دوران حمل غلط نظریات کی درستگی ضروری ڈاکٹرز مریضوں کو حقائق بنائیں مقررین
حاملہ خواتین ورزش لازمی کریں، ڈاکٹرعائشہ، وزن کنٹرول میں رکھیں، ڈاکٹر روبینہ سہیل
دوران حمل اور بچوں کی ابتدائی نشوونما کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانیوالے سائنسی طور پر غیر تحقیق شدہ غلط نظریات کو درست کرنا ضروری ہے۔ حاملہ خواتین مکمل بیڈ ریسٹ کے بجائے روزانہ تیس منٹ ہلکی پھلکی واک لازمی کریں اور صحت بخش متوازن غذا لیں۔ حاملہ خواتین سمیت ہر کسی کو کیلشیم کا استعمال لازمی کرنا چاہیے۔
دوران حمل پائے جانے والے توہم پرست نظریات اور اصل حقائق و بچوں کی ابتدائی افزائش کے موضوع پر ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے زیر اہتمام Martin Dow اور سوسائٹی آف آبسٹیٹریشئینزاینڈ گائناکالوجسٹس آف پاکستان (ایس او جی پی)کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں سمپوزیم کا انعقاد کیا گیاجس میں ڈاکٹرز، میڈیکل طلبہ اور عام شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
سمپوزیم سے خطاب میںایس او جی پی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان نے کہا کہ پاکستان میں دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں بتائی اور سکھائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسطرح کے سمپوزیم نہ صرف عام لوگوں بلکہ ڈاکٹروں کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ سمپوزیم میں ہونے والی تقاریر سے یقینا عام لوگوں اور ڈاکٹروں میں پائے جانیوالے سائنسی طور پر غیر تحقیق شدہ اور غلط نظریات کو درست کرنے میں خاصی مدد ملیگی۔
چیئرمین ایس او جی پی لاہور پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد چوہان نے کہا کہ پاکستان میں بے انتہا غیر سائنسی اور غیر تصدیق شدہ نظریات اور توہم پرستی پائی جاتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ اور ناخواندہ طبقہ دونوں ہی ان غلط نظریات سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ان کو آگے بھی مسلسل پھیلا رہے ہیں، سائنسی ترقی کے باوجود ابھی بھی ہر چیز کا علم نامکمل ہے لیکن ڈاکٹر حضرات اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ مریض کے پوچھنے پر من گھڑت جواب دے دیتے ہیں جو غلط نظریہ بن جاتا ہے، ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ اپنے علم پر اعتماد رکھیں اور مریضوں کو اصل حقائق بتانے کی جرات پیدا کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 1956ء میں قائم ہماری سوسائٹی کا مقصد معیاری ڈاکٹر پیدا کرنا ہے اور یہ کام دوا ساز کمپنیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ مختلف موضوعات پر ریسرچ، کانفرنسز اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد انہی کمپنیوں کے تعاون سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
ایس او جی پی کی ایگزیکٹو ممبر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ سہیل نے کہا کہ دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ نہانا نہیں ہے، سیڑھیاں نہیں چڑھنا، بالوں کو ڈائی نہیں کرنا، رکشے پر اور ہوائی سفر نہیں کرنا، گرم چیزوں سے لازمی پرہیز کرنا ہے اور حمل کے پہلے تین ماہ کے دوران مکمل بیڈ ریسٹ کرنا ہے اور یہ سب باتیں غلط نظریات پر مبنی ہیں۔
یہ سائنسی طور پر تصدیق شدہ حقائق ہیں کہ دوران حمل خواتین کو روزانہ 30 منٹ تک ہلکی پھلکی واک لازمی کرنی چاہیے۔ پانی زیادہ پئیں اور سوئمنگ، گھڑ سواری، سائیکلنگ اور آئس ہاکی جیسے کھیل کھیلتے وقت لازمی احتیاط کریں۔ یہ بھی غلط نظریہ ہے کہ حاملہ خاتون کو دو لوگوں کے برابر اس لیے کھانا چاہیے کہ ایک حصہ اس کے بچے کے لئے ہوتا ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حاملہ عورت کو نہ تو زیادہ کھانا چاہیے اور نہ ہی ڈائٹنگ کرنی چاہیے بلکہ مناسب، صحت بخش غذا لینی چاہیے اور وزن کنٹرول میں رکھنا چاہیے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائناکالوجی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ملک نے کہا کہ پاکستان میں ایک ڈاکٹر کو روزانہ کم و بیش 60 مریضوں کو چیک کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پاس حاملہ خواتین کی کونسلنگ کا مناسب وقت نہیں بچتا جبکہ یورپ میں ایک ڈاکٹر صرف 6 سے 7 مریضوں کو چیک کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کی مکمل کونسلنگ کر سکتا ہے۔
