الائچی باقرخانی اور نان خطائی
آج کی تیسری اور سب سے لذیذ چیز نان خطائی ہے جو ہمارے کالم کے موضوع میں شامل ہے۔
سلسلہ نمبر 112
''آپ بیٹھیں، میں آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔
ارے نہیں، حضرت! میں بس چلتا ہوں۔ آپ زحمت نہ کریں....گھر میں کوئی نہیں ہے....آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔
نہیں بھئی....مجھے بھی پینی ہے نا۔ ایک کپ آپ کے لیے اور ایک اپنا بنا لیتا ہوں۔
آپ کی طبیعت بہت مضمحل لگ رہی ہے....آپ ٹھیک نہیں ہیں۔
ہاں....بس تھکن ہے....آپ بیٹھیں....چائے بنا کے لاتا ہوں۔
اچھا....ایک کام کریں....چائے کے ساتھ ایک عدد چھوٹی الائچی لے لیں....آپ کی ساری تھکن، غنودگی اتار دے گی۔
اچھا....
ارے واقعی۔۔۔یہ تو بڑے کام کی بات بتائی آپ نے آج....مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔''
یہ گفتگو کوئی اکیس برس پہلے خاکسار اور بزرگ معاصر، ممتاز شاعر محترم جاویدوارثی (مرحوم) کے مابین ہوئی تھی جنھیں ذیابیطس کی شکایت اور عارضہ قلب لاحق تھا۔ مجھے اُن کی دل کی بیماری کا جب پتا چلا، جب وہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے۔
وہ اپنی تکالیف وعوارض کا پرچار پسند نہیں کرتے تھے۔ میرا اُن کا ساتھ، ان کی عمر کے آخری دو سال رہا۔ وہ مجھ پر اتنی شفقت فرماتے کہ ہر مسئلے کے حل کے لیے، نجی مسائل کے متعلق اور متفرق امور میں میری رائے کو اہمیت دیتے۔ اُنھوں نے شاذونادر ہی آپ کی بجائے تم سے مخاطب کیا۔
ا پنے عمر بھر کے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی زیادہ فوقیت دیتے تھے مجھے۔ وہ میرے رسالے ہائیکو انٹرنیشنل کے منتظم اشاعت تھے۔ (مندرجہ بالا موقع پر انھوں نے الائچی کھائی تو بہت تازہ دم ہوگئے)۔ ویسے یہ نسخہ ہمیں بھی بہت بعد میں ایک فاضل حکیم سے معلوم ہوا کہ الائچی چباکر، چوس کر، تھوک دینی چاہیے، ورنہ سینے پر بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔
یہ ذکر ہے، چھوٹی الائچی یا (اطباء کی زبان میں) الائچی خورد کا جسے اس کی رنگت کی وجہ سے سبز الائچی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا انگریزی نام Cardamom(Also Cardamon or Cardamum) بھی ہمارے یہاں مشہور ہوچکا ہے، کیونکہ ہمیں جستجو رہتی ہے کہ ہر چیز کے نام اور استعمال میں جدید یعنی Modern بن کر دکھائیں۔۔۔ اردو بولنے سے ذرا دقیانوسی۔۔۔یعنی Outdated لگتے ہیں۔۔۔۔(یہ برگروں یعنی نودولتیوں کا نظریہ ہے جو شُدہ شُدہ ہمارے متوسط طبقے نے بھی بغیر سوچے سمجھے اپنالیا ہے)۔ چھوٹی الائچی جیسی ننھی منی کارآمد شئے کو ''مصالحوں کی ملکہ'' کہا جاتا ہے۔
(فرہنگ آصفیہ کے مؤلف، مصالحہ ہی کے قائل تھے)۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ لفظ اصل میں سنسکِرِت سے آیا ہے۔ فارسی میں اسے اِلاچی کہا جانے لگا۔ یہ ایک خوشبو دار پھل ہے جس کی چھوٹی قسم چھوٹی الائچی اور بڑی قسم، بڑی الائچی کہلاتی ہے۔
