خاں صاحب للہ قوم پر رحم کیجیے
جو چیز کل بازار میں سو روپے کی تھی آج اس کے دام بازار میں 150 روپے ہوگئے ہیں
KARACHI/ISLAMABAD:
پرانے زمانوں میں جب حکمران اپنی رعایا پر ظلم کرتے تھے ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی میڈیا تھا جو کہ ان کی خبریں پھیلاتا، اس لیے وہ دل کھول کر اپنی بھوکی پیاسی رعایا پر ظلم کرتے تھے۔ جس سے بادشاہ خفا ہوجاتا، اس سے اور اس کے خاندان سے زندگی کی ساری رعنایاں اور خوشیاں چھین لی جاتی تھیں۔ اس کے خاندان کو یا تو ملک بدر کردیا جاتا تھا یا پھر پس دیوار زندان اس کا مقدر بن جاتا تھا اور پھر وہ عمر بھر اس قیدخانے میں ایام زیست گزار دیتا تھا۔
کسی کی کیا مجال کہ کوئی بادشاہ وقت سے پوچھ سکے کہ حضور اگر جان کی امان پاؤں تو کیا اس بے گناہ خاندان کو انصاف مل سکتا ہے؟ غریب اور بے کس رعایا کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے کےلیے منصوبے بنتے تھے، ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا تھا اور غریب اپنے بچوں کےلیے نان جویں کا محتاج ہوکر ہر وقت بادشاہ کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور رہتا۔
بادشاہ کے ساتھ مشیر اور وزیر بھی ہوتے تھے، جو اس کے کانوں میں زہریلا رس گھولتے تھے کہ جناب فلاں جگہ پر گھوڑا باندھنے پر ٹیکس نہیں ہے، اگر وہ بھی لگادیا جائے تو اشرفیوں کے ڈھیر لگ سکتے ہیں۔ اور پھر بادشاہ اپنے اس مشیر کو اشرفیوں کا تھال نذرانہ کرکے ہزاروں تھال گھوڑا باندھنے کا ٹیکس وصول کرلیتا تھا۔ ان مشیروں کا کام سوائے بادشاہ کے کان بھرنے اور عوام کے جسموں سے خون نچوڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ وہ بادشاہ کو ہر وقت یہ ہی بتاتے تھے کہ یہ رعایا اب مالدار ہوتی جارہی ہے اور ان کی مالداری میں آپ کی بادشاہی غرقاب ہوجائے گی، لہٰذا مزید کوئی ٹیکس ایجاد کیا جائے وگرنہ عوام بپھر جائیں گے۔
ایک ملک کے ہنستے بستے عوام کو پرانا بادشاہ کچھ ناپسند ہوگیا۔ اس ناپسندیدگی میں زمینی فرشتوں نے بھی اسے بدنام کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور عوام کو بھی ایک اور بادشاہ کو آزمانے کا خیال سوجھا۔ لہٰذا بادشاہ خان نے اپنے جلسے، جلوسوں میں یہ نعرے لگانے شروع کردیے کہ آپ کا اتنا روپیہ باہر پڑا ہے، آپ کا اتنا ٹیکس چوری ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ چور گئے تو وہ روپیہ واپس آجائے گا اور پھر عوام ہاتھ پر ہاتھ رکھے گھر بیٹھے مالامال ہوجائیں گے۔ غریب اور امیر کا فرق مٹ جائے گا۔ امن کی گنگا بہے گی۔ علم و فن ہر ایک کی دسترس میں ہوگا بلکہ باہر کے ملکوں سے لوگ آپ کی خدمت کرنے یہاں پر آئیں گے۔ بس پھر کیا تھا؟
چونکہ اس ملک میں جمہوریت کی کشتی چلتی تھی اور کشتی میں صندوق رکھ دیے جاتے تھے اور وہ کشتیاں ہر شہر اور گاؤں میں پھرتی تھیں اور لوگ اپنی پرچیاں اس میں ڈالتے رہتے تھے۔ لہٰذا اس ملک کے ناسمجھ اور کم فہم عوام نے اس بادشاہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے جھولیاں بھر بھر ووٹوں سے نوازا اور جہاں صندوقوں میں ووٹ کم پڑے، وہاں پر زمینی فرشتوں نے انہیں بھر دیا۔ لہٰذا اس ملک میں بھی انتخابات کروائے گئے اور جب ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی اچانک رات کو اس ملک میں ایک طوفان آگیا اور اس طوفان نے تمام راستے بند کردیے۔ صبج جب لوگوں کو پتا چلا تو اس نئے بادشاہ کے 20 بھرے ہوئے ڈبے 120 ہوگئے۔