حاملہ خواتین کو چاہیے کہ ازخود تجویز کردہ ادویات نہ کھائیں۔ متوازن غذا لیں اور ورزش لازمی کریں۔ بچوں میں مناسب وقفہ نہ ہونے سے ماں کی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ دوران حمل آلو، چاول، چینی، بیکری و حلوائی کی مصنوعات اور سافٹ ڈرنک نہیں لینی چاہیے بلکہ گھر کی سادہ خوراک استعمال کی جائے۔ فولک ایسڈ، وٹامن ڈی، آئرن، وٹامن سی، کیلشیم اور وٹامن بی 12 کا استعمال کرنا چاہیے۔ خواتین زیادہ اور تین ٹائم کھانے کے بجائے 6 مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کر کے کھائیں اور ورزش لازمی کریں۔ اسکول و کالج جانے والی نوجوان لڑکیوں کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
سر گنگا رام ہسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائناکالوجی کی سربراہ اور ایس او جی پی پنجاب کی نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں نے کہا کہ کیلشیم حاملہ خواتین سمیت ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہم اپنے بچوں کو برگر، شوارمے اور بوتلیں تو پلا رہے ہیں لیکن کیلشیم نہیں دے رہے حالانکہ یہ سب سے اہم منرل ہے۔ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک کیلشیم کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے۔ 18 سے 20 سال کی عمر تک ہڈیوں کی 90 فیصد تک افزائش ہو جاتی ہے جبکہ 35 سے 40 سال کی عمر میں باقی 10 فیصد ہڈیوں کہ افزائش ہوتی ہے۔
کیلشیم صرف ہڈیوں کے لئے ہی نہیں مکمل صحت کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ بھوک کم لگنا، ہاتھ پاؤں سوجنا، سستی و کاہلی، دل کے امراض، ہڈیوں کا ٹوٹنے کی علامات ظاہر ہوں تو یہ کیلشیم کی کمی کی وجوہات ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مردوں میں عالمی طور پر طے شدہ مقدار سے 50 فیصد کم کیلشیم استعمال کی جاتی ہے جبکہ خواتین میں اس کی شرح 51 فیصد اور حاملہ خواتین میں 58 فیصد ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔
چلڈرن ہسپتال ملتان کے شعبہ امراض بچہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حسن سلیمان نے کہا کہ ماں کی صحت بچے کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد بچے کو پہلے 6 ماہ صرف اور صرف ماہ کا دودھ پلایا جائے اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس لازمی کرایا جائے۔ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے 3 سال بہت اہم ہوتے ہیں۔
Martin Dow کے گروپ ایم ڈی و چیف ایگزیکٹو آفیسر جاوید غلام محمد نے تمام مقررین کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ موضوع پاکستان میں کبھی بھی زیربحث نہیں رہا حالانکہ زچہ و بچہ کی صحت ہر خاندان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتی ہے۔ مریضوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار پاکستان کے واحد ملٹی نیشنل دوا ساز گروپ Martin Dow نے اس موضوع پر سیمینار کر کے کارپوریٹ معاشرتی ذمہ داری کے تحت اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ایس او جی پی لاہور کی جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر شہلا انور نے نظامت کے فرائض سرانجام دئیے اور کہا کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں بہت سے غلط نظریات پائے جاتے ہیں لیکن حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لازمی لگوانی چاہیے جو مکمل طور پر محفوظ ہے۔