زنانہ بولی (خصوصاً ریختی ) میں لفظ اِلاچی کا استعمال اُس سکھی سہیلی کے لیے ہوتا تھا جو باہم الائچی کے دانے کھانے میں تبادلہ کرتی۔ ؎ اب اِلاچی کو مَیں اپنے گھر بلاؤں دُورپار+اُس کو مَیں اپنے چھپرکھٹ پر سلاؤں دُورپار (سعادت یارخان رنگینؔ)۔ نوراللغات کے اس بیان میں فرہنگ آصفیہ کا اضافہ بھی ملاحظہ فرمائیں:''الائچی بہن: (ہندی)، اسم مؤنث۔ (بیگمات ِ قَلعہ کی بولی) جب بیگمات ِ قَلعہ کسی عورت سے بہناپا کرکے الائچی کے دانے باہم کھاتی تھیں تو اُسے اِلاچی کہا کرتی تھیں، چنانچہ مشہور ہے کہ بیگمات ِ قَلعہ میں سے میرزا فخرو، ولی عہد کی والدہ صاحبہ نے ایک نوّاب زادی سکینہ بیگم نامی کو الائچی بہن بنایا اور اس کی خوشی میں ایک گاؤں اُنھیں بخشا جو اُس دن سے آج تک الائچی پُور مشہور اور ضلع میرٹھ، تحصیل غازی آباد، پرگنہ لونی میں واقع ہے''۔
جدید دور میں جبکہ غازی آباد ضلع بن چکا ہے، یہ گاؤں بھی ایک پُرکشش مقام کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ الائچی کا استعمال عموماً کھانوں میں خوشبو، اور، سانس اور پسینے کی بدبو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسے چائے اور قہوے کی مختلف اقسام میں بھی خوشبو اور تیزی (یعنی کڑک کرنے) کے لیے ڈالا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس چھوٹی سی چیز میں معدنیات، میگنیشئیم، پوٹاشئیم، کیلشئیم، فولاد، تانبا اور حیاتین 'ج' [Vitamin C]کی موجودگی کے سبب، جسم سے فاسد مادّوں کے اخراج اور خون کی افزائش میں مدد ملتی ہے، ہاضمے میں مدد کا معاملہ ہو، ریاحی تکلیف سے نجات ہو، تیزابیت ختم کرنی ہو یا مختلف قسم کے سرطان سے بچاؤ، الائچی مفید ہے۔ یہ نزلہ، زکام اور کھانسی کی شکایت رفع کرنے میں بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ فشار خون [Blood pressure] کو معتدل کرنے اور مُٹاپا گھٹانے میں بھی اس سے مدد لی جاتی ہے۔
الائچی کا مستقل استعمال ذہنی امراض سے شفاء دیتا ہے۔ قدیم عراقی تہذیب سُمیری کے عہد میں بھی الائچی استعمال ہوا کرتی تھی۔ اس کا وطن برصغیر پاک وہند اور انڈونیشیا ہے، مگر یہ دنیا کے دیگر ممالک مثلاً سری لنکا، تھائی لینڈ، تنزانیہ، ملائیشیا اور گوئٹے مالا، کوسٹارِیکا [Costa Rica]، ایل سلواڈور[El Salvador]، ہوندورا [Honduras]، [Papua New Guinea] پاپوا نیوگِنی اور ویت نام میں بھی اگائی جاتی ہے۔ (یہ نام ہونڈوراس غلط بولا جاتا ہے۔ ہسپانوی زبان میں حرف ''ڈ'' نہیں اور آخری حرف ساکن ہے۔ س ا ص)۔ جنگ عظیم اوّل سے قبل الائچی، وسطی امریکا کے ملک گوئٹے مالا [Guatemala] میں کاشت کی گئی اور ہوتے ہوتے وہاں اسے اتنا پروان چڑھایا گیا کہ اب دنیا بھر میں سب سے زیادہ الائچی کی پیداوار اور برآمد اُسی ملک سے ہوتی ہے جبکہ ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔
عام طور پر الائچی کی ایک قسم Siam cardamom ہی کو cardamom کہا جاتا ہے، (سیام سے مراد ہے تھائی لینڈ)، جبکہ بڑی، سیاہ الائچی کو نیپال سے نسبت ہے۔ یہ مشرقی نیپال، سِکّم، دارجیلنگ اور بھوٹا ن میں اگائی جاتی ہے۔
