زباں فہمی  رُوحِ رَواں رُوح ورَواں رُوح ورُواں یا رُوح رَواں

اصل میں یہاں رواں کا مطلب جاری یا متحرک نہیں ہے، بلکہ یہاں رواں کا مطلب بھی روح یا جان بھی ہے۔

اصل میں یہاں رواں کا مطلب جاری یا متحرک نہیں ہے، بلکہ یہاں رواں کا مطلب بھی روح یا جان بھی ہے۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 113

بعض اوقات لسانی تحقیق کا کوئی مسئلہ ہماری ساری علمیت، لیاقت اور اپنے حلقے میں دھاک کی ایسی آزمائش کرتا ہے کہ الامان، الحفیظ! اہل علم تو جانتے ہیں کہ یہ بحث بہت پرانی ہے کہ مشہور ترکیب ''روحِ رَواں'' درست ہے یا اُس کی کوئی اور شکل، اور لکھنے والے اپنی معلومات کے مطابق، لکھ لکھ کر اسے نمٹاچکے ہیں، بقول کَسے (یعنی کِسی) قلم توڑچکے ہیں، خواہ اِس پر سب کا اتفاق ہوا یا نہیں....پھر اس راقم نے یہ موضوع کیوں چُنا؟ .... بات یہ ہے کہ ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں، ہر لحاظ سے قحط الّرِجال ہے (قحط الّرِجال کا عہد یا دور نہیں۔

اس اصطلاح کا مطلب ہے کہ اپنے شعبے اور معاشرے میں مجموعی طور پر لائق فائق، عالم فاضل لوگوں کی شدید کمی یا فقدان)۔ جہاں ہمارے بعض بزرگ معاصر، لسانی تحقیق کو لسانیاتی تحقیق لکھتے اور بولتے ہوں تو اطفال ِ مکتب کا ذکر کیا معنی رکھتا ہے۔ ہمارے فاضل بزرگ دوست، معاصر محترم شہاب الدین شہاب ؔ نے واٹس ایپ بزم زباں فہمی میں ایک معزز رُکن کے استفسار اور میرے جواب پر کچھ ارشاد کیا تو یہ احساس ہوا کہ اپنی معلومات بھی کچی پکی ہی ہیں اور اِدھر اُدھر سے رجوع کا معاملہ بھی اطمینان بخش نہیں کہ فوری طور پر اس کا جواب بالکل درست مل جائے۔

محترم شہاب الدین شہابؔ کی بات یہاں بوجوہ دہرانا نہیں چاہتا، بہرحال اس سے مجھے موضوع زیربحث پر نئے سرے سے پڑھنے اور لکھنے کا موقع ملا جس کے لیے اُن کا شکرگزار ہوں۔ اپنی حتمی رائے کا اظہار کرنے سے قبل، خاکسار لغات کے مندرجات نقل کرنا ضروری سمجھتا ہے، مگر اس شعبے سے ناواقف قارئین کرام، خصوصاً انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا کے اسیر طلبہ اور میرے کالم سے اپنے مطلب کی بات (پورا کالم پڑھے بغیر) فوراً اخذ کرنے والے حضرات سے گزارش ہے کہ پہلے پوری تحریر اطمینان سے پڑھ لیں، آخر تک ملاحظہ کریں، پھر میری رائے کے متعلق کوئی رائے قایم کرتے ہوئے اسے نقل کریں۔

اس کا پرچار کریں یا اس بابت تنقید کریں۔ محاورے میں کہیں تو 'کاتا ، لے دَوڑی' ہرگز مناسب نہیں۔ بات کی بات ہے کہ یہ محاورہ میرے مربّی، محترم ادیب سہیل مرحوم کا تکیہ کلام تھا۔ وہ ہمیشہ ہر تحریر کو پورا وقت دے کر عمدگی سے مکمل کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔

{جب۱۹۹۰ء میں خاکسار نے ماہنامہ قومی زبان، کراچی سے اپنے ادبی سفر کا آغاز، فرینچ زبان سے، اور مابعد، انگریزی وفارسی سے ، براہ راست تراجم کرکے کیا تو وہی تھے جنھوں نے خود ا پنی کتاب ''بکھراؤ کا حرفِ آخر'' کے متعلق بڑے پیار سے فرمائش کرکے مضمون لکھوایا جو کسی ادبی کتاب پر میرا پہلا مضمون تھا اور پھر سانحہ مشرقی پاکستان پر کہی ہوئی اپنی طویل نظم کا انگریزی میں ترجمہ بھی مجھ سے کرایا جو ہنوز غیرمطبوعہ ہے۔ کبھی کبھی وہ مجھے بہت شفقت سے، مخصوص بِہاری لہجے میں 'بَبوا' بھی کہہ دیتے تھے۔ افسوس! میں ادیب سہیل سمیت متعدد ادبی مشاہیر سے اپنے تعلق خاطر کا منضبط احوال ابھی تک نہیں لکھ سکا ہوں}۔

(یہ ساری وضاحت بوجوہ اَشَدّ ضروری محسوس ہوئی۔ کچھ عرصے پہلے، میرے کالم زباں فہمی میں ''دھوبی کا کُتّا'' کے موضوع پر بالتحقیق مواد پیش کیا گیا، کسی بزرگ نے اِدھر اُدھر سے سنا کہ سہیل نے اس بابت آن لائن مہم میں شامل ہوتے ہوئے کچھ کہا ہے، بس پھر کیا تھا، حضرت نے کالم ' زباں فہمی' پڑھے بغیر ہی، تین صفحے کی ای میل بھیج دی۔ پڑھ کر حیرت ہوئی اور غصہ بھی کہ بندہ خدا، کالم پڑھے بغیر ہی اتنی تفصیل لکھ بھیجی۔ میں نے انھیں اُن کے موبائل فون نمبر پر پیغام دیا اور پھر اپنا وہی کالم مع اُن کے ارشادات نقل کیا کہ آپ اس بابت یہ فرماتے ہیں، جبکہ اس ہیچ مَدآں نے تو یہ لکھا تھا۔

ایسا کرنے میں ڈھائی ڈھائی ہزار الفاظ پر مشتمل دو قسطیں تیار ہوگئیں جو ہمارے دوست اور نگراں ایکسپریس سنڈے میگزین، محترم عثمان جامعی صاحب نے اَزراہ کرم، بعینہ شایع کردیں۔ معاملہ وہیں ختم ہوجاتا، مگر بزرگ نے اسے دَرخُوراعتنا نہ سمجھتے ہوئے شاید یہ سوچا کہ کل کے چھوکرے نے نمعلوم کیا کیا لکھا ہوگا، لہٰذا احتیاطاً اپنا مضمون ایک ادبی رسالے میں شایع کرادیا تاکہ سند رہے اور بوقت ِضرورت کام آئے)۔ آئیے موضوع سے متعلق لغات کا متن دیکھتے ہیں۔

ہماری پسندیدہ اور اُردوکی اولین ''دائرہ معارف نُما''[Encyclopaediac] لغت، فرہنگ آصفیہ میں روح کے معانی یوں درج کیے گئے ہیں:

رُوح (عربی)، اسم مؤنث: ا) جان، جِیو، بولتا، آتما، پِران

؎ بعداَز فَنا جو قبر پہ آئے، وہ آئے وَزیر+پُہنچانے اُن کو رُوح مِری دور تک گئی (وزیرؔ)

۲)۔ خداتعالیٰ، اَمرِالہٰی ۳)۔ اطِبّا کی اصطلاح میں وہ لطیف بھاپ جو دِل میں پیدا ہوکر باعثِ حیات و حسّ و حرکت ہوتی ہے۔

