راجہ جی ذرا سنبھل کر چلنا
فرنچائزز سے بورڈ کے تعلقات ٹھیک نہیں، لیگ کے معاملات بہتر بنانا نامزد چیئرمین کیلیے بڑا چیلنج ہوگا۔
صبح کے9 بجے قذافی اسٹیڈیم کے گارڈن میں مالی و دیگر اسٹاف جمع ہے کہ اچانک سی ای او رمیز راجہ کے آنے پر سب الرٹ ہو جاتے ہیں، وہ تھوڑی دیر وہاں رکنے کے بعد اپنے دفتر چلے جاتے ہیں، وقت پر دفتر آنا اور شام کو دیر تک کام کرنا ان کے معمول میں شامل تھا۔
وہ دیگر اسٹاف سے بھی یہی توقع کرتے کہ وہ وقت کی پابندی کرے، یہی رمیز راجہ کا انداز تھا، پی سی بی میں ان کی پہلی اننگز بطور چیف ایگزیکٹیو تھی،بظاہرکمنٹری سے روکنے پر انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا، اب وہ چیئرمین کی حیثیت سے 13 ستمبر کو ذمہ داری سنبھالیں گے، راجہ جی کو اب سنبھل کر چلنا پڑے گا۔
ماضی اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہے، پہلے گنتی کے چند صحافی ہوا کرتے تھے اب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا دور ہے، ابھی انھوں نے عہدہ نہیں سنبھالا لیکن پرانی یوٹیوب ویڈیوز اور انٹرویوزکی کلپس زیر گردش ہیں، رمیز کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ پہلے کیا کہا تھا، اب عہدہ ہے تو ایسا کر کے دکھائیں، اسی دباؤ کا سامنا چیف سلیکٹر محمد وسیم کو بھی کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے انھیں 36 سال کی عمر میں تابش خان کو ٹیسٹ کیپ پہنانا پڑی، ملکی کرکٹ کے حالات سے ناخوش وزیر اعظم نے یقیناً سوچ سمجھ کر انھیں عہدہ سونپنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
رمیز راجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں، کمنٹری کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اگر حفیظ نے ''کرکٹ پاکستان'' کو انٹرویو میں یہ کہا کہ ''رمیز سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ میرے 12 سالہ بیٹے کو ہے'' تو اس سے یہ اندازہ نہیں لگائیں کہ سابق کپتان کھیل کو زیادہ نہیں جانتے، یقیناً وہ تمام باریکیوں سے واقف ہیں جس کا اندازہ یوٹیوب ویڈیوز سے لگایا جا سکتا ہے، رمیز راجہ کو کرکٹ کے حلقوں میں ''ریمبو'' کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن وہ چیئرمین بننے کے بعد ریمبو کی طرح کے کام نہیں کریں گے۔
بورڈ کا جو بھی سربراہ آئے وہ آتے ہی تبدیلیوں سے گریز کرتا ہے، احسان مانی نے بھی سی او او سبحان احمد کو عہدے سے ہٹانے میں ایک برس لیا تھا، رمیز بھی کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اسٹروکس کھیلیں گے، رمیز راجہ کے پسندیدہ اداکار شاہ رخ خان کی ایک فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے کہ ''ہر ٹیم کا ایک غنڈہ ہوتا ہے اور اس ٹیم کا غنڈہ میں ہوں'' غنڈہ چونکہ معیوب لفظ ہے لہذا یہاں اسے لیڈر سے تبدیل کر دیتے ہیں، پی سی بی میں وسیم خان سی ای او کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، احسان مانی چونکہ نان کرکٹر تھے اس لیے وسیم چل گئے۔
