مشرقی اور شمالی ندیاں، چشمے اور گلیشئرز کے رواں پانیوں پر مشتمل ہے۔ درکوت کے چاروں اطراف بلند بالا برف پوش چوٹیاں، لاتعداد گلیشئرز، پہاڑی درّے اور گزر گاہیں موجود ہیں۔ یہاں سے شمال کی جانب گیکوشی نالہ میں گرم چشمہ موجود ہے۔ درکوت سے اس چشمے تک پیدل مسافت تین گھنٹے کی ہے۔ تاہم جیپ سے بھی یہاں پہنچا جاسکتا ہے، سڑک ناہم وار ہونے کے باعث ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔
اس گرم چشمے میں نہانے، جسم دھونے اور اس کو پینے سے بیماریاں جاتی رہتی ہیں، خاص کر جلد کی بیماریاں، گھٹنوں کے درد، موٹاپے کو کم کرنے، معدے اور سردرد جیسی بیماریوں کا یہ چشمہ شافع علاج ہے۔ چوں کہ اس چشمے میں گندھک موجود ہے اس لیے یہ جوڑوں کے درد کے لیے اکسیر اور پرانی پوشیدہ و پیچیدہ امراض میں تیر بہ ہدف ثابت ہوتا ہے۔ اس چشمے سے شمال کی جانب عمودی چڑھتے جائیں تو ایک گھنٹے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد مشہور و معروف درکوت پاس کا گلیشئر شروع ہوتا ہے۔
یہ گلیشئر نو میل غرباً اور شمالاً انگریزی حرف وی(V) کی شکل میں تہہ در تہہ ایک سرا بروغل کے انتہائی مشرقی گرمائی چراگاہ شواشر اور دوسرا سرا بروغل کی آبادی چکر سے جا ملتا ہے۔ گرم چشمہ درکوت سے چکر بروغل کی سرحدی گاؤں کی پیدل (گلیشیئر پر) مسافت بارہ گھنٹے کی ہے۔ درکوت سے مغرب کی جانب غموبر کا نالا اور اس کا گلیشئر واقع ہے اس گلیشیئر کا مشرقی نشیبی سرا درکوت قصبہ کو چھو لیتا ہے۔ غموبر گلیشیئر کے شروع میں یخ بستہ مٹیالے رنگ کی پانی کی وسیع و عریض جھیل ہے۔ جو درکوت کے بعض مقامات سے نظر آتی ہے۔
غموبر نالا کے ڈھلوان چڑھنے کے بعد ایک ہی دن میں وادی یاسین کے دوسرے گاؤں تھوئی کے نالا دسپر میں داخل ہوتے ہیں۔ درکوت سے مشرقی جانب درکوت بلند ترین مستقل رہائشی بستیاں موسومہ گرتنج و گاملتی آباد ہیں۔ یہ بستیاں درکوت کی نصف آبادی پر مشتمل ہیں۔ یہاں کا موسم اس قدر شدید سرد ہے کہ ماسوائے بید کے دیگر پھل دار درخت نشو و نما نہیں پاتے۔ ان بستیوں کے باشندے جفاکش اور اچھے قد و قامت کے مالک ہیں۔ لیکن معیار زندگی پست ہے۔ آمدنی گندم کی فصل اور جو کی قلیل پیداوار، محدود تعداد بیل، گائے، بکریاں اور دیسی گھی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں سے آلوؤں کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ جس سے قلیل مقدار میں پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ جنگل نایاب اور عمارتی اور جلانے کی لکڑی کی تنگی ہے۔ اکثریتی آبادی پاک فوج میں ملازمت، راج، ترکھان اور تعمیراتی کاموں سے منسلک ہے۔ یہ لوگ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ سال بھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے گلگت اور دیگر ملحقہ علاقوں میں جا کر محنت مزدوری کر کے بڑی تنگ دستی سے گزر بسر کرتے ہیں۔
ان سرحدی دیہات سے مشرق کی جانب دو مشہور سرحدی نالوں ہنیصرپر اور آٹر کے دروں سے گزر کر اشکومن وادی میں داخل ہونے کے راستے ہیں۔ قلیل تعداد میں سیاح موسم گرما میں ان راستوں سے آتے جاتے ہیں۔ راستے میں قابل دید مقامات، سر بہ فلک چوٹیاں اور نیلگوں جھیلیں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ درکوت وادی سے شمال مغرب میں یاسین کا خُوب صورت ترین سرسبز نالا دولنگ واقع ہے۔ یہ نالا تا حد نگاہ سرسبز اور اس کے بائیں طرف ضلع غذر کے بلند ترین برف پوش چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
