کراچی کی تاریخ
کراچی ایک خاتون مائی کلاچی کے نام سے مچھیروں کا ایک گاؤں تھا وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں تبدیل ہو گیا۔
کراچی کی تاریخ یونان اور عرب کے دور سے شروع ہوئی، عرب اس علاقے کو بندرگاہ کے نام سے جانتے تھے۔
711 میں محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا، راجہ داہر کو شکست دی، آگے ملتان تک بڑھا اس کی فتوحات 713تک جاری رہیں ۔کراچی ایک خاتون مائی کلاچی کے نام سے مچھیروں کا ایک گاؤں تھا وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں تبدیل ہو گیا، ماہی گیروں کا قبیلہ آج بھی کراچی کی بندرگاہ میں آباد ہے، ایک قبیلہ عبداللہ گوٹھ کے جزیرے پر آباد ہے۔
لیاری نے اپنے سینے میں قدیم آثار کی جھلک دکھا دی ہے یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران ایسی تہذیب کے آثار ملے ہیں جو 4500 (چار ہزار پانچ سو) قبل مسیح میں لیاری سے اورنگی، منگھوپیر اور حب ندی تک پھیلی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دریائے لیاری اور معاون کے برساتی پانی کو قریب واقع سمندر میں گرنے سے پہلے بھرپور طریقے پر اسے زراعت کے لیے استعمال کیا۔
پانی کی کمی نے جب زراعت کو متاثر کیا تو یہاں کے لوگوں نے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دوسرے ہنر سیکھ لیے اب یہاں لہلہاتے کھیتوں کی جگہ صنعتیں نظر آنے لگیں۔ چمڑا بنانے اس کو رنگنے کے کارخانے چمڑے اور کپڑے کے رنگ تیار کرنے کے کارخانے اور تیل نکالنے کی چکیاں قائم ہونے لگیں۔
3 فروری 1839 میں برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کرلیا چار سال بعد یعنی 4 فروری1843 میں اس شہر کو انگریزوں نے سمندری راستے سے بمبئی سے ملا دیا اور اس کو ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ 10 مارچ 1865 میں فریئر ہال کی تعمیر کی گئی۔ 2 جولائی 1872 میں کراچی پورٹ کلب کی تعمیر ہوئی اس وقت تک کراچی کی مجموعی آبادی 65384 تھی۔ 1876 میں وزیر مینشن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت کراچی ترقیاتی شہر کی صورت اختیار کرچکا تھا، جس کا انحصار ریلوے اور بندرگاہ پر تھا۔ رفتہ رفتہ کراچی بڑی بندرگا بنتا گیا۔ 2 جنوری 1880 میں ریلوے کے نظام میں بقیہ ہندوستان سے جوڑ دیا گیا۔
15 ستمبر 1889 کو برٹش راج میں صدر میں واقعہ ایمپریس مارکیٹ کو تعمیر کیا گیا جس کو کوئن الیگزانڈر وکٹوریہ ، لقب ایمپریس آف انڈیا کے نام سے رکھا گیا جوکہ آج بھی ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 1947 میں کراچی برطانیہ کا سب سے بڑا اناج فروخت کرنے والا شہر تھا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوا، اس کا دارالحکومت کراچی بنا اس وقت کراچی کی آبادی 405500 تھی۔ دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی۔ 1953 تک کراچی بدستور پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ بعدازاں دارالحکومت کو نئے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا۔ 18 جنوری 1958 میں اس وقت کے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا۔ بالآخر 20 جون 1968 کو دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ کراچی کا چڑیا گھر جو گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور ہے وہ اب بھی موجود ہے۔