جیسے ہی دن کا اجالا پھیلا تو پرانے بادشاہ کو کھڈے لین لگادیا گیا اور نیا بادشاہ جس کا نام ''بادشاہ خان'' تھا، کو مسلط کرنے کےلیے زمینی فرشتوں نے ہرجگہ پر اپنے آہنی گرز استعمال کرتے ہوئے کامیاب کروادیا۔ اب فرشتوں سے کون لڑے، کس کی مجال کہ ان کا نام بھی لے سکے۔ لہٰذا بادشاہ خان تمام آہنی ہاتھوں کی آشیرباد کے ساتھ نہ صرف مسلط ہوا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم وستم شروع ہوگیا۔ عوام پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی تو عوام کی آنکھیں کھلیں اور اس نے پرانے بادشاہ کو لانے کےلیے سوچنا شروع کردیا۔ لیکن آہنی ہاتھوں والے زمینی فرشتوں نے خان کو ستون فراہم کیے۔ عوام کے سامنے جھوٹ بولنے اور جھوٹ کو سچ کرنے کےلیے مغرب و مشرق سے ایسے ایسے مشیروں سے نوازا کہ وہ جھوٹ کو ایک فرض عین سمجھ کر بولتے ہیں اور جھوٹ کے ایسے ماہر کہ ان کا جھوٹ سن کر شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وہاں سے بھاگ جاتا کہ میں تو ایسے ہی بدنام ہوگیا تھا۔
اس ملک کا ہر ادارہ تباہ ہوگیا یا کردیا گيا۔ صرف ان لوگوں کی عزت تھی جو مالدار تھے یا رشوت دے کر اپنے کام نکال لیتے۔ ہر بازار میں لوگوں کے اپنے دام، نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا۔ لوگ گھر سے اشیائے ضروریہ لینے نکلتے کہ کل ہم نے 100 روپے کی لی تھی تو آج بھی 100 کی ہی ملے گی، لیکن بازار جاکر پتہ چلتا ہے کہ وہ کل کی بات تھی، آج اسی چیز کے دام 150 ہوگئے ہیں۔
بادشاہ خان نے ہر امیر کو امیر تر ہونے کےلیے تمام تر وسائل مہیا کیے اور غریب عوام کو نان جویں کا محتاج کرنے کےلیے بھی اپنے گماشتے چھوڑ دیے، تاکہ اس بیکار اور ملک پر بوجھ بنے ہوئے طبقے سے ہر صورت میں جان چھڑائی جائے۔ مہنگائی سے ادھ موئے غریب عوام پھر بھی زندہ رہے تو انہیں سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مقابلوں میں پھڑکانے کےلیے بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ لہٰذا مختلف شہروں میں انہیں چوکوں میں پھڑکا دیا گیا اور پھر ان کو ملک دشمن بھی بنایا گیا۔
ملک کے قاضیوں اور منصفوں کے منہ زمینوں اور جاگیروں سے بھردیے گئے تاکہ وہ بادشاہ خان کے خلاف کوئی فیصلہ نہ سنا سکیں اور جو کوئی مخالفت کی کوشش کرتا، اس پر سانس بند ہونے کی بیماری کا حملہ کرکے جان چھڑوالی جاتی۔ اب اس ملک کے ہر چوراہے پر غریب اور بھوکے ننگے عوام مظاہرے کرنے لگے اور اپنی ناشکری کی سزا بھگتنے کے ساتھ ہر ایک کی ایک ہی فریاد تھی۔
''رحم بادشاہ خان... رحم بادشاہ خان''
موجودہ زمانے میں بادشاہتیں تو تقریباً ختم ہوگئی ہیں لیکن اکیسویں صدی میں بھی ایک ملک ایسا موجود ہے جہاں پر نہ صرف بادشاہت ہے بلکہ وہاں پر 120 سے زائد وزیر و مشیر بھی عوام کی دولت لوٹنے میں مصروف ہیں، بلکہ بادشاہ وقت کو ہر آن مشورے دیتے ہیں کہ کہاں سے زیادہ ٹیکس لگاکر عوام کو مزید چونا لگایا جاسکتا ہے۔ اور بادشاہ کو مشورہ دینے سے قبل وہ اسی ادارے کےلیے اپنی ایک کمپنی بھی قائم کرلیتے ہیں تاکہ اس ادارے کے ٹیکس براہ راست اس کمپنی میں انڈیل دیے جاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور جب پتا چلتا ہے تو اس وقت تک وہ وزير و مشیر ملک سے کوسوں دور جنات کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کوہ قاف کے پہاڑوں میں جا پہنچتا ہے اور پریوں کے جھرمٹ میں مزے کررہا ہوتا ہے۔ اور یہاں کے عوام اب بھی وہی نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں کہ
