وزیر اعظم کو مجوزہ آپریشن پر آرمی چیف کی بریفنگ
آج اپنے ممکنہ خطاب کے حوالے سے حکومتی اعلان کے متعلق آرمی چیف کو اعتماد میں لیا
وزیر اعظم نواز شریف سے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے الگ الگ ملاقات کی اور ملک کی مجموعی سیکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیاجبکہ نوازشریف نے کہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومتوں سمیت تمام سٹیک ہولڈرز دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں وزیر اعظم نوازشریف سے ملاقات کے دوران جنرل راحیل شریف نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انتہا پسندی کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن کے حوالے سے وزیر اعظم کو بریف کیا۔ ملاقات کے دوران پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کیلیے کیے جانے والے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں ہونے والے پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں ہونے والی بات چیت کے تناظر میں حکومتی ترجیحات بھی زیر بحث آئیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آج (بروز بدھ) قومی اسمبلی سے اپنے ممکنہ خطاب کے حوالے سے امن مذاکرات یا فوجی آپریشن ہر دو صورتوں میں حکومتی اعلان اور اقدامات بارے عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا۔ آئی این پی کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ مذاکرات کی خواہش کو کسی طور بھی حکومت کی کمزوری نہ سمجھا جائے، حکومت چاہتی ہے کہ گمراہ ہونیوالے لوگ خود ہی شرپسندی چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ ملاقات کے دوران شرپسندوں کی طرف سے اپنی کارروائیاں بند نہ کرنے کی صورت میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین دہشت گردوں کیخلاف بھرپور جوابی کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آرمی چیف کو ہدایت کی کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلیے ہرممکن اقدامات کئے جائیں اور معصوم شہریوں اور افواج کو نشانہ بنانے والوں کو بھرپور جواب دیا جائے۔نمائندیکے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق بھی ملاقات میں موجود تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت وفاق کے استحکام کیلیے تمام صوبائی حکومتوں کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت کو درپیش مسائل کو سمجھتی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 27 جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والے صوبے کے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاس کے موقع پر منظور کی گئی متفقہ 10 نکاتی مطالباتی قرار داد وزیر اعظم کو پیش کی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کو اس کے حصے کی رقومات بروقت مہیا کی جائیں، پن بجلی کے خالص منافع سمیت تمام بقایا جات بلا تاخیر ادا کیے جائیں اور آئندہ سالوں کیلیے پن بجلی کے منافع کی شرح کو غیر منجمد کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں صوبے کے لیے وفاقی قابل تقسیم پول کی ایک فیصد کی بجائے کم از کم5 فیصد رقم صوبہ خیبر پختونخوا کی دی جائے۔ صوبے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند کیا جائے، آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں بالخصوص کے پی کے کے لیے غربت اور پسماندگی کے فارمولے میں تناسب بڑھا کر کم از کم 15 فیصد کیا جائے، پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے کی روشنی میں صوبے کے 118 ارب روپے کی ادائیگی کی جائے، چشمہ رائٹ کینال اور منڈا ڈیم کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں صوبے کے لیے قرضوں کے حصول میں نرمی پیدا کی جائے۔ سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے لئے فنڈز کے اجراء میں 5 فیصد کی بجائے این ایف سی کے مطابق 14.62 فیصد حصہ دیا جائے۔ حقیقت میں یہ رقم بھی نہیں دی گئی کل 49.17 ارب روپے خرچ ہوئے جو گزشتہ 4 سالہ ترقیاتی پروگرام کا محض 1.44 فیصد بنتا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے ان اعداد و شمار کے حوالے سے حیرانگی کا اظہار کیا اور وزیر اعلیٰ وزیر خزانہ صوبہ خیبر پختونخوا کو یقین دلایا کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال سے میٹنگ کریں گے اور آپ کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا، ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن و امان کے قیام کے سلسلے میں کی جانے والی ہر حکومتی کوشش میں ان کے ساتھ ہیں البتہ ہمارے صوبے کے مالیاتی مطالبات کے تناظر میں اگر 10 فروری کو بلائے گئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے قبل عملی طور پر مثبت پیش رفت نہ کی گئی تو وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اپنی صوبائی کابینہ اور اسمبلی سے رجوع کریں گے۔ انھوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والے جرگہ کے شرکاء اور تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہ کرنے کے حق میں ہیں اور یہی ان کا اجتماعی متفقہ فیصلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سے ملاقات میں انھوں نے صوبے کے تمام مطالبات کھل کر بیان کئے اور وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے تمام مطالبات انتہائی تحمل سے سنے، انھوں نے کہا کہ ہم نے خیبر پختونخوا میں 18 نئے پن بجلی گھر بنانے میں متعلق بھی وزیر اعظم کو اعتماد میں لیں، وزیر اعظم سے منڈا ڈیم، لواری ٹنل سمیت دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی اضافی گیس پر صوبے کو اختیار دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
حتمی فیصلہ اور اعلان وہ اپنے رفقاء سے مشورے کے بعد کریں گے۔ نوشہرہ میں میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک نے کہا کہ وزیر اعظم سے ملاقات خوش آئند اورکامیاب رہی۔ ملاقات میں ملک اور خصوصاً صوبے اور ملحقہ قبائل میں امن وامان کی صورت حال سمیت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مذاکرات کے ذریعے مشترکہ طور پر مسائل کا حل تلاش کیاجائے۔ وزیر اعلیٰ سے کہا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مرکز صوبے کو اعتماد میں لے گا جبکہ صوبے کے پاس جو بھی مثبت تجاویز اور معلومات ہوں گی تواس حوالے سے صوبہ مرکز کو اعتماد میں لے گا۔ اس اہم ایشو پر مرکز اور صوبہ ایک پیج پر ہوں گے وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی اضافی گیس صوبے کو استعمال کرنے کا اختیار دے دیا۔ اے پی پی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے فیصل آباد ڈویژن کے ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کی بامقصد پالیسیوں کے باعث پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی تو ملک تیزی سے ترقی کرے گا، یوتھ بزنس لون سکیم سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار مزید تیز ہو گی۔ فیصل آباد میں ماس ٹرانزٹ کے مسائل سے آگاہ ہیں اور شہر میں میٹرو بس سسٹم شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف چھ ماہ کے طویل وقفے کے بعد آج (بروز بدھ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، وزیر اعظم کی قومی اسمبلی ہال میں آمد کے موقع پر حکومتی اراکین اسمبلی کو اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وزیر اعظم کا بھر پور انداز میں استقبال کیا جائے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم ملک میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال کے بارے میں بالعموم اور انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرنے کے حوالے سے بالخصوص تفصیلی اظہار خیال کریں گے۔ وزیر اعظم پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے علاوہ ان کی عسکری قیادت اور ملک کے اہم سیاسی رہنمائوں سے ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں سامنے آنے والی مجموعی رائے بھی اراکین اسمبلی کے سامنے رکھیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف یکم جون سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد آج آٹھویں بار اسمبلی اجلاس میں شریک ہوں گے۔
ادھر بعض تجزیہ نگار وزیر اعظم نواز شریف کا اسمبلی میں شرکت اور عدم شرکت کے حوالے سے سابق وزرائے اعظم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں حالانکہ ان تمام وزرائے اعظم کے ادوار میں حکومتی فیصلہ سازی کی حقیقی قوت کہیں اور تھی اس لیے اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان میں موجود رہنما ان کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا۔ اب جبکہ وزیر اعظم نواز شریف خود ہی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور تمام تر حکومتی اقدامات کے حوالے سے فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے اس لیے وہ حقیقتاً حکومتی معاملات میں مصروف ہوتے ہیں البتہ مسلسل چھ ماہ تک اسمبلی کا رخ نہ کرنے پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سمیت اکثر ارکان کا ان سے شکوہ جائز تصور کیا جا رہا