گڈاپ ملیر سے شروع ہونے والی ندی کے کنارے چھوٹے پھل دار درخت لگے تھے جن کو سندھی زبان میں لیار اور بلوچی زبان میں لیوار کہا جاتا ہے۔ اس مقام کو لیار بالیوار والا علاقہ کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری کہا جانے لگا۔ ہنرمندوں، محنت کشوں، مایہ ناز کھلاڑیوں، سیاستدانوں، ممتاز مذہبی علما تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے والے رہنما، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد دیے۔ لارنس روڈ پاکستان کوارٹرز سے آگے لسبیلہ چوک ہے۔
پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام سے ناظم آباد کا قیام عمل میں آیا۔ ایک بلوچ لال محمد لالو کے نام سے لالو کھیت آباد کیا گیا، لالو کی حویلی موجود ہے۔ کشادہ ہونے کی وجہ سے اس کو پہلا مکان کہا جاتا ہے۔
کیماڑی، میری ویدر ٹاور، کھارادر، میٹھادر، بولٹن مارکیٹ، مولوی مسافر خانہ، عید گاہ بندر روڈ پر ہیں۔ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) قائد اعظم کے مقبرے سے شروع ہو کر کیماڑی پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا پرانا میکلوڈ روڈ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان تقریباً تمام بینکوں کے ہیڈ آفس اور جی پی او، ٹیلی گراف آفس وغیرہ یہ تمام اسی روڈ پر ہیں۔ برنس روڈ آتما رام پریتم داس روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، میکلوڈ روڈ پر حبیب بینک پلازہ، پاکستان ریلوے کا سٹی اسٹیشن، فریر ہال کی طرف سے کلفٹن کو جاتے ہیں۔
وکٹوریہ روڈ جوکہ اب زیب النسا اسٹریٹ(روڈ) کے نام سے منسوب ہے۔ ریڈیو پاکستان بالکل ویسا ہی موجود ہے اس کے برابر میں جانوروں کا اسپتال برطانیہ کے دور سے آج بھی قائم ہے، سول اسپتال، کراچی میڈیکل کالج قائم ہوئے۔
''چلی میری گھوڑا گاڑی، بندر روڈ سے کیماڑی'' یہ گیت ہے پرانا لیکن آج بھی مشہور ہے۔ یاد آیا بندر روڈ پر ایک مشہور سینما لائٹ ہاؤس ہوتا تھا جو اب نہیں ہے، آگے کے ایم سی کا ہیڈ آفس لال جے پور کے پتھروں سے بنا ہوا ہے ۔ سلوٹ نسل کے لوگوں نے اسے بنایا ان کی اولادیں آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی سٹی عدالتیں ہیں، آگے جوڑیا بازار لی مارکیٹ، بندر روڈ سے دوسری جانب ڈینسو ہال سے نکل کر نیو چالی پر پہنچتے ہیں۔
گروپنج مکھی ہنومان کا مندر، جو آج گرومندر کہلاتا ہے یہاں سے صدر، کلفٹن، قائد اعظم کا مقبرہ آگے وہ تمام عمارات آئیں گی جن کا مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب جامعہ کراچی، اسٹیڈیم، گورا قبرستان، پی ای سی ایچ ایس وغیرہ، ایک طرف سولجر بازار تو دوسری طرف لیاقت آباد، ناظم آباد وغیرہ جاتے ہیں۔
