طالبان کی اہلیت انڈر اٹیک
ابھی تک میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر طالبان کی اہلیت مانی جا چکی ہے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے اور طالبان حکمت کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں ویسے ویسے دانشوروں اور ماہرین کی سمجھ میں یہ بات آرہی ہے کہ حکومت تو طالبان کی ہی بنے گی۔
تو اب ان کی مجلسوں، ٹاک شوز اور کالموںمیں یہ خدشہ زور پکڑ رہا ہے کہ کیا طالبان حکومت چلانے اور ریاستی معاملات کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق نمٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اور کیا ان کے پاس ہر شعبے کے لیے ایسی افرادی قوت موجود ہے کہ عصری تقاضوں کے مطابق اکیسویں صدی کے افغانستان کی حکومتی مشینری چلا سکیں؟
کیونکہ گزشتہ 20 سال طالبان کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ دنیا اور خاص کر میڈیا سے وابستہ باخبر افراد بھی طالبان کے چند رہنماؤں کے ناموں سے واقف ہیں۔ اب اگر ملاقات نہیں، واسطہ نہیں پڑا تو ان کی اہلیت کے بارے میں مجھ سمیت سب کوپریشانی ہوگی۔
دنیا کی نظرمیں اس تحریک میں صرف مدارس کے طلبا اور علماء کرام ہیں اور یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس میں ماہرین کی اکثریت مبتلا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کو شروع بے شک مدارس کے طلبہ نے کیا تھا مگر عام اراکین تو چھوڑیں اب تو عصری علوم کے ماہرین، ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہر شعبے سے وابستہ صف اول کے رہنمااس میں شامل ہیں اور ہر روز بیعت ہوکر شامل ہو رہے ہیں۔
مگر جن کا دنیا سے تعارف نہیں ہوا ان کی اہلیت پر تو کوئی قائل نہیں ہوگا مگر اہلیت اور معیار ناپنے کے لیے ایک مسلمہ قانون اور اصول ہے کہ کل کو جز پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی گندم کی بوری میں پڑی گندم کے معیار جانچنے کے لیے ایک مٹھی بھر گندم بوری سے لی جاتی ہے اگر اس نمونے میں نمی نہ ہو ، کنکر، مٹی اور بھوسہ نہ ہو تو پوری بوری کے بارے میں یہی سمجھا جائے گا۔طالبان کی صفوں میں اہلیت کے معیار کو جانچنے کے لیے اگر شروع ذبیح اللہ مجاہد کی پہلی ہنگامی پریس کانفرنس سے کریں تو بہتر ہوگا۔
فتح کابل کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زندگی کی پہلی پریس کانفرنس میں اپنی فصاحت، بلاغت اور مدبرانہ بریفنگ سے ناصرف مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے بہترین رپورٹرز اور صحافیوں کو حیران کر دیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آج تک ہر پریس بریفنگ کے دوران جس تحمل سے مقامی و بین الاقوامی میڈیا نمایندگان کے سوالات کے جوابات دیے اور بار بار صحافیوں کو سوال کرنے کا کہتے رہے کہ آپ ہماری اصلاح کے لیے سوال کریں۔
ابھی تک میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر طالبان کی اہلیت مانی جا چکی ہے اور ملا عبد الغنی برادر، مولانا امیرخان متقی، مولوی یعقوب، سراج الدین حقانی، ذبیح اللہ مجاہد، اور دوحہ آفس کے چند ذمے داران کو دیکھ اور سن چکے ہیں ، اگر اب تک سامنے آنے والے افراد اپنی اہلیت ثابت کرچکے ہیں تو حسن ظن سے کام لے کر جز کو کل کا نمونہ سجھ کر اچھی امید رکھیں۔
جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ دو کالموں میں ذکر کرچکے ہیں کہ جو بھی شرعی بیعت کریگا وہ امارت اسلامی افغانستان کا حصہ بن جائیگا اور اہلیت کی بنیاد پر امیر المومنین چاہیے تو ان کو ذمے داری دے سکتے ہیں ، اس وقت افغانستان کے طول و عرض شوریٰ کے اراکین اور امیر المومنین کے مقرر کردہ نامی گرامی علماء کرام اور مشائخ ان کے لیے افغان عوام اور خواص کو بیعت کروا رہے ہیں میں یہاں صرف مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ صرف کابل میں بیعت ہونے والے ہزاروں افراد میں سے صرف چند چیدہ چیدہ شخصیات کا ذکر کرونگا جو سب انشاء اللہ ماہرین اور پوری دنیا کی نظر میں اہل ہونگے، ماہرین اگر مطمئن نہ بھی ہوئے تو تشویش ضرور کم ہوگی کہ طالبان کی سمت درست ہے۔
بیعت ہونے والی چند شخصیات:
٭ افغانستان کے صوبہ قندھار سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیت اکبر آغا نے مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ پر امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت لی۔ اکبر آغا دا افغانستان خلاصون شوری نامی تنظیم کے سربراہ ہیں، ان کی تنظیم افغانستان کے طول و ارض میں پھیلی ہوئی ہے اور مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے، وہ اکیلے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے تمام اراکین کے ساتھ بیعت ہوئے ہیں۔
٭ اسی طرح قندھار ہی سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی شخصیت گل آغا شیزی نے اپنے پورے قبیلے سمیت امارت اسلامی افغانستان کا جھنڈا تھام لیا ہے اور امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کرلی ہے۔ گل آغا شیزی پرانے مجاہد اور امریکیوں کے منظور نظر ساتھی تھے، وہ ناصرف اشرف غنی کی کابینہ میں سرحدوں کے وزیر رہے تھے بلکہ قندھار اور ننگر ہار کے والی بھی رہ چکے ہیں۔
٭ ہلمند سے تعلق رکھنے والے مشہور زمانہ مجاہد نسیم اخونزادہ کے بیٹے شیر محمد اخونزادہ بھی اپنے پورے قبیلے کے ساتھ طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور امیرالمومنین کی بیعت قبول کرلی ہے۔ شیر محمد اخونزادہ بھی امریکیوں کے قریبی ساتھی تھے، وہ ناصرف رکن پارلیمنٹ تھے بلکہ صوبہ ہلمند کے والی بھی رہ چکے ہیں۔
٭ افغانستان کے سابق کٹ پتلی صدر اشرف غنی کے بھائی ڈاکٹر حشمت غنی احمد زئی بھی امارت اسلامی افغانستان کے پرچم تلے آچکے ہیں۔ انھوں نے بھی مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ پر امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کرلی ہے۔
٭ سابق افغان حکومت کے وزیر اقتصادیات ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے بھی امارت اسلامی افغانستان کا جھنڈا تھام لیا ہے اور پورے قبیلے کے ساتھ امیر المومنین کے زیر سایہ افغانستان کے استحکام کا عہد کیا ہے۔ زاخیلوال پاکستان میں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں انھیں امور خارجہ ہی نہیں بلکہ اقتصادیات و خزانہ کا بھی وسیع تجربہ حاصل ہے۔
یہ اور ان سے وابستہ افراد اور اسی طرح جب لاکھوں افغان بیعت ہونگے تو چند نہیں ماہرین کی نظر میں ہزاروں اہل افراد امارت اسلامی افغانستان کے پاس موجود ہونگے جو سسٹم کا حصہ بن کر قدم قدم پر ان کی رہنمائی کریں گے۔
کسی گروہ یا جماعت کے لیے حکومت چلانے کی اہلیت میں چند بنیادی باتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، کہ وہ اپنی سرزمین کو بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے حفاظت کے اہل ہوں۔ میدان جنگ ہو یا مذاکرات کی میز، ملکی مفادات کا دفاع کرسکیں، دنیا کو قائل کرنے اور اپنی بات موقف سمجھانے اور منوانے کے اہل ، اپنے عوام کے دلوں میں ان کا احترام ہو۔
آج دنیا یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ طالبان نے جنگ کے میدان اور مذاکرات میں اپنی، بہادری، شجاعت، استقامت اور بصیرت کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک پر اپنی برتری اور اہلیت ثابت کردی۔ جب طالبان نے اپنے امیر کے حکم سے پیشقدمی شروع کی تو پورا افغانستان چند محاذوں کے علاوہ کابل سمیت کسی کو مارے اور گولی چلائے بغیر فتح ہوگیا جسکا واضح مطلب اور دلیل ہے کہ افغان فورسز سمیت افغان عوام انکو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، اور وہ سیکیورٹی فورسز کے افراد سمیت افغان قوم کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں، اس کے لیے یہ ثبوت کافی ہیں کہ عوام طالبان اور سرکاری اہلکار اور فورسز کے افراد طالبان کے نمودار ہوتے ہی سر تسلیم ہو کر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔افغانیوں کے دلوں پر یہی حکمرانی ان کی اہلیت کی بنیاد ہے۔
اب وہ میدان جنگ، مذاکرات کی میز، اور افغان عوام کے دلوں کو جیتنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ یہ اہلیت بھی ثابت کرچکے ہیں۔ انکا ترجمان گزشتہ کارکردگی اور آیندہ کا لائحہ عمل میڈیا کے سامنے پیش کرکے اپنے آپ کو سوال و جواب کی شکل میں احتساب کے لیے پیش کرکے ان کو مطمئن کرسکتا ہے۔ تو دنیا اور خصوصاً ماہرین کو حسن ظن سے کام لینا چاہیے اور باقی امور میں بھی انھیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
مذکورہ شعبوں میں طالبان کی اہلیت کو سب مان چکے ہیں اور آیندہ چند دنوں میں پتا چل جائے گا کہ کس کس کو کیا کیا ذمے داری ملے گی جب ذمے داری ملے گی تو پتہ چل جائے گا کہ بنیاد اہلیت ہے یا نہیں!