اب رمیز کے آنے پر شاید آئندہ سال ان کی خدمات کو سراہنے اور مستقبل کیلیے نیک خواہشات کا پریس ریلیز سامنے آ جائے، رمیز چونکہ خود سابق کرکٹر ہیں اس لیے کرکٹرز و بورڈز سے ان کے اپنے تعلقات بھی ہیں، جو کام وسیم کر رہے ہیں وہ رمیز خود ہی کرنا پسند کریں گے، خیر وسیم خان کے حکومت میں شامل ''دوست'' اب پھر اعلیٰ شخصیات کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں شاید وہ انھیں بچا لیں لیکن فی الحال ایسا مشکل ہی لگتا ہے۔
اسی طرح چیف سلیکٹر محمد وسیم، ہائی پرفارمنس سینٹر کے سربراہ ندیم خان سمیت اپنے لیول سے زیادہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والی ملازمین وکوچز کی فوج میں بھی تبدیلیاں ہوں گی،ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو جب ماضی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کی پوسٹ سے ہٹایا گیا تھا تب بورڈ کے سی ای او رمیز راجہ ہی تھے،دیکھتے ہیں اب وہ اپنی ٹیم بنانے کیلیے کس کس کو گھر بھیجتے ہیں، رمیز خود ماضی میں مصباح الحق کے انداز کوچنگ پر سوال اٹھا چکے،شاید ان کے دن بھی اب گنے جا چکے ہیں۔
آپ یوٹیوب پر سرچ کریں تو رمیز راجہ اور محمد یوسف کی لڑائی والی ویڈیو آسانی سے مل جائے گی، اس میں یوسف نے ایک ٹی وی شو کے دوران سابق کپتان کو ''کرکٹ کی سمجھ بوجھ سے عاری ایک انگریزی کا استاد قرار دیا تھا'' اس پر غصے سے آگ بگولہ رمیز نے جواب میں جوکہا وہ یہاں تحریر بھی نہیں کیا جا سکتا، ہائی پرفارمنس سینٹر کے بیٹنگ کوچ یوسف کو بھی اب اپنی پوزیشن کی فکر لاحق ہو گئی ہوگی، رمیز ہمیشہ کرپشن میں سزا یافتہ کرکٹرز کی قومی ٹیم میں شمولیت کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں۔
انھوں نے تو فکسنگ روکنے کیلیے جھوٹ پکڑنے والی مشین کے استعمال کا بھی مشورہ دے دیا تھا دیکھتے ہیں اب عہدہ ملنے کے بعد کیا اقدامات کرتے ہیں،اگر وہ طویل عرصے سے زیرالتوا اسپورٹس کرپشن پر سزا کا قانون پاس کرانے کیلیے ہی کوشش کریں تو بڑی بات ہوگی،کمنٹری کی وجہ سے انھیں بھارت میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہاں ان کے کافی دوست بھی موجود ہیں،چند دن قبل تک وہ پاکستان میں بھی بھارتی نمبر والا واٹس ایپ استعمال کر رہے تھے جسے اب تبدیل کر دیا ہے۔
البتہ ان دوستیوں کا دونوں ممالک کی باہمی کرکٹ کے احیا میں شاید ہی کوئی فائدہ ہو، شہریار خان کے بھی بھارت میں بہت جاننے والے تھے لیکن ان کو ملاقات کیلیے بلا کر بھارتی بورڈ نے واپس بھجوا دیا تھا، جب حکومتوں کے تعلقات درست ہوئے تو محمد وسیم کو بھی چیئرمین بورڈ بنا دیں پاک بھارت سیریزکا احیا ہو جائے گا،احسان مانی کے دور میں ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم تبدیل ہونے سے ہزاروں کرکٹرز بے روزگار ہوئے لیکن چونکہ ایسا کرنے کا وزیر اعظم نے ہی کہا تھا لہذا رمیز بھی تبدیلی کی ہمت نہیں کر سکتے،پی ایس ایل مسائل میں گھری ہوئی ہے۔