جمشید سراونجی مہتا کے نام سے جمشید روڈ ہے۔ 1922 سے 1933 تک کراچی میونسپل کے منتخب صدر اور کراچی کے پہلے میئر رہے۔ انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد کراچی صدر کے بعد آگے ہولی فیملی کے آس پاس فوجیوں کے لیے بیرکس تعمیر کرائیں مارکیٹ بنی جس کو سولجر بازار کہتے ہیں۔ گستاجی مہتا نے انکل سریا اسپتال بنوایا۔ مرکزی گورنمنٹ نے جناح اسپتال کراچی بنوایا جو بہت بڑا ہے۔
711 میں محمد بن قاسم نے دیبل پر حملہ کیا، راجہ داہر کو شکست دی، آگے ملتان تک بڑھا اس کی فتوحات 713تک جاری رہیں ۔کراچی ایک خاتون مائی کلاچی کے نام سے مچھیروں کا ایک گاؤں تھا وقت کے ساتھ ساتھ کراچی میں تبدیل ہو گیا، ماہی گیروں کا قبیلہ آج بھی کراچی کی بندرگاہ میں آباد ہے، ایک قبیلہ عبداللہ گوٹھ کے جزیرے پر آباد ہے۔
لیاری نے اپنے سینے میں قدیم آثار کی جھلک دکھا دی ہے یہاں آثار قدیمہ کی تلاش کے دوران ایسی تہذیب کے آثار ملے ہیں جو 4500 (چار ہزار پانچ سو) قبل مسیح میں لیاری سے اورنگی، منگھوپیر اور حب ندی تک پھیلی ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے دریائے لیاری اور معاون کے برساتی پانی کو قریب واقع سمندر میں گرنے سے پہلے بھرپور طریقے پر اسے زراعت کے لیے استعمال کیا۔
پانی کی کمی نے جب زراعت کو متاثر کیا تو یہاں کے لوگوں نے زندگی کی گاڑی چلانے کے لیے دوسرے ہنر سیکھ لیے اب یہاں لہلہاتے کھیتوں کی جگہ صنعتیں نظر آنے لگیں۔ چمڑا بنانے اس کو رنگنے کے کارخانے چمڑے اور کپڑے کے رنگ تیار کرنے کے کارخانے اور تیل نکالنے کی چکیاں قائم ہونے لگیں۔
3 فروری 1839 میں برطانیہ نے کراچی پر قبضہ کرلیا چار سال بعد یعنی 4 فروری1843 میں اس شہر کو انگریزوں نے سمندری راستے سے بمبئی سے ملا دیا اور اس کو ایک ضلع کی حیثیت دے دی۔ 10 مارچ 1865 میں فریئر ہال کی تعمیر کی گئی۔ 2 جولائی 1872 میں کراچی پورٹ کلب کی تعمیر ہوئی اس وقت تک کراچی کی مجموعی آبادی 65384 تھی۔ 1876 میں وزیر مینشن میں قائد اعظم محمد علی جناح کی پیدائش ہوئی۔ اس وقت کراچی ترقیاتی شہر کی صورت اختیار کرچکا تھا، جس کا انحصار ریلوے اور بندرگاہ پر تھا۔ رفتہ رفتہ کراچی بڑی بندرگا بنتا گیا۔ 2 جنوری 1880 میں ریلوے کے نظام میں بقیہ ہندوستان سے جوڑ دیا گیا۔
15 ستمبر 1889 کو برٹش راج میں صدر میں واقعہ ایمپریس مارکیٹ کو تعمیر کیا گیا جس کو کوئن الیگزانڈر وکٹوریہ ، لقب ایمپریس آف انڈیا کے نام سے رکھا گیا جوکہ آج بھی ایمپریس مارکیٹ کے نام سے جانی جاتی ہے۔ 1947 میں کراچی برطانیہ کا سب سے بڑا اناج فروخت کرنے والا شہر تھا۔
14 اگست 1947 کو پاکستان آزاد ہوا، اس کا دارالحکومت کراچی بنا اس وقت کراچی کی آبادی 405500 تھی۔ دارالحکومت کی حیثیت سے کراچی کی آبادی تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی۔ 1953 تک کراچی بدستور پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ بعدازاں دارالحکومت کو نئے شہر منتقل کرنے کا سوچا گیا۔ 18 جنوری 1958 میں اس وقت کے پاکستان کے صدر محمد ایوب خان نے اسلام آباد پر ترقیاتی کاموں کا آغاز کیا۔ بالآخر 20 جون 1968 کو دارالحکومت کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔ کراچی کا چڑیا گھر جو گاندھی گارڈن کے نام سے مشہور ہے وہ اب بھی موجود ہے۔
