وفاق اور سندھ حکومت میں بداعتمادی
دونوں میں بداعتمادی سے سندھ کے عوام ضرور متاثر ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی کی وفاقی اور پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے درمیان 2018 میں ہی بداعتمادی شروع ہوگئی تھی، جسے بعض وفاقی وزیروں نے اپنے اشتعال انگیز بیانات سے پروان چڑھایا اور دعوے شروع کردیے تھے کہ وفاقی حکومت سندھ میں اپنے حلیفوں کی مدد سے جب چاہے گی سندھ حکومت ختم کرا دے گی۔
وفاقی وزیروں کے بیانات کا جواب سندھ کے وزیروں نے وفاقی وزیروں سے بڑھ چڑھ کر دیا اور وفاقی وزیروں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ۔ 2018 کے انتخابات میں کراچی میں غیر متوقع نتائج میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں جس طرح ملی تھیں اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھی قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں، اتنی نشستیں تو ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دور میں بھی نہیں ملی تھیں۔
آصف زرداری کی سربراہی میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت ملی تھی اور ملک میں صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ بالاتروں نے پیپلز پارٹی کو اس لیے سندھ سے واضح کامیابی دلائی تھی تاکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی تیسری حکومت بنا سکے اور سندھ کے اندرونی علاقوں سے پی ٹی آئی کو برائے نام جو کامیابی ملی تھی اس کی وجہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ وہاں کے الیکٹ ایبل کی ذاتی مقبولیت تھی۔ اندرون سندھ جی ڈی اے کے اتحاد کو پی پی کے بعد جو نشستیں ملی تھیں وہ پیر پگاڑا کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد تھا جس میں پی پی سے ناراض سیاسی رہنما اور قوم پرست بھی شامل تھے۔
کراچی سے ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی کو لاکر ایم کیو ایم کو اس کی اوقات دکھا دی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کی شکست ان کے باہمی اختلافات کا بھی نتیجہ تھی۔ پیپلز پارٹی کو اس کے گڑھ لیاری اور ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد ایف بی ایریا میں شکست سے حیرت انگیز طور پر دوچار کرکے دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کو نشستیں دلائی گئی تھیں جب کہ عمران خان کی گلشن اقبال کے حلقے سے کامیابی بھی ممکن نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کو اپنے غیر مقبول حلقوں سے نئی نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور پی ٹی آئی کے لیے تاثر دیا گیا تھا کہ وہ کراچی کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے جب کہ ایسا حقیقت میں نہیں تھا۔ پی ایس پی کو بھی ایم کیو ایم کے حلقوں سے کوئی نشست نہیں ملی تھی جب کہ اسے امید ضرور دلائی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے سندھ میں حکومت بنانے کا امکان تو تھا ہی نہیں مگر وہ ایم کیو ایم کی جگہ اپوزیشن ضرور بن گئی تھی اور ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو پی پی مخالفت میں تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی مجبوری لاحق ہوگئی تھی۔