فرنچائزز سے بورڈ کے تعلقات ٹھیک نہیں، لیگ کے معاملات بہتر بنانا نامزد چیئرمین کیلیے بڑا چیلنج ہوگا،تینوں طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری بنانا ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے،رمیز راجہ ایک اوسط درجے کے کرکٹر تھے لیکن اب بطور منتظم انھیں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا،بصورت دیگر وزیر اعظم کو پھر کوئی نیا چیئرمین تلاش کرنا پڑ سکتا ہے، امید ہے ایسا نہیں ہوگا اور رمیز پی سی بی میں کامیاب اننگز کھیلیں گے۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔
وہ دیگر اسٹاف سے بھی یہی توقع کرتے کہ وہ وقت کی پابندی کرے، یہی رمیز راجہ کا انداز تھا، پی سی بی میں ان کی پہلی اننگز بطور چیف ایگزیکٹیو تھی،بظاہرکمنٹری سے روکنے پر انھیں عہدہ چھوڑنا پڑا تھا، اب وہ چیئرمین کی حیثیت سے 13 ستمبر کو ذمہ داری سنبھالیں گے، راجہ جی کو اب سنبھل کر چلنا پڑے گا۔
ماضی اور اب میں زمین آسمان کا فرق ہے، پہلے گنتی کے چند صحافی ہوا کرتے تھے اب الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کا دور ہے، ابھی انھوں نے عہدہ نہیں سنبھالا لیکن پرانی یوٹیوب ویڈیوز اور انٹرویوزکی کلپس زیر گردش ہیں، رمیز کو یاد دلایا جا رہا ہے کہ پہلے کیا کہا تھا، اب عہدہ ہے تو ایسا کر کے دکھائیں، اسی دباؤ کا سامنا چیف سلیکٹر محمد وسیم کو بھی کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے انھیں 36 سال کی عمر میں تابش خان کو ٹیسٹ کیپ پہنانا پڑی، ملکی کرکٹ کے حالات سے ناخوش وزیر اعظم نے یقیناً سوچ سمجھ کر انھیں عہدہ سونپنے کا فیصلہ کیا ہوگا۔
رمیز راجہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں، کمنٹری کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں انھیں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اگر حفیظ نے ''کرکٹ پاکستان'' کو انٹرویو میں یہ کہا کہ ''رمیز سے زیادہ کرکٹ کی سمجھ بوجھ میرے 12 سالہ بیٹے کو ہے'' تو اس سے یہ اندازہ نہیں لگائیں کہ سابق کپتان کھیل کو زیادہ نہیں جانتے، یقیناً وہ تمام باریکیوں سے واقف ہیں جس کا اندازہ یوٹیوب ویڈیوز سے لگایا جا سکتا ہے، رمیز راجہ کو کرکٹ کے حلقوں میں ''ریمبو'' کے نام سے پکارا جاتا ہے لیکن وہ چیئرمین بننے کے بعد ریمبو کی طرح کے کام نہیں کریں گے۔
بورڈ کا جو بھی سربراہ آئے وہ آتے ہی تبدیلیوں سے گریز کرتا ہے، احسان مانی نے بھی سی او او سبحان احمد کو عہدے سے ہٹانے میں ایک برس لیا تھا، رمیز بھی کریز پر سیٹ ہونے کے بعد اسٹروکس کھیلیں گے، رمیز راجہ کے پسندیدہ اداکار شاہ رخ خان کی ایک فلم کا مشہور ڈائیلاگ ہے کہ ''ہر ٹیم کا ایک غنڈہ ہوتا ہے اور اس ٹیم کا غنڈہ میں ہوں'' غنڈہ چونکہ معیوب لفظ ہے لہذا یہاں اسے لیڈر سے تبدیل کر دیتے ہیں، پی سی بی میں وسیم خان سی ای او کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں، احسان مانی چونکہ نان کرکٹر تھے اس لیے وسیم چل گئے۔
اب رمیز کے آنے پر شاید آئندہ سال ان کی خدمات کو سراہنے اور مستقبل کیلیے نیک خواہشات کا پریس ریلیز سامنے آ جائے، رمیز چونکہ خود سابق کرکٹر ہیں اس لیے کرکٹرز و بورڈز سے ان کے اپنے تعلقات بھی ہیں، جو کام وسیم کر رہے ہیں وہ رمیز خود ہی کرنا پسند کریں گے، خیر وسیم خان کے حکومت میں شامل ''دوست'' اب پھر اعلیٰ شخصیات کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں شاید وہ انھیں بچا لیں لیکن فی الحال ایسا مشکل ہی لگتا ہے۔
