ن لیگ کا پارلیمانی اجلاس اکثریت آپریشن کی حامی فیصلے کا اعلان نہ ہوسکا

اجلاس میں آپریشن کی تجویزپر90 فیصدارکان نے حمایت میں ہاتھ کھڑے کردیے اورتالیاں بجائیں.

ہمیں اپنی نسل اور ریاست کو بچانا ہے، آئین نہ ماننے والوں سے مذاکرات نہیں ہونگے،اپنی جانیں قربان کرنیوالے فوج کے شہدا ہمارے ہیروہیں،نوازشریف۔ فوٹو: فائل

WASHINGTON:
حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ارکان کی بھاری اکثریت نے ہاتھ اٹھا کرعسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنیکی حمایت کردی تاہم حکومتی پارلیمانی پارٹی کی رائے معلوم کرنے کے بعدوزیراعظم نوازشریف نے پارلیمنٹ میں موجود دیگر جماعتوں کی رائے سامنے آنے تک آپریشن کے حوالے سے فیصلہ روک لیا۔

اس دوران وزیر داخلہ چوہدری نثارعلی خان کوہدایت کی ہے کہ وہ تحریک طالبان کی جانب سے امن مذاکرات کے لیے کی جانے والی تازہ ترین پیش کش کی صداقت معلوم کرکے انھیںرپورٹ دیں۔ حکومتی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میںخاتون رکن قومی اسمبلی عارفہ خالدنے عسکریت پسندوںسے مذاکرات کی بات کی توہال میںمکمل خاموشی رہی۔2اراکین رائے منصب علی اور سینیٹر رفیق رجوانہ نے مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مذاکرات کے دروازے بالکل بندنہ کرے اور مذاکرات بھی کرے اورجہاںضرورت ہووہاںایکشن بھی کرے، البتہ ان کے موقف کوبھی اراکین کی جانب سے پذیرائی نہ ملی۔اسی دوران رکن اسمبلی علی احسن گیلانی نے بغیرمائیک اوراجازت کے کہا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا جائے توتقریباً 90 فیصدارکان نے باآوازبلندان کی حمایت کی اورزبردست تالیاں بجائیں۔

وزیراعظم نوازشریف نے اراکین پارلیمنٹ کی جانب سوالیہ نظروںسے دیکھا توتقریباً90 فیصداراکین نے ہاتھ فضا میںبلندکرتے ہوئے آپریشن کے حق میںاپنا فیصلہ سنا دیا۔ذمے دارذرائع کے مطابق 3 گھنٹے سے زائدوقت تک جاری رہنے والے اجلاس میںوزیراعظم نے حکومتی اراکین پارلیمنٹ کی اجتماعی رائے معلوم کرلینے کے بعداب دیگرپارلیمانی جماعتوںاوران کے اراکین کے علاوہ قومی سیاستدانوںکی رائے معلوم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ذرائع کے مطابق توقع ہے کہ وزیراعظم نوازشریف آئندہ چندروزمیںخودپارلیمنٹ ہائوس آئیںگے اورساری صورتحال ہائوس کے سامنے رکھنے کے بعدحکومتی لائحہ عمل کا اعلان کریںگے۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیںاپنی آئندہ نسلوںکے مستقبل کوبچانا ہے،دہشت گردی اورانتہا پسندی کا خاتمہ کیے بغیرہم پاکستان کوتیزترترقی کے سفر پر گامزن نہیں کرسکتے،ہم ملک میںامن واستحکام کے قیام کے لیے ہرممکن قدم اٹھائیںگے۔




وزیراعظم نے دہشت گردی کے خاتمے کی کوششوںمیںاپنی جانوںکا نذرانہ پیش کرنے والے مسلح افواج اورقانون نافذ کرنے والے اداروںکے شہداء کوخراج تحسین عقیدت پیش کرتے ہوئے انھیںہیروقراردیا اورکہا کہ ان کا خون رائیگاںنہیںجائے گا،ہمیںپاکستان کا امن سے محبت کرنے والے ملک کے طور پر امیج بنانا ہے،یہ تب ہی ممکن ہے جب اراکین پارلیمنٹ، سول سوسائٹی،انتظامیہ،عدلیہ،میڈیا اورمسلح افواج کے اراکین سمیت تمام اسٹیک ہولڈرزمربوط اورمشترکہ کوششیں کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ کراچی میں40 فیصدحالات بہترہوئے ہیںاورجرائم میںکمی واقع ہوئی ہے۔انہوںنے کہا کہ ہم غیرمعمولی حالات سے گزررہے ہیںاس لئے غیرمعمولی اقدامات کی ضرورت ہے،حالات کی تمام ترخرابی کے باوجودملک کی اقتصادی صورتحال میںبہتری آ رہی ہے،بدعنوانی کے خاتمے اورشفافیت کویقینی بنانے سے ہی ہم ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہوسکیں گے اوریہی ہماری حکومت کی ترجیح ہے۔

توانائی کے بحران کے حوالے سے گفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ گزشتہ سالوںکی نسبت صورتحال بہتر ہورہی ہے یہ سرکلرڈیٹ ادا کرنے سے بھی ممکن ہوا ہے جبکہ 17 سومیگا واٹ اضافی بجلی پیدا کرنے کی بہترانتظامات اوربجلی چوری روکنے سے بھی صورتحال بہترہوئی ہے،بجلی پیدا کرنے کے مزیدمنصوبوںپرکام ہورہا ہے،ہم اپنی حکومتی مدت پوری کرنے سے پہلے 8 ہزارمیگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں اضافی فراہم کرنے میںانشاء اللہ کامیاب ہوجائیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم پُرامن ملک ہیںاوربھارت سمیت اپنے ہمسایوںسے پُرامن تعلقات کے خواہاں ہیں۔ خبر ایجنسیوںکے مطابق وزیراعظم نوازشریف نے واضح کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرا ت حوالے سے ارکان پارلیمانی کی رائے لینا ضروری ہے تاہم پاکستان کے آئین کوتسلیم نہ کرنے والوںسے کسی صورت مذاکرات نہیں ہونگے۔

سیکیورٹی فورسزاورعوام پرحملے کرنے والے ملک اورقوم کے دشمن ہیں،حکومت عوام کے جان ومال کے تحفظ کی ذمے داری پوری کریگی،طالبان کیخلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرنے والوںکوپذیرائی مل رہی ہے،بات چیت کے عمل کی حمایت کرنے والوں کوخاموشی کا سامنا ہے،ڈرون حملوںکا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں،ہمارے مضبوط موقف کے باعث سات ماہ میںصرف 14ڈرون حملے ہوئے جبکہ گزشتہ سال 80سے 90حملے ہوئے تھے۔وزیراعظم نے اپنے اس عزم کا اظہارکیا کہ ہمیںاپنی نسل اورریاست کوہرصورت بچانا ہے،دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے بغیرپاکستان ترقی نہیں کرسکتا، ملک میںامن واستحکام کے لیے تمام اقدامات اٹھائیں گے۔ نوازشریف نے کہا کہ انھوںنے مشکل ترین حالات میںملک کا اقتدارسنبھالا ہے،14سال سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کوئی پالیسی نہیںبنائی گئی۔انھوںنے کہا کہ آئین کوتسلیم کرنے والوںسے مذاکرات کیلیے تیارہیں،مذاکرات انھی سے ہوںگے جواس کی خواہش رکھتے ہیں،ریاست کی رٹ کوچیلنج کرنے والوںسے کیسے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔
Load Next Story