یہاں بے شمار گلیشیئرز بھی ہیں۔ ان چوٹیوں کے اردگرد اکثر کالے و سفید بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ نالا دولنگ اور اس کے عظیم ترین چوٹیاں دوسرے پہاڑوں کے پس پشت ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی نظروں سے ہمیشہ پوشیدہ رہتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ یہ چوٹیاں درکوت کے شمال مغرب بروغل کے جنوب اور تھوئی کے شمال مشرق میں واقع ہیں۔
درکوت سے جنوب مشرق میں ایک جاذب نظر شاداب پہاڑ ہے۔ درکوت گاؤں سے تین گھنٹے کی ڈھلوان چڑھنے کے بعد اس کی ہم وار چوٹی پر پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر تنگ قدرتی درّہ واقع ہے، اس درّے کے جنوباً چند منٹ سفر کرنے کے بعد انسان ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے، جہاں سے وادی یاسین کا 70 فی صد دیہات و قصبے اور سلسلہ ہندوکش کے لاتعداد پہاڑی سلسلے ایک قطار میں نظر آتے ہیں۔ گویا کوئی مسافر جیٹ جہاز پر سوار نیچے انتہائی نشیب میں واقع قصبوں، وادیوں اور سلسلے ہائے کوہ کا نظارہ کر رہا ہو۔ کس قدر تعجب خیز نظارہ ہے۔
یہ دل فریب مقام خلتر جھیل یاسین کی چھت معلوم ہوتا ہے، اس مقام سے بلامعاوضہ بغیر کسی محنت و مشقت کے اور بغیر کئی دنوں اور گھنٹوں کی مسافت کے محض چند لمحوں میں وادی یاسین کی فضائی سیر کی جاسکتی ہے۔ بیٹھ جائیں یا کھڑے رہیں، فوٹو گرافی کریں یا دُوربین آنکھوں کے سامنے لگائیں پھر شمالاً و جنوباً نظارہ کریں۔ ترست کے فلک بوس چوٹیوں کا لطف اٹھائے۔ یاسین کا بیشتر علاقہ، قصبے، گاؤں، چوٹیاں، گلیشیئرز اور نہ جانے کیا کیا سب کچھ نظروں کی گرفت میں، کس قدر سستی سیاحت ہے یہ، کبھی اس سے قبل ایسا تجربہ ہوا تھا ؟ یقیناً آپ کا جواب: نہیں ہوگا، لیکن یہ ٹھوس جواب وہاں کی سیر کے بعد ہی آپ دیں گے۔ اس تجربے سے قبل ہرگز نہیں۔
نلتر بہ ذات خود کیا ہے۔۔۔۔؟ جھرنوں، آب شاروں، گلیشیئروں، بید مجنوں، نرم و نازک لچک دار درختوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ، سرسبز ٹیلوں، شاداب میدانوں کے درمیان مویشیوں کی مستیاں اور ان مرغ زاروں کے بیچ شفاف جھلملاتی نیلگوں پانی کا حسین ترین (2400) چوبیس سو فٹ جھیل، اس قدرتی جھیل کے تہہ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
جس کے کناروں پر قطار در قطار چھملنگ (Chhimilling) جس کے معنی مقامی زبان بروششکی میں زہریلے، خوش نما پھول اور سرسبز جڑی بوٹیاں ہیں، کے ہوا کے جھونکوں میں لہراتے کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ ان زہریلے جھڑی بوٹیوں کو مقامی لوگ مسوڑھوں اور دانتوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سامنے جھیل سے جنوب مشرق میں دیریارے کا معروف حسین برف سے لدی پھندی دوھولی چھش (Dhuholi Chish) نامی چوٹی واقع ہے اور آپ کو بتاتے چلیں کہ دوھولی چھش کا مطلب روٹھی ہوئی چوٹی ہے۔
یہ چوٹی ہمیشہ تہہ در تہہ برف سے ڈھکی اور اکثر بادلوں میں اوجھل رہتی ہے۔ اس مقام سے بیچوں بیچ مشرق سے جنوباً مڑتی ہوئی برفیلے گلیشیئر سے پھٹتی، لڑھکتی، مچلتی، تندی سے شور مچاتی نغمے بکھیرتی ندی کا پانی جنوبی آخری حدود میں داخل ہونے کے بعد آب شاروں میں بٹ کر انتہائی نشیب میں جا گرتا ہوا روڈ کے اوپر بہتا ہوا دریائے یاسین سے جا ملتا ہے۔
