’’ آٹھ ہزار میٹر سے بلند مزید چوٹیاں بھی سر کروں گی‘‘
بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد 8035 میٹر بلند چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون نائلہ کیانی سے گفتگو
بیشتر مردوں سے زیادہ طاقت ور، یقیناً کئی ایک کھنے بھی سینکے ہوں گے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ۔ ایرو سپیس انجینئر ، کیسے بنیں؟ یہ بھی ایک کہانی ہے جو جوش اور حوصلہ فراہم کرتی ہے۔
ہر کھیل میں آگے رہیں، ٹریکنگ ، راک کلائمبنگ (چٹانوں پر چڑھنا)، کوہ پیمائی اور باکسنگ میں بہت ہی آگے۔ تعلیم ہو یا کھیل ، زندگی میں ہمیشہ مشکل مہم کا انتخاب کیا ، آسان کام کی طرف نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالتیں۔ ان سارے لفظوں کی ایک تصویر بنائیں تو بنتی ہیں: نائلہ کیانی۔
وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ شوہر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے میں ملازمت کرتے ہیں۔ نائلہ چند ماہ پہلے دوسرے بچے کی ماں بنیں اور فوراً چل دیں دنیا کی تیرھویں بلند و بالا چوٹی کو سر کرنے جسے چھونے کے لئے بھی مرد برسوں مشق کرتے ہیں۔ ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے کوئی بھی پاکستانی کوہ پیما خاتون یہ چوٹیاں سر نہیں کر سکی ۔
٭ ''گاشر برم ٹو پر پہنچیں تو کیسا لگ رہا تھا؟ ''
نائلہ کہنے لگیں: '' ایسا لگا کہ کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ پچھلے دو برس سے یہی سوچ رہی تھی کہ میں کسی چوٹی پر کب پہنچوں گی۔ اسی لئے لگ رہا تھا کہ ابھی میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ اور ابھی کوئی جگائے گا تو میں اٹھ جائوں گی۔
پوچھا :'' 8035 میٹر بلند چوٹی گاشر برم ٹو کے سفر سے پہلے ، آپ کے کیا احساسات تھے؟''
نائلہ کیانی نے بتایا:'' گاشر برم ٹو ...کے سفر سے پہلے میں نروس تھی کیونکہ یہ میری پہلی چوٹی تھی جسے میں نے سر کرنا تھا ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کے لئے میں نے جتنی زیادہ تربیت حاصل کی ہے، وہ کافی ہے یا نہیں۔ میں نے صرف چار ماہ ہی ٹریننگ کی تھی اور بس ! اس وقت تک میرا ارادہ ہی تھا کہ میں جہاں تک جا سکتی ہوں ، جائوں گی۔''
٭ ''سفر کا کچھ احوال سنائیں؟''
'' پندرہ جون کو میں اسلام آباد پہنچی۔ پھر ہم سترہ جون کو سکردو کے لئے نکل کھڑے ہوئے ۔ انیس جون کو ہم لوگ سکردو سے جی ٹو بیس کیمپ کی طرف نکلے تھے، یعنی بلتوروگلیشئیر کے لئے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔ سردی بہت تھی۔ سردی برداشت کرنا میرے لئے تھوڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر وزن اٹھا کر جتنا ہم چل سکتے تھے، چلتے تھے۔ سب سے زیادہ ہم 25 کلو میٹر چلے۔ چونکہ بلندی ہوتی ہے تو سفر کے آغاز ہی میں آکسیجن کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
یہ بہت مشکل تھا۔ ہم اگلے مقام تک چل کر پہنچتے تھے تو بہت تھکن ہو جاتی تھی ۔ بیس کیمپ سے ہم آہستہ آہستہ اوپر پہاڑ پر چڑھائی کرتے ہیں۔ ہم روٹیشن کرتے ہیں۔ ہم پانچ ہزار دو سو میٹر سے پانچ ہزار نو سو میٹر بلندی پر جاتے ہیں ، وہاں پر رات گزار تے ہیں تاکہ جسم اس سے مطابقت اختیار کر لے۔ پھر نیچے پانچ ہزار دو سو پر آتے ہیں، پھر موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ اور پھر پانچ ہزار نو سو پر جاتے ہیں، وہاں رات گزار کر اگلے کیمپ پر چھ ہزار پانچ سو میٹر پر جاتے ہیں ، پھر نیچے بیس کیمپ پر دوبارہ آتے ہیں۔ اسی طرح اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں تاکہ جسم آکسیجن کی کمی کا عادی ہو جائے۔''
