امریکا اورنیٹو افواج دہشت گردی کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنا رہے ہیں مولانا فضل الرحمان
امریکا افغانستان سے نکلنے کیلئے نہیں بلکہ رہنے کے لئے آیا ہے، مولانا فضل الرحمان
ISLAMABAD:
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکا اور نیٹو افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے خطے کے بجائے ملک کی اندرونی صورتحال دارومدا کیا ہوا ہے لیکن خیبر پختون خوا اور افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات نہ صرف خطے پر بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے امریکا 2014 میں افغانستان سے نکل جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے جانے کے لئے نہیں آیا بلکہ وہ رہنے کے لئے آیا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ اس کے 25 ہزار فوجیوں کو افغانستان میں رہنے کی اجازت مل جائے اور اسے 7 سے 9 اڈے دیئے جائیں تاکہ وہ پاکستان، چین، بھارت اور ایران سمیت جنوبی ایشیا پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھ سکے، ہم اقتصادی کساد بازاری کی طرف جا رہے ہیں اور امریکا وسط ایشیا کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سویت یونین ٹوٹنے کے بعد نیٹو کو کیوں ختم نہیں کیا گیا، افغان عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنھوں نے 14 سال روس کا مقابلہ کیا اور اب گزشتہ 12 سالوں سے امریکا اور نیٹو افواج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ صرف "وار آن ٹیرر" کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ اس سے دنیا میں امت مسلمہ کی طرف سے جاری آزادی کی تحریکوں کو کس حد تک نقصان پہنچا، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد فلسطین کی آزادی کی تحریک کہاں کھڑی ہے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک کس نہج پر ہے۔
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ امریکا اور نیٹو افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ کی آڑ میں اسلام کو نشانہ بنا رہے ہیں۔
اسلام آباد میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہم نے خطے کے بجائے ملک کی اندرونی صورتحال دارومدا کیا ہوا ہے لیکن خیبر پختون خوا اور افغانستان میں جو کچھ ہوتا ہے اس کے اثرات نہ صرف خطے پر بلکہ پوری دنیا پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے امریکا 2014 میں افغانستان سے نکل جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے جانے کے لئے نہیں آیا بلکہ وہ رہنے کے لئے آیا ہے، امریکا چاہتا ہے کہ اس کے 25 ہزار فوجیوں کو افغانستان میں رہنے کی اجازت مل جائے اور اسے 7 سے 9 اڈے دیئے جائیں تاکہ وہ پاکستان، چین، بھارت اور ایران سمیت جنوبی ایشیا پر اپنا اثرورسوخ قائم رکھ سکے، ہم اقتصادی کساد بازاری کی طرف جا رہے ہیں اور امریکا وسط ایشیا کی تجارت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ سویت یونین ٹوٹنے کے بعد نیٹو کو کیوں ختم نہیں کیا گیا، افغان عوام کو سلام پیش کرتا ہوں کہ جنھوں نے 14 سال روس کا مقابلہ کیا اور اب گزشتہ 12 سالوں سے امریکا اور نیٹو افواج کا مقابلہ کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا معاملہ صرف "وار آن ٹیرر" کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ہمیں دیکھنا چاہیئے کہ اس سے دنیا میں امت مسلمہ کی طرف سے جاری آزادی کی تحریکوں کو کس حد تک نقصان پہنچا، ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بعد فلسطین کی آزادی کی تحریک کہاں کھڑی ہے اور کشمیر کی آزادی کی تحریک کس نہج پر ہے۔