وہ جنگ جو ہم ہار گئے
امریکا کی طرح دیگر ممالک نے بھی اس جنگ میں مسلمانوں کی تاریخ اور تمدن پر زبردست حملے کیے
15 اگست 2021 تاریخ ساز دن ہے جس نے عالمی سیاست کو ایک دم سے گرما گرمی میں مبتلا کردیا۔ نئے مباحثے اور نئے عنوان لیے یہ واقعہ بہت ہی اہمیت کا حامل رہا۔ اس دن سے لے کر اب تک ایک ہی بنیادی بحث دیکھنے کو ملی جو کہ ابھی تک چل رہی ہے۔ وہ بحث یہ تھی کہ اس بیس سالہ جنگ میں فاتح کون ہے؟ امریکا یا مٹھی بھر طالبان؟ اس سلسلے میں دونوں اطراف سے بے شمار دلائل آپ کو مل سکتے ہیں۔ لیکن اس جنگ کے میدان کے علاوہ ایک ایسا میدان تھا جس میں فتح سو فیصد مغرب اور امریکا کو حاصل ہوئی۔ وہ میدان کون سا تھا؟ وہ میدان تھا میڈیا وار کا، جس کو جدید ترین جنگ تصور کیا جاتا ہے۔ اس جدید ترین جنگ میں میڈیا کا کردار فوجوں سے بھی بڑھ کر تھا۔ کیونکہ اس میڈیا کی مدد سے پوری دنیا کی نفسیات کو ازسرنو تشکیل دیا گیا۔
نائن الیون کے بعد سے پوری دنیا میں مسلم دشمنی کی لاتعداد مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ کہیں مساجد پر حملے تو کہیں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے، کہیں اشتعال انگیزیاں تو کہیں ذہنی تشدد۔ اس نائن الیون کے واقعے کے بعد پوری مسلم امہ پر دقیانوس، تشدد پسند، بنیادپرست اور دہشت گرد ہونے کا دھبہ لگادیا گیا۔ وہ دین اور نظام جس کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے، اس کو مکمل دہشتگردی سے منسوب کردیا گیا۔ اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ اس جنگ میں میڈیا کو ہتھیار بنا کر کس طرح سے نسل نو کی ذہن سازی کی گئی۔
اس جدید میڈیا وار میں سب سے بڑا ہاتھ رہا فلم انڈسٹری اور بالخصوص ہالی ووڈ کا۔ ہالی ووڈ نے (جانے کس کے دباؤ پر) اپنی جنگی فلموں میں ہمیشہ ولن کا کردار کسی مسلم نام یا پہچان والے کو ہی سونپا۔ جابجا فلموں میں دیکھنے کو ملا کہ کس طرح سے امریکی فوج عراق، شام اور افغانستان جیسے جنگ زدہ علاقوں میں برائے نام آپریشن کرتی ہیں اور وہاں کے عوام کو (جس میں بچے اور عورتیں شامل ہیں) کو داڑھی رکھے اور جبہ پہنے شخص سے آزادی دلواتی ہیں۔ کیا یہ ولن کا کردار لازم تھا کہ کسی عبدل، ملا یا مولانا جیسے الفاظ کے ساتھ ہی اسکرین پر نشر کیا جائے؟
صرف یہی نہیں بلکہ فلموں میں انتہائی عیاری سے کام لیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کہ مسلمان بیچارے نہ جانے کس پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ کچی آبادیاں دکھائی جاتی ہیں، سہولتوں کا شدید فقدان اور مظلومیت کی عکس بندی کی جاتی ہے۔ جس سے دیکھنے والوں کے ذہن میں برا تاثر محض مسلمانوں کے تمدن، ان کی ثقافت اور پہچان کے خلاف بنا۔ اگر اس جنگ کی بات کی جائے تو اس کا دفاع بھی ہم لوگوں نے بہت ہی چھوٹی سطح پر کیا ہے جس میں یقینی فتح امریکا اور اس کے پروردہ میڈیا کی ہوئی۔