'' ہم سیدھا آٹھ ہزار کی چوٹی پر نہیں جا سکتے کیونکہ اس طرح موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اوپر آکسیجن صرف تیس فیصد جسم میں جاتی ہوتی ہے۔اس لئے سیدھا آٹھ ہزار کی چوٹی پر جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ جاتے ہیں۔ بلندی پر کیمپس میں تکنیکی انداز میں جانا جسم کے لئے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ جب اوپر پہنچتے ہیں تو تھکاوٹ کی انتہا ہوتی ہے، ایسے میں وہاں پہنچ کر زیادہ بولا بھی نہیں جا رہا ہوتا، کھایا بھی نہیں جا رہا ہوتا۔ کم کھانے اور کم سونے کی وجہ سے اوپر جانا زیادہ چیلیجنگ ہوتا ہے۔ یوں یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔''
''سکردو سے چوٹی تک پہنچنے میں ، ہمیں پانچ ہفتے لگے تھے۔ پہلے بیس کیمپ جانا تھا جس میں سات آٹھ دن لگے، پھر آہستہ آہستہ اوپر جا کر نیچے آتے تھے ۔ چوٹی پر ہم صرف بیس منٹ رکے ہیں۔ وہاں پر شدید تیز ہوا تھی۔ منفی 15ڈگری کی ٹھنڈک اور ہوا تھی کہ اپنے ساتھ اڑا لے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے بچپن کا خواب ہواؤں میں اڑنا، چوٹیوں پر چڑھنا تھا ، جو اس وقت پورا ہو چکا تھا۔ جب ہم چوٹی پر کھڑے تھے تو برف کے ٹکڑے ہوا کے ساتھ اڑ کر ہمارے جسم اور منہ پر لگ رہے تھے۔ وہاں پر ایک طرف چین تھا ، دوسری طرف انڈیا کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں ہوا میں اْڑ رہی ہوں۔ میں نے فوراً پاکستان کا پرچم لہرایا۔
پھر ہمیں نیچے جانے کی فکر لگی ہوئی تھی کیونکہ نیچے جانا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ زیادہ حادثات نیچے جاتے ہوئے پیش آتے ہیں۔اس کی ٹینشن کے سبب ہم نے بیس منٹ کے دوران جو تصاویر لینا تھیں ، لیں اور جو منظر دیکھنا تھا ، دیکھا۔ اور نیچے آگئے۔''
'' میری ٹیم میں چار لوگ تھے ۔ میں واحد خاتون تھی، جبکہ دیگر تین مرد کوہ پیما تھے۔ ایک سرباز خان تھے، جو پاکستان کے بہت بڑے کوہ پیما ہیں، وہ قیادت کر رہے تھے۔ اسی طرح گائیڈ علی رضا سدپارہ تھے جنھوں نے پاکستان کی آٹھ ہزار والی چوٹیاں سولہ بار سر کی ہوئی ہیں، وہ بھی پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں۔ سرباز خان نے دنیا کی آٹھ ہزار والی چودہ چوٹیوں میں سے آٹھ سر کی ہوئی ہیں۔ اب ان کی چھ باقی ہیں۔ ایک سہیل سخی تھے جن کی یہ پہلی مہم تھی۔''
٭ بچپن سے اب تک کی زندگی؟
'' میں راولپنڈی میں پیدا ہوئی، ایسا نہیں تھا کہ میں لڑکپن میں ہر وقت کھیلتی ہی رہتی تھی، میں بہت اچھا پڑھتی بھی تھی۔ بہت پڑھاکو بچی تھی۔ میٹرک میں نے پاکستان سے کیا تھا۔ اس میں بھی میرے 718 نمبر تھے۔گھر میں اور خاندان میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے۔
سولہ برس کی تھی کہ بیرون ملک تعلیم کے لئے گئی۔ میرے ابو ائیر فورس ، متحدہ عرب امارات میں تھے۔ میں نے کوئین میری یونیورسٹی آف لندن سے ایرو سپیس انجینرنگ میں ڈگری لی۔ ایسے میں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ میں بڑی امیر فیملی سے ہوں کہ والدین نے تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا۔ ابھی' گاشر برم ٹو' چوٹی سر کی تو ایک دو لوگوں نے کہا کہ یہ امیر لوگوں کا شوق ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ میرے والدین نے کالج کی تعلیم کے لئے مجھے سپورٹ کیا تھا، لیکن ایرو سپیس انجینرنگ کی ڈگری کے لئے کافی زیادہ پیسے چاہئیں تھے۔چنانچہ اس کے لئے میں نے فل ٹائم جاب کی اور اپنی ڈگری حاصل کی ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی محنت ہی سے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ۔ دراصل میں شروع ہی سے بہت زیادہ محنت کرنے والی تھی، اسی وجہ سے میں اس مقام پر پہنچی ہوں ۔''
''حیران کن بات ہے کہ آپ ایک مشکل ڈگری کے لئے سٹڈی کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ فل ٹائم جاب بھی ۔کیسے کر رہی تھیں یہ سب ایک ساتھ ؟''
