آہ یہ دل سوز واقعات…
ریاستی ادارے سب ملکر بھی ملک و قوم کی حفاظت اندرونی خطرات سے نہ کرسکے تو بیرونی حملے سے کیا کریںگے؟
چند روز قبل کورنگی کراچی سے 7 سال کی ایک کمسن بچی گھر سے باہر کھیلنے گئی اور اسے اغوا کرلیا گیا دو دن بعد اس کی کچلی ہوئی لاش ایک کوڑے کے ڈھیر پرپڑی ملی حال یہ تھا کہ بچی کے جسم پر جگہ جگہ جلی ہوئی سگریٹ سے داغنے کے نشانات تھے، جسم کی ہڈیاں کئی مقامات سے ٹوٹی ہوئی تھیں اور اسے بدترین جسمانی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیاتھا، سمجھ سے بعید تر ہے کہ کیا لکھوں کیسے کہوں۔
اگر اکا دکا بھی اس ملک میں کوئی مجھ جیسے بیکار شخص کو پڑھنے والا ہو تو اسے علم ہوگا کہ میں مستقل اور مسلسل معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار اور بے راہ روی پر لکھ رہا ہوں لیکن شاید میری آواز صدا بہ صحرا ہے۔ایک ایسی آواز جو بازگشت کی طرح لوٹ کر مجھ ہی کوسننی پڑتی ہے۔
یہ کون درندے ہیں؟ کسی جنگل سے آئے ہیں یا ہم نے ہی اپنے سماج کو جنگل بنالیا ہے۔ارے کوئی پولیس ہے کوئی قانون نافذ کرنے والا قابض ادارہ؟ کہاں ہے پولیس؟ موت کے اس جنگل میں زندگی کی طرف کونسی سڑک جاتی ہے؟
مسجد، مدرسہ، محلہ، گلی، گھر، بازار کہاں جائیں کوئی جگہ ان کمسن بچیوں کے لیے محفوظ ہے؟ سر عام قتل کرنے والے شواہد نہ ملنے کے باعث رہا ہو جاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے لواحقین میں کم سن بچیاں آج تک انصاف مانگ رہی ہیں اور انھیں انصاف دلوانے کا دعویٰ کرنے والا آج بھی دھڑلے سے پاکستان بدل رہا ہے!اور ادارے ان کی سراسر جھوٹی ترقی پر تالیاں بجا رہے ہیں۔
اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ ایک دھڑا تو ڈیل کے بغیر میدان میں ہی نہیں اترتا ،دوسرے میں ایک بھائی دریا کے اس پار سے پتھر مارتا ہے تو ایک بھائی اسے کیچ کرلیتا ہے۔پہلے اور اب میں صرف اتنا سا فرق ہے کہ پہلے خود بڑے جبراً10 سال حکومت میں رہتے تھے ،اب اپنے لے پالک کو 10 سال رکھنا چاہتے ہیں ۔
جب ملک کا جوس نکل جائے گا تو اس وقت اپوزیشن کی کسی بھی جماعت پر مہربانی کرتے ہوئے کچھ سال حکومت کرنے کا حکم صادر فرمادیں گے لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ یہ ہماری امانت ہے جب بھی واپس مانگیں دینی ہوگی ورنہ تا حیات نا اہل ہوجاؤ گے،تو پھر انصاف کیسے ہو ؟ان معصوم کلیوں کو مسلنے کا یہ گندا، غلیظ اور بھیانک سلسلہ کب بند ہوگا عدالتوں میں ججز اگر بہت مصروف ہیں تو پھر بھی اس معاملے کو نظرانداز نہ کریں ! زینب مرڈر کیس میں پورے ملک سے عوام کا مطالبہ تھا کہ قاتل کو سر عام پھانسی دی جائے آپ نے کہا قانون نہیں ہے ۔
ہم نے یہ ملک بھی دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا تو پھر آئلی قوانین کیوں،برٹش لاء کیوں؟ وہی جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ۔آج کی سراسیمگی آج کی مہنگائی، کرپشن، لوٹ مار، آئین و قانون پر عمل نہ ہونا، عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی 30 سال سے قید ایک ملزم کے بارے میں خبر ہونا کہ اس نے تو جرم کیا ہی نہیں تھا اور کہنا کہ غلطی ہوگئی سوری آج سے آپ آزاد ہیں ۔اور ایک کھلے عام جرم کرنے والے کو ابتدائی سماعت کے بعد رہا کردینا !!جانتے ہو یہ سب کیوں ہے؟ کیوںکہ ہم ان بیس لاکھ شہدا ء کے غدار ہیں جو اس ملک کے معمار ہیں اور ہجرت کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