سندھ میں دوسرے نمبر کے حاصل ہوتے ہی پی ٹی آئی سندھ میں بھی حکومت بنانے کی خواہش مند تھی مگر پی پی کی سندھ اسمبلی میں اکثریت واضح اور پختہ تھی کیونکہ 18 ویں ترمیم سندھ حکومت کی طاقت بن چکی تھی اور پی پی حکومت کی اپنے ارکان پر فراخ دلی کے باعث حکومت مضبوط اور بے فکر تھی اور اسی لیے پی ٹی آئی دھمکیوں کا موثر جواب دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو مکمل یقین تھا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کا کچھ بگاڑ سکے گی اور نہ ہی سندھ میں گورنر راج لگے گا۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم وفاق سے مسلسل مطالبے کرتے آ رہے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لگایا جائے مگر وفاق کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
2013 میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت سے حکومت تھی مگر ان کی حکومت نے سندھ حکومت کو ہٹانے کا کبھی نہیں سوچا اور پی پی نے آسانی سے اپنی مدت مکمل کی مگر 2018 میں تحریک انصاف نے حلیفوں سے مل کر حکومت بنائی اور اس کے وزیروں نے سندھ حکومت ہٹا کر اپنی حکومت کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا اور یہ سلسلہ تین سالوں سے مسلسل جاری ہے جس سے وفاقی اور سندھ حکومت میں بداعتمادی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ سندھ حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے پاس کھیلنے کے لیے سندھ کارڈ بھی ہے جو اندرون سندھ کارآمد بھی ہے۔ وزیر اعظم کراچی کم ہی آتے ہیں اور آتے ہیں تو وزیر اعلیٰ سندھ سے ملنا ہی پسند نہیں کرتے جس کو سندھ میں محسوس کیا جاتا ہے۔ سندھ حکومت پہلے شکایت کرتی تھی کہ وفاق اسے اس کے حصے کے فنڈ نہیں دے رہا۔
اب سندھ حکومت نے سندھ کو پانی کا کوٹہ نہ ملنے کا بھی شور مچا رکھا ہے اور سندھ حکومت اور پی پی قیادت وفاقی حکومت پر سندھ سے ناانصافیوں اور آئینی زیادتیوں کا بھی الزام لگا رہی ہے مگر وفاق 3 سالوں میں سندھ حکومت ختم کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے اور سندھ حکومت مضبوط و مستحکم ہے مگر دونوں میں بداعتمادی سے سندھ کے عوام ضرور متاثر ہو رہے ہیں۔
وفاقی وزیروں کے بیانات کا جواب سندھ کے وزیروں نے وفاقی وزیروں سے بڑھ چڑھ کر دیا اور وفاقی وزیروں سے کبھی مرعوب نہیں ہوئے ۔ 2018 کے انتخابات میں کراچی میں غیر متوقع نتائج میں پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی کی چودہ اور صوبائی اسمبلی کی 21 نشستیں جس طرح ملی تھیں اسی طرح سندھ میں پیپلز پارٹی کو بھی قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں، اتنی نشستیں تو ذوالفقارعلی بھٹو اور بے نظیر بھٹو دور میں بھی نہیں ملی تھیں۔
آصف زرداری کی سربراہی میں سندھ میں پیپلز پارٹی کو سندھ اسمبلی میں واضح اکثریت ملی تھی اور ملک میں صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کے ارکان قومی اسمبلی کو سب سے زیادہ نشستیں ملی تھیں۔
کہا جاتا ہے کہ بالاتروں نے پیپلز پارٹی کو اس لیے سندھ سے واضح کامیابی دلائی تھی تاکہ سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی تیسری حکومت بنا سکے اور سندھ کے اندرونی علاقوں سے پی ٹی آئی کو برائے نام جو کامیابی ملی تھی اس کی وجہ پی ٹی آئی نہیں بلکہ وہاں کے الیکٹ ایبل کی ذاتی مقبولیت تھی۔ اندرون سندھ جی ڈی اے کے اتحاد کو پی پی کے بعد جو نشستیں ملی تھیں وہ پیر پگاڑا کی قیادت میں بننے والا سیاسی اتحاد تھا جس میں پی پی سے ناراض سیاسی رہنما اور قوم پرست بھی شامل تھے۔