''میں برطانیہ میں پڑھ رہی تھی۔ میرے ابو بھی ان دنوں کچھ مالی مشکلات کے شکار تھے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ کوئی آسان کورس کر لو۔ وہ اس قدر مہنگی ڈگری کے لئے مجھے سپورٹ نہیں کر سکتے تھے۔ میں کافی پرجوش تھی اور چاہتی تھی کہ جو اپنے لئے منزل طے کی ہوئی ہے، اسے حاصل کرنا ہے ۔ چنانچہ میں ساری رات ایک پرنٹنگ کمپنی میں جاب کرتی تھی اور پھر صبح یونیورسٹی جاتی تھی۔ یہ بہت مشکل تھا ۔ سب کو یہ ناممکن لگ رہا تھا لیکن میں نے چار سال فل ٹائم ڈگری پروگرام اور فل ٹائم جاب کرکے ڈگری حاصل کر لی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کی زندگی میں سب سے بڑی کامیابی کیا ہے ؟ گاشر برم ٹو سے پہلے یہ ڈگری ہی میری سب سے بڑی کامیابی تھی ۔ میں نے پچاس ساٹھ لاکھ روپے اس ڈگری کے اخراجات پورے گیے۔''
گاشر برم ٹو کے بعد اگلی مہم کون سی ہے آپ کے پیش نظر؟
'' اس کے بعد انشااللہ مجھے آگے بھی بڑھنا ہے۔ پاکستان میں اتنے زیادہ پہاڑ ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی اور لڑکی نہیں ہے، اس لئے کوہ پیمائی کے میدان میں لوگوں کو مجھ سے کافی زیادہ امیدیں ہیں۔ میرا اپنا شوق بھی ہے کہ آٹھ ہزار والی مزید چوٹیاں سر کروں ۔ ارادہ ہے کہ اگلے سال جون ، جولائی میں اپنا ارادہ پورا کروں کیونکہ آٹھ ہزار والی چوٹیاں موسم گرما میں ہی سر کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میرا منصوبہ ہے کہ پاکستان میں مزید لوگوں کو بھی اس طرف لاؤں کیونکہ کھیلوںکے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ ڈسپلن اور فٹنس کے علاوہ کھیل بہت سے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مائنڈ کو مصروف اور مرتکز کرتے ہیں۔ یہ فائدے صرف کوہ پیمائی اور باکسنگ ہی نہیں دیتے بلکہ کوئی بھی کھیل ہو ، اس کے نتیجے میں انسانی شخصیت پر اسی قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔''
٭ آپ ایک اچھی باکسر بھی ہیں، اس حوالے سے بھی بتائیں؟
'' جی، میں باکسر بھی ہوں ۔ باکسنگ میں میری فائٹس بھی ہوئی ہیں۔ دراصل میں کافی سپورٹس میں حصہ لیتی رہی ہوں۔ بیڈمنٹن ، کرکٹ اور فلائنگ بھی کی۔اس کے علاوہ تائیکوانڈو ، کراٹے ، کشتی رانی۔ اس طرح کے مختلف کھیلوں میں کوشش کی تھی۔ میں باکسنگ میں اچھی تھی کیونکہ قدرتی طور پر مجھ میں طاقت زیادہ ہے، حتیٰ کہ لڑکوں کے مقابلے میں بھی، اس لئے میں نے باکسنگ جاری رکھی۔''
٭ کس نے کہا تھا کوہ پیمائی اور باکسنگ کی طرف جانے کو؟
''کوہ پیمائی اور باکسنگ کے ضمن میں ، کسی نے مجھے آئیڈیا نہیں دیا تھا۔ اپنے شوق سے میں نے باکسنگ کی کوشش کی تھی، اس کے لئے ایک کلب جوائن کیا تھا۔ وہاں باقی جو لڑکے تھے ، ان میں سب سے زیادہ طاقت ور میں تھی۔ مجھے خود بھی محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے طاقت دی ہے تو اسے استعمال کیا جائے، چنانچہ باکسنگ کو جاری رکھا۔ جہاں تک کوہ پیمائی کی بات ہے ، میں تین سال پہلے ٹریکنگ پر گئی تھی، اس کے بعد اچانک سے دل میں شوق پیدا ہوا کہ پہاڑ چڑھ کے بھی دیکھا جائے کہ مجھ میں کتنی ہمت ہے اور کہاں اوپر تک جا سکتی ہوں۔''
'' باکسنگ ، میں نے گیارہ سال پہلے شروع کی تھی، پھر فائٹس کرتی رہی، اب صرف فٹنس کے لئے کرتی ہوں۔ اب فائٹس کم کردی ہیں کیونکہ اب میری توجہ کوہ پیمائی پر زیادہ ہے۔ اس سے پہلے میں نے کوئی چوٹی سر نہیں کی تھی۔صرف ٹریکنگ کرتی تھی۔ کے ٹو بیس کیمپ میرا پہلا اور سب سے بڑا ٹریک تھا۔ گاشر برم ٹو میری پہلی چوٹی تھی ، اسی لئے لوگ میری اس کامیابی پر بہت زیادہ حیران ہوئے ہیں کہ ایک ایسی لڑکی جس نے اس سے پہلے کوئی چوٹی سر نہیں کی تھی، کیسے گاشر برن ٹو پر پہنچ گئی ۔ لوگ برسوں آٹھ ہزار میٹر کی کوئی چوٹی سر کرتے ہیں، بعض تو ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ میرا پہلا ہی تجربہ تھا ۔ اس سے پہلے کوئی بھی چوٹی سر نہیں کی تھی، نہ پانچ ہزار والی نہ چھ ہزار والی۔''