وہ اس اطمینان کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے تھے کہ چلو ہماری نسلیں تو آزاد ملک میں پیدا ہوںگی۔انھیں نہیں پتا تھا کہ یہاں لٹیرے جنم لیں گے۔ وہ بیچارے تو لٹ گئے لیکن کیا ان کی ارواح اللہ کے عرش پر فریاد کناں نہیں ہونگی؟ یقینا ہوںگی۔
اسی علاقے سے ایک اور بچی اریبہ 6 سال کی دو دن سے لاپتہ ہے اس کے والدین نے 15 مدد گار کو فون پر اطلاع دی تو جواب دیا گیا کہ ''رات کو کوئی ڈیوٹی پر نہیں ہے صبح آنا'' بچی کے والد کی دادوفریاد پر جواب ملتا ہے کہ '' سمجھ میں نہیں آتا کوئی ڈیوٹی پر موجود نہیں اور ادھر ہم کیا صرف تیری بچی کو ڈھونڈنے کے لیے بیٹھے ہیں؟ ''
یہ حالت ہے اس پولیس کی جو ان ہی غریب، بے سہارا لوگوں کے ادا کیے گئے یوٹیلٹی بلز سے تنخواہیں لیتے ہیںاور ابھی ایک معصوم بچی کا بہیمانہ قتل ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تب یہ حالت کہ علاقہ پولیس کے پاس ایک اور اغوا کنندہ بچی کی تلاشی کے لیے وقت نہیں !!افسوس صد افسوس جو ملکی ترقی کی بات کرتے ہیں GDP، میں اضافے کی بات کرتے ہیں ۔
ریاستی ادارے سب ملکر بھی ملک و قوم کی حفاظت اندرونی خطرات سے نہ کرسکے تو بیرونی حملے سے کیا کریںگے؟یہ تو بس ملکی دولت کے پیچھے ہیں، غرباء کے جمع کردہ ٹیکسز کو لوٹنا چاہتے ہیں اور لوٹتے ہیں،ایک مافیا ہے جو پاکستان کی قیمتی سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے اسے مہنگے داموں فروخت کرتا ہے اور بیرون ملک جائیدادیں بناتا ہے۔حکمرانوں کو مجبور و بے بس عوام کی نحیف و نزار آواز بھلا کیونکر سنائی دے گی ۔لیکن یہ آواز آسمان سن رہا ہے۔
یاد رکھیے گا فیصلہ جب وہاں سے آئے گا تو بہت چیخو گے تم بھی بہت تڑپو گے تم بھی ۔آج تمہارے پاس ان مجبور لوگوں کے لیے وقت نہیں ہے، آج تم حرام کی کھا رہے ہو، کل اس سب کے حساب کا وقت ہوگا۔ظلم دیکھیے کہ جہاں سات سال کی معصوم بچی محفوظ نہیں اسے (ریاست مدینہ) بنانے کا عزم رکھتے ہیں!!جہاں قانون کا اطلاق صرف غریب پر ہوتا ہے۔جہاں ایک عورت کو سر عام سر کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے جہاں سانحہ ساہیوال میں ایک معصوم گھرانے کے افراد کو بے قصور دہشت گرد قرار دیکر قتل کر دیا جاتا ہے اور ساری دنیا وہ videos دیکھتی ہے لیکن مجرم کورٹ سے بری ہو جاتے ہیں۔
جہاں 73 سال کے بعد بھی آئین کا نفاذ نہ ہو سکا، ہر 5 سال بعد ایک نیا تجربہ ہوتا ہے، اسے ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔یہ کیسی لیلی ہے دوستو، کیسا تماشہ ہے؟کس کو دھوکا دے رہے ہو کس سے جھوٹ بول رہے ہو؟ شاید دنیا سے یا شاید عوام سے جو بے چارے ہر پانچ سال بعد بہت آسانی سے بیوقوف بن جاتے ہیں لیکن کیا اللہ سے بھی جھوٹ بول سکتے ہو کیا قدرت کو بھی دھوکا دے سکتے ہو؟میں وہ دن جلد آتا دیکھ رہا ہوں جو حساب کا دن ہوگا اور اس دن آپ کے پاس بہت وقت ہوگا حساب دینے کے لیے...
