کراچی کے مسائل

اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ کراچی کی فضاؤں میں سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے۔

اگرچہ مسائل کا شکار تو پورا ملک ہے اور اس میں ہر نوع کے مسائل موجود ہیں، البتہ ہم کوشش کریں گے کہ ان مسائل پر بات کریں جن کا کراچی کے عوام کو سامنا ہے۔

شہر کی آبادکاری میں بھی منصوبہ بندی کا فقدان رہا ہے اور یہ فقدان بھی ہے کہ کراچی شہر بنا منصوبہ بندی کے پھیلتا جا رہا ہے جس کے باعث آج یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ شہر کی آبادی کم و بیش دو کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے ،اگرچہ مسائل پر ایک طائرانہ نگاہ بھی ڈالی جائے تو کیفیت یہ سامنے آتی ہے کہ اول جو مسئلہ درپیش ہے وہ ہے فضائی آلودگی کا۔

اس مسئلے نے اتنی شدت اختیار کرلی ہے کہ کراچی کی فضاؤں میں سانس لینا بھی دشوار ہو چکا ہے اسی فضائی آلودگی کے باعث دمہ، پھیپھڑوں کے امراض کے ساتھ ساتھ دیگر لاتعداد مسائل جنم لے چکے ہیں۔ اب اگر ان اسباب پر غور کیا جائے تو اس فضائی آلودگی کا باعث ہے، شہر میں بڑھتا ہوا ٹریفک اور صنعتی ماحول ٹریفک کا یہ عالم ہے کہ کراچی شہر کی شاہراہوں پر ہمہ وقت ٹریفک جام رہتا ہے، گزشتہ دس بارہ برسوں میں کراچی کی شاہراہوں پر موٹر سا ئیکلوں کی بھرمار ہو چکی ہے۔ اس کا باعث ہے پبلک ٹرانسپورٹ کی بے حد کمی۔

موٹرسا ئیکلوں کی بھرمار کے باعث شہر میں آلودگی میں اضافہ نوٹ کیا جا رہا ہے جب کہ صنعتوں کا دھواں و فضلا اس فضائی آلودگی میں مزید اضافے کا باعث بن رہا ہے، چنانچہ لازم ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں جس کے لیے ضروری ہے کہ گرین لائن بس منصوبہ جوکہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اب تک نامکمل ہے اس منصوبے کو جلد ازجلد مکمل کرکے عوام کے لیے بحال کردیا جائے تاکہ عوام کو ایک بہتر سفری سہولت دستیاب ہو سکے، دوم جو مسئلہ کراچی کے شہریوں کے لیے اذیت کا باعث ہے وہ ہے پانی کی قلت کا۔

پانی وہ چیز ہے جوکہ انسانی زندگی کا اہم جزو ہے بلکہ پانی زندگی ہے، مگر کراچی کی کثیر آبادی پانی کی قلت سے متاثر ہے۔ اسی ضمن میں اگر سیوریج کے پانی کا تذکرہ بھی ہو جائے تو بے محل نہ ہوگا۔ یہ سیوریج کا مسئلہ بھی سنگین صورت اختیار کرچکا ہے جس کے باعث شہر کے کسی بھی علاقے میں جائیں، ابلتے ہوئے گٹر، گلیوں میں بہتا ہوا تعفن زدہ پانی امراض کا باعث بن رہا ہے جب کہ بزرگوں، خواتین و بچوں کے لیے کسی بھی گلی سے اس تعفن زدہ ماحول میں گزرنا و سانس لینا دشوار ہے، سوم جو مسئلہ ہے وہ ہے علاج کی سہولیات کا فقدان۔


شہر میں اگرچہ جناح اسپتال، سول اسپتال، عباسی شہید اسپتال، لیاری جنرل اسپتال موجود ہیں اور ان چار بڑے اسپتالوں کے ساتھ ساتھ چند چھوٹے قابل ذکر اسپتال بھی موجود ہیں مگر یہ تمام اسپتال ڈھائی کروڑ کی آبادی کی سہولیات پوری کرنے سے قاصر ہیں، جب کہ نجی علاج گاہیں بھی ہیں جہاں عام آدمی کے لیے علاج کی سہولت حاصل کرنا ایک مشکل امر ہے کیونکہ ان علاج گاہوں میں فیس ادا کرنا پھر مہنگی مہنگی ادویات کی خریداری ناممکن سی بات ہے، چہارم مسئلہ ہے تعلیم کا حصول، افسوس تعلیمی شعبے کے احوال بھی صحت کے شعبے کی مانند ہے، اگرچہ سرکاری تعلیمی ادارے قائم ہیں ان اداروں کا تعلیمی معیار بھی اچھا ہے مگر یہ تعلیمی ادارے نونہالوں کی تعلیمی ضروریات پوری نہیں کر پا رہے، کیونکہ تعلیمی اداروں کی بے حد قلت ہے۔