اس دل نشیں نالے کا 15 ہزار فٹ بلند مشرقی درّہ جو جھیل سے چار گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ اسے اب تک سر نہیں کیا گیا ہے۔ ایک یا دو دنوں کی 'ٹریکنگ' میں اس نالا کی مکمل سیر ہو سکتی ہے۔ نالا خلتر کی خلتر ندی کے آب شار کے ساتھ مختصر مگر نسبتاً دشوار متبادل عمودی راستہ بھی موجود ہے، لیکن اس راستے سے ہو کر خلتر جھیل پہنچنا عام سیّاح کے لیے قدرے مشکل ہے۔ مقامی لوگ عموماً اس راستے سے آتے جاتے ہیں۔
وادی یاسین کے سیکڑوں قابل دید مناظر اور تفریحی مقامات حکومتی اور محکمۂ سیاحت گلگت بلتستان کی بے توجہی اور بے حسی کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاحت سے خصوصی دل چسپی کے باوجود نہ جانے کب تک گلگت بلتستان کی حکومت اور شعبۂ سیاحت سے منسلک افراد ان دل نشین تفریح گاہوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے۔
یہ وادی گلگت سے شمال کی جانب 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور سڑک بھی یاسین کے گاؤں ترست تک پکی، کشادہ اور ہم وار ہے۔ اس سڑک پر مال بردار ٹرکوں، بسوں، کوچز، کاروں اور جیپوں کی آمد و رفت ہر موسم میں سارا سال جاری رہتی ہے۔ غذر روڈ کشادہ قصبوں سے گزرتا ہے۔ اس سڑک پر چڑھائی، ڈھلان اور تنگ موڑ وغیرہ نہ ہونے کے برار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس سڑک پر ٹریفک حادثات کے خطرات انتہائی کم ہیں۔ حالیہ طوفانی بارشوں کے دوران بھی یہ سڑک 'لینڈ سلائیڈنگ' سے محفوظ رہی ہے۔ اس لیے بلامبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ غذر روڈ پر سفر انتہائی محفوظ ہے۔ گاڑی یا جیپ گلگت سے روانگی کے پانچ گھنٹے بعد وادی یاسین پہنچ جاتی ہے۔ یاسین خاص اور لالک جان شہید نشان حیدر کے گاؤں ہندور میں اچھے اور معیاری ہوٹل موجود ہیں۔
یہاں سے بہ جانب شمال ہم وار میدانی سرسبز و شاداب گاؤں تخت طاؤس، سلطان آباد، سندھی، برکولتی، ہندور اور املست سے ہوتے ہوئے لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے سفر کے بعد یاسین کے آخری گاؤں درکوت جو کہ گلگت بلتستان کا انتہائی آخری شمالی گاؤں ہے، میں آپ داخل ہوں گے۔ درکوت کا نصف رہائشی قصبہ میدانی ہے۔
دریائے سندھ کے تین سرچشموں میں سے ایک منبع درکوت کے مغربی، مشرقی اور شمالی ندیاں، چشمے اور گلیشئرز کے رواں پانیوں پر مشتمل ہے۔ درکوت کے چاروں اطراف بلند بالا برف پوش چوٹیاں، لاتعداد گلیشئرز، پہاڑی درّے اور گزر گاہیں موجود ہیں۔ یہاں سے شمال کی جانب گیکوشی نالہ میں گرم چشمہ موجود ہے۔ درکوت سے اس چشمے تک پیدل مسافت تین گھنٹے کی ہے۔ تاہم جیپ سے بھی یہاں پہنچا جاسکتا ہے، سڑک ناہم وار ہونے کے باعث ڈیڑھ گھنٹے کا سفر ہے۔
اس گرم چشمے میں نہانے، جسم دھونے اور اس کو پینے سے بیماریاں جاتی رہتی ہیں، خاص کر جلد کی بیماریاں، گھٹنوں کے درد، موٹاپے کو کم کرنے، معدے اور سردرد جیسی بیماریوں کا یہ چشمہ شافع علاج ہے۔ چوں کہ اس چشمے میں گندھک موجود ہے اس لیے یہ جوڑوں کے درد کے لیے اکسیر اور پرانی پوشیدہ و پیچیدہ امراض میں تیر بہ ہدف ثابت ہوتا ہے۔ اس چشمے سے شمال کی جانب عمودی چڑھتے جائیں تو ایک گھنٹے کی چڑھائی چڑھنے کے بعد مشہور و معروف درکوت پاس کا گلیشئر شروع ہوتا ہے۔
