سوویت یونین کا نیا جنم
سوویت سرخ فوج کی افغانستان آمد پرجنگ کا اسکائی لیب صرف پاکستان پرنہیں گرا بلکہ ایران بھی پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوا
امریکا کے انخلا کے بعد افغانستان میں کیا ہوگا، ہمسایوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، ان اثرات بد سے محفوظ رہنے کے لیے کیا پیش بندی کرنا ہوگا، دریائے آموکے اس پار کی جادو نگری ،وسط ایشیائی مسلم ریاستوں میں جنگی بنیادوں پر تیاریاں جاری ہیں۔ رشین فیڈریشن کے صدر پیوٹن علاقائی تحفظ کے لیے تشکیل پانے والے معاہدے (Collective Security Treaty Organisation) کی قیادت کرتے ہوئے نئے سوویت یونین کا احیاء کررہے ہیں۔
وہی سوویت یونین ہے جس کی سرخ فوج کوساری دنیا سے اکٹھے کیے گئے 'مجاہدین' کے گروہوں نے دس سال کی طویل خون ریز جدوجہد کے بزعم خود شکست دی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ گیااور کیمونزم امریکی سرمایہ دارانہ نظام سے ہار گیا تھا۔ جس پر ساری نام نہاد مہذب دنیا نے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ جنگ افغانستان کی وجہ سے روسیوں کونظریاتی اورفکری اتحاد کی وجہ سے اپنے کندھوں پر سوار فالتو معاشی بوجھ سے چھٹکارا پانے کا موقع مل گیا۔گورباچوف نے کمال دانش مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے کیمونزم کے نام پر روسی قوم کے معاشی استحصال سے جان چھڑانے کے لیے سوویت یونین کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا جسے امریکا اور اس کے ہم جیسے حواریوں نے اپنی فتح مبین سمجھتے ہوئے بڑی بغلیں بجائی تھیں۔ سوویت یونین کی راکھ سے رشین فیڈریشن کی طاقتور ریاست ابھری جو آج بھی وسط ایشیا اور بالٹک کی یورپی ریاستوں کی رہبر ورہنما ہے۔ وسط ایشیا سمیت ان تمام ریاستوں میںا ٓنجہانی سوویت دور کی کمیونسٹ قیادت نے راتوں رات نئے لبادے اوڑھ کر اقتدار پر قبضہ آج تک برقراررکھا۔
ہمارے ہاں کچھ انقلابی نعرے لگاتے رہے ہیں جن کی گونج اب بھی کبھی کبھار سنائی دیتی ہے کہ 'چہرے نہیں نظام بدلو'سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس خطے میں یہ نعرہ حقیقت بن کر متشکل ہوا تھا، وہاں پر کیمونسٹ نظام تو بدل گیا لیکن چہرے پرانے ہی رہے جو آج تک مختلف طریقوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔ عام انتخابات اور عوامی ریفرنڈم بھی ان کیمونسٹ چہروں کو بدل نہیں سکے۔ خاص طور پر وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں نے اسلامی دنیا سے کوئی رشتہ، ناطہ جوڑنے میں کسی قسم کی دلچسپی کامظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی تمام تر دلچسپیوں کا مرکز ومحور کل بھی ماسکو تھا اور آج بھی وہ ماسکو کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ کیمونزم سے جمہوریت کی طرف تبدیلی کے سفر میں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی تھی، سب کچھ بڑے پرامن انداز میں ہوا تھا یہاں تک مختلف ریاستوں میں بکھرے ہوئے ایٹمی اسلحہ ر بھی محفوظ ہاتھوں میں رہا ۔