٭ دوسری لڑکیاں اور خواتین کوہ پیمائی کرنا چاہیں تو؟
'' اگر کسی کو دلچسپی ہے تو وہ ضرور کوہ پیمائی کی طرف جائے۔ یہ کھیل آسان نہیں ، کافی خطرات بھرا ہوتا ہے۔ میں کسی کو روکوں گی نہیں، کسی کو شوق ہے تو ضرور پورا کرے۔ ٹریکنگ سے آغاز کرے۔ چھوٹی چوٹیوں پر جائے۔
آٹھ ہزار والی چوٹی پر جانا میرا اپنا انتہائی فیصلہ تھا۔کوئی سیدھا آٹھ ہزار پر نہیں جاتا ، چونکہ میں نے باقی بھی کافی کھیلوں میں حصہ لیا ہوا تھا ، مجھے اپنی جسمانی اہلیت اور ذہنی مضبوطی کا اندازہ تھا ، اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا۔ باقی لڑکیاں ٹریکنگ سے شروع کریں ، سوشل میڈیا پر گروپس تلاش کریں، آن لائن گروپ ڈھونڈیں۔ ٹریکنگ اور ہائیکنگ کلب جوائن کریں۔ ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش کریں ، کچھ ایسی چوٹیاں ہیں، وہاں بچوں کو بھی ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔ بہرحال کوشش کریں، پھر دیکھیں کہ آپ کوہ پیمائی کر سکتی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ چٹانوں پر چڑھیں، اس سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کا رجحان کس طرف ہے ۔ آئس کلائمبنگ کی تربیت بھی لے سکتی ہیں ۔ یہ کافی سارے کام ہیں جو لڑکیاں کر سکتی ہیں کوہ پیمائی کی طرف آنے کے لئے۔ ''
٭ گاشر برم ٹو سر کرنے پر کس نے زیادہ حوصلہ افزائی کی؟
''پاکستان کا الپائن کلب ہے ، انھوں نے ہماری کامیاب مہم پر خوشی منانے کی تقریب منعقد کی تھی۔ یہ کوہ پیماؤں کا ایک ادارہ ہے جو کوہ پیمائی کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ کام ہیں فنڈنگ وغیرہ کے۔ انھوں نے رابطہ کیا اور حوصلہ افزائی کی ۔''
٭ اس کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟
'' باکسنگ اور کوہ پیمائی کے علاوہ ، میں باقاعدہ ہائکنگ ، ٹریکنگ اور راک کلائمبنگ کرتی ہوں۔کبھی کبھی گھڑ سواری ، غوطہ خوری بھی کرتی ہوں۔ دو سیٹوں والا جہاز چلانا بھی سیکھا ہوا ہے۔سنو بورڈنگ بھی کی ہوئی ہے۔کھیل بہت سے کھیلے ہوئے ہیں۔ کلب کے لئے کرکٹ بھی کھیلی ہوئی ہے لیکن مجھے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ رننگ بھی کی ہوئی ہے لیکن آخر کار باکسنگ ، کوہ پیمائی ، ٹریکنگ اور کلائمبنگ ہی کو منتخب کیا کیونکہ اس میں میری دلچسپی زیادہ تھی اور باقی کھیلوں کی نسبت زیادہ اچھی بھی تھی۔''
٭ آپ کی ملازمت کیا ہے؟
ابھی میں بنکنگ کے شعبے میں ملازمت کر رہی ہوں۔ ایک انٹرنیشنل بنک میں ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ ہوں۔ ویسے تو میں ایرو سپیس انجینئر ہوں۔ اس شعبے میں تھوڑا سا کام کیا لیکن اس کے بعد فی الحال بنکنگ کے شعبے میں کام کر رہی ہوں۔ جب میں نے ایرو سپیس انجینئرنگ کی ، جو کہ بہت مشکل ڈگری مانی جاتی ہے، تب میں نے اپنے باقی سارے شوق ایک طرف رکھے۔ اب بنک میں اچھی پوزیشن پر کام کر رہی ہوں۔ آپ اپنے کھیلوں کو ایک طرف بھی رکھ سکتے ہیں، پڑھائی جاب کے ساتھ ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ دارصل وقت کو مینیج کرنا پڑتا ہے، ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے کہ کون سا کام سب سے اہم ہے اور اسے کتنا وقت دیا جائے، گھر والے بھی نظر انداز نہ ہوں۔آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں۔
٭ کتابیں پڑھنے کا بھی شوق ہے؟