جب یہی لفظ بطور مذکر استعمال ہوتا ہے تو الاچی /الائچی دانہ نامی ایک مٹھائی کے لیے بولا جاتاہے۔ اس مٹھائی میں الائچی کے دانوں کو شکر میں ملا کر بنایا جاتا ہے، جبکہ کھِیلوں یا بھُنے ہوئے چنوں کو بھی اسی طرح شکر میں ملاکر بنانے سے جو چیز تیار ہوتی ہے، اُسے بھی الائچی دانہ کہتے ہیں۔ ؎ خریداری ہے اُس خالِ لبِ شیریں کی دنیامیں+الاچی دانے حلوائی بھریں شکّر کے بوروں میں (بحرؔ لکھنوی)۔{نوراللغات سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں راقم نے بطورِ شاعر یہ موزوں سمجھا کہ لفظ شکر کے کاف پر تشدید لگادی جائے، ورنہ بحر سے خارج ہوجاتا}۔ فرہنگ آصفیہ میں یہ درج کیا گیا کہ الائچی دانہ، (الف) اسم مذکر، ایک قسم کی مٹھائی ہے جس کے اندر الائچی
کے دانے ڈال کر کھانڈ (یعنی گُڑ والی شکر) سے اُسے غلافتے ہیں (یہ غلاف چڑھانے کو غلافنا، اب متروک ہے: س ا ص)۔ب) بازاری آدمی، کم سِن معشوق کے حق میں بھی کہتے ہیں (یعنی یہ عوامی سُوقیانہ/بازاری بولی ہے۔ Slang کی ایک شکل میں رائج اصطلاح: س ا ص)۔ج)۔ دہلی کے ایک بھانڈ کا نام تھا۔ اب تک بھنڈیلے اُسی کے نام سے زچہ خانہ کا، نیگ لے جاتے ہیں (یعنی بھانڈ، میراثی یا زنخے کسی کے گھر میں بچے کی پیدائش پر جو رقم مانگتے ہیں ، وہ ''الائچی دانہ'' کہلاتی ہے: س ا ص)۔
ایک انوکھا لفظ ''اِلاچا'' بھی ہے جو مُلتان میں بُنے جانے والے ریشمی سُوتی کپڑے کا نام ہے ، جس کی بناوٹ میں اِلاچی سے مُشابہ نشان ہوتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات کے اس بیان کی تصدیق Platts Dictionaryسے بھی ہوتی ہے ابھی ایک آن لائن سندھی لغت سے بھی معلوم ہوا کہ اس کپڑے کو ''اِلاچو'' (اور جمع میں اِلاچا) کہتے ہیں۔ [https://dic.sindhila.edu.pk/]۔ غالباً یہی پنجابی کا ''لاچا'' ہے۔
آج کے کالم میں دوسرا دل چسپ نام ہے، باقر خانی۔ اصل میں یہ باقرخانی روٹی یا میٹھی روغنی ٹکیا ہے جو کسی بسکٹ کی جیسی ہلکی پھُلکی میٹھی چیز ہے اور عموماً ناشتے میں استعمال کی جاتی ہے، خواہ صبح کے وقت ہو یا شام میں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا وطن، قدیم ڈھاکا اور گردونواح کا علاقہ ہے اور یہ عہدِمغلیہ میں ایجاد ہوئی۔ اس کے مُوجدین کا تعلق سِلہٹ سے بتایا جاتا ہے۔
بنگال کے خطے میں اس کی یہ اقسام مشہور ہیں: گاؤ جُوبان (گاؤ زبان)، شُوکی /شُوکھا (سوکھی یا سوکھا)، نِیم شُوکی (نِیم سوکھی ہوئی)، کائے چار رُوٹی، مُلام، چِن شُوکی اور کشمیری۔ باقرخانی کی تیاری میں سُوجی، مَیدہ، گھی، زعفران میں ڈبویا ہوا گُڑ، کلونجی، خشخاش اور نمک استعمال ہوتے ہیں۔ حکایت میں اس کا نام نواب بنگال مرشد قُلی خان کے لے پالک، اور نواب سراج الدولہ کے جرنیل، آغا باقر خان (چٹاگانگ سے تعلق)، اور اُس کی محبوبہ ''خانی بیگم'' سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آن لائن لغت کے اندراج کی رُو سے، باقرخانی کا اولین ذکر ۱۷۴۶ء کے ''قصہ مہر افروز ودِلبر'' میں ملتا ہے۔ اہل لاہور کا دعویٰ بھی نظر سے گزرا کہ اُن کی جیسی باقر خانی کہیں اور نہیں...واللہ اعلم بالصواب (بے شک اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔
آج کی تیسری اور سب سے لذیذ چیز نان خطائی ہے جو ہمارے کالم کے موضوع میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں وِکی پیڈیا سمیت مختلف مقامات یعنی ویب سائٹس پر درست معلومات درج نہیں ہیں۔ یہ نانِ خطائی یعنی ''خطا'' کی روٹی۔ یہ خطا، چین کے اسلامی علاقے شن جی یانگ المعروف سنکیانگ کا علاقہ ہے جس کا ذکرتاریخ میں سرسری ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک علاقہ ''خُتَن'' بھی مشہور ہے جہاں کا مُشک بہت مشہور ہے، یعنی وہاں کے ہرن کے نافے میں پوشیدہ مُشک۔ لوگوں نے یہ تُکّہ لگایا ہے کہ یہ فارسی یا دَری (قدیم فارسی ) ہے جبکہ یہ نام جس علاقے میں رکھے گئے، وہاں کی زبان، ترکی کی ہم رشتہ، ویغور ہے جس کا تلفظ ہمارے یہاں سہواً، اوئی غور یا اویغور کیا جاتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ چونکہ آج بھی یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے (قدیم ترکی کی طرح) تو ہوسکتا ہے کہ لفظ دَرحقیقت، ختا ہو جسے عربا لیا گیا ہو یعنی عربی شکل دے دی گئی ہو۔ وِکی پیڈیا میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ قدیم چین کے نام Cathay سے ماخوذ ہے، اس بات کی سند بھی تلاش کرنی پڑے گی، مگر بہرحال یہ کہنا کہ خطا کا مطلب بسکٹ ہے، بالکل غلط ہے۔
شاید آپ نے سلیم رضا (آنجہانی) کے مشہور ِزمانہ نغمے ''جان ِ بہاراں، رشک ِچمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن، اے جانِ من'' میں سنا ہوگا، وہ ایک بول میں گنگناتے ہیں: '' زُلفیں تری مُشک ِ خُتن، اے جان ِ من''۔ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے ایک بسکٹ ساز ادارے نے اپنے بسکٹ کانام ''خطائی'' رکھا جو کسی بھی طرح نان خطائی نہیں تھا، مگر اس کے رومن اردو میں نام رکھنے کی وجہ سے لوگ، کھٹائی کھٹائی کہتے تھے، پھر خدا خدا کرکے ایک کے بعد ایک، تین مختلف بسکٹ ساز اداروں نے ''نان خطائی'' کے نام سے اصل نان خطائی، بازار میں متعارف کرادی ، مگر افسوس .....ہمارے یہاں لوگ ''انگریز'' بنتے ہوئے اسے بھی کھٹائی کہہ رہے ہیں، انھیں کیا پتا کہ کھٹائی کیا ہوتی ہے۔ یہ کالم، بوجوہ بصد عجلت لکھا گیا ہے ، لہٰذا کم لکھے کو زیادہ جانیں۔
''آپ بیٹھیں، میں آپ کے لیے چائے بناتا ہوں۔
ارے نہیں، حضرت! میں بس چلتا ہوں۔ آپ زحمت نہ کریں....گھر میں کوئی نہیں ہے....آپ کو خواہ مخواہ تکلیف ہوگی۔
نہیں بھئی....مجھے بھی پینی ہے نا۔ ایک کپ آپ کے لیے اور ایک اپنا بنا لیتا ہوں۔
آپ کی طبیعت بہت مضمحل لگ رہی ہے....آپ ٹھیک نہیں ہیں۔
ہاں....بس تھکن ہے....آپ بیٹھیں....چائے بنا کے لاتا ہوں۔
اچھا....ایک کام کریں....چائے کے ساتھ ایک عدد چھوٹی الائچی لے لیں....آپ کی ساری تھکن، غنودگی اتار دے گی۔
اچھا....