گڈاپ ملیر سے شروع ہونے والی ندی کے کنارے چھوٹے پھل دار درخت لگے تھے جن کو سندھی زبان میں لیار اور بلوچی زبان میں لیوار کہا جاتا ہے۔ اس مقام کو لیار بالیوار والا علاقہ کہا جاتا تھا جو بعد میں لیاری کہا جانے لگا۔ ہنرمندوں، محنت کشوں، مایہ ناز کھلاڑیوں، سیاستدانوں، ممتاز مذہبی علما تحریک پاکستان میں سرگرم کردار ادا کرنے والے رہنما، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے افراد دیے۔ لارنس روڈ پاکستان کوارٹرز سے آگے لسبیلہ چوک ہے۔
پاکستان کے سابقہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کے نام سے ناظم آباد کا قیام عمل میں آیا۔ ایک بلوچ لال محمد لالو کے نام سے لالو کھیت آباد کیا گیا، لالو کی حویلی موجود ہے۔ کشادہ ہونے کی وجہ سے اس کو پہلا مکان کہا جاتا ہے۔
کیماڑی، میری ویدر ٹاور، کھارادر، میٹھادر، بولٹن مارکیٹ، مولوی مسافر خانہ، عید گاہ بندر روڈ پر ہیں۔ بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) قائد اعظم کے مقبرے سے شروع ہو کر کیماڑی پر ختم ہوتا ہے۔ دوسرا پرانا میکلوڈ روڈ ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان تقریباً تمام بینکوں کے ہیڈ آفس اور جی پی او، ٹیلی گراف آفس وغیرہ یہ تمام اسی روڈ پر ہیں۔ برنس روڈ آتما رام پریتم داس روڈ، بزنس ریکارڈر روڈ، میکلوڈ روڈ پر حبیب بینک پلازہ، پاکستان ریلوے کا سٹی اسٹیشن، فریر ہال کی طرف سے کلفٹن کو جاتے ہیں۔
وکٹوریہ روڈ جوکہ اب زیب النسا اسٹریٹ(روڈ) کے نام سے منسوب ہے۔ ریڈیو پاکستان بالکل ویسا ہی موجود ہے اس کے برابر میں جانوروں کا اسپتال برطانیہ کے دور سے آج بھی قائم ہے، سول اسپتال، کراچی میڈیکل کالج قائم ہوئے۔
''چلی میری گھوڑا گاڑی، بندر روڈ سے کیماڑی'' یہ گیت ہے پرانا لیکن آج بھی مشہور ہے۔ یاد آیا بندر روڈ پر ایک مشہور سینما لائٹ ہاؤس ہوتا تھا جو اب نہیں ہے، آگے کے ایم سی کا ہیڈ آفس لال جے پور کے پتھروں سے بنا ہوا ہے ۔ سلوٹ نسل کے لوگوں نے اسے بنایا ان کی اولادیں آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی سٹی عدالتیں ہیں، آگے جوڑیا بازار لی مارکیٹ، بندر روڈ سے دوسری جانب ڈینسو ہال سے نکل کر نیو چالی پر پہنچتے ہیں۔
گروپنج مکھی ہنومان کا مندر، جو آج گرومندر کہلاتا ہے یہاں سے صدر، کلفٹن، قائد اعظم کا مقبرہ آگے وہ تمام عمارات آئیں گی جن کا مندرجہ بالا ذکر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب جامعہ کراچی، اسٹیڈیم، گورا قبرستان، پی ای سی ایچ ایس وغیرہ، ایک طرف سولجر بازار تو دوسری طرف لیاقت آباد، ناظم آباد وغیرہ جاتے ہیں۔
جمشید سراونجی مہتا کے نام سے جمشید روڈ ہے۔ 1922 سے 1933 تک کراچی میونسپل کے منتخب صدر اور کراچی کے پہلے میئر رہے۔ انگریزوں نے اپنی آمد کے بعد کراچی صدر کے بعد آگے ہولی فیملی کے آس پاس فوجیوں کے لیے بیرکس تعمیر کرائیں مارکیٹ بنی جس کو سولجر بازار کہتے ہیں۔ گستاجی مہتا نے انکل سریا اسپتال بنوایا۔ مرکزی گورنمنٹ نے جناح اسپتال کراچی بنوایا جو بہت بڑا ہے۔