کتابیں بچپن میں بہت زیادہ پڑھتی تھی۔ جب سولہ سال کی تھی اور پاکستان میں تھی تو بچوں کے رسالے بہت پڑھتی تھی۔اس کی وجہ سے میری بہت سی دلچسپیاں تھیں کہ یہ کام بھی کیا جائے اور وہ کام بھی کیا جائے۔ سٹڈی کی وجہ سے میں ایک اچھی یونیورسٹی میں گئی ، اچھی تعلیم حاصل کی اور اب اچھی ملازمت کر رہی ہوں۔ سٹڈی نے بہت مدد کی۔ جب بیرون ملک ملازمت کے لئے اپلائی کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی ہم نصابی سرگرمیاں کیا ہیں،کس قسم کے کھیل کھیلتے ہیں۔ وہ کسی فرد کو محض اس کے زیادہ نمبرز کے سبب نہیں لیتے۔ ان ساری چیزوں نے مجھے پورے کیرئیر میں کافی مدد کی۔ اب کتابیں کم پڑھتی ہوں کیونکہ وقت کی کمی ہے۔''
ہر کھیل میں آگے رہیں، ٹریکنگ ، راک کلائمبنگ (چٹانوں پر چڑھنا)، کوہ پیمائی اور باکسنگ میں بہت ہی آگے۔ تعلیم ہو یا کھیل ، زندگی میں ہمیشہ مشکل مہم کا انتخاب کیا ، آسان کام کی طرف نگاہِ غلط بھی نہیں ڈالتیں۔ ان سارے لفظوں کی ایک تصویر بنائیں تو بنتی ہیں: نائلہ کیانی۔
وہ پانچ بہن بھائیوں میں سے ایک ہیں۔ شوہر ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے شعبے میں ملازمت کرتے ہیں۔ نائلہ چند ماہ پہلے دوسرے بچے کی ماں بنیں اور فوراً چل دیں دنیا کی تیرھویں بلند و بالا چوٹی کو سر کرنے جسے چھونے کے لئے بھی مرد برسوں مشق کرتے ہیں۔ ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ ان سے پہلے کوئی بھی پاکستانی کوہ پیما خاتون یہ چوٹیاں سر نہیں کر سکی ۔
٭ ''گاشر برم ٹو پر پہنچیں تو کیسا لگ رہا تھا؟ ''
نائلہ کہنے لگیں: '' ایسا لگا کہ کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ پچھلے دو برس سے یہی سوچ رہی تھی کہ میں کسی چوٹی پر کب پہنچوں گی۔ اسی لئے لگ رہا تھا کہ ابھی میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ اور ابھی کوئی جگائے گا تو میں اٹھ جائوں گی۔
پوچھا :'' 8035 میٹر بلند چوٹی گاشر برم ٹو کے سفر سے پہلے ، آپ کے کیا احساسات تھے؟''
نائلہ کیانی نے بتایا:'' گاشر برم ٹو ...کے سفر سے پہلے میں نروس تھی کیونکہ یہ میری پہلی چوٹی تھی جسے میں نے سر کرنا تھا ۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس کے لئے میں نے جتنی زیادہ تربیت حاصل کی ہے، وہ کافی ہے یا نہیں۔ میں نے صرف چار ماہ ہی ٹریننگ کی تھی اور بس ! اس وقت تک میرا ارادہ ہی تھا کہ میں جہاں تک جا سکتی ہوں ، جائوں گی۔''
٭ ''سفر کا کچھ احوال سنائیں؟''
'' پندرہ جون کو میں اسلام آباد پہنچی۔ پھر ہم سترہ جون کو سکردو کے لئے نکل کھڑے ہوئے ۔ انیس جون کو ہم لوگ سکردو سے جی ٹو بیس کیمپ کی طرف نکلے تھے، یعنی بلتوروگلیشئیر کے لئے سفر کا آغاز ہوا تھا ۔ سردی بہت تھی۔ سردی برداشت کرنا میرے لئے تھوڑا مشکل تھا۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر وزن اٹھا کر جتنا ہم چل سکتے تھے، چلتے تھے۔ سب سے زیادہ ہم 25 کلو میٹر چلے۔ چونکہ بلندی ہوتی ہے تو سفر کے آغاز ہی میں آکسیجن کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔
یہ بہت مشکل تھا۔ ہم اگلے مقام تک چل کر پہنچتے تھے تو بہت تھکن ہو جاتی تھی ۔ بیس کیمپ سے ہم آہستہ آہستہ اوپر پہاڑ پر چڑھائی کرتے ہیں۔ ہم روٹیشن کرتے ہیں۔ ہم پانچ ہزار دو سو میٹر سے پانچ ہزار نو سو میٹر بلندی پر جاتے ہیں ، وہاں پر رات گزار تے ہیں تاکہ جسم اس سے مطابقت اختیار کر لے۔ پھر نیچے پانچ ہزار دو سو پر آتے ہیں، پھر موسم کا انتظار کرتے ہیں۔ اور پھر پانچ ہزار نو سو پر جاتے ہیں، وہاں رات گزار کر اگلے کیمپ پر چھ ہزار پانچ سو میٹر پر جاتے ہیں ، پھر نیچے بیس کیمپ پر دوبارہ آتے ہیں۔ اسی طرح اوپر نیچے ہوتے رہتے ہیں تاکہ جسم آکسیجن کی کمی کا عادی ہو جائے۔''