اگر اکا دکا بھی اس ملک میں کوئی مجھ جیسے بیکار شخص کو پڑھنے والا ہو تو اسے علم ہوگا کہ میں مستقل اور مسلسل معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار اور بے راہ روی پر لکھ رہا ہوں لیکن شاید میری آواز صدا بہ صحرا ہے۔ایک ایسی آواز جو بازگشت کی طرح لوٹ کر مجھ ہی کوسننی پڑتی ہے۔
یہ کون درندے ہیں؟ کسی جنگل سے آئے ہیں یا ہم نے ہی اپنے سماج کو جنگل بنالیا ہے۔ارے کوئی پولیس ہے کوئی قانون نافذ کرنے والا قابض ادارہ؟ کہاں ہے پولیس؟ موت کے اس جنگل میں زندگی کی طرف کونسی سڑک جاتی ہے؟
مسجد، مدرسہ، محلہ، گلی، گھر، بازار کہاں جائیں کوئی جگہ ان کمسن بچیوں کے لیے محفوظ ہے؟ سر عام قتل کرنے والے شواہد نہ ملنے کے باعث رہا ہو جاتے ہیں۔ سانحہ ساہیوال کے لواحقین میں کم سن بچیاں آج تک انصاف مانگ رہی ہیں اور انھیں انصاف دلوانے کا دعویٰ کرنے والا آج بھی دھڑلے سے پاکستان بدل رہا ہے!اور ادارے ان کی سراسر جھوٹی ترقی پر تالیاں بجا رہے ہیں۔
اپوزیشن کا حال یہ ہے کہ ایک دھڑا تو ڈیل کے بغیر میدان میں ہی نہیں اترتا ،دوسرے میں ایک بھائی دریا کے اس پار سے پتھر مارتا ہے تو ایک بھائی اسے کیچ کرلیتا ہے۔پہلے اور اب میں صرف اتنا سا فرق ہے کہ پہلے خود بڑے جبراً10 سال حکومت میں رہتے تھے ،اب اپنے لے پالک کو 10 سال رکھنا چاہتے ہیں ۔
جب ملک کا جوس نکل جائے گا تو اس وقت اپوزیشن کی کسی بھی جماعت پر مہربانی کرتے ہوئے کچھ سال حکومت کرنے کا حکم صادر فرمادیں گے لیکن اس ہدایت کے ساتھ کہ یہ ہماری امانت ہے جب بھی واپس مانگیں دینی ہوگی ورنہ تا حیات نا اہل ہوجاؤ گے،تو پھر انصاف کیسے ہو ؟ان معصوم کلیوں کو مسلنے کا یہ گندا، غلیظ اور بھیانک سلسلہ کب بند ہوگا عدالتوں میں ججز اگر بہت مصروف ہیں تو پھر بھی اس معاملے کو نظرانداز نہ کریں ! زینب مرڈر کیس میں پورے ملک سے عوام کا مطالبہ تھا کہ قاتل کو سر عام پھانسی دی جائے آپ نے کہا قانون نہیں ہے ۔
ہم نے یہ ملک بھی دو قومی نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا تھا تو پھر آئلی قوانین کیوں،برٹش لاء کیوں؟ وہی جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ۔آج کی سراسیمگی آج کی مہنگائی، کرپشن، لوٹ مار، آئین و قانون پر عمل نہ ہونا، عدل و انصاف کے بجائے ظلم و زیادتی 30 سال سے قید ایک ملزم کے بارے میں خبر ہونا کہ اس نے تو جرم کیا ہی نہیں تھا اور کہنا کہ غلطی ہوگئی سوری آج سے آپ آزاد ہیں ۔اور ایک کھلے عام جرم کرنے والے کو ابتدائی سماعت کے بعد رہا کردینا !!جانتے ہو یہ سب کیوں ہے؟ کیوںکہ ہم ان بیس لاکھ شہدا ء کے غدار ہیں جو اس ملک کے معمار ہیں اور ہجرت کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