افغان تنازع کا دائیں اوربائیں بازو کے پاکستانی دانشوروں ، سیاستدانوں اور کاروباری حضرات نے اپنے اپنے انداز میں بھر پور فائدہ اُٹھایا۔بائیں بازو کے تمام روشن خیال اور جمہوریت پسند کابل میں بدترین فسطائی حکمرانوں کی ترقی پسندی کے گیت گاکر داد پاتے اور ساری دنیا میں اُڑانیں اُڑاتے رہے جب کہ دائیں بازو کے دانشوروں نے ان سے بھی دودو ہاتھ آگے بڑھ کر اسے کفرواسلام کی جنگ بنادیا ۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد کا سیاسی منظرنامہ بھی انھی گمراہ کن نعروں سے گونج رہا تھا ۔ 1988کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے 9رکنی اسلامی جمہوری اتحاد(IJI)دیا گیا جو دراصل مرحوم بھٹو کے خلاف تشکیل پانے والے پاکستانی قومی اتحاد کی صدائے باز گشت تھا، بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو گمراہ کن نعرے ایجاد کیے گئے، اُن میں سے ایک کچھ یوں تھا۔
تم نے ڈھاکہ دیا'ہم نے کابل لیا
ٹوٹے شملہ کی زنجیر'ہم لیں گے کشمیر
جو صاحب اُن دنوں اس نعرے کے تخلیق کار ہونے کابڑے شدومد سے دعویٰ کیا کرتے تھے، نئے زمینی حقائق کی روشنی میں ویزا فری جنوبی ایشیااور بھائی چارے اور ہمسایوں سے دوستی کے رشتے ناطوں پر سرشام ٹی وی کی جادوئی اسکرین پر درس دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں، آج کابل کے ایوانوں میں پاکستان کا کوئی خیرخواہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔
حرف آخر یہ کہ سوویت سرخ فوج کی افغانستان آمد پر جنگ کا اسکائی لیب صرف پاکستان پر نہیں گراتھا بلکہ ایران بھی اس پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوا تھا اور اس وقت وہاں پر ریاستی ڈھانچہ مکمل شکست وریخت کا شکار تھا ۔شاہ ایران کے فرار کے بعد آیت اللہ خمینی کی قیادت میں پاسدران انقلاب تطہیر کے عمل میں مصروف تھے۔ آیت اللہ خلخائی سرسری سماعت کی انقلابی عدالت کے ذریعے روزانہ شاہی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نامور اور نمایاںدرجنوں افراد کا صبح سویرے 'ناشتہ 'فرماتے تھے، ان حالات میں بھی جب افغان مہاجرین کی یلغار ایران پر شروع ہوئی تو تمام ترجذباتی فضا کے باوجود ایرانی حکام نے اپنے ہم زبان فارسی بان افغانوں کے لیے خاردار تاریں لگا کر کیمپ تیار کیے جہاں سے باہر نکلنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا تھا۔
اسی طرح مدتوں انجینئر گلبدین حکمت یار سمیت کئی افغان رہنما تہران میں مقیم رہے، ان کی آمدورفت اور ملاقاتوں پر کڑے پہرے تھے،وہاں موثرریاستی ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود ایرانیوں نے اپنے قومی مفادات کاغیر جذباتی انداز میں خیال رکھا۔پاکستان کا عالم یہ تھا کہ قوم جذباتی ہیجان میں مبتلا تھی، سیاسی رہنماؤں سے قطع نظر ہمارے فوجی حکمت کاربھی افغانستان میں تزویراتی گہرائی (Stratgic Depth)کی فلاسفی کے سحر میں مبتلا تھے جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس وقت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒجیسے زیرک اور دوراندیشن رہنماؤں نے افغان جنگ سے جڑے خطرات اور خدشات کے بارے میں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی لیکن ہمارے ارباب بست وکشاد کو کچھ دکھائی نہ دیا، کچھ سنائی نہ دیا۔