'' ہم سیدھا آٹھ ہزار کی چوٹی پر نہیں جا سکتے کیونکہ اس طرح موت کا خطرہ ہوتا ہے۔ اوپر آکسیجن صرف تیس فیصد جسم میں جاتی ہوتی ہے۔اس لئے سیدھا آٹھ ہزار کی چوٹی پر جانا موت کے منہ میں جانے کے مترادف ہوتا ہے۔ چنانچہ آہستہ آہستہ جاتے ہیں۔ بلندی پر کیمپس میں تکنیکی انداز میں جانا جسم کے لئے بہت ہی مشکل ہوتا ہے۔ جب اوپر پہنچتے ہیں تو تھکاوٹ کی انتہا ہوتی ہے، ایسے میں وہاں پہنچ کر زیادہ بولا بھی نہیں جا رہا ہوتا، کھایا بھی نہیں جا رہا ہوتا۔ کم کھانے اور کم سونے کی وجہ سے اوپر جانا زیادہ چیلیجنگ ہوتا ہے۔ یوں یہ بہت مشکل ہوتا ہے۔''
''سکردو سے چوٹی تک پہنچنے میں ، ہمیں پانچ ہفتے لگے تھے۔ پہلے بیس کیمپ جانا تھا جس میں سات آٹھ دن لگے، پھر آہستہ آہستہ اوپر جا کر نیچے آتے تھے ۔ چوٹی پر ہم صرف بیس منٹ رکے ہیں۔ وہاں پر شدید تیز ہوا تھی۔ منفی 15ڈگری کی ٹھنڈک اور ہوا تھی کہ اپنے ساتھ اڑا لے جانے کی کوشش کر رہی تھی۔ میرے بچپن کا خواب ہواؤں میں اڑنا، چوٹیوں پر چڑھنا تھا ، جو اس وقت پورا ہو چکا تھا۔ جب ہم چوٹی پر کھڑے تھے تو برف کے ٹکڑے ہوا کے ساتھ اڑ کر ہمارے جسم اور منہ پر لگ رہے تھے۔ وہاں پر ایک طرف چین تھا ، دوسری طرف انڈیا کے پہاڑ نظر آرہے تھے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میں ہوا میں اْڑ رہی ہوں۔ میں نے فوراً پاکستان کا پرچم لہرایا۔
پھر ہمیں نیچے جانے کی فکر لگی ہوئی تھی کیونکہ نیچے جانا زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ زیادہ حادثات نیچے جاتے ہوئے پیش آتے ہیں۔اس کی ٹینشن کے سبب ہم نے بیس منٹ کے دوران جو تصاویر لینا تھیں ، لیں اور جو منظر دیکھنا تھا ، دیکھا۔ اور نیچے آگئے۔''
'' میری ٹیم میں چار لوگ تھے ۔ میں واحد خاتون تھی، جبکہ دیگر تین مرد کوہ پیما تھے۔ ایک سرباز خان تھے، جو پاکستان کے بہت بڑے کوہ پیما ہیں، وہ قیادت کر رہے تھے۔ اسی طرح گائیڈ علی رضا سدپارہ تھے جنھوں نے پاکستان کی آٹھ ہزار والی چوٹیاں سولہ بار سر کی ہوئی ہیں، وہ بھی پاکستانی قوم کے ہیرو ہیں۔ سرباز خان نے دنیا کی آٹھ ہزار والی چودہ چوٹیوں میں سے آٹھ سر کی ہوئی ہیں۔ اب ان کی چھ باقی ہیں۔ ایک سہیل سخی تھے جن کی یہ پہلی مہم تھی۔''
٭ بچپن سے اب تک کی زندگی؟
'' میں راولپنڈی میں پیدا ہوئی، ایسا نہیں تھا کہ میں لڑکپن میں ہر وقت کھیلتی ہی رہتی تھی، میں بہت اچھا پڑھتی بھی تھی۔ بہت پڑھاکو بچی تھی۔ میٹرک میں نے پاکستان سے کیا تھا۔ اس میں بھی میرے 718 نمبر تھے۔گھر میں اور خاندان میں سب سے زیادہ نمبر لئے تھے۔
سولہ برس کی تھی کہ بیرون ملک تعلیم کے لئے گئی۔ میرے ابو ائیر فورس ، متحدہ عرب امارات میں تھے۔ میں نے کوئین میری یونیورسٹی آف لندن سے ایرو سپیس انجینرنگ میں ڈگری لی۔ ایسے میں لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ میں بڑی امیر فیملی سے ہوں کہ والدین نے تعلیم کے لئے بیرون ملک بھیجا۔ ابھی' گاشر برم ٹو' چوٹی سر کی تو ایک دو لوگوں نے کہا کہ یہ امیر لوگوں کا شوق ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ میرے والدین نے کالج کی تعلیم کے لئے مجھے سپورٹ کیا تھا، لیکن ایرو سپیس انجینرنگ کی ڈگری کے لئے کافی زیادہ پیسے چاہئیں تھے۔چنانچہ اس کے لئے میں نے فل ٹائم جاب کی اور اپنی ڈگری حاصل کی ۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی محنت ہی سے بیرون ملک تعلیم حاصل کی ۔ دراصل میں شروع ہی سے بہت زیادہ محنت کرنے والی تھی، اسی وجہ سے میں اس مقام پر پہنچی ہوں ۔''
''حیران کن بات ہے کہ آپ ایک مشکل ڈگری کے لئے سٹڈی کر رہی تھیں اور ساتھ ہی ساتھ فل ٹائم جاب بھی ۔کیسے کر رہی تھیں یہ سب ایک ساتھ ؟''