۴)۔ سَت، لُبّ لُباب، عِطر، خُلاصہ، جوہر، تِت ۵)۔ دِل، قلب، ہِبا، ہِروہ، مَن، جیسے ہماری روح نہیں چاہتی (یہ بول چال میں متروک ہے۔س ا ص) ۶)۔ نیّت، اندرونی خواہش جیسے رُوح بھرنا (یہ بھی غالباً متروک ہے۔ س ا ص)

فرہنگ آصفیہ میں 'رَواں' کے یہ مفاہیم درج کیے گئے ہیں:

رَواں(فارسی)، صفت: ۱) جاری ، بہتا ہوا، سائر ۲)۔ صاف، مشق کیا ہوا، ہاتھ پر چَڑھا ہوا، جیسے اِس کو یہ پیچ خوب رَواں ہے۔

۳) ۔ تیز، بُرّاں، پَینا ۴)۔ بِلامعنی، معنی کے بغیر کسی کتاب یا قرآن کا سبق پڑھنا، ہجّے بغیر پڑھنا ۵)۔ موجودہ، جیسے سالِ رَواں۔

۶)۔ چلنا، رخصت (ایک اور لفظ بھی درج کیا گیا جو پرانی کتابت میں مہمل لگ رہا ہے۔س ا ص)

اس کے بعد ہم رجوع کرتے ہیں، نوراللغات سے جو ہمیں روح اور رَواں کے متعلق یہ معلومات فراہم کرتی ہے:

روح (عربی)، مؤنث : ۱) جان ۲) (علم طب) وہ لطیف بھاپ جو دل سے پیدا ہوکر انسان کی زندگی اور حس وحرکت کا باعث ہوتی ہے۔۳)۔(اردو) سَت، جوہر ؎ کدورت سے بری ہے جو محبت پاک ہوتی ہے+یہی وہ عطر ہے جو رُوح ٹھہرا ہے زمیں بن کر (داغؔ دہلوی)۔۴)۔ (اردو) دل، اندرونی خواہش، نیت۔

رَواں (فارسی): جاری، بہتا ہوا، نفس ِ ناطقہ، جان، روح۔ یہ لفظ بضمِ اول بمعنی روح غلط ہے (یعنی رُواں بمعنی روح کہنا غلط ہے: س ا ص)

یہاں یہ واضح ہوگیا کہ بعض لوگوں کا یہ خیال بھی غلط ہے کہ درست ترکیب ''رُوح و رُواں'' ہے۔

اب ہم آتے ہیں فارسی لغات کی طرف:

فارسی۔ اردو کی عمدہ لغت ، حسن اللغات (جامع) میں رَواں کے معانی اس طرح نقل کیے گئے:

(ف): ۱)۔ جاری، بہتا ہوا ۲)۔ جانے والا ۳)۔ فی الحال ۴)۔ فوراً، جلد ۵)۔ نفسِ ناطقہ ۶)۔ جان، روح ۷) تیز۔

{فیروزاللغات اردو (جامع) نے بھی یہی معانی نقل کرکے یہ اضافہ کیا: منجھا ہوا}

عباس آریان پور کاشانی اور منوچہر آریان پور کاشانی کی مرتبہ اور تہران، ایران کی مطبوعہ، English-Persian Dictionary میں لفظ Spiritکے یہ مفاہیم بیان کیے گئے ہیں:

روح، جان، رَواں، رمق، روحیہ، جرأت (جراء ت)۔

گویا بات بالکل صاف ہوگئی۔ بس ایک اور حجت رہ گئی ہے۔ آن لائن لغات میں متعلق موادکی تلاش۔

{آن لائن لغات سے بھی استفادہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض آن لائن لغات بھی مستند مواد نقل کرکے پیش کرتی ہیں، جبکہ کتب بینی سے دور، ہمارے بہت سے قارئین بھی انھیں ترجیح دیتے ہیں:

ریختہ ڈاٹ آرگ کی لغت میں یہ لکھا ہوا دیکھا:

''رُوحِ رَواں

رُوحِ رَواں کے اردو معانی: جانے والی روح، (کنایۃً) وہ شخص یا چیز جس پر کسی بات کا دارومدار ہو، اصلی شخص یا چیز جو کسی ادارے وغیرہ کے وجود یا کارکردگی کا سبب ہو، (کنایۃً) محبوب۔ شعر:

؎ جسم نے روحِ رَواں سے یہ کہا تربت میں

اب مجھے چھوڑ کے تنہا تو کہاں جاتی ہے

(مصحفیؔ)

آن لائن لغت اُردو آئی این سی

[https://www.urduinc.com/english-dictionary/] کا اقتباس:

''روح رواں

اردو معنی

اصل چیز

زندہ روح

وہ چیز یا شخص جس پر کسی کام کا دارومدار ہو


کہاوت، محاورے اور ضرب المثل

روح رواں ہونا

اشعار

آغوش میں جو آئے تو آرام جاں ہوئے

جس دم ہوئے روانہ تو روح ِرواں ہوئے

(شرفؔ،آغا حجّو)''

اس کے برعکس ایک نقطہ نظر یہ بھی سامنے آیا کہ یہ ترکیب دَرحقیقت، روح و رَواں ہے۔

آکسفرڈ ڈکشنریز فَورَم کی[https://forum.oxforddic

tionaries.com/ur/discussion/110] ویب سائٹ پر، جولائی 2018میں لکھی ہوئی، کسی ظفر صاحب کی یہ عبارت موجود ہے:

''روح و رواں یا روحِ رواں؟

یہ ترکیب عام طور پر روحِ رواں لکھی جاتی ہے، جیسے فلاں شخص محفل کی روحِ رواں تھا، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اصل ترکیب روح و رواں ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ روحِ رواں کے معنی تو چلو.....یہ بنتے ہیں کہ رواں یا متحرک روح، لیکن روح و رواں کا مطلب کیا ہوا؟

اصل میں یہاں رواں کا مطلب جاری یا متحرک نہیں ہے، بلکہ یہاں رواں کا مطلب بھی روح یا جان بھی ہے۔ اس معنی کی سند میں لغتِ کبیر میں یہ شعر بھی درج ہے:

شریعت کا رُوح اور طریقت کی جاں

حقیقت کا جِیو، معرفت کی رَواں

اب دوسرا سوال یہ ہے کہ روح و رواں کہنے کی کیا ضرورت ہے جب دونوں الفاظ کا مطلب ایک ہی ہے؟

اصل میں اردو زبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ بعض اوقات کلام میں زور پیدا کرنے کے لیے ہم معنی الفاظ کی تکرار کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں ہیں، جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں: بلند و بالا، حسین و جمیل، ناز و ادا، ظلم و ستم، ذلیل و خوار، مشہور و معروف، انتظام و انصرام، عجز و انکسار، نحیف و نزار، بخیر و عافیت۔ آپ نے ملاحظہ کیا ہو گا کہ ان تمام تراکیب میں شامل دونوں الفاظ کے معنی بالکل ایک ہیں اور اگر ایک کو نکال بھی دیں تب بھی مطلب برقرار رہے گا، البتہ زورِکلام میں کمی واقع ہوجائے گی۔ یہی حال روح و رواں کا ہے، دونوں الفاظ کا مطلب ایک ہی ہے، یعنی روح۔''

روح و رواں کی سند میں ریختہ ڈاٹ آرگ میں منقولہ اخترؔ لکھنوی (14ستمبر1934ء بمقام لکھنؤ تا 27ستمبر1995ء بمقام کراچی) کی ایک غزل کا مطلع بھی پیش کیا جاسکتا ہے:

؎ رونق ہی نہیں اُس کی، ہم روح ورَواں بھی ہیں

لیکن ہَمِیں دنیا کی خاطر پہ گِراں بھی ہیں

مگر ہمیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوا کہ ریختہ ڈاٹ آرگ ہی کی لغت میں کسی ''فاضل'' مدیر نے ''روح ورَواں'' کا ایک مطلب، اپنے قیاس سے یہ لکھا: بدبخت، بدنصیب، بدقسمت۔ کانفرنس کا یہ پہلا اجلاس ہے جس میں اِس کا بانی، اس کی جان، اس کی روح ورَواں، سَر سید شریک نہیں''۔ (یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ کانفرنس سے مراد سرسید احمد خاں کی قایم کی ہوئی تنظیم All India Muhammadan Educational Conference سے ہے جس کا ابتدائی نام انھوں نے Muhammedan Educational Congress رکھا تھا)۔ اب یہاں جن صاحب نے بھی کسی کتاب سے یہ عبارت نقل کرتے ہوئے، غلط مطلب اخذ کرکے اپنے قارئین کو گمراہ کیا ہے ، اُنھیں تمام لغات کے مطالعے سے قبل، یہ کالم پڑھنا چاہیے۔

اس تمام گفتگو کے بعد ایک دل چسپ انکشاف یہ بھی ہے کہ پوری اردو شاعری میں محض ایک ہی شاعر ''رَواں'' کے تخلص سے مشہور ہوا۔ یہ تھے چودھری منشی جگت موہن لال رَواںؔ، (۱۴جنوری ۱۸۸۹ء بمقام قصبہ مورانواں، ضلع انّاؤ، یو پی۔تا۔۱۹۳۴ء، جنھوں نے اپنے دور میں ممتاز مقام حاصل کیا اور اپنے مجموعہ کلام کا نام رکھا ، ''روح رَواں''۔ اب یہ نام ہردوطرح بامعنی ہے یعنی یہ کہ اگر روحِ رَواں (شاعر) پڑھیں تو مراد ہوئی شاعر کی روح اور اگر کہیں، روح رَواں، تب بھی۔

کیونکہ نکتہ یہ ہے کہ رَواں بمعنی روح، روح کے ساتھ اسی طرح ملا کر پڑھنا درست ہے جیسے گورا چِٹّا، کالا سیاہ اور اسی قبیل کی دیگر تراکیب جو اہل زبان کے روزمرّہ اور محاورے میں رائج ہے اور فصیح بھی۔ رَواںؔ کے استاد نامور سخنور عزیزؔ لکھنوی تھے جن کے تلامذہ میں جوش ملیح آبادی اور اثرؔ لکھنوی بھی شامل تھے۔ جگت موہن لال رَواںؔ کا دوسرا مجموعہ کلام 'رباعیاتِ رَواںؔ' اور مہاتما گوتم بُدھ کے متعلق لکھی گئی بے مثل مثنوی '' نقدِ رَواں'' بھی اُن سے یادگار ہے۔ اُنھیں رباعی گوئی میں اپنے عہد کے دیگر شعراء پر فضیلت حاصل ہوئی تو مداحین اُنھیں ''اردوکا عمرخیام'' قرار دینے لگے۔ رواںؔ کی ایک رباعی ملاحظہ فرمائیے:

افلاس اچھا نہ فکرِ دولت اچھی

جو دِل کو پسند ہو وہ حالت اچھی

جس سے اصلاح ِ نفس ناممکن ہو

اُس عیش سے ہر طرح مصیبت اچھی

جگت موہن لال رَواںؔ کی مثنوی نقدِ رَواں کے متعلق اُن کے استاد، عزیزؔ لکھنوی نے لکھا:''اُن کی مثنوی ہر لحاظ سے آرٹ کا مکمل نمونہ ہے''۔ اس مثنوی سے ایک اقتباس، گوتم بُدھ کی جسودا (نیز:یسودا/یشودھاYasodhara) سے پہلی ملاقات کا منظر:

اس ادا سے مسکراتی آئی تھی

تحفہ گل، شاخِ گل خود لائی تھی

سرخ بِندی، صَندَلی ماتھے پہ تھی

یا جبین ِ صبح پر تارا کوئی

روبرو گوتم کے آکر رُک گئی

شاخِ گل، بارِحیا سے جھُک گئی

اُن کے ایک ہم وطن ادیب، ڈاکٹر ظفر عمر قدوائی نے اُن کے متعلق پی ایچ ڈی کا مقالہ بعنوان ''جگت موہن لال رواںؔ:حیات و ادبی خدمات '' لکھ کر جامعہ لکھنؤ سے سند حاصل کی تھی۔ وہ ذات کے لحاظ سے کایستھ اور پیشے کے اعتبار سے وکیل تھے، مگر اپنی صاف گو طبیعت کے باعث اپنی شاعری میں اس پیشے سے نفرت کا اظہار بھی کیا کرتے تھے۔ ضمنی بات یہ ہے کہ سید الاحرارحسرتؔ موہانی کا تعلق بھی انّاؤ سے تھا۔ (استفادہ مضمون بعنوان 'جگت موہن لال رواںؔ: شخصیت اور شاعری' از قلم سیدتالیف حیدر:

https://www.mukaalma.com/10670/ ، ریختہ ڈاٹ آرگ)

اب تک تقریباً تمام مستند لغات کے مطالعے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان میں روح رواں، روح ِ رواں اور روح ورواں جیسی کوئی ترکیب شامل نہیں۔ قارئین کرام بشمول میرا حلقہ احباب، معاصرین، بزرگ و خُردیہ سوچ رہے ہوں گے کہ پھر کیا صحیح ہے تو عرض کرتا ہوں:

۱)۔ رُوحِ رواں بمعنی کرتا دھرتا، قائد، سربراہ، محرّک اور منتظم بالکل غلط ہے۔ اگر کسی شاعر نے یہ ترکیب وضع کی یا استعمال کی تو اُس نے لغوی معانی مراد لیے یعنی جسم میں دوڑنے والی روح، جان، قوت محرّکہ۔ جیسا کہ مصحفی ؔ کا یہ شعر ماقبل نقل ہوا:

؎ جسم نے روحِ رَواںسے یہ کہا تربت میں

اب مجھے چھوڑ کے تنہا تو کہاں جاتی ہے

۲)۔ رُوح رَواں مندرجہ بالا معانی میں استعمال کرنا درست ہے کیونکہ یہ دونوں ہم معنی ومترادف ہیں اور ہماری زبان میں ایسی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ دو ہم معنی و مترادف الفاظ ملاکر کوئی ترکیب وضع کرلی گئی اور بول چال نیز اَدبی زبان میں ان کا استعمال عام اور مستند ہے۔

۳)۔رُوح و رَواں کا استعمال بھی اس لحاظ سے درست قرار پائے گا کہ ایک مفہوم میں شدت پیدا کرنے کے لیے اس کے ساتھ، ہم معنی لفظ ملایا گیا، ورنہ رُوح رَواں ہی کافی ہے۔ اخترؔ لکھنوی کا شعر بھی اسی تناظر میں درست ہے۔

زباں فہمی اب ٹوئیٹر پر بھی دستیاب ہے:@urdu_1046

وضاحت: کالم نمبر ۱۱۱(گل مُہر، گل مِہر یا گل مور) کے آخر میں ہمارے بزرگ معاصر پروفیسر محمد رئیس علوی صاحب کا تذکرہ ہوا۔ انھوں نے آسٹریلیا سے واٹس ایپ پر کالم سراہتے ہوئے اس امر کی تردید کی ہے کہ وہ گل مہر کے نام میں میم بالکسرہ کے قائل ہیں، نیزاُن کا آبائی وطن بارہ بنکی (ہندوستان) نہیں، البتہ اُن کی آبائی زمین وہاں ایک گاؤں بھٹولی میں موجود تھی۔
Load Next Story