امن مذاکرات فلسطینیوں سے خیانت
اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کوتبدیل کرکے قبلہ اول پریہودیوں کا حق تسلیم کروالیا جائے
مسئلہ فلسطین کہ جسے پینسٹھ برس بیت جانے کے بعد بھی نہ تو عالمی برادری حل کرنے میں کامیاب رہی اور نہ عرب مسلم ریاستوں کا کوئی خاطر خواہ کردار نظر آیا، البتہ اس اجتماعی خیانت کاری میں نقصان اگر کسی کو پہنچا تو وہ صرف اور صرف فلسطینی عوام کو اور مسلم امہ کے مقدسات کو جسے اسرائیل نے یہودیانے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
حال ہی میں امریکی اعلیٰ عہدیدار جان کیر ی نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا جب کہ اس دورے میں وہ اسرائیلی حکمرانوں سے بھی ملے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے کی باتیں کی گئیں۔ جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے تا کہ خطے میں اسرائیلی بالادستی کو مزید توسیع دی جا سکے۔ یاد رہے کہ امریکی سیکریٹری ریاست جان کیری کا اسرائیل کی طرف دسواں سفر ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے حواری فلسطینی اتھارٹی کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا عمل جار ی رکھا جائے جب کہ دوسری طرف مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ 1967کے بعد سے اب تک ہونے والے امن مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برعکس فلسطینیوں کی قتل و غارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست کی طرف سے شدید مظالم کے سلسلے کو مزید تیز کیا گیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ مظالم کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا تا کہ اسرائیل آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے عالمی برادر ی پر یہ واضح کر سکے کہ فلسطینی سر زمین پر بسنے والے عرب مسلمان فلسطینی نہیں بلکہ صیہونی ہیں۔ اور اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر آئے روز اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتی ہے اور ان کے گھروں کی جگہ پر صیہونی آباد کاروں کے لیے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جا تی ہیں۔
جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے تا کہ خطے میں اسرائیلی بالا دستی کو مزید توسیع دی جا سکے۔اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ فلسطینی دار الحکومت مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے قبلہ اول پر یہودیوں کا حق تسلیم کروا لیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز اسرائیلی مسلم امہ کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں داخل ہوتے ہیں اور پھر مسجد کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں رقص کی محفلیں منعقد کرتے ہیں او ر فلسطینیوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے بھی روکتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ 1969 میں انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر نذر آتش کر کے منہدم کرنے کی گھناؤنی سازش بھی رچائی تھی جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ خیر یہ تو اسرائیلی ریاست کے متعدد عزائم میں سے چند ایک عزائم ہیں جن میں پہلے نمبر پر قبلہ اول بیت المقدس پر مکمل قبضہ، ساتھ ساتھ القدس شہر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے اور اسی فارمولے کے تحت پورے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔
ماضی کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ ان تمام معاہدوں اور مذاکرات کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی چیرہ دستیاں زور پکڑتی رہی ہیں جب کہ فلسطینی جو پہلے ہی اسرائیل مظالم کی چکی میں پسے جا رہے ہیں، انھیں مزید ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، فلسطینی کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے، فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے، اگر اس معاملے میں کوئی ذرا سی مزاحمت بھی کرے تو اسرائیلی پورے کے پورے گھر کو اس طرح مسمار کر دیتے ہیں کہ گھر کے اندر لوگوں کو بند کیا جاتا ہے اور پھر گھر کو بڑے بڑے بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کر دیا جاتا ہے ، اس طرح کے واقعات میں گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ان گنت ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی امریکی ایماء پر نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل ہے کہ جس نے اپنے تمام تر مظالم کو ٹھیک اسی طرح جاری رکھا ہوا ہے جس طرح 1948میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے لیے کیے گئے تھے، حال ہی میں ایک طرف امریکی وزیر ریاست جان کیری نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی اور اس ملاقات کا دورانیہ پانچ گھنٹے رہا، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اسرائیل پر امریکا نے بھرپور دباؤ ڈالا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو جاری رکھے۔ کیونکہ یہ نام نہاد امن مذاکرات جہاں ایک طرف اسرائیل کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں وہاں امریکا کے لیے بھی مثبت ہیں کیونکہ امریکا خود کو دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور یہی چاہتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین نام نہاد مذاکراتی عمل جاری رہے۔ گاسی طرح جان کیری نے نیتن یاہو کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے جولائی 2014 تک کسی اہم فیصلے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی بات کی جا ری ہے جب کہ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل چودہ سو (1400) نئی یہودی بستیاں تعمیر کرے گا اور یہ تمام بستیاں فلسطینی سر زمین پر بنائی جائیں گی اور ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے بعد بنائی جائیں گی۔ ان بستیوں کی تعمیر کے لیے مشرقی القدس کا تعین کیا گیا ہے جہاں پر فلسطینی آباد ہیں۔
سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس امریکا اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ان نام نہاد امن مذاکرات میں کیوں شامل ہیں جب کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل آئے روز فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہا ہے اور حال ہی میں چودہ سو یہودی بستیوں کے اعلان کے باوجود بھی محمود عباس نے اس معاملے پر کسی قسم کے اعتراض کا اظہار نہیں کیا ہے جب کہ دوسری طرف فلسطینی عوام نے اسرائیل اعلان کے بعد شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے او ر فلسطین کی آزادی کی جد و جہد کرنے والے تمام دھڑوں نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف گھناؤنی سازش قرا ر دیتے ہوئے محمود عباس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان نام نہاد امن مذاکرات میں شریک نہ ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ عیاں ہے کہ جس میں کبھی بھی مسلم امہ اور بالخصوص فلسطین کے لیے کسی قسم کا خوش آیند اقدام نہیں کیا گیا ہے تاہم امریکی سربراہی میں ہونے والے امن مذاکرات در اصل مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کو مزید توسیع دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور امریکا کی جانب سے صرف فلسطین اور فلسطینیو ں کے ساتھ خیانت نہیں کی جا رہی بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ مزاحمت ہے کہ جسے آزادی ٔفلسطین کی جد وجہد میں مصروف دھڑوں نے احسن طریقے سے انجام دینے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امریکی کاسہ لیسی کو ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں اور امریکی اور اسرائیلی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات میں شمولیت نہیں کرنی چاہیے۔
حال ہی میں امریکی اعلیٰ عہدیدار جان کیر ی نے مشرق وسطیٰ کا دورہ کیا جب کہ اس دورے میں وہ اسرائیلی حکمرانوں سے بھی ملے ہیں اور فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کے عمل کو تیز کرنے کی باتیں کی گئیں۔ جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے تا کہ خطے میں اسرائیلی بالادستی کو مزید توسیع دی جا سکے۔ یاد رہے کہ امریکی سیکریٹری ریاست جان کیری کا اسرائیل کی طرف دسواں سفر ہے۔ ایک طرف امریکا اور اس کے حواری فلسطینی اتھارٹی کو اس بات پر مجبور کر رہے ہیں کہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا عمل جار ی رکھا جائے جب کہ دوسری طرف مشاہدے میں یہ بات آئی ہے کہ 1967کے بعد سے اب تک ہونے والے امن مذاکرات کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے بلکہ اس کے برعکس فلسطینیوں کی قتل و غارت میں اضافے کے ساتھ ساتھ صیہونی ریاست کی طرف سے شدید مظالم کے سلسلے کو مزید تیز کیا گیا ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ مظالم کے ساتھ ساتھ فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا تا کہ اسرائیل آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے عالمی برادر ی پر یہ واضح کر سکے کہ فلسطینی سر زمین پر بسنے والے عرب مسلمان فلسطینی نہیں بلکہ صیہونی ہیں۔ اور اسی مقصد کی تکمیل کی خاطر آئے روز اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتی ہے اور ان کے گھروں کی جگہ پر صیہونی آباد کاروں کے لیے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی جا تی ہیں۔
جان کیری نے اسرائیلی دورے کے دوران زور دیا ہے کہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے مابین مذاکرات کا عمل تیز کیا جائے تا کہ خطے میں اسرائیلی بالا دستی کو مزید توسیع دی جا سکے۔اسرائیل کا منصوبہ ہے کہ فلسطینی دار الحکومت مقبوضہ بیت المقدس میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے قبلہ اول پر یہودیوں کا حق تسلیم کروا لیا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز اسرائیلی مسلم امہ کے تیسرے مقدس مقام مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) میں داخل ہوتے ہیں اور پھر مسجد کی بے حرمتی کرنے کے ساتھ ساتھ مسجد میں رقص کی محفلیں منعقد کرتے ہیں او ر فلسطینیوں کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے بھی روکتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ 1969 میں انتہا پسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ کو مکمل طور پر نذر آتش کر کے منہدم کرنے کی گھناؤنی سازش بھی رچائی تھی جس کے نتیجے میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کر دیا گیا تھا۔ خیر یہ تو اسرائیلی ریاست کے متعدد عزائم میں سے چند ایک عزائم ہیں جن میں پہلے نمبر پر قبلہ اول بیت المقدس پر مکمل قبضہ، ساتھ ساتھ القدس شہر کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنا ہے اور اسی فارمولے کے تحت پورے فلسطین میں یہودی آباد کاری کے ذریعے فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنا ہے۔