یہ گلیشئر نو میل غرباً اور شمالاً انگریزی حرف وی(V) کی شکل میں تہہ در تہہ ایک سرا بروغل کے انتہائی مشرقی گرمائی چراگاہ شواشر اور دوسرا سرا بروغل کی آبادی چکر سے جا ملتا ہے۔ گرم چشمہ درکوت سے چکر بروغل کی سرحدی گاؤں کی پیدل (گلیشیئر پر) مسافت بارہ گھنٹے کی ہے۔ درکوت سے مغرب کی جانب غموبر کا نالا اور اس کا گلیشئر واقع ہے اس گلیشیئر کا مشرقی نشیبی سرا درکوت قصبہ کو چھو لیتا ہے۔ غموبر گلیشیئر کے شروع میں یخ بستہ مٹیالے رنگ کی پانی کی وسیع و عریض جھیل ہے۔ جو درکوت کے بعض مقامات سے نظر آتی ہے۔
غموبر نالا کے ڈھلوان چڑھنے کے بعد ایک ہی دن میں وادی یاسین کے دوسرے گاؤں تھوئی کے نالا دسپر میں داخل ہوتے ہیں۔ درکوت سے مشرقی جانب درکوت بلند ترین مستقل رہائشی بستیاں موسومہ گرتنج و گاملتی آباد ہیں۔ یہ بستیاں درکوت کی نصف آبادی پر مشتمل ہیں۔ یہاں کا موسم اس قدر شدید سرد ہے کہ ماسوائے بید کے دیگر پھل دار درخت نشو و نما نہیں پاتے۔ ان بستیوں کے باشندے جفاکش اور اچھے قد و قامت کے مالک ہیں۔ لیکن معیار زندگی پست ہے۔ آمدنی گندم کی فصل اور جو کی قلیل پیداوار، محدود تعداد بیل، گائے، بکریاں اور دیسی گھی ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ چند سالوں سے آلوؤں کی فصل کاشت کی جاتی ہے۔ جس سے قلیل مقدار میں پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ جنگل نایاب اور عمارتی اور جلانے کی لکڑی کی تنگی ہے۔ اکثریتی آبادی پاک فوج میں ملازمت، راج، ترکھان اور تعمیراتی کاموں سے منسلک ہے۔ یہ لوگ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ سال بھر کے اخراجات پورے کرنے کے لیے گلگت اور دیگر ملحقہ علاقوں میں جا کر محنت مزدوری کر کے بڑی تنگ دستی سے گزر بسر کرتے ہیں۔
ان سرحدی دیہات سے مشرق کی جانب دو مشہور سرحدی نالوں ہنیصرپر اور آٹر کے دروں سے گزر کر اشکومن وادی میں داخل ہونے کے راستے ہیں۔ قلیل تعداد میں سیاح موسم گرما میں ان راستوں سے آتے جاتے ہیں۔ راستے میں قابل دید مقامات، سر بہ فلک چوٹیاں اور نیلگوں جھیلیں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں۔ درکوت وادی سے شمال مغرب میں یاسین کا خُوب صورت ترین سرسبز نالا دولنگ واقع ہے۔ یہ نالا تا حد نگاہ سرسبز اور اس کے بائیں طرف ضلع غذر کے بلند ترین برف پوش چوٹیاں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔
یہاں بے شمار گلیشیئرز بھی ہیں۔ ان چوٹیوں کے اردگرد اکثر کالے و سفید بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ نالا دولنگ اور اس کے عظیم ترین چوٹیاں دوسرے پہاڑوں کے پس پشت ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی نظروں سے ہمیشہ پوشیدہ رہتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ یہ چوٹیاں درکوت کے شمال مغرب بروغل کے جنوب اور تھوئی کے شمال مشرق میں واقع ہیں۔
درکوت سے جنوب مشرق میں ایک جاذب نظر شاداب پہاڑ ہے۔ درکوت گاؤں سے تین گھنٹے کی ڈھلوان چڑھنے کے بعد اس کی ہم وار چوٹی پر پہنچا جا سکتا ہے۔ یہاں پر تنگ قدرتی درّہ واقع ہے، اس درّے کے جنوباً چند منٹ سفر کرنے کے بعد انسان ایک ایسی جگہ پہنچ جاتا ہے، جہاں سے وادی یاسین کا 70 فی صد دیہات و قصبے اور سلسلہ ہندوکش کے لاتعداد پہاڑی سلسلے ایک قطار میں نظر آتے ہیں۔ گویا کوئی مسافر جیٹ جہاز پر سوار نیچے انتہائی نشیب میں واقع قصبوں، وادیوں اور سلسلے ہائے کوہ کا نظارہ کر رہا ہو۔ کس قدر تعجب خیز نظارہ ہے۔