اس مسلم دشمنی کا واضح ثبوت اس وقت فرانس میں جاری مسلم دشمنی ہے، اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے واقعات بھی اسی کی مثال ہیں، جب بعض جگہ پر تو بنا سوچے سمجھے سکھوں کو ہی تشدد کر کے ہلاک کردیا گیا کیونکہ ان کی داڑھیاں تھیں۔ یہ ان اثرات کی بالکل ادنیٰ سی مثالیں ہیں جو کہ ہم سب نے دیکھ کر بھلا دی ہیں۔
امریکا کی طرح دیگر ممالک نے بھی اسی طرح سے مسلمانوں کی تاریخ اور تمدن پر زبردست حملے کیے۔ جن میں مودی نواز میڈیا اور بالی ووڈ بھی شامل ہے۔ پدماوت، باجی راؤ، پانی پت، ایک تھا ٹائیگر، ٹائیگر زندہ ہے وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار فلموں میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا اور مسلمانوں کو جابر، ظالم، تشدد پسند، انتہاپسند اور دہشت گرد دکھایا گیا۔ مسلم کردارکشی بھی اس چالاک طریقے سے کی گئی جس میں اکثر برے کردار والا داڑھی رکھتا ہو، سرمہ لگاتا ہو اور نماز کی پابندی بھی کرتا ہو۔ اس طرح سے مسلم عبادتوں اور روایات کو بھی دہشتگردی کا نام دیا گیا۔
ذہنی شکستگی کا عالم تو یہ ہے کہ ہم لوگ اس کا مقابلہ کیا کرتے، ہم نے تو اس کو الٹا تسلیم ہی کرلیا۔ آج یہی وجہ ہے کہ جو بھی داڑھی رکھنا چاہے یا مذہب پسندی اختیار کرے تو اس کو بلاجھجک ڈکٹیٹر فلم کے واہیات کردار سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر اس کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام کردینا سراسر جہالت ہے۔
اگر فلم انڈسٹری سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمارے برائے نام دانشمندوں نے بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے میڈیا پر آکر محض اموی اور عباسی خونریزیاں رٹ کر گنوائی ہیں۔ یہ چاہے سچ ہو، مگر دوسری طرف منافقت یہ ہے کہ وہی لوگ مغرب کی خونریزی پر بالکل ایسے خاموش رہتے ہیں جیسے کہ سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہمارے دانشوروں نے مسلم تاریخ کو تو بے شک آڑے ہاتھوں لیا ہے مگر وہیں دوسری طرف ان کی خدمات کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا۔ اگر امویوں، عباسیوں، مغلوں، افغانوں، خلجیوں، سلجوقوں کو قاتل، جابر کہا جاتا ہے تو لیوپولڈ ثانی پر، اسٹالن یا ہسپانوی انکویزیشن، اِنکا تہذیب کی تباہی، ہندوستان میں لوٹ مار کو اور سیکڑوں ایسی داستانوں کو بالکل خاموشی سے اَن دیکھا کردیا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ میڈیا کی جنگ جس میں مغربی میڈیا اور امریکا کو واضح طور پر فتح حاصل رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا سیاسیات، سماجیات، فلسفہ اور تاریخ کا نصاب تقریباً مکمل طور پر ہی مغربی بنیاد پر کھڑا ہے؟ کانٹ، مارکس، روسو اور اس طرح کے بے شمار نام ہمیں ازبر ہیں، مگر مشرقی فلسفیوں کا تعارف تک نہیں۔ یہ بھی ذہنی اور نصابی غلامی کی واضح مثال ہے کہ کون جانتا ہے الفارابی، الغزالی، الزہراوی، ابنِ رشد، ابن خلدون، ابن الہیثم اور ابن سینا کے مایہ ناز کارناموں کو؟ اور سب سے بڑھ کر جو یہ سب باتیں کرے وہ بنیاد پرست قرار پاتا ہے۔
