طالبان جدو جہد کامیابی سے ہمکنار

افغان حکومت کے سربراہ اور اس کی ٹیم کو دیکھ کر مستقبل کا نقشہ سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔

gfhlb169@gmail.com

پل پل بدلتی افغان صورتحال میں ٹھہراؤ تو آتا جا رہا ہے لیکن ابھی بھی کچھ غیر ملکی فوجی وہاں موجود ہیں۔آنے والے دنوں میں کیا ہو گا، اس کا ایک اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔بہتر یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہم افغانستان میں حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کریں۔

افغان حکومت کے سربراہ اور اس کی ٹیم کو دیکھ کر مستقبل کا نقشہ سمجھنے میں آسانی ہو سکتی ہے۔ ایک بہترین ٹیم کسی بھی پائیدار کامیابی کی ضمانت بن سکتی ہے۔یہ میڈیا کا دور ہے۔

مقامی میڈیا کے مقابلے میں مغربی میڈیا کو چنداں اہمیت حاصل ہے۔طالبان کو ایک ایسی کامیابی تو مل گئی ہے جس کا صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے لیکن مغربی میڈیا نے طالبان کی کامیابی کو گہنانے کی بھرپور مہم شروع کر دی ہے۔دیکھتے ہیں مستقبل اپنے اندر کیا لیے بیٹھا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی شدید خواہش تھی کہ انخلا کے بہانے وہاں زیادہ سے زیادہ دیر رہیں لیکن طالبان نے کمال ہوشیاری سے مغرب کی یہ کوشش بھی ناکام بنا دی۔

اب امریکا یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ وہ 31اگست 2021تک افغانستان سے نکل جائے گا۔بورس جانسن کی دُہائیاں صدا بصحرا ہی ثابت ہوئیں۔ فی الحال مستقبل میں دیکھنے کے عمل کو وقتی طور پر پیچھے رکھ کر اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ وہ کیا عوامل تھے،جن کی وجہ سے طالبان کامیاب رہے۔

طالبان کی کامیابی کی پہلی وجہ شاید یہ ہے کہ انھیں افغانستان کے اندر باقی تمام اسٹیک ہولڈروں کے مقابلے میں افغان عوام کی ایک بڑی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔نائن الیون کے بعد امریکی قبضہ،امریکی قیادت کے ان بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ شروع ہوا کہ افغانستان میں امن آئے گا اور خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔لیکن یہ غاصبانہ قبضہ بہت ظالمانہ،کرپشن سے لتھڑا ہوا اور ناقابلِ برداشت ثابت ہوا۔

ایسے میں کچھ قوتیں درمیان میں پڑیں۔ امریکیوں اور طالبان کے درمیان ایک اسٹیلمنٹ ہوئی جس کی رو سے طالبان نے کابل خالی کرنے اور امریکی منشا کے مطابق افغان صدر کی تعیناتی پر رضامندی ظاہر کر دی۔امریکا نے یہ وعدہ کیا کہ وہ کابل اور دوسرے بڑے شہروں سے طالبان رہنماؤںاور جنگجوؤں کو نکل جانے کا موقع دے گا تاکہ ان کا زیادہ جانی نقصان نہ ہو۔

افغانستان میں بے انتہا غربت تھی۔طالبان کے اندر ایک بڑے حلقے نے سوچا کہ امریکا کے آنے سے بہت پیسہ آئے گا،افغان معیشت مضبوط ہو گی۔ ترقی کا ایک سیلاب آئے گا اور افغان عوام سُکھ کا سانس لیں گے، اس لیے امریکا کو آنے دیا جائے ۔

اگر ہم یاد کریں تو پہلے دوسال امریکی قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت دکھائی نہیں دے گی جب کہ ویت نام،عراق اور شام میں امریکی قبضے کو پہلے دن سے ہی مزاحمت کا سامنا رہا ہے۔طالبان کی امیدیں بر نہ آئیں،ایسی ترقی جس سے افغانیوں کے دن پھر جائیں وہ ترقی ایک خواب ہی رہی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا سے بہت پیسہ آیا لیکن یہ پیسہ ڈک چینی،ایرک پرنس،حامد کرزئی، عبداﷲ عبداﷲ، اشرف غنی،رشید دوستم، کئی دوسرے وار لارڈز اور امریکی ٹھیکیداروں کے بینک اکاؤنس بھرنے میں مددگار ثابت ہوا۔