اسی طرح چیف سلیکٹر محمد وسیم، ہائی پرفارمنس سینٹر کے سربراہ ندیم خان سمیت اپنے لیول سے زیادہ لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لینے والی ملازمین وکوچز کی فوج میں بھی تبدیلیاں ہوں گی،ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی کو جب ماضی میں میڈیا ڈپارٹمنٹ کی پوسٹ سے ہٹایا گیا تھا تب بورڈ کے سی ای او رمیز راجہ ہی تھے،دیکھتے ہیں اب وہ اپنی ٹیم بنانے کیلیے کس کس کو گھر بھیجتے ہیں، رمیز خود ماضی میں مصباح الحق کے انداز کوچنگ پر سوال اٹھا چکے،شاید ان کے دن بھی اب گنے جا چکے ہیں۔
آپ یوٹیوب پر سرچ کریں تو رمیز راجہ اور محمد یوسف کی لڑائی والی ویڈیو آسانی سے مل جائے گی، اس میں یوسف نے ایک ٹی وی شو کے دوران سابق کپتان کو ''کرکٹ کی سمجھ بوجھ سے عاری ایک انگریزی کا استاد قرار دیا تھا'' اس پر غصے سے آگ بگولہ رمیز نے جواب میں جوکہا وہ یہاں تحریر بھی نہیں کیا جا سکتا، ہائی پرفارمنس سینٹر کے بیٹنگ کوچ یوسف کو بھی اب اپنی پوزیشن کی فکر لاحق ہو گئی ہوگی، رمیز ہمیشہ کرپشن میں سزا یافتہ کرکٹرز کی قومی ٹیم میں شمولیت کی مخالفت کرتے چلے آئے ہیں۔
انھوں نے تو فکسنگ روکنے کیلیے جھوٹ پکڑنے والی مشین کے استعمال کا بھی مشورہ دے دیا تھا دیکھتے ہیں اب عہدہ ملنے کے بعد کیا اقدامات کرتے ہیں،اگر وہ طویل عرصے سے زیرالتوا اسپورٹس کرپشن پر سزا کا قانون پاس کرانے کیلیے ہی کوشش کریں تو بڑی بات ہوگی،کمنٹری کی وجہ سے انھیں بھارت میں بھی بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، وہاں ان کے کافی دوست بھی موجود ہیں،چند دن قبل تک وہ پاکستان میں بھی بھارتی نمبر والا واٹس ایپ استعمال کر رہے تھے جسے اب تبدیل کر دیا ہے۔
البتہ ان دوستیوں کا دونوں ممالک کی باہمی کرکٹ کے احیا میں شاید ہی کوئی فائدہ ہو، شہریار خان کے بھی بھارت میں بہت جاننے والے تھے لیکن ان کو ملاقات کیلیے بلا کر بھارتی بورڈ نے واپس بھجوا دیا تھا، جب حکومتوں کے تعلقات درست ہوئے تو محمد وسیم کو بھی چیئرمین بورڈ بنا دیں پاک بھارت سیریزکا احیا ہو جائے گا،احسان مانی کے دور میں ڈومیسٹک کرکٹ سسٹم تبدیل ہونے سے ہزاروں کرکٹرز بے روزگار ہوئے لیکن چونکہ ایسا کرنے کا وزیر اعظم نے ہی کہا تھا لہذا رمیز بھی تبدیلی کی ہمت نہیں کر سکتے،پی ایس ایل مسائل میں گھری ہوئی ہے۔
فرنچائزز سے بورڈ کے تعلقات ٹھیک نہیں، لیگ کے معاملات بہتر بنانا نامزد چیئرمین کیلیے بڑا چیلنج ہوگا،تینوں طرز کی کرکٹ میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں بہتری بنانا ان کی اولین ترجیح ہونی چاہیے،رمیز راجہ ایک اوسط درجے کے کرکٹر تھے لیکن اب بطور منتظم انھیں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا پڑے گا،بصورت دیگر وزیر اعظم کو پھر کوئی نیا چیئرمین تلاش کرنا پڑ سکتا ہے، امید ہے ایسا نہیں ہوگا اور رمیز پی سی بی میں کامیاب اننگز کھیلیں گے۔
نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں۔