''رحم میرے خان... رحم میرے خان''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پرانے زمانوں میں جب حکمران اپنی رعایا پر ظلم کرتے تھے ان کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی میڈیا تھا جو کہ ان کی خبریں پھیلاتا، اس لیے وہ دل کھول کر اپنی بھوکی پیاسی رعایا پر ظلم کرتے تھے۔ جس سے بادشاہ خفا ہوجاتا، اس سے اور اس کے خاندان سے زندگی کی ساری رعنایاں اور خوشیاں چھین لی جاتی تھیں۔ اس کے خاندان کو یا تو ملک بدر کردیا جاتا تھا یا پھر پس دیوار زندان اس کا مقدر بن جاتا تھا اور پھر وہ عمر بھر اس قیدخانے میں ایام زیست گزار دیتا تھا۔
کسی کی کیا مجال کہ کوئی بادشاہ وقت سے پوچھ سکے کہ حضور اگر جان کی امان پاؤں تو کیا اس بے گناہ خاندان کو انصاف مل سکتا ہے؟ غریب اور بے کس رعایا کے جسم سے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے کےلیے منصوبے بنتے تھے، ٹیکسوں میں ہوشربا اضافہ ہوتا تھا اور غریب اپنے بچوں کےلیے نان جویں کا محتاج ہوکر ہر وقت بادشاہ کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور رہتا۔
بادشاہ کے ساتھ مشیر اور وزیر بھی ہوتے تھے، جو اس کے کانوں میں زہریلا رس گھولتے تھے کہ جناب فلاں جگہ پر گھوڑا باندھنے پر ٹیکس نہیں ہے، اگر وہ بھی لگادیا جائے تو اشرفیوں کے ڈھیر لگ سکتے ہیں۔ اور پھر بادشاہ اپنے اس مشیر کو اشرفیوں کا تھال نذرانہ کرکے ہزاروں تھال گھوڑا باندھنے کا ٹیکس وصول کرلیتا تھا۔ ان مشیروں کا کام سوائے بادشاہ کے کان بھرنے اور عوام کے جسموں سے خون نچوڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔ وہ بادشاہ کو ہر وقت یہ ہی بتاتے تھے کہ یہ رعایا اب مالدار ہوتی جارہی ہے اور ان کی مالداری میں آپ کی بادشاہی غرقاب ہوجائے گی، لہٰذا مزید کوئی ٹیکس ایجاد کیا جائے وگرنہ عوام بپھر جائیں گے۔
ایک ملک کے ہنستے بستے عوام کو پرانا بادشاہ کچھ ناپسند ہوگیا۔ اس ناپسندیدگی میں زمینی فرشتوں نے بھی اسے بدنام کرنے کےلیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا اور عوام کو بھی ایک اور بادشاہ کو آزمانے کا خیال سوجھا۔ لہٰذا بادشاہ خان نے اپنے جلسے، جلوسوں میں یہ نعرے لگانے شروع کردیے کہ آپ کا اتنا روپیہ باہر پڑا ہے، آپ کا اتنا ٹیکس چوری ہوتا ہے اور جیسے ہی یہ چور گئے تو وہ روپیہ واپس آجائے گا اور پھر عوام ہاتھ پر ہاتھ رکھے گھر بیٹھے مالامال ہوجائیں گے۔ غریب اور امیر کا فرق مٹ جائے گا۔ امن کی گنگا بہے گی۔ علم و فن ہر ایک کی دسترس میں ہوگا بلکہ باہر کے ملکوں سے لوگ آپ کی خدمت کرنے یہاں پر آئیں گے۔ بس پھر کیا تھا؟
چونکہ اس ملک میں جمہوریت کی کشتی چلتی تھی اور کشتی میں صندوق رکھ دیے جاتے تھے اور وہ کشتیاں ہر شہر اور گاؤں میں پھرتی تھیں اور لوگ اپنی پرچیاں اس میں ڈالتے رہتے تھے۔ لہٰذا اس ملک کے ناسمجھ اور کم فہم عوام نے اس بادشاہ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہوئے جھولیاں بھر بھر ووٹوں سے نوازا اور جہاں صندوقوں میں ووٹ کم پڑے، وہاں پر زمینی فرشتوں نے انہیں بھر دیا۔ لہٰذا اس ملک میں بھی انتخابات کروائے گئے اور جب ووٹوں کی گنتی ہورہی تھی اچانک رات کو اس ملک میں ایک طوفان آگیا اور اس طوفان نے تمام راستے بند کردیے۔ صبج جب لوگوں کو پتا چلا تو اس نئے بادشاہ کے 20 بھرے ہوئے ڈبے 120 ہوگئے۔