سمپوزیم کے دوران ایس او جی پی کی صدر پروفیسر ڈاکٹر رضیہ کوریجہ کا ویڈیو پیغام سنایا گیا جس میں انہوں نے معاشرے میں پائے جانے والے غلط نظریات کے خاتمے کے لئے ایسے سمپوزیم کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
آخر میں Martin Dow کی گروپ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعم اکھائی نے سمپوزیم میں شرکت کرنے والے مہمانوںکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا گروپ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ سمپوزیم کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان نے مقررین میں شیلڈز تقسیم کیں۔
دوران حمل پائے جانے والے توہم پرست نظریات اور اصل حقائق و بچوں کی ابتدائی افزائش کے موضوع پر ''ایکسپریس میڈیا گروپ'' کے زیر اہتمام Martin Dow اور سوسائٹی آف آبسٹیٹریشئینزاینڈ گائناکالوجسٹس آف پاکستان (ایس او جی پی)کے تعاون سے مقامی ہوٹل میں سمپوزیم کا انعقاد کیا گیاجس میں ڈاکٹرز، میڈیکل طلبہ اور عام شہریوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔
سمپوزیم سے خطاب میںایس او جی پی کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان نے کہا کہ پاکستان میں دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں بتائی اور سکھائی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا، اسطرح کے سمپوزیم نہ صرف عام لوگوں بلکہ ڈاکٹروں کے لئے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ سمپوزیم میں ہونے والی تقاریر سے یقینا عام لوگوں اور ڈاکٹروں میں پائے جانیوالے سائنسی طور پر غیر تحقیق شدہ اور غلط نظریات کو درست کرنے میں خاصی مدد ملیگی۔
چیئرمین ایس او جی پی لاہور پروفیسر ڈاکٹر محمد ارشد چوہان نے کہا کہ پاکستان میں بے انتہا غیر سائنسی اور غیر تصدیق شدہ نظریات اور توہم پرستی پائی جاتی ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ اور ناخواندہ طبقہ دونوں ہی ان غلط نظریات سے نہ صرف متاثر ہیں بلکہ ان کو آگے بھی مسلسل پھیلا رہے ہیں، سائنسی ترقی کے باوجود ابھی بھی ہر چیز کا علم نامکمل ہے لیکن ڈاکٹر حضرات اس کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ مریض کے پوچھنے پر من گھڑت جواب دے دیتے ہیں جو غلط نظریہ بن جاتا ہے، ڈاکٹروں کو چاہیے کہ وہ اپنے علم پر اعتماد رکھیں اور مریضوں کو اصل حقائق بتانے کی جرات پیدا کریں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 1956ء میں قائم ہماری سوسائٹی کا مقصد معیاری ڈاکٹر پیدا کرنا ہے اور یہ کام دوا ساز کمپنیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ مختلف موضوعات پر ریسرچ، کانفرنسز اور سیمینار وغیرہ کا انعقاد انہی کمپنیوں کے تعاون سے ہی ممکن ہوتا ہے۔
ایس او جی پی کی ایگزیکٹو ممبر پروفیسر ڈاکٹر روبینہ سہیل نے کہا کہ دوران حمل خواتین کو ایسی ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ نہانا نہیں ہے، سیڑھیاں نہیں چڑھنا، بالوں کو ڈائی نہیں کرنا، رکشے پر اور ہوائی سفر نہیں کرنا، گرم چیزوں سے لازمی پرہیز کرنا ہے اور حمل کے پہلے تین ماہ کے دوران مکمل بیڈ ریسٹ کرنا ہے اور یہ سب باتیں غلط نظریات پر مبنی ہیں۔
یہ سائنسی طور پر تصدیق شدہ حقائق ہیں کہ دوران حمل خواتین کو روزانہ 30 منٹ تک ہلکی پھلکی واک لازمی کرنی چاہیے۔ پانی زیادہ پئیں اور سوئمنگ، گھڑ سواری، سائیکلنگ اور آئس ہاکی جیسے کھیل کھیلتے وقت لازمی احتیاط کریں۔ یہ بھی غلط نظریہ ہے کہ حاملہ خاتون کو دو لوگوں کے برابر اس لیے کھانا چاہیے کہ ایک حصہ اس کے بچے کے لئے ہوتا ہے بلکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ حاملہ عورت کو نہ تو زیادہ کھانا چاہیے اور نہ ہی ڈائٹنگ کرنی چاہیے بلکہ مناسب، صحت بخش غذا لینی چاہیے اور وزن کنٹرول میں رکھنا چاہیے۔
کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائناکالوجی کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر عائشہ ملک نے کہا کہ پاکستان میں ایک ڈاکٹر کو روزانہ کم و بیش 60 مریضوں کو چیک کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پاس حاملہ خواتین کی کونسلنگ کا مناسب وقت نہیں بچتا جبکہ یورپ میں ایک ڈاکٹر صرف 6 سے 7 مریضوں کو چیک کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان کی مکمل کونسلنگ کر سکتا ہے۔