''میں برطانیہ میں پڑھ رہی تھی۔ میرے ابو بھی ان دنوں کچھ مالی مشکلات کے شکار تھے۔ انھوں نے مجھے کہا کہ کوئی آسان کورس کر لو۔ وہ اس قدر مہنگی ڈگری کے لئے مجھے سپورٹ نہیں کر سکتے تھے۔ میں کافی پرجوش تھی اور چاہتی تھی کہ جو اپنے لئے منزل طے کی ہوئی ہے، اسے حاصل کرنا ہے ۔ چنانچہ میں ساری رات ایک پرنٹنگ کمپنی میں جاب کرتی تھی اور پھر صبح یونیورسٹی جاتی تھی۔ یہ بہت مشکل تھا ۔ سب کو یہ ناممکن لگ رہا تھا لیکن میں نے چار سال فل ٹائم ڈگری پروگرام اور فل ٹائم جاب کرکے ڈگری حاصل کر لی۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کی زندگی میں سب سے بڑی کامیابی کیا ہے ؟ گاشر برم ٹو سے پہلے یہ ڈگری ہی میری سب سے بڑی کامیابی تھی ۔ میں نے پچاس ساٹھ لاکھ روپے اس ڈگری کے اخراجات پورے گیے۔''
گاشر برم ٹو کے بعد اگلی مہم کون سی ہے آپ کے پیش نظر؟
'' اس کے بعد انشااللہ مجھے آگے بھی بڑھنا ہے۔ پاکستان میں اتنے زیادہ پہاڑ ہیں کہ پوری دنیا سے لوگ آتے ہیں۔ پاکستان میں کوئی اور لڑکی نہیں ہے، اس لئے کوہ پیمائی کے میدان میں لوگوں کو مجھ سے کافی زیادہ امیدیں ہیں۔ میرا اپنا شوق بھی ہے کہ آٹھ ہزار والی مزید چوٹیاں سر کروں ۔ ارادہ ہے کہ اگلے سال جون ، جولائی میں اپنا ارادہ پورا کروں کیونکہ آٹھ ہزار والی چوٹیاں موسم گرما میں ہی سر کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میرا منصوبہ ہے کہ پاکستان میں مزید لوگوں کو بھی اس طرف لاؤں کیونکہ کھیلوںکے بہت سے فائدے ہوتے ہیں۔ ڈسپلن اور فٹنس کے علاوہ کھیل بہت سے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مائنڈ کو مصروف اور مرتکز کرتے ہیں۔ یہ فائدے صرف کوہ پیمائی اور باکسنگ ہی نہیں دیتے بلکہ کوئی بھی کھیل ہو ، اس کے نتیجے میں انسانی شخصیت پر اسی قسم کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔''
٭ آپ ایک اچھی باکسر بھی ہیں، اس حوالے سے بھی بتائیں؟
'' جی، میں باکسر بھی ہوں ۔ باکسنگ میں میری فائٹس بھی ہوئی ہیں۔ دراصل میں کافی سپورٹس میں حصہ لیتی رہی ہوں۔ بیڈمنٹن ، کرکٹ اور فلائنگ بھی کی۔اس کے علاوہ تائیکوانڈو ، کراٹے ، کشتی رانی۔ اس طرح کے مختلف کھیلوں میں کوشش کی تھی۔ میں باکسنگ میں اچھی تھی کیونکہ قدرتی طور پر مجھ میں طاقت زیادہ ہے، حتیٰ کہ لڑکوں کے مقابلے میں بھی، اس لئے میں نے باکسنگ جاری رکھی۔''
٭ کس نے کہا تھا کوہ پیمائی اور باکسنگ کی طرف جانے کو؟
''کوہ پیمائی اور باکسنگ کے ضمن میں ، کسی نے مجھے آئیڈیا نہیں دیا تھا۔ اپنے شوق سے میں نے باکسنگ کی کوشش کی تھی، اس کے لئے ایک کلب جوائن کیا تھا۔ وہاں باقی جو لڑکے تھے ، ان میں سب سے زیادہ طاقت ور میں تھی۔ مجھے خود بھی محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے طاقت دی ہے تو اسے استعمال کیا جائے، چنانچہ باکسنگ کو جاری رکھا۔ جہاں تک کوہ پیمائی کی بات ہے ، میں تین سال پہلے ٹریکنگ پر گئی تھی، اس کے بعد اچانک سے دل میں شوق پیدا ہوا کہ پہاڑ چڑھ کے بھی دیکھا جائے کہ مجھ میں کتنی ہمت ہے اور کہاں اوپر تک جا سکتی ہوں۔''
'' باکسنگ ، میں نے گیارہ سال پہلے شروع کی تھی، پھر فائٹس کرتی رہی، اب صرف فٹنس کے لئے کرتی ہوں۔ اب فائٹس کم کردی ہیں کیونکہ اب میری توجہ کوہ پیمائی پر زیادہ ہے۔ اس سے پہلے میں نے کوئی چوٹی سر نہیں کی تھی۔صرف ٹریکنگ کرتی تھی۔ کے ٹو بیس کیمپ میرا پہلا اور سب سے بڑا ٹریک تھا۔ گاشر برم ٹو میری پہلی چوٹی تھی ، اسی لئے لوگ میری اس کامیابی پر بہت زیادہ حیران ہوئے ہیں کہ ایک ایسی لڑکی جس نے اس سے پہلے کوئی چوٹی سر نہیں کی تھی، کیسے گاشر برن ٹو پر پہنچ گئی ۔ لوگ برسوں آٹھ ہزار میٹر کی کوئی چوٹی سر کرتے ہیں، بعض تو ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہ میرا پہلا ہی تجربہ تھا ۔ اس سے پہلے کوئی بھی چوٹی سر نہیں کی تھی، نہ پانچ ہزار والی نہ چھ ہزار والی۔''
٭ دوسری لڑکیاں اور خواتین کوہ پیمائی کرنا چاہیں تو؟
