پاکستان کے قیمتی اثاثے نظرانداز کیوں
اگر ہم علاقوں کو ترقی دیں تو ہم بہت سے معاشی نقصانات سے بچ سکتے ہیں...
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے کہ ہم خدا کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے، مگر افسوس کہ ہم ان نعمتوں کا صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو سونے، چاندی، تیل، کاپر، نمک اور کوئلے کی صورت میں جتنے معدنی وسائل عطا کیے ہیں وہ بہت کم ملکوں کو نصیب ہوئے ہیں۔ کہیں سونا ہے تو کہیں چاندی نہیں، کہیں گیس ہے تو کہیں تیل نہیں مگر پاکستان بے شمار معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔
پاکستان میں ہر چیز بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے اگر ہم ان چیزوں کا صحیح استعمال کریں تو پاکستان سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ملکوں میں شامل ہو جائے ایسے ایسے ذخائر موجود ہیں اگر ان پر کام کیا جائے تو پاکستان مالا مال ہو جائے اور پاکستانی حکمرانوں کو کسی کے آگے کشکول پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ مگر شاید ہم لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ چکی ہے تبھی ہم پاکستان میں موجود ان عظیم نعمتوں کو سرے سے ہی نظر انداز کر جاتے ہیں۔
ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مگر افسوس کہ ہمارا ملک ترقی کی طرف جانے کے بجائے پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے پاکستان میں ایسے پہاڑ پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں ان پہاڑوں سے پتھروں سے کافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
پاکستان زراعت کے شعبے میں بھی سب سے آگے ہے اس کی زمین زراعت کے حوالے سے بھی بہت زرخیز ہے پاکستان سے زیادہ تر پھل اور سبزیاں دوسرے ملک بھیجے جاتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کو دنیا کے نقشے میں کوئی زیادہ اہمیت حاصل نہیں اور ہمارے اردگرد کے ممالک بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار بہت زیادہ سست ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے حسین حسین علاقے موجود ہیں جن کو ہر طرح کی سہولت دے کر ایسے علاقے سیاحت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اس سے لوگوں کو روزگار بھی میسر آئے گا اور برسوں سے جن علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے وہ بھی ہو جائیں گے جس سے وہاں کے مقامی افراد کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے سیاحت کو بالکل ہی ختم کر دیا ہے معلوم نہیں حکومت کب دہشت گردی پر قابو پائے گی۔ مگر اس وجہ سے ہمیں اپنے قیمتی علاقوں کو نظر انداز ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے سماجی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالت بہتر ہو گی۔ عام لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ روزگار بھی میسر آئے گا۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ ہمارے قیمتی اثاثے ہماری پرانی عمارتیں ان پر بھی بھرپور توجہ دے کیونکہ وہ بوسیدہ ہونے کی وجہ سے اور وہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے وہاں کا رخ کم کر دیا ہے پرانی عمارتوں کی حفاظت کے لیے ترقیاتی کام شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان عمارتوں کے اردگرد تفریحی مقامات بنائے جائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ وہاں آئیں اس سے حکومت اور عام آدمی کو فائدہ ہو گا اور قیمتی عمارتیں کھنڈرات ہونے سے بچ جائیں گی۔