ارے واقعی۔۔۔یہ تو بڑے کام کی بات بتائی آپ نے آج....مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا۔''
یہ گفتگو کوئی اکیس برس پہلے خاکسار اور بزرگ معاصر، ممتاز شاعر محترم جاویدوارثی (مرحوم) کے مابین ہوئی تھی جنھیں ذیابیطس کی شکایت اور عارضہ قلب لاحق تھا۔ مجھے اُن کی دل کی بیماری کا جب پتا چلا، جب وہ اچانک دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے۔
وہ اپنی تکالیف وعوارض کا پرچار پسند نہیں کرتے تھے۔ میرا اُن کا ساتھ، ان کی عمر کے آخری دو سال رہا۔ وہ مجھ پر اتنی شفقت فرماتے کہ ہر مسئلے کے حل کے لیے، نجی مسائل کے متعلق اور متفرق امور میں میری رائے کو اہمیت دیتے۔ اُنھوں نے شاذونادر ہی آپ کی بجائے تم سے مخاطب کیا۔
ا پنے عمر بھر کے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی زیادہ فوقیت دیتے تھے مجھے۔ وہ میرے رسالے ہائیکو انٹرنیشنل کے منتظم اشاعت تھے۔ (مندرجہ بالا موقع پر انھوں نے الائچی کھائی تو بہت تازہ دم ہوگئے)۔ ویسے یہ نسخہ ہمیں بھی بہت بعد میں ایک فاضل حکیم سے معلوم ہوا کہ الائچی چباکر، چوس کر، تھوک دینی چاہیے، ورنہ سینے پر بھاری پن محسوس ہوتا ہے۔
یہ ذکر ہے، چھوٹی الائچی یا (اطباء کی زبان میں) الائچی خورد کا جسے اس کی رنگت کی وجہ سے سبز الائچی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا انگریزی نام Cardamom(Also Cardamon or Cardamum) بھی ہمارے یہاں مشہور ہوچکا ہے، کیونکہ ہمیں جستجو رہتی ہے کہ ہر چیز کے نام اور استعمال میں جدید یعنی Modern بن کر دکھائیں۔۔۔ اردو بولنے سے ذرا دقیانوسی۔۔۔یعنی Outdated لگتے ہیں۔۔۔۔(یہ برگروں یعنی نودولتیوں کا نظریہ ہے جو شُدہ شُدہ ہمارے متوسط طبقے نے بھی بغیر سوچے سمجھے اپنالیا ہے)۔ چھوٹی الائچی جیسی ننھی منی کارآمد شئے کو ''مصالحوں کی ملکہ'' کہا جاتا ہے۔
(فرہنگ آصفیہ کے مؤلف، مصالحہ ہی کے قائل تھے)۔ ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ یہ لفظ اصل میں سنسکِرِت سے آیا ہے۔ فارسی میں اسے اِلاچی کہا جانے لگا۔ یہ ایک خوشبو دار پھل ہے جس کی چھوٹی قسم چھوٹی الائچی اور بڑی قسم، بڑی الائچی کہلاتی ہے۔
زنانہ بولی (خصوصاً ریختی ) میں لفظ اِلاچی کا استعمال اُس سکھی سہیلی کے لیے ہوتا تھا جو باہم الائچی کے دانے کھانے میں تبادلہ کرتی۔ ؎ اب اِلاچی کو مَیں اپنے گھر بلاؤں دُورپار+اُس کو مَیں اپنے چھپرکھٹ پر سلاؤں دُورپار (سعادت یارخان رنگینؔ)۔ نوراللغات کے اس بیان میں فرہنگ آصفیہ کا اضافہ بھی ملاحظہ فرمائیں:''الائچی بہن: (ہندی)، اسم مؤنث۔ (بیگمات ِ قَلعہ کی بولی) جب بیگمات ِ قَلعہ کسی عورت سے بہناپا کرکے الائچی کے دانے باہم کھاتی تھیں تو اُسے اِلاچی کہا کرتی تھیں، چنانچہ مشہور ہے کہ بیگمات ِ قَلعہ میں سے میرزا فخرو، ولی عہد کی والدہ صاحبہ نے ایک نوّاب زادی سکینہ بیگم نامی کو الائچی بہن بنایا اور اس کی خوشی میں ایک گاؤں اُنھیں بخشا جو اُس دن سے آج تک الائچی پُور مشہور اور ضلع میرٹھ، تحصیل غازی آباد، پرگنہ لونی میں واقع ہے''۔
جدید دور میں جبکہ غازی آباد ضلع بن چکا ہے، یہ گاؤں بھی ایک پُرکشش مقام کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ الائچی کا استعمال عموماً کھانوں میں خوشبو، اور، سانس اور پسینے کی بدبو ختم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اسے چائے اور قہوے کی مختلف اقسام میں بھی خوشبو اور تیزی (یعنی کڑک کرنے) کے لیے ڈالا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اس چھوٹی سی چیز میں معدنیات، میگنیشئیم، پوٹاشئیم، کیلشئیم، فولاد، تانبا اور حیاتین 'ج' [Vitamin C]کی موجودگی کے سبب، جسم سے فاسد مادّوں کے اخراج اور خون کی افزائش میں مدد ملتی ہے، ہاضمے میں مدد کا معاملہ ہو، ریاحی تکلیف سے نجات ہو، تیزابیت ختم کرنی ہو یا مختلف قسم کے سرطان سے بچاؤ، الائچی مفید ہے۔ یہ نزلہ، زکام اور کھانسی کی شکایت رفع کرنے میں بھی کارگر ثابت ہوتی ہے۔ فشار خون [Blood pressure] کو معتدل کرنے اور مُٹاپا گھٹانے میں بھی اس سے مدد لی جاتی ہے۔
الائچی کا مستقل استعمال ذہنی امراض سے شفاء دیتا ہے۔ قدیم عراقی تہذیب سُمیری کے عہد میں بھی الائچی استعمال ہوا کرتی تھی۔ اس کا وطن برصغیر پاک وہند اور انڈونیشیا ہے، مگر یہ دنیا کے دیگر ممالک مثلاً سری لنکا، تھائی لینڈ، تنزانیہ، ملائیشیا اور گوئٹے مالا، کوسٹارِیکا [Costa Rica]، ایل سلواڈور[El Salvador]، ہوندورا [Honduras]، [Papua New Guinea] پاپوا نیوگِنی اور ویت نام میں بھی اگائی جاتی ہے۔ (یہ نام ہونڈوراس غلط بولا جاتا ہے۔ ہسپانوی زبان میں حرف ''ڈ'' نہیں اور آخری حرف ساکن ہے۔ س ا ص)۔ جنگ عظیم اوّل سے قبل الائچی، وسطی امریکا کے ملک گوئٹے مالا [Guatemala] میں کاشت کی گئی اور ہوتے ہوتے وہاں اسے اتنا پروان چڑھایا گیا کہ اب دنیا بھر میں سب سے زیادہ الائچی کی پیداوار اور برآمد اُسی ملک سے ہوتی ہے جبکہ ہندوستان دوسرے نمبر پر ہے۔
عام طور پر الائچی کی ایک قسم Siam cardamom ہی کو cardamom کہا جاتا ہے، (سیام سے مراد ہے تھائی لینڈ)، جبکہ بڑی، سیاہ الائچی کو نیپال سے نسبت ہے۔ یہ مشرقی نیپال، سِکّم، دارجیلنگ اور بھوٹا ن میں اگائی جاتی ہے۔