'' اگر کسی کو دلچسپی ہے تو وہ ضرور کوہ پیمائی کی طرف جائے۔ یہ کھیل آسان نہیں ، کافی خطرات بھرا ہوتا ہے۔ میں کسی کو روکوں گی نہیں، کسی کو شوق ہے تو ضرور پورا کرے۔ ٹریکنگ سے آغاز کرے۔ چھوٹی چوٹیوں پر جائے۔
آٹھ ہزار والی چوٹی پر جانا میرا اپنا انتہائی فیصلہ تھا۔کوئی سیدھا آٹھ ہزار پر نہیں جاتا ، چونکہ میں نے باقی بھی کافی کھیلوں میں حصہ لیا ہوا تھا ، مجھے اپنی جسمانی اہلیت اور ذہنی مضبوطی کا اندازہ تھا ، اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا۔ باقی لڑکیاں ٹریکنگ سے شروع کریں ، سوشل میڈیا پر گروپس تلاش کریں، آن لائن گروپ ڈھونڈیں۔ ٹریکنگ اور ہائیکنگ کلب جوائن کریں۔ ہم خیال لوگوں کے ساتھ مل کر کوشش کریں ، کچھ ایسی چوٹیاں ہیں، وہاں بچوں کو بھی ساتھ لے جایا جا سکتا ہے۔ بہرحال کوشش کریں، پھر دیکھیں کہ آپ کوہ پیمائی کر سکتی ہیں یا نہیں۔ اس کے علاوہ چٹانوں پر چڑھیں، اس سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کا رجحان کس طرف ہے ۔ آئس کلائمبنگ کی تربیت بھی لے سکتی ہیں ۔ یہ کافی سارے کام ہیں جو لڑکیاں کر سکتی ہیں کوہ پیمائی کی طرف آنے کے لئے۔ ''
٭ گاشر برم ٹو سر کرنے پر کس نے زیادہ حوصلہ افزائی کی؟
''پاکستان کا الپائن کلب ہے ، انھوں نے ہماری کامیاب مہم پر خوشی منانے کی تقریب منعقد کی تھی۔ یہ کوہ پیماؤں کا ایک ادارہ ہے جو کوہ پیمائی کی اجازت دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی ان کے کچھ کام ہیں فنڈنگ وغیرہ کے۔ انھوں نے رابطہ کیا اور حوصلہ افزائی کی ۔''
٭ اس کے علاوہ کیا مصروفیات ہیں؟
'' باکسنگ اور کوہ پیمائی کے علاوہ ، میں باقاعدہ ہائکنگ ، ٹریکنگ اور راک کلائمبنگ کرتی ہوں۔کبھی کبھی گھڑ سواری ، غوطہ خوری بھی کرتی ہوں۔ دو سیٹوں والا جہاز چلانا بھی سیکھا ہوا ہے۔سنو بورڈنگ بھی کی ہوئی ہے۔کھیل بہت سے کھیلے ہوئے ہیں۔ کلب کے لئے کرکٹ بھی کھیلی ہوئی ہے لیکن مجھے اس میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ رننگ بھی کی ہوئی ہے لیکن آخر کار باکسنگ ، کوہ پیمائی ، ٹریکنگ اور کلائمبنگ ہی کو منتخب کیا کیونکہ اس میں میری دلچسپی زیادہ تھی اور باقی کھیلوں کی نسبت زیادہ اچھی بھی تھی۔''
٭ آپ کی ملازمت کیا ہے؟
ابھی میں بنکنگ کے شعبے میں ملازمت کر رہی ہوں۔ ایک انٹرنیشنل بنک میں ایسوسی ایٹ وائس پریذیڈنٹ ہوں۔ ویسے تو میں ایرو سپیس انجینئر ہوں۔ اس شعبے میں تھوڑا سا کام کیا لیکن اس کے بعد فی الحال بنکنگ کے شعبے میں کام کر رہی ہوں۔ جب میں نے ایرو سپیس انجینئرنگ کی ، جو کہ بہت مشکل ڈگری مانی جاتی ہے، تب میں نے اپنے باقی سارے شوق ایک طرف رکھے۔ اب بنک میں اچھی پوزیشن پر کام کر رہی ہوں۔ آپ اپنے کھیلوں کو ایک طرف بھی رکھ سکتے ہیں، پڑھائی جاب کے ساتھ ساتھ بھی کر سکتے ہیں۔ دارصل وقت کو مینیج کرنا پڑتا ہے، ترجیحات کا تعین کرنا پڑتا ہے کہ کون سا کام سب سے اہم ہے اور اسے کتنا وقت دیا جائے، گھر والے بھی نظر انداز نہ ہوں۔آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزاریں۔
٭ کتابیں پڑھنے کا بھی شوق ہے؟
کتابیں بچپن میں بہت زیادہ پڑھتی تھی۔ جب سولہ سال کی تھی اور پاکستان میں تھی تو بچوں کے رسالے بہت پڑھتی تھی۔اس کی وجہ سے میری بہت سی دلچسپیاں تھیں کہ یہ کام بھی کیا جائے اور وہ کام بھی کیا جائے۔ سٹڈی کی وجہ سے میں ایک اچھی یونیورسٹی میں گئی ، اچھی تعلیم حاصل کی اور اب اچھی ملازمت کر رہی ہوں۔ سٹڈی نے بہت مدد کی۔ جب بیرون ملک ملازمت کے لئے اپلائی کرتے ہیں تو وہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی ہم نصابی سرگرمیاں کیا ہیں،کس قسم کے کھیل کھیلتے ہیں۔ وہ کسی فرد کو محض اس کے زیادہ نمبرز کے سبب نہیں لیتے۔ ان ساری چیزوں نے مجھے پورے کیرئیر میں کافی مدد کی۔ اب کتابیں کم پڑھتی ہوں کیونکہ وقت کی کمی ہے۔''