اہل اور نااہل کاپتہ امیر سے بہتر تو کسی کو نہیں ہوسکتا لہذا امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخوند زادہ کو انتخاب کرنے دیں اور پھر اس انتخاب کا موازنہ اپنے ملک اور ہمسایہ ممالک کے انتخاب سے کریں اور اس کے بعد کوئی نقص ہو تو تنقید اور مشورہ ضرور دیں اور طالبان کا ماضی اور حال اس پر گواہ ہے کہ وہ تنقید برداشت اور شرعی حدود میں دیا گیا مشورہ مانتے ہیں۔
اہل اور نا اہل کی اس بحث کے علاوہ ہم اپنے ہر کالم کی طرح آخر میں یہی کہیں گے کہ اس خطے کی امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر رب کی رضا کی خاطر نہیں (اللہ نہ کرے) تو اپنے ملک اور ملت کی ترقی اور اس خطے کی استحکام کی خاطر نہ صرف ہمیں بلکہ ریاست پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک امارت اسلامی افغانستان کاساتھ دے کر پانچ دہائیوں سے بحران اور جنگ و جدل سے چور اس خطے کو امن و سکوں کا گہوارہ بنا دیں۔
تو اب ان کی مجلسوں، ٹاک شوز اور کالموںمیں یہ خدشہ زور پکڑ رہا ہے کہ کیا طالبان حکومت چلانے اور ریاستی معاملات کو دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق نمٹانے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اور کیا ان کے پاس ہر شعبے کے لیے ایسی افرادی قوت موجود ہے کہ عصری تقاضوں کے مطابق اکیسویں صدی کے افغانستان کی حکومتی مشینری چلا سکیں؟
کیونکہ گزشتہ 20 سال طالبان کا دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ دنیا اور خاص کر میڈیا سے وابستہ باخبر افراد بھی طالبان کے چند رہنماؤں کے ناموں سے واقف ہیں۔ اب اگر ملاقات نہیں، واسطہ نہیں پڑا تو ان کی اہلیت کے بارے میں مجھ سمیت سب کوپریشانی ہوگی۔
دنیا کی نظرمیں اس تحریک میں صرف مدارس کے طلبا اور علماء کرام ہیں اور یہ ایک ایسی غلط فہمی ہے جس میں ماہرین کی اکثریت مبتلا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کو شروع بے شک مدارس کے طلبہ نے کیا تھا مگر عام اراکین تو چھوڑیں اب تو عصری علوم کے ماہرین، ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہر شعبے سے وابستہ صف اول کے رہنمااس میں شامل ہیں اور ہر روز بیعت ہوکر شامل ہو رہے ہیں۔
مگر جن کا دنیا سے تعارف نہیں ہوا ان کی اہلیت پر تو کوئی قائل نہیں ہوگا مگر اہلیت اور معیار ناپنے کے لیے ایک مسلمہ قانون اور اصول ہے کہ کل کو جز پر تعبیر کیا جاتا ہے۔ یعنی گندم کی بوری میں پڑی گندم کے معیار جانچنے کے لیے ایک مٹھی بھر گندم بوری سے لی جاتی ہے اگر اس نمونے میں نمی نہ ہو ، کنکر، مٹی اور بھوسہ نہ ہو تو پوری بوری کے بارے میں یہی سمجھا جائے گا۔طالبان کی صفوں میں اہلیت کے معیار کو جانچنے کے لیے اگر شروع ذبیح اللہ مجاہد کی پہلی ہنگامی پریس کانفرنس سے کریں تو بہتر ہوگا۔
فتح کابل کے بعد طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے زندگی کی پہلی پریس کانفرنس میں اپنی فصاحت، بلاغت اور مدبرانہ بریفنگ سے ناصرف مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے بہترین رپورٹرز اور صحافیوں کو حیران کر دیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے آج تک ہر پریس بریفنگ کے دوران جس تحمل سے مقامی و بین الاقوامی میڈیا نمایندگان کے سوالات کے جوابات دیے اور بار بار صحافیوں کو سوال کرنے کا کہتے رہے کہ آپ ہماری اصلاح کے لیے سوال کریں۔