جب یہی لفظ بطور مذکر استعمال ہوتا ہے تو الاچی /الائچی دانہ نامی ایک مٹھائی کے لیے بولا جاتاہے۔ اس مٹھائی میں الائچی کے دانوں کو شکر میں ملا کر بنایا جاتا ہے، جبکہ کھِیلوں یا بھُنے ہوئے چنوں کو بھی اسی طرح شکر میں ملاکر بنانے سے جو چیز تیار ہوتی ہے، اُسے بھی الائچی دانہ کہتے ہیں۔ ؎ خریداری ہے اُس خالِ لبِ شیریں کی دنیامیں+الاچی دانے حلوائی بھریں شکّر کے بوروں میں (بحرؔ لکھنوی)۔{نوراللغات سے استفادہ کرتے ہوئے یہاں راقم نے بطورِ شاعر یہ موزوں سمجھا کہ لفظ شکر کے کاف پر تشدید لگادی جائے، ورنہ بحر سے خارج ہوجاتا}۔ فرہنگ آصفیہ میں یہ درج کیا گیا کہ الائچی دانہ، (الف) اسم مذکر، ایک قسم کی مٹھائی ہے جس کے اندر الائچی
کے دانے ڈال کر کھانڈ (یعنی گُڑ والی شکر) سے اُسے غلافتے ہیں (یہ غلاف چڑھانے کو غلافنا، اب متروک ہے: س ا ص)۔ب) بازاری آدمی، کم سِن معشوق کے حق میں بھی کہتے ہیں (یعنی یہ عوامی سُوقیانہ/بازاری بولی ہے۔ Slang کی ایک شکل میں رائج اصطلاح: س ا ص)۔ج)۔ دہلی کے ایک بھانڈ کا نام تھا۔ اب تک بھنڈیلے اُسی کے نام سے زچہ خانہ کا، نیگ لے جاتے ہیں (یعنی بھانڈ، میراثی یا زنخے کسی کے گھر میں بچے کی پیدائش پر جو رقم مانگتے ہیں ، وہ ''الائچی دانہ'' کہلاتی ہے: س ا ص)۔
ایک انوکھا لفظ ''اِلاچا'' بھی ہے جو مُلتان میں بُنے جانے والے ریشمی سُوتی کپڑے کا نام ہے ، جس کی بناوٹ میں اِلاچی سے مُشابہ نشان ہوتے ہیں۔ فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات کے اس بیان کی تصدیق Platts Dictionaryسے بھی ہوتی ہے ابھی ایک آن لائن سندھی لغت سے بھی معلوم ہوا کہ اس کپڑے کو ''اِلاچو'' (اور جمع میں اِلاچا) کہتے ہیں۔ [https://dic.sindhila.edu.pk/]۔ غالباً یہی پنجابی کا ''لاچا'' ہے۔
آج کے کالم میں دوسرا دل چسپ نام ہے، باقر خانی۔ اصل میں یہ باقرخانی روٹی یا میٹھی روغنی ٹکیا ہے جو کسی بسکٹ کی جیسی ہلکی پھُلکی میٹھی چیز ہے اور عموماً ناشتے میں استعمال کی جاتی ہے، خواہ صبح کے وقت ہو یا شام میں۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا وطن، قدیم ڈھاکا اور گردونواح کا علاقہ ہے اور یہ عہدِمغلیہ میں ایجاد ہوئی۔ اس کے مُوجدین کا تعلق سِلہٹ سے بتایا جاتا ہے۔
