ترجمان طالبان کا امیر ہبت اللہ اخوند زادہ سے متعلق بڑا انکشاف
ملا ہبت اللہ اخوند زادہ افغانستان میں طالبان کے کنٹرول حاصل کرنے کے باوجود تاحال منظر عام پر نہیں آئے ہیں
طالبان کے افغانستان فتح کرنے کے باوجود ابھی تک امیر ہبت اللہ اخوند زادہ منظر عام پر نہیں آئے ہیں اس لیے مختلف افواہیں زور پکڑنے لگی ہیں تاہم اب ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے امیر ہبت اللہ اخوندزادہ سے متعلق اہم معلومات میڈیا کو فراہم کردی ہیں۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے طالبان کی کمان 2016 میں سنبھالی تھی جب ملا اختر محمد منصور امریکی ڈرون حملے میں ایران سے پاکستان داخل ہونے کے دوران جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد امیر کے انتخاب کے لیے شدید اختلاف بھی ہوا تھا اور بانی طالبان ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب نے مبینہ طور پر خود کو امارت کے لیے سب موزوں قرار دیا تھا۔
کم عمر اور باتجربہ کار ہونے کی وجہ سے ملا یعقوب کو امیر منتخب نہیں کیا گیا تاہم اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ایسے امیدوار کی تلاش تھی جو سب کے لیے قابل احترام اور قابل قبول ہو۔
ملا ہبت اللہ اخوند زادہ سے بڑھ کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں تھے جو اس معیار پرپوری اترتی ہو اور یہ بات انھوں نے 2016 سے تاحال طالبان کو متحد، منظم اور مضبوط تر بنا کر ثابت بھی کردی۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ درس و تدریس سے منسلک ملا ہبت اللہ بانی طالبان ملا عمر کی طرح منظر عام پر آنا پسند نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی فتح کے بعد بھی وہ میڈیا کے سامنے نہیں آئے ہیں۔
ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کی اس پُراسرار غیر موجودگی پر چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ شاید امیر طالبان جنگ کے دوران شہید تو نہیں ہوگئے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد اس افواہ کو کئی بار مسترد کرچکے ہیں لیکن اب انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ امیر طالبان ملا ہبت اللہ اخوندزادہ شروع دن سے ہی قندھار ہی میں موجود ہیں اور حکومت سازی کی سربراہی کر رہے ہیں اور وہ بہت جلد منظر عام پر آئیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ملا ہبت اللہ اخوندزادہ نے طالبان کی کمان 2016 میں سنبھالی تھی جب ملا اختر محمد منصور امریکی ڈرون حملے میں ایران سے پاکستان داخل ہونے کے دوران جان کی بازی ہار گئے تھے۔
ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد امیر کے انتخاب کے لیے شدید اختلاف بھی ہوا تھا اور بانی طالبان ملا عمر کے صاحبزادے ملا یعقوب نے مبینہ طور پر خود کو امارت کے لیے سب موزوں قرار دیا تھا۔
کم عمر اور باتجربہ کار ہونے کی وجہ سے ملا یعقوب کو امیر منتخب نہیں کیا گیا تاہم اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے ایسے امیدوار کی تلاش تھی جو سب کے لیے قابل احترام اور قابل قبول ہو۔
ملا ہبت اللہ اخوند زادہ سے بڑھ کوئی بھی ایسی شخصیت نہیں تھے جو اس معیار پرپوری اترتی ہو اور یہ بات انھوں نے 2016 سے تاحال طالبان کو متحد، منظم اور مضبوط تر بنا کر ثابت بھی کردی۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ درس و تدریس سے منسلک ملا ہبت اللہ بانی طالبان ملا عمر کی طرح منظر عام پر آنا پسند نہیں کرتے، یہی وجہ ہے کہ افغانستان کی فتح کے بعد بھی وہ میڈیا کے سامنے نہیں آئے ہیں۔
ملا ہبت اللہ اخوندزادہ کی اس پُراسرار غیر موجودگی پر چہ مہ گوئیاں شروع ہوگئی تھیں کہ شاید امیر طالبان جنگ کے دوران شہید تو نہیں ہوگئے۔
ترجمان طالبان ذبیح اللہ مجاہد اس افواہ کو کئی بار مسترد کرچکے ہیں لیکن اب انھوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ امیر طالبان ملا ہبت اللہ اخوندزادہ شروع دن سے ہی قندھار ہی میں موجود ہیں اور حکومت سازی کی سربراہی کر رہے ہیں اور وہ بہت جلد منظر عام پر آئیں گے۔