اب ہم لمحوں کی خطا کی صدیوں تک سزاپانے کے جاں گسل عمل سے گذررہے ہیں جب کہ امریکی افواج سے انخلا کے بعد صورت حال مقابلہ کرنے کے لیے نئے رنگ وروپ میں سوویت یونین کانیاجنم ہورہا ہے۔ وہ سوویت یونین جس کو توڑنے کے زعم باطل میں ہم مبتلا رہے ہیں۔
وہی سوویت یونین ہے جس کی سرخ فوج کوساری دنیا سے اکٹھے کیے گئے 'مجاہدین' کے گروہوں نے دس سال کی طویل خون ریز جدوجہد کے بزعم خود شکست دی تھی جس کے نتیجے میں سوویت یونین ٹوٹ گیااور کیمونزم امریکی سرمایہ دارانہ نظام سے ہار گیا تھا۔ جس پر ساری نام نہاد مہذب دنیا نے دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے تھے۔ حقیقت یہ تھی کہ جنگ افغانستان کی وجہ سے روسیوں کونظریاتی اورفکری اتحاد کی وجہ سے اپنے کندھوں پر سوار فالتو معاشی بوجھ سے چھٹکارا پانے کا موقع مل گیا۔گورباچوف نے کمال دانش مندی کامظاہرہ کرتے ہوئے کیمونزم کے نام پر روسی قوم کے معاشی استحصال سے جان چھڑانے کے لیے سوویت یونین کو دفن کرنے کا فیصلہ کیا جسے امریکا اور اس کے ہم جیسے حواریوں نے اپنی فتح مبین سمجھتے ہوئے بڑی بغلیں بجائی تھیں۔ سوویت یونین کی راکھ سے رشین فیڈریشن کی طاقتور ریاست ابھری جو آج بھی وسط ایشیا اور بالٹک کی یورپی ریاستوں کی رہبر ورہنما ہے۔ وسط ایشیا سمیت ان تمام ریاستوں میںا ٓنجہانی سوویت دور کی کمیونسٹ قیادت نے راتوں رات نئے لبادے اوڑھ کر اقتدار پر قبضہ آج تک برقراررکھا۔
ہمارے ہاں کچھ انقلابی نعرے لگاتے رہے ہیں جن کی گونج اب بھی کبھی کبھار سنائی دیتی ہے کہ 'چہرے نہیں نظام بدلو'سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اس خطے میں یہ نعرہ حقیقت بن کر متشکل ہوا تھا، وہاں پر کیمونسٹ نظام تو بدل گیا لیکن چہرے پرانے ہی رہے جو آج تک مختلف طریقوں سے اقتدار پر قابض ہیں۔ عام انتخابات اور عوامی ریفرنڈم بھی ان کیمونسٹ چہروں کو بدل نہیں سکے۔ خاص طور پر وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں نے اسلامی دنیا سے کوئی رشتہ، ناطہ جوڑنے میں کسی قسم کی دلچسپی کامظاہرہ نہیں کیا۔ ان کی تمام تر دلچسپیوں کا مرکز ومحور کل بھی ماسکو تھا اور آج بھی وہ ماسکو کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ کیمونزم سے جمہوریت کی طرف تبدیلی کے سفر میں کسی کی نکسیر تک نہیں پھوٹی تھی، سب کچھ بڑے پرامن انداز میں ہوا تھا یہاں تک مختلف ریاستوں میں بکھرے ہوئے ایٹمی اسلحہ ر بھی محفوظ ہاتھوں میں رہا ۔