وہ اس اطمینان کے ساتھ جام شہادت نوش کر گئے تھے کہ چلو ہماری نسلیں تو آزاد ملک میں پیدا ہوںگی۔انھیں نہیں پتا تھا کہ یہاں لٹیرے جنم لیں گے۔ وہ بیچارے تو لٹ گئے لیکن کیا ان کی ارواح اللہ کے عرش پر فریاد کناں نہیں ہونگی؟ یقینا ہوںگی۔
اسی علاقے سے ایک اور بچی اریبہ 6 سال کی دو دن سے لاپتہ ہے اس کے والدین نے 15 مدد گار کو فون پر اطلاع دی تو جواب دیا گیا کہ ''رات کو کوئی ڈیوٹی پر نہیں ہے صبح آنا'' بچی کے والد کی دادوفریاد پر جواب ملتا ہے کہ '' سمجھ میں نہیں آتا کوئی ڈیوٹی پر موجود نہیں اور ادھر ہم کیا صرف تیری بچی کو ڈھونڈنے کے لیے بیٹھے ہیں؟ ''
یہ حالت ہے اس پولیس کی جو ان ہی غریب، بے سہارا لوگوں کے ادا کیے گئے یوٹیلٹی بلز سے تنخواہیں لیتے ہیںاور ابھی ایک معصوم بچی کا بہیمانہ قتل ہوئے دو دن بھی نہیں گزرے تب یہ حالت کہ علاقہ پولیس کے پاس ایک اور اغوا کنندہ بچی کی تلاشی کے لیے وقت نہیں !!افسوس صد افسوس جو ملکی ترقی کی بات کرتے ہیں GDP، میں اضافے کی بات کرتے ہیں ۔
ریاستی ادارے سب ملکر بھی ملک و قوم کی حفاظت اندرونی خطرات سے نہ کرسکے تو بیرونی حملے سے کیا کریںگے؟یہ تو بس ملکی دولت کے پیچھے ہیں، غرباء کے جمع کردہ ٹیکسز کو لوٹنا چاہتے ہیں اور لوٹتے ہیں،ایک مافیا ہے جو پاکستان کی قیمتی سرکاری اراضی پر قبضہ کرکے اسے مہنگے داموں فروخت کرتا ہے اور بیرون ملک جائیدادیں بناتا ہے۔حکمرانوں کو مجبور و بے بس عوام کی نحیف و نزار آواز بھلا کیونکر سنائی دے گی ۔لیکن یہ آواز آسمان سن رہا ہے۔
یاد رکھیے گا فیصلہ جب وہاں سے آئے گا تو بہت چیخو گے تم بھی بہت تڑپو گے تم بھی ۔آج تمہارے پاس ان مجبور لوگوں کے لیے وقت نہیں ہے، آج تم حرام کی کھا رہے ہو، کل اس سب کے حساب کا وقت ہوگا۔ظلم دیکھیے کہ جہاں سات سال کی معصوم بچی محفوظ نہیں اسے (ریاست مدینہ) بنانے کا عزم رکھتے ہیں!!جہاں قانون کا اطلاق صرف غریب پر ہوتا ہے۔جہاں ایک عورت کو سر عام سر کاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے جہاں سانحہ ساہیوال میں ایک معصوم گھرانے کے افراد کو بے قصور دہشت گرد قرار دیکر قتل کر دیا جاتا ہے اور ساری دنیا وہ videos دیکھتی ہے لیکن مجرم کورٹ سے بری ہو جاتے ہیں۔
جہاں 73 سال کے بعد بھی آئین کا نفاذ نہ ہو سکا، ہر 5 سال بعد ایک نیا تجربہ ہوتا ہے، اسے ایشین ٹائیگر بنانے کا خواب رکھتے ہیں۔یہ کیسی لیلی ہے دوستو، کیسا تماشہ ہے؟کس کو دھوکا دے رہے ہو کس سے جھوٹ بول رہے ہو؟ شاید دنیا سے یا شاید عوام سے جو بے چارے ہر پانچ سال بعد بہت آسانی سے بیوقوف بن جاتے ہیں لیکن کیا اللہ سے بھی جھوٹ بول سکتے ہو کیا قدرت کو بھی دھوکا دے سکتے ہو؟میں وہ دن جلد آتا دیکھ رہا ہوں جو حساب کا دن ہوگا اور اس دن آپ کے پاس بہت وقت ہوگا حساب دینے کے لیے...