جیسے ہی دن کا اجالا پھیلا تو پرانے بادشاہ کو کھڈے لین لگادیا گیا اور نیا بادشاہ جس کا نام ''بادشاہ خان'' تھا، کو مسلط کرنے کےلیے زمینی فرشتوں نے ہرجگہ پر اپنے آہنی گرز استعمال کرتے ہوئے کامیاب کروادیا۔ اب فرشتوں سے کون لڑے، کس کی مجال کہ ان کا نام بھی لے سکے۔ لہٰذا بادشاہ خان تمام آہنی ہاتھوں کی آشیرباد کے ساتھ نہ صرف مسلط ہوا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم وستم شروع ہوگیا۔ عوام پر زندگی تنگ ہونا شروع ہوگئی تو عوام کی آنکھیں کھلیں اور اس نے پرانے بادشاہ کو لانے کےلیے سوچنا شروع کردیا۔ لیکن آہنی ہاتھوں والے زمینی فرشتوں نے خان کو ستون فراہم کیے۔ عوام کے سامنے جھوٹ بولنے اور جھوٹ کو سچ کرنے کےلیے مغرب و مشرق سے ایسے ایسے مشیروں سے نوازا کہ وہ جھوٹ کو ایک فرض عین سمجھ کر بولتے ہیں اور جھوٹ کے ایسے ماہر کہ ان کا جھوٹ سن کر شیطان بھی کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وہاں سے بھاگ جاتا کہ میں تو ایسے ہی بدنام ہوگیا تھا۔
اس ملک کا ہر ادارہ تباہ ہوگیا یا کردیا گيا۔ صرف ان لوگوں کی عزت تھی جو مالدار تھے یا رشوت دے کر اپنے کام نکال لیتے۔ ہر بازار میں لوگوں کے اپنے دام، نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ ہی کوئی روکنے والا۔ لوگ گھر سے اشیائے ضروریہ لینے نکلتے کہ کل ہم نے 100 روپے کی لی تھی تو آج بھی 100 کی ہی ملے گی، لیکن بازار جاکر پتہ چلتا ہے کہ وہ کل کی بات تھی، آج اسی چیز کے دام 150 ہوگئے ہیں۔
بادشاہ خان نے ہر امیر کو امیر تر ہونے کےلیے تمام تر وسائل مہیا کیے اور غریب عوام کو نان جویں کا محتاج کرنے کےلیے بھی اپنے گماشتے چھوڑ دیے، تاکہ اس بیکار اور ملک پر بوجھ بنے ہوئے طبقے سے ہر صورت میں جان چھڑائی جائے۔ مہنگائی سے ادھ موئے غریب عوام پھر بھی زندہ رہے تو انہیں سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مقابلوں میں پھڑکانے کےلیے بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ لہٰذا مختلف شہروں میں انہیں چوکوں میں پھڑکا دیا گیا اور پھر ان کو ملک دشمن بھی بنایا گیا۔
ملک کے قاضیوں اور منصفوں کے منہ زمینوں اور جاگیروں سے بھردیے گئے تاکہ وہ بادشاہ خان کے خلاف کوئی فیصلہ نہ سنا سکیں اور جو کوئی مخالفت کی کوشش کرتا، اس پر سانس بند ہونے کی بیماری کا حملہ کرکے جان چھڑوالی جاتی۔ اب اس ملک کے ہر چوراہے پر غریب اور بھوکے ننگے عوام مظاہرے کرنے لگے اور اپنی ناشکری کی سزا بھگتنے کے ساتھ ہر ایک کی ایک ہی فریاد تھی۔
''رحم بادشاہ خان... رحم بادشاہ خان''
موجودہ زمانے میں بادشاہتیں تو تقریباً ختم ہوگئی ہیں لیکن اکیسویں صدی میں بھی ایک ملک ایسا موجود ہے جہاں پر نہ صرف بادشاہت ہے بلکہ وہاں پر 120 سے زائد وزیر و مشیر بھی عوام کی دولت لوٹنے میں مصروف ہیں، بلکہ بادشاہ وقت کو ہر آن مشورے دیتے ہیں کہ کہاں سے زیادہ ٹیکس لگاکر عوام کو مزید چونا لگایا جاسکتا ہے۔ اور بادشاہ کو مشورہ دینے سے قبل وہ اسی ادارے کےلیے اپنی ایک کمپنی بھی قائم کرلیتے ہیں تاکہ اس ادارے کے ٹیکس براہ راست اس کمپنی میں انڈیل دیے جاتے ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی اور جب پتا چلتا ہے تو اس وقت تک وہ وزير و مشیر ملک سے کوسوں دور جنات کی خدمات حاصل کرتے ہوئے کوہ قاف کے پہاڑوں میں جا پہنچتا ہے اور پریوں کے جھرمٹ میں مزے کررہا ہوتا ہے۔ اور یہاں کے عوام اب بھی وہی نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں کہ
''رحم میرے خان... رحم میرے خان''۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