ابھی تک میدان جنگ اور مذاکرات کی میز پر طالبان کی اہلیت مانی جا چکی ہے اور ملا عبد الغنی برادر، مولانا امیرخان متقی، مولوی یعقوب، سراج الدین حقانی، ذبیح اللہ مجاہد، اور دوحہ آفس کے چند ذمے داران کو دیکھ اور سن چکے ہیں ، اگر اب تک سامنے آنے والے افراد اپنی اہلیت ثابت کرچکے ہیں تو حسن ظن سے کام لے کر جز کو کل کا نمونہ سجھ کر اچھی امید رکھیں۔
جیسا کہ ہم اپنے گزشتہ دو کالموں میں ذکر کرچکے ہیں کہ جو بھی شرعی بیعت کریگا وہ امارت اسلامی افغانستان کا حصہ بن جائیگا اور اہلیت کی بنیاد پر امیر المومنین چاہیے تو ان کو ذمے داری دے سکتے ہیں ، اس وقت افغانستان کے طول و عرض شوریٰ کے اراکین اور امیر المومنین کے مقرر کردہ نامی گرامی علماء کرام اور مشائخ ان کے لیے افغان عوام اور خواص کو بیعت کروا رہے ہیں میں یہاں صرف مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ صرف کابل میں بیعت ہونے والے ہزاروں افراد میں سے صرف چند چیدہ چیدہ شخصیات کا ذکر کرونگا جو سب انشاء اللہ ماہرین اور پوری دنیا کی نظر میں اہل ہونگے، ماہرین اگر مطمئن نہ بھی ہوئے تو تشویش ضرور کم ہوگی کہ طالبان کی سمت درست ہے۔
بیعت ہونے والی چند شخصیات:
٭ افغانستان کے صوبہ قندھار سے تعلق رکھنے والی ممتاز شخصیت اکبر آغا نے مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ پر امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت لی۔ اکبر آغا دا افغانستان خلاصون شوری نامی تنظیم کے سربراہ ہیں، ان کی تنظیم افغانستان کے طول و ارض میں پھیلی ہوئی ہے اور مضبوط نیٹ ورک رکھتی ہے، وہ اکیلے نہیں بلکہ اپنی جماعت کے تمام اراکین کے ساتھ بیعت ہوئے ہیں۔
٭ اسی طرح قندھار ہی سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی شخصیت گل آغا شیزی نے اپنے پورے قبیلے سمیت امارت اسلامی افغانستان کا جھنڈا تھام لیا ہے اور امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کرلی ہے۔ گل آغا شیزی پرانے مجاہد اور امریکیوں کے منظور نظر ساتھی تھے، وہ ناصرف اشرف غنی کی کابینہ میں سرحدوں کے وزیر رہے تھے بلکہ قندھار اور ننگر ہار کے والی بھی رہ چکے ہیں۔
٭ ہلمند سے تعلق رکھنے والے مشہور زمانہ مجاہد نسیم اخونزادہ کے بیٹے شیر محمد اخونزادہ بھی اپنے پورے قبیلے کے ساتھ طالبان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اور امیرالمومنین کی بیعت قبول کرلی ہے۔ شیر محمد اخونزادہ بھی امریکیوں کے قریبی ساتھی تھے، وہ ناصرف رکن پارلیمنٹ تھے بلکہ صوبہ ہلمند کے والی بھی رہ چکے ہیں۔
٭ افغانستان کے سابق کٹ پتلی صدر اشرف غنی کے بھائی ڈاکٹر حشمت غنی احمد زئی بھی امارت اسلامی افغانستان کے پرچم تلے آچکے ہیں۔ انھوں نے بھی مفتی محمود ذاکری مظہری کے ہاتھ پر امیر المومنین مولانا ہیبت اللہ اخونزادہ کی بیعت کرلی ہے۔
٭ سابق افغان حکومت کے وزیر اقتصادیات ڈاکٹر عمر زاخیلوال نے بھی امارت اسلامی افغانستان کا جھنڈا تھام لیا ہے اور پورے قبیلے کے ساتھ امیر المومنین کے زیر سایہ افغانستان کے استحکام کا عہد کیا ہے۔ زاخیلوال پاکستان میں افغانستان کے سفیر بھی رہ چکے ہیں انھیں امور خارجہ ہی نہیں بلکہ اقتصادیات و خزانہ کا بھی وسیع تجربہ حاصل ہے۔