افغان تنازع کا دائیں اوربائیں بازو کے پاکستانی دانشوروں ، سیاستدانوں اور کاروباری حضرات نے اپنے اپنے انداز میں بھر پور فائدہ اُٹھایا۔بائیں بازو کے تمام روشن خیال اور جمہوریت پسند کابل میں بدترین فسطائی حکمرانوں کی ترقی پسندی کے گیت گاکر داد پاتے اور ساری دنیا میں اُڑانیں اُڑاتے رہے جب کہ دائیں بازو کے دانشوروں نے ان سے بھی دودو ہاتھ آگے بڑھ کر اسے کفرواسلام کی جنگ بنادیا ۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے بعد کا سیاسی منظرنامہ بھی انھی گمراہ کن نعروں سے گونج رہا تھا ۔ 1988کے عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے 9رکنی اسلامی جمہوری اتحاد(IJI)دیا گیا جو دراصل مرحوم بھٹو کے خلاف تشکیل پانے والے پاکستانی قومی اتحاد کی صدائے باز گشت تھا، بے نظیر بھٹو اور پیپلزپارٹی کا مقابلہ کرنے کے لیے جو گمراہ کن نعرے ایجاد کیے گئے، اُن میں سے ایک کچھ یوں تھا۔
تم نے ڈھاکہ دیا'ہم نے کابل لیا
ٹوٹے شملہ کی زنجیر'ہم لیں گے کشمیر
جو صاحب اُن دنوں اس نعرے کے تخلیق کار ہونے کابڑے شدومد سے دعویٰ کیا کرتے تھے، نئے زمینی حقائق کی روشنی میں ویزا فری جنوبی ایشیااور بھائی چارے اور ہمسایوں سے دوستی کے رشتے ناطوں پر سرشام ٹی وی کی جادوئی اسکرین پر درس دیتے ہوئے پائے جاتے ہیں، آج کابل کے ایوانوں میں پاکستان کا کوئی خیرخواہ ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا۔
حرف آخر یہ کہ سوویت سرخ فوج کی افغانستان آمد پر جنگ کا اسکائی لیب صرف پاکستان پر نہیں گراتھا بلکہ ایران بھی اس پیچیدہ صورتحال سے دوچار ہوا تھا اور اس وقت وہاں پر ریاستی ڈھانچہ مکمل شکست وریخت کا شکار تھا ۔شاہ ایران کے فرار کے بعد آیت اللہ خمینی کی قیادت میں پاسدران انقلاب تطہیر کے عمل میں مصروف تھے۔ آیت اللہ خلخائی سرسری سماعت کی انقلابی عدالت کے ذریعے روزانہ شاہی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نامور اور نمایاںدرجنوں افراد کا صبح سویرے 'ناشتہ 'فرماتے تھے، ان حالات میں بھی جب افغان مہاجرین کی یلغار ایران پر شروع ہوئی تو تمام ترجذباتی فضا کے باوجود ایرانی حکام نے اپنے ہم زبان فارسی بان افغانوں کے لیے خاردار تاریں لگا کر کیمپ تیار کیے جہاں سے باہر نکلنے کے لیے خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا تھا۔
اسی طرح مدتوں انجینئر گلبدین حکمت یار سمیت کئی افغان رہنما تہران میں مقیم رہے، ان کی آمدورفت اور ملاقاتوں پر کڑے پہرے تھے،وہاں موثرریاستی ڈھانچہ نہ ہونے کے باوجود ایرانیوں نے اپنے قومی مفادات کاغیر جذباتی انداز میں خیال رکھا۔پاکستان کا عالم یہ تھا کہ قوم جذباتی ہیجان میں مبتلا تھی، سیاسی رہنماؤں سے قطع نظر ہمارے فوجی حکمت کاربھی افغانستان میں تزویراتی گہرائی (Stratgic Depth)کی فلاسفی کے سحر میں مبتلا تھے جس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اس وقت حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒجیسے زیرک اور دوراندیشن رہنماؤں نے افغان جنگ سے جڑے خطرات اور خدشات کے بارے میں سمجھانے کی اپنی سی کوشش کی لیکن ہمارے ارباب بست وکشاد کو کچھ دکھائی نہ دیا، کچھ سنائی نہ دیا۔
اب ہم لمحوں کی خطا کی صدیوں تک سزاپانے کے جاں گسل عمل سے گذررہے ہیں جب کہ امریکی افواج سے انخلا کے بعد صورت حال مقابلہ کرنے کے لیے نئے رنگ وروپ میں سوویت یونین کانیاجنم ہورہا ہے۔ وہ سوویت یونین جس کو توڑنے کے زعم باطل میں ہم مبتلا رہے ہیں۔