حاملہ خواتین کو چاہیے کہ ازخود تجویز کردہ ادویات نہ کھائیں۔ متوازن غذا لیں اور ورزش لازمی کریں۔ بچوں میں مناسب وقفہ نہ ہونے سے ماں کی صحت ٹھیک نہیں رہتی۔ دوران حمل آلو، چاول، چینی، بیکری و حلوائی کی مصنوعات اور سافٹ ڈرنک نہیں لینی چاہیے بلکہ گھر کی سادہ خوراک استعمال کی جائے۔ فولک ایسڈ، وٹامن ڈی، آئرن، وٹامن سی، کیلشیم اور وٹامن بی 12 کا استعمال کرنا چاہیے۔ خواتین زیادہ اور تین ٹائم کھانے کے بجائے 6 مختلف اوقات میں تھوڑا تھوڑا کر کے کھائیں اور ورزش لازمی کریں۔ اسکول و کالج جانے والی نوجوان لڑکیوں کی صحت پر خصوصی توجہ دی جائے۔
سر گنگا رام ہسپتال اور فاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی کے شعبہ گائناکالوجی کی سربراہ اور ایس او جی پی پنجاب کی نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر شمسہ ہمایوں نے کہا کہ کیلشیم حاملہ خواتین سمیت ہر کسی کے لئے بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہم اپنے بچوں کو برگر، شوارمے اور بوتلیں تو پلا رہے ہیں لیکن کیلشیم نہیں دے رہے حالانکہ یہ سب سے اہم منرل ہے۔ پیدائش سے لے کر مرتے دم تک کیلشیم کی ضرورت ہر انسان کو ہوتی ہے۔ 18 سے 20 سال کی عمر تک ہڈیوں کی 90 فیصد تک افزائش ہو جاتی ہے جبکہ 35 سے 40 سال کی عمر میں باقی 10 فیصد ہڈیوں کہ افزائش ہوتی ہے۔
کیلشیم صرف ہڈیوں کے لئے ہی نہیں مکمل صحت کے لئے بھی بہت ضروری ہے۔ بھوک کم لگنا، ہاتھ پاؤں سوجنا، سستی و کاہلی، دل کے امراض، ہڈیوں کا ٹوٹنے کی علامات ظاہر ہوں تو یہ کیلشیم کی کمی کی وجوہات ہوتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مردوں میں عالمی طور پر طے شدہ مقدار سے 50 فیصد کم کیلشیم استعمال کی جاتی ہے جبکہ خواتین میں اس کی شرح 51 فیصد اور حاملہ خواتین میں 58 فیصد ہے جس پر توجہ دی جانی چاہیے۔
چلڈرن ہسپتال ملتان کے شعبہ امراض بچہ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر حسن سلیمان نے کہا کہ ماں کی صحت بچے کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد بچے کو پہلے 6 ماہ صرف اور صرف ماہ کا دودھ پلایا جائے اور حفاظتی ٹیکوں کا کورس لازمی کرایا جائے۔ بچے کی پیدائش کے بعد پہلے 3 سال بہت اہم ہوتے ہیں۔
Martin Dow کے گروپ ایم ڈی و چیف ایگزیکٹو آفیسر جاوید غلام محمد نے تمام مقررین کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ موضوع پاکستان میں کبھی بھی زیربحث نہیں رہا حالانکہ زچہ و بچہ کی صحت ہر خاندان کے لئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوتی ہے۔ مریضوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار پاکستان کے واحد ملٹی نیشنل دوا ساز گروپ Martin Dow نے اس موضوع پر سیمینار کر کے کارپوریٹ معاشرتی ذمہ داری کے تحت اپنا بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ایس او جی پی لاہور کی جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر شہلا انور نے نظامت کے فرائض سرانجام دئیے اور کہا کہ کورونا ویکسین کے حوالے سے بھی ہمارے ہاں بہت سے غلط نظریات پائے جاتے ہیں لیکن حاملہ خواتین کو کورونا ویکسین لازمی لگوانی چاہیے جو مکمل طور پر محفوظ ہے۔
سمپوزیم کے دوران ایس او جی پی کی صدر پروفیسر ڈاکٹر رضیہ کوریجہ کا ویڈیو پیغام سنایا گیا جس میں انہوں نے معاشرے میں پائے جانے والے غلط نظریات کے خاتمے کے لئے ایسے سمپوزیم کی اہمیت سے آگاہ کیا۔
آخر میں Martin Dow کی گروپ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعم اکھائی نے سمپوزیم میں شرکت کرنے والے مہمانوںکا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کا گروپ معاشرے کی بہتری کے لئے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ سمپوزیم کے اختتام پر پروفیسر ڈاکٹر فرخ زمان نے مقررین میں شیلڈز تقسیم کیں۔