عدالتی فیصلے میں واضح ہے کہ 3 نومبر کے اقدامات سے آئین کی خلاف ورزی ہوئی چیف جسٹس
سندھ ہائی کورٹ نے آبزرویشن دی کہ آئین توڑنے یا اسے معطل کرنے پر کارروائی بنتی ہے، جسٹس آصف سعید کھوسہ
پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست کی سماعت کے دوران چیف جسٹس تصدق حسین گیلانی نے ریمارکس دیئے ہیں کہ 31 جولائی کے عدالتی فیصلے میں واضح کیا گیا ہے کہ 3 نومبر کے اقدامات سے آئین کے کس آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوئی۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں سپریم کورٹ کا 14 رکنی لارجر بینچ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا،جس کے تحت انہوں نے 2000 میں پی سی او کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کے لئے نیاحلف نامہ جاری کیا اس کے علاوہ 100 سے زائد آرٹیکلز میں ترامیم کی گئیں،سابق چیف جسٹس بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ 9 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس داخل ہوا اور 20 جولائی سپریم کورٹ نے ان کی بحالی کا فیصلہ دیا لیکن بحالی کے بعد ریفرنگ اتھارٹی نے نظر ثانی درخواست داخل نہیں کی۔ ان کے موکل نے ملک میں ایمرجنسی لگائی جس کی سفارش اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کی تھی اور یہ اقدام چاروں صوبائی گورنرز اور کور کمانڈر کی مشاورت سے کیا گیا، ایمرجنسی صرف عدلیہ کی حد تک تھی اور پورا ملک آئین کے تحت کام کرتا رہا اس ایمرجنسی کی توثیق قومی اسمبلی نے کی لیکن عدالت میں نوٹی فکیشن کا کچھ حصہ حذف کرکے پیش کیا گیا اور فیصلے میں بھی مکمل نوٹی فکیشن شامل نہیں۔
چیف جسٹس تصدق حسین گیلان نے استفسار کیا کہ 3 نومبر کے اقدامات کی نئی پارلیمنٹ نے توثیق نہیں کی اور حذف کیا گیا حصہ کیا تھا؟، کیا انہوں نے غیر حذف شدہ نوٹی فکیشن حاصل کیا ہے، جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ حصہ یہ تھا کہ ایمرجنسی مسلح افواج اور آرمی چیف کی مشاورت سے لگائی گئی، انہوں نے کہا کہ پرویزمشرف نے 3 نومبرکو 3 احکامات جاری کئے، پہلا آرڈر بطور چیف آف آرمی اسٹاف جاری کیا جبکہ پرویز مشرف نے ججوں کے حلف کا آرڈر بطور صدر جاری کیا۔ 3نومبر2007 ہی کے روز پی سی او کے خلاف سپریم کورٹ کے 7 ججز نے حکم امتناعی جاری کیا، افتخارمحمد چودھری کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 16 مارچ کو بحال کیا گیا اور عبد الحمید ڈوگر کی مدت کے دوران کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس ہیں خود انہوں نے بھی 24 مارچ تک عبد الحمید ڈوگر کے ریٹائر ہونے کا انتظار کیا۔ ابراہیم ستی نے مزید کہا کہ 31 جولائی کے فیصلے میں غداری ،آئینی شکنی یا اسے معطل کرنے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ،سپریم کورٹ کا فیصلہ اجتماعی تھا مگر آج فرد واحد کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے حالانکہ پرویز مشرف نے 2008 میں انتخابات کرائے اور کابینہ سے حلف لیا اور سپریم کورٹ نے عام انتخابات کو درست قراردیا۔
سماعت کے دوران جسٹس تصدق حسین گیلانی نے کہا کہ عدالتی فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین کے کس آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوئی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا مگر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جس میں آبزرویشن دی گئی ہے کہ آئین توڑنے یا اسے معطل کرنے پر کارروائی بنتی ہے اور 31 جولائی کے فیصلے کو کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ کتیس جولائی کا فیصلہ کسی شخص کے خلاف نہیں تھا آپ کا موکل متاثر ہو رہا ہے تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالتی کارروائی سے لا علم تھے؟۔ جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ مشرف اس نوٹس کے بارے میں خصوصی طور پرنہیں جانتے تھے، 22 نومبر کو عدالتی سمن چک شہزاد میں ان کیرہائش گاہ پر گیا لیکن وہ اس وقت طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے لندن میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا ۔
سامعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم عدالتی فیصلے کے پیرا گراف 56میں دیئے گئے وہ ریمارکس حذف کر دیں تاکہ خصوصی عدالت میں کارروائی نہ ہو، اگر آج کوئی تین نومبر جیسا اقدام کرے تو کیا وہ غداری کے ذمرے میں نہیں آئے گا۔
چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سر براہی میں سپریم کورٹ کا 14 رکنی لارجر بینچ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے 31 جولائی 2009 کے فیصلے پر نظر ثانی درخواست کی سماعت کر رہا ہے۔ سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل ابراہیم ستی ایڈووکیٹ کی جانب سے درخواست کے قابل سماعت ہونے کے دلائل میں کہا کہ پرویز مشرف کو آئین میں ترمیم کا اختیار دیا گیا،جس کے تحت انہوں نے 2000 میں پی سی او کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کے لئے نیاحلف نامہ جاری کیا اس کے علاوہ 100 سے زائد آرٹیکلز میں ترامیم کی گئیں،سابق چیف جسٹس بھی پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں میں شامل تھے۔ 9 مارچ 2007 کو سابق چیف جسٹس کے خلاف ریفرنس داخل ہوا اور 20 جولائی سپریم کورٹ نے ان کی بحالی کا فیصلہ دیا لیکن بحالی کے بعد ریفرنگ اتھارٹی نے نظر ثانی درخواست داخل نہیں کی۔ ان کے موکل نے ملک میں ایمرجنسی لگائی جس کی سفارش اس وقت کے وزیر اعظم شوکت عزیز نے کی تھی اور یہ اقدام چاروں صوبائی گورنرز اور کور کمانڈر کی مشاورت سے کیا گیا، ایمرجنسی صرف عدلیہ کی حد تک تھی اور پورا ملک آئین کے تحت کام کرتا رہا اس ایمرجنسی کی توثیق قومی اسمبلی نے کی لیکن عدالت میں نوٹی فکیشن کا کچھ حصہ حذف کرکے پیش کیا گیا اور فیصلے میں بھی مکمل نوٹی فکیشن شامل نہیں۔
چیف جسٹس تصدق حسین گیلان نے استفسار کیا کہ 3 نومبر کے اقدامات کی نئی پارلیمنٹ نے توثیق نہیں کی اور حذف کیا گیا حصہ کیا تھا؟، کیا انہوں نے غیر حذف شدہ نوٹی فکیشن حاصل کیا ہے، جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ وہ حصہ یہ تھا کہ ایمرجنسی مسلح افواج اور آرمی چیف کی مشاورت سے لگائی گئی، انہوں نے کہا کہ پرویزمشرف نے 3 نومبرکو 3 احکامات جاری کئے، پہلا آرڈر بطور چیف آف آرمی اسٹاف جاری کیا جبکہ پرویز مشرف نے ججوں کے حلف کا آرڈر بطور صدر جاری کیا۔ 3نومبر2007 ہی کے روز پی سی او کے خلاف سپریم کورٹ کے 7 ججز نے حکم امتناعی جاری کیا، افتخارمحمد چودھری کو ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے 16 مارچ کو بحال کیا گیا اور عبد الحمید ڈوگر کی مدت کے دوران کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ افتخار محمد چوہدری چیف جسٹس ہیں خود انہوں نے بھی 24 مارچ تک عبد الحمید ڈوگر کے ریٹائر ہونے کا انتظار کیا۔ ابراہیم ستی نے مزید کہا کہ 31 جولائی کے فیصلے میں غداری ،آئینی شکنی یا اسے معطل کرنے کے بارے میں کچھ نہیں لکھا گیا ،سپریم کورٹ کا فیصلہ اجتماعی تھا مگر آج فرد واحد کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے حالانکہ پرویز مشرف نے 2008 میں انتخابات کرائے اور کابینہ سے حلف لیا اور سپریم کورٹ نے عام انتخابات کو درست قراردیا۔
سماعت کے دوران جسٹس تصدق حسین گیلانی نے کہا کہ عدالتی فیصلہ میں واضح کیا گیا ہے کہ آئین کے کس آرٹیکل کی خلاف ورزی ہوئی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کردیا مگر سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جس میں آبزرویشن دی گئی ہے کہ آئین توڑنے یا اسے معطل کرنے پر کارروائی بنتی ہے اور 31 جولائی کے فیصلے کو کسی نے بھی چیلنج نہیں کیا۔ کتیس جولائی کا فیصلہ کسی شخص کے خلاف نہیں تھا آپ کا موکل متاثر ہو رہا ہے تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں، جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا پرویز مشرف عدالتی کارروائی سے لا علم تھے؟۔ جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ مشرف اس نوٹس کے بارے میں خصوصی طور پرنہیں جانتے تھے، 22 نومبر کو عدالتی سمن چک شہزاد میں ان کیرہائش گاہ پر گیا لیکن وہ اس وقت طالبان کی دھمکیوں کی وجہ سے لندن میں تھے، جس کے بعد انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا ۔
سامعت کے دوران جسٹس ثاقب نثار نے استفسار کیا کہ کیا آپ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہم عدالتی فیصلے کے پیرا گراف 56میں دیئے گئے وہ ریمارکس حذف کر دیں تاکہ خصوصی عدالت میں کارروائی نہ ہو، اگر آج کوئی تین نومبر جیسا اقدام کرے تو کیا وہ غداری کے ذمرے میں نہیں آئے گا۔