قوت کی اپنی زبان اور سائیکالوجی ہوتی ہے۔وہ بہت سی اہم باتوں کو نظر انداز کر دیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ قوت اور جبر کے بل بوتے پر اپنے اہداف ضرور حاصل کر لے گی۔ امریکا اور نیٹو افواج نے وہ ظلم ڈھائے جن کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔آپ عراق میں ابوغریب جیل سے نکلنے والی تصاویر سے خود ہی اندازہ لگا سکیں گے۔

ذرا سی شکایت یا شبے پر رات کو گھروں پر دھاوا بول کر خواتین کی بے حرمتی اور مردوں کو گھسیٹ کر ٹارچر سیلوں میں ڈالنا ایک معمول بن گیا۔مردوں کو غائب کر دینے کے بعد ان کے خاندان کس میں رہے اور ان پر زندگی کیسی تنگ کر دی گئی اس کا اندازہ لگانا محال ہے۔ان مظالم کا شکار ہونے والے اور تو کچھ کر نہیں سکتے تھے لیکن وہ امریکی افواج کے قبضے کے شدید ترین مخالف ضرور بنتے چلے گئے۔

طالبان نے تقریباً دو سال اس بات کا انتظار کیا کہ ملک میں امن اور خوشحالی آئے لیکن ایسا نہ ہوا تو طالبان نے ہتھیار اُٹھا لیے۔دیکھتے ہی دیکھتے کئی گاؤں اور علاقے سرکاری تحویل سے نکل کر طالبان کے ہاتھوں میں چلے گئے۔افغان آرمی کے سامنے کوئی مقصد نہیں تھا۔افغانستان کے اوپر تیس سے زائد ممالک کی افواج قابض تھیں۔

شمالی اتحاد کی قوتیں،مغربی استعمار کے ساتھ مل گئی تھیں۔ پورے افغانستان میں طالبان کے علاوہ کوئی نہیں تھا جو امریکیوں اور ان کے اتحادیوں کو للکار سکے۔طالبان واحد سیاسی تنظیم تھی جو امریکی قبضے کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تھی۔

افغان عوام میں پشتون سب سے بڑی لسانی اکائی ہیں۔پہلی طالبان حکومت بھی کئی حوالوں سے خالص پشتون حکومت تھی۔یہی وجہ تھی کہ طالبان اور افغانستان کے اندر دوسری لسانی اور گروہی اکائیوں کے درمیان مخاصمت کی فضا رہی۔ اب کی بار طالبان کو معاملے کے اس پہلو کا شدید احساس تھا، اس لیے پچھلے کئی سالوں سے طالبان ازبک،تاجک اور دوسری اکائیوں کے افراد کو اپنے اندر شامل کر رہے تھے۔اس پالیسی سے یہ لسانی اکائیاں طالبان کے قریب آتی گئیں اور ماضی کی دوریاں رفاقتوں میں تبدیل ہونے لگیں ۔ازبک اور تاجک یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ ان کے ملک کے اوپر غیر قابض ہیں۔

طالبان کے ہاتھ بڑھانے پر وہ بہت خوش تھے اسی لیے طالبان کی پیش قدمی کو سب سے پہلے شمالی علاقوں میں کامیابی ملی۔ان اقدامات کے نتیجے میں طالبان کی رضا کار فوج میں سے جتنے افراد جنگ میں کام آجاتے تھے اس سے کہیں زیادہ افراد طالبان میں شامل ہو جاتے تھے۔

دوسری طرف سرکاری فوج میں شامل ہونے والوں کی تعداد کم اور بھاگنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ٹریننگ کے بعد اسلحہ سمیت بھاگنے والے افغان فوجی عام طور پر طالبان کے ہاتھ مضبوط کرتے تھے ۔یوں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ طالبان مضبوط سے مضبوط ترہوتے چلے گئے۔

طالبان کے سامنے لڑنے اور جان دینے کے لیے ایک بڑا مقصد تھا۔ان کی سرزمین کو غیروں نے پامال کیا تھا۔ وہ مرد جذبہ ایمانی سے سرشار تھے۔ان کا مورال اس سارے عرصے میںبہت اونچا رہا۔ طالبان لڑائی میں موت کو دعوت دیتے دکھائی دیے کیونکہ وہ اسے شہادت گردانتے تھے۔ان وجوہات کی وجہ سے آخر کار جذبہ اور آئیڈیالوجی جیت گئی۔

طالبان نے دوحہ سے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا امتحان اب شروع ہوا ہے۔انھیں ایک بہترین فلاحی اسلامی معاشرے کے خواب کو سچ کر کے دکھانا ہے۔ خدا کرے افغانستان میں امن ہو اور پاکستان سمیت سارا خطہ اس سے مستفید ہو۔(آمین۔)
Load Next Story