پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر نے استعفے کا مطالبہ مسترد کردیا
چند لوگ مل کر حکومت کو پی او اے کے متعلق غلط حقائق بتا رہے ہیں، عارف حسن
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر سید عارف حسن نے استعفے کے مطالبے کو مسترد کردیا۔
لاہور میں ورچوئل پریس کانفرنس میں صدر پی او اے نے واضح کیا کہ پاکستان اولمپک ایک خود مختار ادارہ ہے جو آئی او سی چارٹر کے تحت کام کرتا ہے، چند لوگ مل کر حکومت کو پی او اے کے متعلق غلط حقائق بتا رہے ہیں، لوزان معاہدے کے تحت حکومت پی او اے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پی او اے کو ایک خود مختار ادارہ قرار دے چکی ہے، جمہوری طریقے سے پی او اے کا صدر بنا ہوں اور جمہوری طریقے سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے،ہر بار میرے الیکشن میں جو مدمقابل آیا، اسے شکست ہوئی، فیڈریشنز کے اعتماد سے اس عہدے پر ہوں، ایک طرف الزام لگایا جا رہا ہے کہ کارکردگی انتہائی ناقص رہی جبکہ دوسری جانب کھلاڑیوں کو عمدہ کارکردگی پر انعام و اکرام سے بھی نوازا جا رہا ہے، جنہوں نے ذمہ داری پوری نہیں ان سے جواب دہی یونی چاہیے، میں استعفی کیوں دوں۔
سید عارف حسن نے کہا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں لیتی، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے صرف پانچ کروڑ روپے سالانہ ملتے ہیں، جن سے ًمختلف ورکشاپس،سیمنیار،کوچنگ کورسز، دفتر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔آڈٹ شدہ رپورٹس منظور ہونے کے بعد آئی او سی نئی گرانٹ جاری کرتی ہے سالانہ اربوں روپے سب قصے کہانیاں ہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگا ہے، جس میں تمام اصل حقائق سے پردہ اٹھایا جائے گا، الزام تراشی کی بجائے ہر ادارہ اپنے آئین کے تحت کام کرے۔
پی او اے کے صدر کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کا نام پی او اے پیٹرن انچیف سے ختم کرنا کوئی ایشو نہیں ہے، پاکستان میں متوازی پی او اے بنائے جانے پر پاکستان پر پابندی کی تلوار لٹک گئی تھی جس کی بنا پر صدر مملکت کے نام کی بدنامی نہ ہو اس لیے ایسا کیا گیا، ایک مرتبہ پھر وہی لوگ جو ماضی میں یہ کھیل کھیل چکے ہیں، حکومت کے چند افراد کے ساتھ مل کر اولمپک چارٹر کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس کا نقصان پاکستانی کھیلوں کو ہوگا۔
سید عارف حسن کا کہنا تھا کہ ٹوکیو اولمپکس کے حوالے سے پاکستان اسپورٹس بورڈ کو 2018 میں خط لکھا تھا کہ وہ قومی کھلاڑیوں کی تیاری اور کوالیفائنگ راونڈ میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی مدد کرے، اسپورٹس پالیسی پر پی او اے سمیت کسی فیڈریشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، ہم نے آواز بلند کی تو چند فیڈریشنز کو اسپورٹس پالیسی بھجوا کر کہا گیا کہ دس روز میں جواب دیا جائے، کسی ملک کی اسپورٹس پالیسی کیا دس روز میں بنتی ہے، ٹوکیو اولمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی گزشتہ کئی سال سے سب سے اچھی رہی ہے۔
سید عارف حسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان اور منسٹری آئی پی سی سے اپیل ہے کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے تاکہ کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیت سکیں، اگلے اولمپکس کو ہدف بنا کر لائحہ عمل تیار کیا جائے، کسی اور کی ذمہ داری مجھ پر یا پی او اے پر نہیں ڈالی جا سکتی، الزام تراشی کی بجائے مل کر بیٹھ کر کام کرنا ہوگا، آئی او سی کوئی ایکشن لے سکتی ہے اس پر کوئی بات نہیں کر سکتا، ان کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری طریقے سے صدر بنا ہوں، جس کے لیے باقاعدہ ایک سسٹم موجود ہے، پی او اے صدر کا انتخاب جنرل ہاوس کرتا ہے، بیک ڈور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔
لاہور میں ورچوئل پریس کانفرنس میں صدر پی او اے نے واضح کیا کہ پاکستان اولمپک ایک خود مختار ادارہ ہے جو آئی او سی چارٹر کے تحت کام کرتا ہے، چند لوگ مل کر حکومت کو پی او اے کے متعلق غلط حقائق بتا رہے ہیں، لوزان معاہدے کے تحت حکومت پی او اے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ آف پاکستان بھی پی او اے کو ایک خود مختار ادارہ قرار دے چکی ہے، جمہوری طریقے سے پی او اے کا صدر بنا ہوں اور جمہوری طریقے سے ہی ہٹایا جا سکتا ہے،ہر بار میرے الیکشن میں جو مدمقابل آیا، اسے شکست ہوئی، فیڈریشنز کے اعتماد سے اس عہدے پر ہوں، ایک طرف الزام لگایا جا رہا ہے کہ کارکردگی انتہائی ناقص رہی جبکہ دوسری جانب کھلاڑیوں کو عمدہ کارکردگی پر انعام و اکرام سے بھی نوازا جا رہا ہے، جنہوں نے ذمہ داری پوری نہیں ان سے جواب دہی یونی چاہیے، میں استعفی کیوں دوں۔
سید عارف حسن نے کہا کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن حکومت سے کوئی گرانٹ نہیں لیتی، انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے صرف پانچ کروڑ روپے سالانہ ملتے ہیں، جن سے ًمختلف ورکشاپس،سیمنیار،کوچنگ کورسز، دفتر کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔آڈٹ شدہ رپورٹس منظور ہونے کے بعد آئی او سی نئی گرانٹ جاری کرتی ہے سالانہ اربوں روپے سب قصے کہانیاں ہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کا وقت مانگا ہے، جس میں تمام اصل حقائق سے پردہ اٹھایا جائے گا، الزام تراشی کی بجائے ہر ادارہ اپنے آئین کے تحت کام کرے۔
پی او اے کے صدر کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کا نام پی او اے پیٹرن انچیف سے ختم کرنا کوئی ایشو نہیں ہے، پاکستان میں متوازی پی او اے بنائے جانے پر پاکستان پر پابندی کی تلوار لٹک گئی تھی جس کی بنا پر صدر مملکت کے نام کی بدنامی نہ ہو اس لیے ایسا کیا گیا، ایک مرتبہ پھر وہی لوگ جو ماضی میں یہ کھیل کھیل چکے ہیں، حکومت کے چند افراد کے ساتھ مل کر اولمپک چارٹر کی ایک مرتبہ پھر خلاف ورزی کر رہے ہیں، جس کا نقصان پاکستانی کھیلوں کو ہوگا۔
سید عارف حسن کا کہنا تھا کہ ٹوکیو اولمپکس کے حوالے سے پاکستان اسپورٹس بورڈ کو 2018 میں خط لکھا تھا کہ وہ قومی کھلاڑیوں کی تیاری اور کوالیفائنگ راونڈ میں شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ان کی مدد کرے، اسپورٹس پالیسی پر پی او اے سمیت کسی فیڈریشن سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی، ہم نے آواز بلند کی تو چند فیڈریشنز کو اسپورٹس پالیسی بھجوا کر کہا گیا کہ دس روز میں جواب دیا جائے، کسی ملک کی اسپورٹس پالیسی کیا دس روز میں بنتی ہے، ٹوکیو اولمپکس میں ہمارے کھلاڑیوں کی کارکردگی گزشتہ کئی سال سے سب سے اچھی رہی ہے۔
سید عارف حسن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان اور منسٹری آئی پی سی سے اپیل ہے کہ لڑائی جھگڑے کی بجائے مل بیٹھ کر مسئلے کا حل تلاش کیا جائے تاکہ کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں میڈل جیت سکیں، اگلے اولمپکس کو ہدف بنا کر لائحہ عمل تیار کیا جائے، کسی اور کی ذمہ داری مجھ پر یا پی او اے پر نہیں ڈالی جا سکتی، الزام تراشی کی بجائے مل کر بیٹھ کر کام کرنا ہوگا، آئی او سی کوئی ایکشن لے سکتی ہے اس پر کوئی بات نہیں کر سکتا، ان کا کہنا تھا کہ ایک جمہوری طریقے سے صدر بنا ہوں، جس کے لیے باقاعدہ ایک سسٹم موجود ہے، پی او اے صدر کا انتخاب جنرل ہاوس کرتا ہے، بیک ڈور کچھ نہیں ہو سکتا ہے۔