یہ نفسیاتی اور میڈیا وار ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر جگہ پر مسلم دشمنی پنپ رہی ہے۔ اور اس کا سارا سہرا امریکا کی نائن الیون اور بش ڈاکٹرائن کو جاتا ہے۔ وقت کا شدید ترین تقاضا ہے کہ ہم اس بات پر ہنگامی بنیادوں پر قدم اٹھائیں اور خود اپنی آواز بنیں۔ ورنہ پلوں کے نیچے سے پہلے ہی بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ ہمیں اب شدید ضرورت ہے کہ اس پورٹریٹ کو ختم کریں جو گزشتہ دو دہائیوں میں ہم سے منسوب کردیا گیا ہے۔ وگرنہ تمام کوششوں کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو باوقار قوم یا امت نہیں کہہ سکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نائن الیون کے بعد سے پوری دنیا میں مسلم دشمنی کی لاتعداد مثالیں دیکھنے کو ملیں۔ کہیں مساجد پر حملے تو کہیں مسلمانوں کو ملک بدر کرنے کے مطالبے، کہیں اشتعال انگیزیاں تو کہیں ذہنی تشدد۔ اس نائن الیون کے واقعے کے بعد پوری مسلم امہ پر دقیانوس، تشدد پسند، بنیادپرست اور دہشت گرد ہونے کا دھبہ لگادیا گیا۔ وہ دین اور نظام جس کا مطلب ہی امن اور سلامتی ہے، اس کو مکمل دہشتگردی سے منسوب کردیا گیا۔ اب ذرا جائزہ لیتے ہیں کہ اس جنگ میں میڈیا کو ہتھیار بنا کر کس طرح سے نسل نو کی ذہن سازی کی گئی۔
اس جدید میڈیا وار میں سب سے بڑا ہاتھ رہا فلم انڈسٹری اور بالخصوص ہالی ووڈ کا۔ ہالی ووڈ نے (جانے کس کے دباؤ پر) اپنی جنگی فلموں میں ہمیشہ ولن کا کردار کسی مسلم نام یا پہچان والے کو ہی سونپا۔ جابجا فلموں میں دیکھنے کو ملا کہ کس طرح سے امریکی فوج عراق، شام اور افغانستان جیسے جنگ زدہ علاقوں میں برائے نام آپریشن کرتی ہیں اور وہاں کے عوام کو (جس میں بچے اور عورتیں شامل ہیں) کو داڑھی رکھے اور جبہ پہنے شخص سے آزادی دلواتی ہیں۔ کیا یہ ولن کا کردار لازم تھا کہ کسی عبدل، ملا یا مولانا جیسے الفاظ کے ساتھ ہی اسکرین پر نشر کیا جائے؟
صرف یہی نہیں بلکہ فلموں میں انتہائی عیاری سے کام لیتے ہوئے دکھایا جاتا ہے کہ مسلمان بیچارے نہ جانے کس پتھر کے دور میں رہ رہے ہیں۔ کچی آبادیاں دکھائی جاتی ہیں، سہولتوں کا شدید فقدان اور مظلومیت کی عکس بندی کی جاتی ہے۔ جس سے دیکھنے والوں کے ذہن میں برا تاثر محض مسلمانوں کے تمدن، ان کی ثقافت اور پہچان کے خلاف بنا۔ اگر اس جنگ کی بات کی جائے تو اس کا دفاع بھی ہم لوگوں نے بہت ہی چھوٹی سطح پر کیا ہے جس میں یقینی فتح امریکا اور اس کے پروردہ میڈیا کی ہوئی۔
اس مسلم دشمنی کا واضح ثبوت اس وقت فرانس میں جاری مسلم دشمنی ہے، اس کے علاوہ نیوزی لینڈ میں پیش آنے والے واقعات بھی اسی کی مثال ہیں، جب بعض جگہ پر تو بنا سوچے سمجھے سکھوں کو ہی تشدد کر کے ہلاک کردیا گیا کیونکہ ان کی داڑھیاں تھیں۔ یہ ان اثرات کی بالکل ادنیٰ سی مثالیں ہیں جو کہ ہم سب نے دیکھ کر بھلا دی ہیں۔