ذرائع کے مطابق وزیراعظم ہاؤس میں وزیر اعظم نوازشریف سے ملاقات کے دوران جنرل راحیل شریف نے شمالی اور جنوبی وزیرستان میں انتہا پسندی کے خلاف ممکنہ فوجی آپریشن کے حوالے سے وزیر اعظم کو بریف کیا۔ ملاقات کے دوران پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کیلیے کیے جانے والے اقدامات پر بھی غور کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق واشنگٹن میں ہونے والے پاک امریکہ سٹریٹجک ڈائیلاگ میں ہونے والی بات چیت کے تناظر میں حکومتی ترجیحات بھی زیر بحث آئیں۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آج (بروز بدھ) قومی اسمبلی سے اپنے ممکنہ خطاب کے حوالے سے امن مذاکرات یا فوجی آپریشن ہر دو صورتوں میں حکومتی اعلان اور اقدامات بارے عسکری قیادت کو اعتماد میں لیا۔ آئی این پی کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ مذاکرات کی خواہش کو کسی طور بھی حکومت کی کمزوری نہ سمجھا جائے، حکومت چاہتی ہے کہ گمراہ ہونیوالے لوگ خود ہی شرپسندی چھوڑ کر مرکزی دھارے میں شامل ہوجائیں۔ ملاقات کے دوران شرپسندوں کی طرف سے اپنی کارروائیاں بند نہ کرنے کی صورت میں وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین دہشت گردوں کیخلاف بھرپور جوابی کارروائی پر اتفاق کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آرمی چیف کو ہدایت کی کہ دہشت گردی پر قابو پانے کیلیے ہرممکن اقدامات کئے جائیں اور معصوم شہریوں اور افواج کو نشانہ بنانے والوں کو بھرپور جواب دیا جائے۔نمائندیکے مطابق وزیر اعظم نواز شریف سے وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ملاقات کی۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، صوبائی وزیر خزانہ سراج الحق بھی ملاقات میں موجود تھے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نوازشریف نے کہا کہ ملک کی موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومتوں سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بھر پور اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت وفاق کے استحکام کیلیے تمام صوبائی حکومتوں کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے سلسلے میں خیبر پختونخوا حکومت کو درپیش مسائل کو سمجھتی ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے 27 جنوری کو اسلام آباد میں ہونے والے صوبے کے اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ کے اجلاس کے موقع پر منظور کی گئی متفقہ 10 نکاتی مطالباتی قرار داد وزیر اعظم کو پیش کی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کو اس کے حصے کی رقومات بروقت مہیا کی جائیں، پن بجلی کے خالص منافع سمیت تمام بقایا جات بلا تاخیر ادا کیے جائیں اور آئندہ سالوں کیلیے پن بجلی کے منافع کی شرح کو غیر منجمد کیا جائے۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے مطالبہ کیا کہ این ایف سی ایوارڈ میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی مد میں صوبے کے لیے وفاقی قابل تقسیم پول کی ایک فیصد کی بجائے کم از کم5 فیصد رقم صوبہ خیبر پختونخوا کی دی جائے۔ صوبے میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بند کیا جائے، آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں بالخصوص کے پی کے کے لیے غربت اور پسماندگی کے فارمولے میں تناسب بڑھا کر کم از کم 15 فیصد کیا جائے، پانی کی تقسیم کے 1991ء کے معاہدے کی روشنی میں صوبے کے 118 ارب روپے کی ادائیگی کی جائے، چشمہ رائٹ کینال اور منڈا ڈیم کے لیے فنڈز مہیا کیے جائیں صوبے کے لیے قرضوں کے حصول میں نرمی پیدا کی جائے۔ سالانہ ترقیاتی پروگراموں کے لئے فنڈز کے اجراء میں 5 فیصد کی بجائے این ایف سی کے مطابق 14.62 فیصد حصہ دیا جائے۔ حقیقت میں یہ رقم بھی نہیں دی گئی کل 49.17 ارب روپے خرچ ہوئے جو گزشتہ 4 سالہ ترقیاتی پروگرام کا محض 1.44 فیصد بنتا ہے۔
ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے ان اعداد و شمار کے حوالے سے حیرانگی کا اظہار کیا اور وزیر اعلیٰ وزیر خزانہ صوبہ خیبر پختونخوا کو یقین دلایا کہ وہ ان مطالبات کی روشنی میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر منصوبہ بندی و ترقیات احسن اقبال سے میٹنگ کریں گے اور آپ کے مطالبات پر ہمدردانہ غور کیا جائے گا، ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے وزیر اعظم سے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اور امن و امان کے قیام کے سلسلے میں کی جانے والی ہر حکومتی کوشش میں ان کے ساتھ ہیں البتہ ہمارے صوبے کے مالیاتی مطالبات کے تناظر میں اگر 10 فروری کو بلائے گئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس سے قبل عملی طور پر مثبت پیش رفت نہ کی گئی تو وہ آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے اپنی صوبائی کابینہ اور اسمبلی سے رجوع کریں گے۔ انھوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں ہونے والے جرگہ کے شرکاء اور تمام سیاسی جماعتوں کے اکابرین صوبے کے حقوق کے حصول کے لیے آخری حد تک جانے سے بھی گریز نہ کرنے کے حق میں ہیں اور یہی ان کا اجتماعی متفقہ فیصلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے ''ایکسپریس'' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم سے ملاقات میں انھوں نے صوبے کے تمام مطالبات کھل کر بیان کئے اور وزیر اعظم نواز شریف نے ان کے تمام مطالبات انتہائی تحمل سے سنے، انھوں نے کہا کہ ہم نے خیبر پختونخوا میں 18 نئے پن بجلی گھر بنانے میں متعلق بھی وزیر اعظم کو اعتماد میں لیں، وزیر اعظم سے منڈا ڈیم، لواری ٹنل سمیت دیگر ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز فراہم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے، وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی اضافی گیس پر صوبے کو اختیار دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔
حتمی فیصلہ اور اعلان وہ اپنے رفقاء سے مشورے کے بعد کریں گے۔ نوشہرہ میں میڈیا سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پرویز خان خٹک نے کہا کہ وزیر اعظم سے ملاقات خوش آئند اورکامیاب رہی۔ ملاقات میں ملک اور خصوصاً صوبے اور ملحقہ قبائل میں امن وامان کی صورت حال سمیت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت ہوئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ مذاکرات کے ذریعے مشترکہ طور پر مسائل کا حل تلاش کیاجائے۔ وزیر اعلیٰ سے کہا گیا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے مرکز صوبے کو اعتماد میں لے گا جبکہ صوبے کے پاس جو بھی مثبت تجاویز اور معلومات ہوں گی تواس حوالے سے صوبہ مرکز کو اعتماد میں لے گا۔ اس اہم ایشو پر مرکز اور صوبہ ایک پیج پر ہوں گے وزیر اعظم نے خیبر پختونخوا میں پیدا ہونے والی اضافی گیس صوبے کو استعمال کرنے کا اختیار دے دیا۔ اے پی پی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف سے فیصل آباد ڈویژن کے ارکان قومی اسمبلی نے ملاقات کی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کی بامقصد پالیسیوں کے باعث پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، امن و امان کی صورتحال بہتر ہو گئی تو ملک تیزی سے ترقی کرے گا، یوتھ بزنس لون سکیم سے ملک میں معاشی سرگرمیوں کی رفتار مزید تیز ہو گی۔ فیصل آباد میں ماس ٹرانزٹ کے مسائل سے آگاہ ہیں اور شہر میں میٹرو بس سسٹم شروع کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف چھ ماہ کے طویل وقفے کے بعد آج (بروز بدھ) قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کریں گے، وزیر اعظم کی قومی اسمبلی ہال میں آمد کے موقع پر حکومتی اراکین اسمبلی کو اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ وزیر اعظم کا بھر پور انداز میں استقبال کیا جائے۔ توقع ہے کہ وزیر اعظم ملک میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال کے بارے میں بالعموم اور انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں کے ساتھ مذاکرات یا ان کے خلاف فیصلہ کن آپریشن کرنے کے حوالے سے بالخصوص تفصیلی اظہار خیال کریں گے۔ وزیر اعظم پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے علاوہ ان کی عسکری قیادت اور ملک کے اہم سیاسی رہنمائوں سے ہونے والی بات چیت کے نتیجے میں سامنے آنے والی مجموعی رائے بھی اراکین اسمبلی کے سامنے رکھیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف یکم جون سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد آج آٹھویں بار اسمبلی اجلاس میں شریک ہوں گے۔
ادھر بعض تجزیہ نگار وزیر اعظم نواز شریف کا اسمبلی میں شرکت اور عدم شرکت کے حوالے سے سابق وزرائے اعظم کے ساتھ موازنہ کرتے ہیں حالانکہ ان تمام وزرائے اعظم کے ادوار میں حکومتی فیصلہ سازی کی حقیقی قوت کہیں اور تھی اس لیے اسمبلی اجلاس کے دوران ایوان میں موجود رہنما ان کی ذمے داریوں میں شامل ہوتا۔ اب جبکہ وزیر اعظم نواز شریف خود ہی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں اور تمام تر حکومتی اقدامات کے حوالے سے فیصلہ سازی کا اختیار ان کے پاس ہے اس لیے وہ حقیقتاً حکومتی معاملات میں مصروف ہوتے ہیں البتہ مسلسل چھ ماہ تک اسمبلی کا رخ نہ کرنے پر قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سمیت اکثر ارکان کا ان سے شکوہ جائز تصور کیا جا رہا