اگر ہم علاقوں کو ترقی دیں تو ہم بہت سے معاشی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت حسین جگہیں ہیں جن کو دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ ہماری آنے والی نسلوں نے ابھی پاکستان دیکھا ہی کہاں ہے۔ خوف کے باعث لوگوں نے دور دراز علاقوں میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے اور پھر دوسری بات کہ ان علاقوں میں کوئی بھی سہولت موجود نہیں علاقے تو بہت خوبصورت ہیں مگر سہولت ہی نہیں تو بے کار ہیں۔ ابھی حال ہی میں گورکھ ہل اسٹیشن نامی علاقے میں برف پڑی یہ ہل سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ جب برف پڑی تو دل تو بہت چاہا کہ ہم بھی جائیں اور اس منظر سے لطف اندوز ہوں مگر افسوس یہ حسین علاقہ بھی ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح سہولت سے محروم ہے۔ ہماری حکومت کو ایسے تمام علاقوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جس سے تاجروں، سیاحوں اور دیگر افراد کو تفریح اور روزگار کی سہولت میسر آ سکے گی۔
شملہ اور کوہ مری کے سیاحتی مراکز کی جانب اہم پیش قدمی کہیں تو بے جا نہ ہو گا یہ مقامات تفریح اور سیاحت کے لحاظ سے ترقی پا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں دوسرے علاقوں کو بھی ترقی دینی چاہیے۔ پورٹ، ہوٹل، ریسٹورنٹ، تجارتی مراکز ایسے دیگر منصوبوں پر کام کرنا چاہیے تا کہ سیاحوں کو تفریح کے لیے ضروری سہولتیں میسر آ سکیں۔
ہم اپنے قیمتی علاقوں، ذخائر، قدیم عمارتوں کو سرے سے ہی نظر انداز کیے ہوئے ہیں اگر ہم صحیح طرح سے ان پر کام کریں تو پاکستان اور پاکستانی شہریوں کو بہت فائدہ ہو۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی سیاحت پر، معدنی ذخائر پر اور قدیم عمارتوں پر خصوصی توجہ دیں۔
ہم ان چیزوں کو بالکل نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ان پر کام اور ان کی ترقی پاکستان اور پاکستانی شہریوں کی ترقی ہے۔
خوبصورت ہے پاکستان اور مزید ترقی دے کر اسے حسین بنا سکتے ہیں اور دنیا کے نقشے پر اپنی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں یہ وقت پاکستان کو ترقی دینے کا ہے جس میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے شہریوں کو مل جل کر حصہ لینا ہو گا، پاکستان پایندہ باد!
پاکستان میں ہر چیز بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے اگر ہم ان چیزوں کا صحیح استعمال کریں تو پاکستان سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور طاقت ور ملکوں میں شامل ہو جائے ایسے ایسے ذخائر موجود ہیں اگر ان پر کام کیا جائے تو پاکستان مالا مال ہو جائے اور پاکستانی حکمرانوں کو کسی کے آگے کشکول پھیلانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ مگر شاید ہم لوگوں کو مانگنے کی عادت پڑ چکی ہے تبھی ہم پاکستان میں موجود ان عظیم نعمتوں کو سرے سے ہی نظر انداز کر جاتے ہیں۔
ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں مگر افسوس کہ ہمارا ملک ترقی کی طرف جانے کے بجائے پسماندگی کی طرف بڑھ رہا ہے پاکستان میں ایسے پہاڑ پائے جاتے ہیں جو کسی دوسرے ملک میں موجود نہیں ان پہاڑوں سے پتھروں سے کافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔
پاکستان زراعت کے شعبے میں بھی سب سے آگے ہے اس کی زمین زراعت کے حوالے سے بھی بہت زرخیز ہے پاکستان سے زیادہ تر پھل اور سبزیاں دوسرے ملک بھیجے جاتے ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ اس ملک کو دنیا کے نقشے میں کوئی زیادہ اہمیت حاصل نہیں اور ہمارے اردگرد کے ممالک بہت تیزی کے ساتھ ترقی کر رہے ہیں جب کہ پاکستان کی ترقی کی رفتار بہت زیادہ سست ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے حسین حسین علاقے موجود ہیں جن کو ہر طرح کی سہولت دے کر ایسے علاقے سیاحت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور اس سے لوگوں کو روزگار بھی میسر آئے گا اور برسوں سے جن علاقوں میں ترقیاتی کام نہیں ہوئے وہ بھی ہو جائیں گے جس سے وہاں کے مقامی افراد کی زندگی بھی آسان ہو جائے گی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی نے سیاحت کو بالکل ہی ختم کر دیا ہے معلوم نہیں حکومت کب دہشت گردی پر قابو پائے گی۔ مگر اس وجہ سے ہمیں اپنے قیمتی علاقوں کو نظر انداز ہر گز نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے سماجی، معاشی، معاشرتی اور اقتصادی حالت بہتر ہو گی۔ عام لوگوں کو تفریح کے ساتھ ساتھ روزگار بھی میسر آئے گا۔
ہماری حکومت کو چاہیے کہ ہمارے قیمتی اثاثے ہماری پرانی عمارتیں ان پر بھی بھرپور توجہ دے کیونکہ وہ بوسیدہ ہونے کی وجہ سے اور وہاں ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے وہاں کا رخ کم کر دیا ہے پرانی عمارتوں کی حفاظت کے لیے ترقیاتی کام شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے اور ان عمارتوں کے اردگرد تفریحی مقامات بنائے جائیں تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ وہاں آئیں اس سے حکومت اور عام آدمی کو فائدہ ہو گا اور قیمتی عمارتیں کھنڈرات ہونے سے بچ جائیں گی۔
اگر ہم علاقوں کو ترقی دیں تو ہم بہت سے معاشی نقصانات سے بچ سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت حسین جگہیں ہیں جن کو دیکھ کر یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ بھی پاکستان کا حصہ ہیں۔ ہماری آنے والی نسلوں نے ابھی پاکستان دیکھا ہی کہاں ہے۔ خوف کے باعث لوگوں نے دور دراز علاقوں میں جانا ہی چھوڑ دیا ہے اور پھر دوسری بات کہ ان علاقوں میں کوئی بھی سہولت موجود نہیں علاقے تو بہت خوبصورت ہیں مگر سہولت ہی نہیں تو بے کار ہیں۔ ابھی حال ہی میں گورکھ ہل اسٹیشن نامی علاقے میں برف پڑی یہ ہل سندھ اور بلوچستان کی سرحد پر واقع ہے۔ جب برف پڑی تو دل تو بہت چاہا کہ ہم بھی جائیں اور اس منظر سے لطف اندوز ہوں مگر افسوس یہ حسین علاقہ بھی ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح سہولت سے محروم ہے۔ ہماری حکومت کو ایسے تمام علاقوں کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ جس سے تاجروں، سیاحوں اور دیگر افراد کو تفریح اور روزگار کی سہولت میسر آ سکے گی۔
شملہ اور کوہ مری کے سیاحتی مراکز کی جانب اہم پیش قدمی کہیں تو بے جا نہ ہو گا یہ مقامات تفریح اور سیاحت کے لحاظ سے ترقی پا رہے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہمیں دوسرے علاقوں کو بھی ترقی دینی چاہیے۔ پورٹ، ہوٹل، ریسٹورنٹ، تجارتی مراکز ایسے دیگر منصوبوں پر کام کرنا چاہیے تا کہ سیاحوں کو تفریح کے لیے ضروری سہولتیں میسر آ سکیں۔
ہم اپنے قیمتی علاقوں، ذخائر، قدیم عمارتوں کو سرے سے ہی نظر انداز کیے ہوئے ہیں اگر ہم صحیح طرح سے ان پر کام کریں تو پاکستان اور پاکستانی شہریوں کو بہت فائدہ ہو۔ میری حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ براہ مہربانی سیاحت پر، معدنی ذخائر پر اور قدیم عمارتوں پر خصوصی توجہ دیں۔
ہم ان چیزوں کو بالکل نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں کیونکہ یہ پاکستان کا قیمتی اثاثہ ہیں ان پر کام اور ان کی ترقی پاکستان اور پاکستانی شہریوں کی ترقی ہے۔
خوبصورت ہے پاکستان اور مزید ترقی دے کر اسے حسین بنا سکتے ہیں اور دنیا کے نقشے پر اپنی اہمیت کو اجاگر کر سکتے ہیں یہ وقت پاکستان کو ترقی دینے کا ہے جس میں حکومت پاکستان اور پاکستان کے شہریوں کو مل جل کر حصہ لینا ہو گا، پاکستان پایندہ باد!