بنگال کے خطے میں اس کی یہ اقسام مشہور ہیں: گاؤ جُوبان (گاؤ زبان)، شُوکی /شُوکھا (سوکھی یا سوکھا)، نِیم شُوکی (نِیم سوکھی ہوئی)، کائے چار رُوٹی، مُلام، چِن شُوکی اور کشمیری۔ باقرخانی کی تیاری میں سُوجی، مَیدہ، گھی، زعفران میں ڈبویا ہوا گُڑ، کلونجی، خشخاش اور نمک استعمال ہوتے ہیں۔ حکایت میں اس کا نام نواب بنگال مرشد قُلی خان کے لے پالک، اور نواب سراج الدولہ کے جرنیل، آغا باقر خان (چٹاگانگ سے تعلق)، اور اُس کی محبوبہ ''خانی بیگم'' سے منسوب کیا جاتا ہے۔ آن لائن لغت کے اندراج کی رُو سے، باقرخانی کا اولین ذکر ۱۷۴۶ء کے ''قصہ مہر افروز ودِلبر'' میں ملتا ہے۔ اہل لاہور کا دعویٰ بھی نظر سے گزرا کہ اُن کی جیسی باقر خانی کہیں اور نہیں...واللہ اعلم بالصواب (بے شک اللہ ہی بہتر جانتا ہے)۔
آج کی تیسری اور سب سے لذیذ چیز نان خطائی ہے جو ہمارے کالم کے موضوع میں شامل ہے۔ اس کے بارے میں وِکی پیڈیا سمیت مختلف مقامات یعنی ویب سائٹس پر درست معلومات درج نہیں ہیں۔ یہ نانِ خطائی یعنی ''خطا'' کی روٹی۔ یہ خطا، چین کے اسلامی علاقے شن جی یانگ المعروف سنکیانگ کا علاقہ ہے جس کا ذکرتاریخ میں سرسری ملتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک علاقہ ''خُتَن'' بھی مشہور ہے جہاں کا مُشک بہت مشہور ہے، یعنی وہاں کے ہرن کے نافے میں پوشیدہ مُشک۔ لوگوں نے یہ تُکّہ لگایا ہے کہ یہ فارسی یا دَری (قدیم فارسی ) ہے جبکہ یہ نام جس علاقے میں رکھے گئے، وہاں کی زبان، ترکی کی ہم رشتہ، ویغور ہے جس کا تلفظ ہمارے یہاں سہواً، اوئی غور یا اویغور کیا جاتا ہے۔
یہ ضرور ہے کہ چونکہ آج بھی یہ زبان عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے (قدیم ترکی کی طرح) تو ہوسکتا ہے کہ لفظ دَرحقیقت، ختا ہو جسے عربا لیا گیا ہو یعنی عربی شکل دے دی گئی ہو۔ وِکی پیڈیا میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ یہ قدیم چین کے نام Cathay سے ماخوذ ہے، اس بات کی سند بھی تلاش کرنی پڑے گی، مگر بہرحال یہ کہنا کہ خطا کا مطلب بسکٹ ہے، بالکل غلط ہے۔
شاید آپ نے سلیم رضا (آنجہانی) کے مشہور ِزمانہ نغمے ''جان ِ بہاراں، رشک ِچمن، غنچہ دہن، سیمیں بدن، اے جانِ من'' میں سنا ہوگا، وہ ایک بول میں گنگناتے ہیں: '' زُلفیں تری مُشک ِ خُتن، اے جان ِ من''۔ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے ایک بسکٹ ساز ادارے نے اپنے بسکٹ کانام ''خطائی'' رکھا جو کسی بھی طرح نان خطائی نہیں تھا، مگر اس کے رومن اردو میں نام رکھنے کی وجہ سے لوگ، کھٹائی کھٹائی کہتے تھے، پھر خدا خدا کرکے ایک کے بعد ایک، تین مختلف بسکٹ ساز اداروں نے ''نان خطائی'' کے نام سے اصل نان خطائی، بازار میں متعارف کرادی ، مگر افسوس .....ہمارے یہاں لوگ ''انگریز'' بنتے ہوئے اسے بھی کھٹائی کہہ رہے ہیں، انھیں کیا پتا کہ کھٹائی کیا ہوتی ہے۔ یہ کالم، بوجوہ بصد عجلت لکھا گیا ہے ، لہٰذا کم لکھے کو زیادہ جانیں۔