کراچی سے ایم کیو ایم کی جگہ پی ٹی آئی کو لاکر ایم کیو ایم کو اس کی اوقات دکھا دی گئی تھی۔ ایم کیو ایم کی شکست ان کے باہمی اختلافات کا بھی نتیجہ تھی۔ پیپلز پارٹی کو اس کے گڑھ لیاری اور ایم کیو ایم کے گڑھ عزیز آباد ایف بی ایریا میں شکست سے حیرت انگیز طور پر دوچار کرکے دونوں حلقوں سے پی ٹی آئی کو نشستیں دلائی گئی تھیں جب کہ عمران خان کی گلشن اقبال کے حلقے سے کامیابی بھی ممکن نہیں تھی۔
پیپلز پارٹی کو اپنے غیر مقبول حلقوں سے نئی نشستوں پر کامیابی ملی تھی اور پی ٹی آئی کے لیے تاثر دیا گیا تھا کہ وہ کراچی کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت ہے جب کہ ایسا حقیقت میں نہیں تھا۔ پی ایس پی کو بھی ایم کیو ایم کے حلقوں سے کوئی نشست نہیں ملی تھی جب کہ اسے امید ضرور دلائی گئی تھی۔ پی ٹی آئی کے سندھ میں حکومت بنانے کا امکان تو تھا ہی نہیں مگر وہ ایم کیو ایم کی جگہ اپوزیشن ضرور بن گئی تھی اور ایم کیو ایم اور جی ڈی اے کو پی پی مخالفت میں تحریک انصاف کا ساتھ دینے کی مجبوری لاحق ہوگئی تھی۔
سندھ میں دوسرے نمبر کے حاصل ہوتے ہی پی ٹی آئی سندھ میں بھی حکومت بنانے کی خواہش مند تھی مگر پی پی کی سندھ اسمبلی میں اکثریت واضح اور پختہ تھی کیونکہ 18 ویں ترمیم سندھ حکومت کی طاقت بن چکی تھی اور پی پی حکومت کی اپنے ارکان پر فراخ دلی کے باعث حکومت مضبوط اور بے فکر تھی اور اسی لیے پی ٹی آئی دھمکیوں کا موثر جواب دیا گیا۔ پیپلز پارٹی کو مکمل یقین تھا کہ وفاقی حکومت سندھ حکومت کا کچھ بگاڑ سکے گی اور نہ ہی سندھ میں گورنر راج لگے گا۔ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم وفاق سے مسلسل مطالبے کرتے آ رہے ہیں کہ سندھ میں گورنر راج لگایا جائے مگر وفاق کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔
2013 میں وفاق میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت سے حکومت تھی مگر ان کی حکومت نے سندھ حکومت کو ہٹانے کا کبھی نہیں سوچا اور پی پی نے آسانی سے اپنی مدت مکمل کی مگر 2018 میں تحریک انصاف نے حلیفوں سے مل کر حکومت بنائی اور اس کے وزیروں نے سندھ حکومت ہٹا کر اپنی حکومت کا خواب دیکھنا شروع کردیا تھا اور یہ سلسلہ تین سالوں سے مسلسل جاری ہے جس سے وفاقی اور سندھ حکومت میں بداعتمادی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ سندھ حکومت کی کارکردگی مثالی نہیں ہے۔ سندھ حکومت کے پاس کھیلنے کے لیے سندھ کارڈ بھی ہے جو اندرون سندھ کارآمد بھی ہے۔ وزیر اعظم کراچی کم ہی آتے ہیں اور آتے ہیں تو وزیر اعلیٰ سندھ سے ملنا ہی پسند نہیں کرتے جس کو سندھ میں محسوس کیا جاتا ہے۔ سندھ حکومت پہلے شکایت کرتی تھی کہ وفاق اسے اس کے حصے کے فنڈ نہیں دے رہا۔
اب سندھ حکومت نے سندھ کو پانی کا کوٹہ نہ ملنے کا بھی شور مچا رکھا ہے اور سندھ حکومت اور پی پی قیادت وفاقی حکومت پر سندھ سے ناانصافیوں اور آئینی زیادتیوں کا بھی الزام لگا رہی ہے مگر وفاق 3 سالوں میں سندھ حکومت ختم کرنے میں مکمل ناکام رہا ہے اور سندھ حکومت مضبوط و مستحکم ہے مگر دونوں میں بداعتمادی سے سندھ کے عوام ضرور متاثر ہو رہے ہیں۔