امریکا کی طرح دیگر ممالک نے بھی اسی طرح سے مسلمانوں کی تاریخ اور تمدن پر زبردست حملے کیے۔ جن میں مودی نواز میڈیا اور بالی ووڈ بھی شامل ہے۔ پدماوت، باجی راؤ، پانی پت، ایک تھا ٹائیگر، ٹائیگر زندہ ہے وغیرہ، اور اس طرح کی بے شمار فلموں میں تاریخ کو مسخ کرکے پیش کیا گیا اور مسلمانوں کو جابر، ظالم، تشدد پسند، انتہاپسند اور دہشت گرد دکھایا گیا۔ مسلم کردارکشی بھی اس چالاک طریقے سے کی گئی جس میں اکثر برے کردار والا داڑھی رکھتا ہو، سرمہ لگاتا ہو اور نماز کی پابندی بھی کرتا ہو۔ اس طرح سے مسلم عبادتوں اور روایات کو بھی دہشتگردی کا نام دیا گیا۔
ذہنی شکستگی کا عالم تو یہ ہے کہ ہم لوگ اس کا مقابلہ کیا کرتے، ہم نے تو اس کو الٹا تسلیم ہی کرلیا۔ آج یہی وجہ ہے کہ جو بھی داڑھی رکھنا چاہے یا مذہب پسندی اختیار کرے تو اس کو بلاجھجک ڈکٹیٹر فلم کے واہیات کردار سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں مگر اس کی وجہ سے پوری قوم کو بدنام کردینا سراسر جہالت ہے۔
اگر فلم انڈسٹری سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمارے برائے نام دانشمندوں نے بھی اس میں اپنا پورا حصہ ڈالا ہے۔ انہوں نے میڈیا پر آکر محض اموی اور عباسی خونریزیاں رٹ کر گنوائی ہیں۔ یہ چاہے سچ ہو، مگر دوسری طرف منافقت یہ ہے کہ وہی لوگ مغرب کی خونریزی پر بالکل ایسے خاموش رہتے ہیں جیسے کہ سانپ سونگھ گیا ہو۔ ہمارے دانشوروں نے مسلم تاریخ کو تو بے شک آڑے ہاتھوں لیا ہے مگر وہیں دوسری طرف ان کی خدمات کو سرے سے ہی نظر انداز کردیا۔ اگر امویوں، عباسیوں، مغلوں، افغانوں، خلجیوں، سلجوقوں کو قاتل، جابر کہا جاتا ہے تو لیوپولڈ ثانی پر، اسٹالن یا ہسپانوی انکویزیشن، اِنکا تہذیب کی تباہی، ہندوستان میں لوٹ مار کو اور سیکڑوں ایسی داستانوں کو بالکل خاموشی سے اَن دیکھا کردیا جاتا ہے۔
یہ ہے وہ میڈیا کی جنگ جس میں مغربی میڈیا اور امریکا کو واضح طور پر فتح حاصل رہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارا سیاسیات، سماجیات، فلسفہ اور تاریخ کا نصاب تقریباً مکمل طور پر ہی مغربی بنیاد پر کھڑا ہے؟ کانٹ، مارکس، روسو اور اس طرح کے بے شمار نام ہمیں ازبر ہیں، مگر مشرقی فلسفیوں کا تعارف تک نہیں۔ یہ بھی ذہنی اور نصابی غلامی کی واضح مثال ہے کہ کون جانتا ہے الفارابی، الغزالی، الزہراوی، ابنِ رشد، ابن خلدون، ابن الہیثم اور ابن سینا کے مایہ ناز کارناموں کو؟ اور سب سے بڑھ کر جو یہ سب باتیں کرے وہ بنیاد پرست قرار پاتا ہے۔
یہ نفسیاتی اور میڈیا وار ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہر جگہ پر مسلم دشمنی پنپ رہی ہے۔ اور اس کا سارا سہرا امریکا کی نائن الیون اور بش ڈاکٹرائن کو جاتا ہے۔ وقت کا شدید ترین تقاضا ہے کہ ہم اس بات پر ہنگامی بنیادوں پر قدم اٹھائیں اور خود اپنی آواز بنیں۔ ورنہ پلوں کے نیچے سے پہلے ہی بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ ہمیں اب شدید ضرورت ہے کہ اس پورٹریٹ کو ختم کریں جو گزشتہ دو دہائیوں میں ہم سے منسوب کردیا گیا ہے۔ وگرنہ تمام کوششوں کے باوجود بھی ہم اپنے آپ کو باوقار قوم یا امت نہیں کہہ سکیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