یہ دل فریب مقام خلتر جھیل یاسین کی چھت معلوم ہوتا ہے، اس مقام سے بلامعاوضہ بغیر کسی محنت و مشقت کے اور بغیر کئی دنوں اور گھنٹوں کی مسافت کے محض چند لمحوں میں وادی یاسین کی فضائی سیر کی جاسکتی ہے۔ بیٹھ جائیں یا کھڑے رہیں، فوٹو گرافی کریں یا دُوربین آنکھوں کے سامنے لگائیں پھر شمالاً و جنوباً نظارہ کریں۔ ترست کے فلک بوس چوٹیوں کا لطف اٹھائے۔ یاسین کا بیشتر علاقہ، قصبے، گاؤں، چوٹیاں، گلیشیئرز اور نہ جانے کیا کیا سب کچھ نظروں کی گرفت میں، کس قدر سستی سیاحت ہے یہ، کبھی اس سے قبل ایسا تجربہ ہوا تھا ؟ یقیناً آپ کا جواب: نہیں ہوگا، لیکن یہ ٹھوس جواب وہاں کی سیر کے بعد ہی آپ دیں گے۔ اس تجربے سے قبل ہرگز نہیں۔
نلتر بہ ذات خود کیا ہے۔۔۔۔؟ جھرنوں، آب شاروں، گلیشیئروں، بید مجنوں، نرم و نازک لچک دار درختوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ، سرسبز ٹیلوں، شاداب میدانوں کے درمیان مویشیوں کی مستیاں اور ان مرغ زاروں کے بیچ شفاف جھلملاتی نیلگوں پانی کا حسین ترین (2400) چوبیس سو فٹ جھیل، اس قدرتی جھیل کے تہہ کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
جس کے کناروں پر قطار در قطار چھملنگ (Chhimilling) جس کے معنی مقامی زبان بروششکی میں زہریلے، خوش نما پھول اور سرسبز جڑی بوٹیاں ہیں، کے ہوا کے جھونکوں میں لہراتے کتنے بھلے معلوم ہوتے ہیں۔ ان زہریلے جھڑی بوٹیوں کو مقامی لوگ مسوڑھوں اور دانتوں کے علاج کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سامنے جھیل سے جنوب مشرق میں دیریارے کا معروف حسین برف سے لدی پھندی دوھولی چھش (Dhuholi Chish) نامی چوٹی واقع ہے اور آپ کو بتاتے چلیں کہ دوھولی چھش کا مطلب روٹھی ہوئی چوٹی ہے۔
یہ چوٹی ہمیشہ تہہ در تہہ برف سے ڈھکی اور اکثر بادلوں میں اوجھل رہتی ہے۔ اس مقام سے بیچوں بیچ مشرق سے جنوباً مڑتی ہوئی برفیلے گلیشیئر سے پھٹتی، لڑھکتی، مچلتی، تندی سے شور مچاتی نغمے بکھیرتی ندی کا پانی جنوبی آخری حدود میں داخل ہونے کے بعد آب شاروں میں بٹ کر انتہائی نشیب میں جا گرتا ہوا روڈ کے اوپر بہتا ہوا دریائے یاسین سے جا ملتا ہے۔
اس دل نشیں نالے کا 15 ہزار فٹ بلند مشرقی درّہ جو جھیل سے چار گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ اسے اب تک سر نہیں کیا گیا ہے۔ ایک یا دو دنوں کی 'ٹریکنگ' میں اس نالا کی مکمل سیر ہو سکتی ہے۔ نالا خلتر کی خلتر ندی کے آب شار کے ساتھ مختصر مگر نسبتاً دشوار متبادل عمودی راستہ بھی موجود ہے، لیکن اس راستے سے ہو کر خلتر جھیل پہنچنا عام سیّاح کے لیے قدرے مشکل ہے۔ مقامی لوگ عموماً اس راستے سے آتے جاتے ہیں۔
وادی یاسین کے سیکڑوں قابل دید مناظر اور تفریحی مقامات حکومتی اور محکمۂ سیاحت گلگت بلتستان کی بے توجہی اور بے حسی کی وجہ سے ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل رہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان کی سیاحت سے خصوصی دل چسپی کے باوجود نہ جانے کب تک گلگت بلتستان کی حکومت اور شعبۂ سیاحت سے منسلک افراد ان دل نشین تفریح گاہوں کو نظرانداز کرتے رہیں گے۔