ماضی کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اوسلو معاہدے کے بعد سے آج تک فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے مابین ہونے والے نام نہاد امن مذاکرات کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا ہے بلکہ ان تمام معاہدوں اور مذاکرات کے نتیجے میں دیکھا گیا ہے کہ اسرائیلی چیرہ دستیاں زور پکڑتی رہی ہیں جب کہ فلسطینی جو پہلے ہی اسرائیل مظالم کی چکی میں پسے جا رہے ہیں، انھیں مزید ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا جاتا ہے، فلسطینی کسانوں کی زمینوں پر قبضہ کیا جاتا ہے، فلسطینی عوام کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا جاتا ہے، اگر اس معاملے میں کوئی ذرا سی مزاحمت بھی کرے تو اسرائیلی پورے کے پورے گھر کو اس طرح مسمار کر دیتے ہیں کہ گھر کے اندر لوگوں کو بند کیا جاتا ہے اور پھر گھر کو بڑے بڑے بلڈوزروں کے ذریعے مسمار کر دیا جاتا ہے ، اس طرح کے واقعات میں گھروں کے ملبے تلے دب کر شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ان گنت ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی امریکی ایماء پر نام نہاد امن مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل ہے کہ جس نے اپنے تمام تر مظالم کو ٹھیک اسی طرح جاری رکھا ہوا ہے جس طرح 1948میں فلسطین پر غاصبانہ تسلط قائم کرنے کے لیے کیے گئے تھے، حال ہی میں ایک طرف امریکی وزیر ریاست جان کیری نے اسرائیل کا دورہ کیا ہے اور اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے ملاقات کی اور اس ملاقات کا دورانیہ پانچ گھنٹے رہا، تاہم تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس ملاقات میں اسرائیل پر امریکا نے بھرپور دباؤ ڈالا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو جاری رکھے۔ کیونکہ یہ نام نہاد امن مذاکرات جہاں ایک طرف اسرائیل کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں وہاں امریکا کے لیے بھی مثبت ہیں کیونکہ امریکا خود کو دنیا میں امن قائم کرنے کا ٹھیکیدار سمجھتا ہے اور یہی چاہتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور غاصب اسرائیل کے مابین نام نہاد مذاکراتی عمل جاری رہے۔ گاسی طرح جان کیری نے نیتن یاہو کے بعد فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو جاری رکھنے کا عندیہ دیتے ہوئے جولائی 2014 تک کسی اہم فیصلے کی یقین دہانی کروائی ہے۔
حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ ایک طرف مذاکرات کی بات کی جا ری ہے جب کہ دوسری طرف اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ایک مرتبہ پھر ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل چودہ سو (1400) نئی یہودی بستیاں تعمیر کرے گا اور یہ تمام بستیاں فلسطینی سر زمین پر بنائی جائیں گی اور ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے بعد بنائی جائیں گی۔ ان بستیوں کی تعمیر کے لیے مشرقی القدس کا تعین کیا گیا ہے جہاں پر فلسطینی آباد ہیں۔
سوال یہ پید ا ہوتا ہے کہ آخر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس امریکا اور غاصب اسرائیل کے ساتھ ان نام نہاد امن مذاکرات میں کیوں شامل ہیں جب کہ وہ یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل آئے روز فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر رہا ہے اور حال ہی میں چودہ سو یہودی بستیوں کے اعلان کے باوجود بھی محمود عباس نے اس معاملے پر کسی قسم کے اعتراض کا اظہار نہیں کیا ہے جب کہ دوسری طرف فلسطینی عوام نے اسرائیل اعلان کے بعد شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے او ر فلسطین کی آزادی کی جد و جہد کرنے والے تمام دھڑوں نے امریکا اور اسرائیل کے ساتھ امن مذاکرات کو فلسطین اور قبلہ اول بیت المقدس کے خلاف گھناؤنی سازش قرا ر دیتے ہوئے محمود عباس سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان نام نہاد امن مذاکرات میں شریک نہ ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ امریکا کی تاریخ عیاں ہے کہ جس میں کبھی بھی مسلم امہ اور بالخصوص فلسطین کے لیے کسی قسم کا خوش آیند اقدام نہیں کیا گیا ہے تاہم امریکی سربراہی میں ہونے والے امن مذاکرات در اصل مشرق وسطیٰ پر اسرائیلی غاصبانہ تسلط کو مزید توسیع دینے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور امریکا کی جانب سے صرف فلسطین اور فلسطینیو ں کے ساتھ خیانت نہیں کی جا رہی بلکہ پوری انسانیت کے ساتھ خیانت کے مترادف ہے۔ اسرائیلی ہٹ دھرمی کا صرف اور صرف ایک ہی علاج ہے اور وہ مزاحمت ہے کہ جسے آزادی ٔفلسطین کی جد وجہد میں مصروف دھڑوں نے احسن طریقے سے انجام دینے کی ذمے داری اپنے کاندھوں پر اٹھا رکھی ہے۔ لہٰذا فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کو بھی ہوش کے ناخن لیتے ہوئے امریکی کاسہ لیسی کو ترک کرتے ہوئے فلسطینیوں کی امنگوں کے مطابق فیصلے کرنے چاہئیں اور امریکی اور اسرائیلی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے نام نہاد امن مذاکرات میں شمولیت نہیں کرنی چاہیے۔