یہ اور ان سے وابستہ افراد اور اسی طرح جب لاکھوں افغان بیعت ہونگے تو چند نہیں ماہرین کی نظر میں ہزاروں اہل افراد امارت اسلامی افغانستان کے پاس موجود ہونگے جو سسٹم کا حصہ بن کر قدم قدم پر ان کی رہنمائی کریں گے۔
کسی گروہ یا جماعت کے لیے حکومت چلانے کی اہلیت میں چند بنیادی باتیں اہمیت کی حامل ہوتی ہیں، کہ وہ اپنی سرزمین کو بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے حفاظت کے اہل ہوں۔ میدان جنگ ہو یا مذاکرات کی میز، ملکی مفادات کا دفاع کرسکیں، دنیا کو قائل کرنے اور اپنی بات موقف سمجھانے اور منوانے کے اہل ، اپنے عوام کے دلوں میں ان کا احترام ہو۔
آج دنیا یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہے کہ طالبان نے جنگ کے میدان اور مذاکرات میں اپنی، بہادری، شجاعت، استقامت اور بصیرت کی بنیاد پر امریکا سمیت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک پر اپنی برتری اور اہلیت ثابت کردی۔ جب طالبان نے اپنے امیر کے حکم سے پیشقدمی شروع کی تو پورا افغانستان چند محاذوں کے علاوہ کابل سمیت کسی کو مارے اور گولی چلائے بغیر فتح ہوگیا جسکا واضح مطلب اور دلیل ہے کہ افغان فورسز سمیت افغان عوام انکو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں، اور وہ سیکیورٹی فورسز کے افراد سمیت افغان قوم کے دلوں پر حکمرانی کر رہے ہیں، اس کے لیے یہ ثبوت کافی ہیں کہ عوام طالبان اور سرکاری اہلکار اور فورسز کے افراد طالبان کے نمودار ہوتے ہی سر تسلیم ہو کر ان کے لشکر میں شامل ہوگئے۔افغانیوں کے دلوں پر یہی حکمرانی ان کی اہلیت کی بنیاد ہے۔
اب وہ میدان جنگ، مذاکرات کی میز، اور افغان عوام کے دلوں کو جیتنے کی اہلیت کے ساتھ ساتھ یہ اہلیت بھی ثابت کرچکے ہیں۔ انکا ترجمان گزشتہ کارکردگی اور آیندہ کا لائحہ عمل میڈیا کے سامنے پیش کرکے اپنے آپ کو سوال و جواب کی شکل میں احتساب کے لیے پیش کرکے ان کو مطمئن کرسکتا ہے۔ تو دنیا اور خصوصاً ماہرین کو حسن ظن سے کام لینا چاہیے اور باقی امور میں بھی انھیں اپنی اہلیت ثابت کرنے کا موقع دینا چاہیے۔
مذکورہ شعبوں میں طالبان کی اہلیت کو سب مان چکے ہیں اور آیندہ چند دنوں میں پتا چل جائے گا کہ کس کس کو کیا کیا ذمے داری ملے گی جب ذمے داری ملے گی تو پتہ چل جائے گا کہ بنیاد اہلیت ہے یا نہیں!
اہل اور نااہل کاپتہ امیر سے بہتر تو کسی کو نہیں ہوسکتا لہذا امیر المومنین شیخ الحدیث مولانا ہیبت اللہ اخوند زادہ کو انتخاب کرنے دیں اور پھر اس انتخاب کا موازنہ اپنے ملک اور ہمسایہ ممالک کے انتخاب سے کریں اور اس کے بعد کوئی نقص ہو تو تنقید اور مشورہ ضرور دیں اور طالبان کا ماضی اور حال اس پر گواہ ہے کہ وہ تنقید برداشت اور شرعی حدود میں دیا گیا مشورہ مانتے ہیں۔
اہل اور نا اہل کی اس بحث کے علاوہ ہم اپنے ہر کالم کی طرح آخر میں یہی کہیں گے کہ اس خطے کی امن کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ اگر رب کی رضا کی خاطر نہیں (اللہ نہ کرے) تو اپنے ملک اور ملت کی ترقی اور اس خطے کی استحکام کی خاطر نہ صرف ہمیں بلکہ ریاست پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک امارت اسلامی افغانستان کاساتھ دے کر پانچ دہائیوں سے بحران اور جنگ و جدل سے چور اس خطے کو امن و سکوں کا گہوارہ بنا دیں۔