البتہ نجی تعلیمی ادارے بھی کثیر تعداد میں ہیں مگر ان تعلیمی اداروں میں حصول تعلیم کے اخراجات اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ادا کرنا عام آدمی کے لیے ناممکن ہے یوں ایک کثیر تعداد حصول تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے۔ ایک اچھی بات یہ دیکھنے میں آئی ہے کہ وفاقی حکومت نے پورے ملک میں اول تا پانچویں جماعت تک معیار تعلیم یکساں نافذ کردیا ہے مگر صوبہ سندھ کی حکومت نے وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ تسلیم کرنے سے انحراف کردیا ہے۔

ہمارے خیال میں ملک بھر میں یکساں تعلیمی نصاب گوکہ پانچویں جماعت تک ہی سہی ایک اچھا اقدام ہے لازمی ہے کہ اس کی پیروی کی جائے جب کہ صداقت تو یہ ہے کہ عصر حاضر میں تعلیم ہر انسان کے لیے لازمی ضرورت ہے، مگر یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے۔

ملک بھر میں ہمارا تعلیمی معیار زوال پذیر ہے۔ پنجم ایک سنگین مسئلہ یہ بھی ہے کہ کراچی میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی، یوں روزگار کے مواقعے کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں جب کہ روزگار ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، چنانچہ لازم ہے کہ کراچی میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے تاکہ ملکی صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی کے شہریوں کو معقول روزگار حاصل ہو سکے۔ ششم مسئلہ ہے کراچی میں جرائم کا۔ گو کہ جرائم کا تعلق غربت سے ہے جیساکہ صدیوں قبل ایک فلسفی ارسطو نے کہا تھا کہ جس سماج میں جیسے جیسے غربت بڑھتی ہے اسی تناسب سے جرائم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔

چنانچہ یہی باعث ہے کہ کراچی میں جرائم میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے روزانہ ہزاروں موبائل فون سے کراچی کے شہری محروم ہو جاتے ہیں سیکڑوں موٹر سائیکلیں، کاریں دن دیہاڑے چھین لی جاتی ہیں۔ دیگر جرائم کے ساتھ ساتھ ایک مسئلہ بھتہ خوری کا بھی ہے اگرچہ یہ ایک سنگین و دیرینہ مسئلہ ہے مگر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ چند پولیس اہلکار بھی اس جرم میں شریک ہیں۔

بھتہ خوری سے جو طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے وہ ہے تاجر برادری و کاروباری حضرات۔ یوں بھی کورونا کے باعث اس طبقے کے لیے کاروبار کو جاری رکھنا بے حد مشکل امر ہے اگرچہ دیگر مسائل بھی بڑی شدت کے ساتھ موجود ہیں البتہ ہم نے کوشش کی ہے کہ چند مسائل کو مختصر الفاظ میں بیان کرسکیں۔ چنانچہ ہمیں امید ہے کہ متعلقہ ادارے اپنی اپنی ذمے داریوں کا ادراک کرتے ہوئے ان بیان کردہ مسائل پر ہمدردی سے غور کریں گے اور ان مسائل کو حل کرنے کی پوری کوشش کریں گے بالخصوص حال ہی میں ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھالنے والے مرتضیٰ وہاب سے کراچی کے عوام نے جو امیدیں وابستہ کی ہیں یقین رکھنا ہوگا کہ وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے اور کراچی کے مسائل پر بھرپور توجہ دیتے ہوئے ان مسائل کو حل کریں گے البتہ ایک مسئلہ شہر میں عوامی بیت الخلا کا بھی ہے ،لازم ہے کہ اس مسئلے پر بھی توجہ دی جائے۔
Load Next Story