پورے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم
یہ ایک بہت ہی خوش آیند قدم ہے اور اس کی بھرپور سپورٹ کی جانی چاہیے۔
آج کل پورے ملک میں یکساں نصابِ تعلیم رائج کیے جانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ ایک بہت ہی خوش آیند قدم ہے اور اس کی بھرپور سپورٹ کی جانی چاہیے۔اس سے طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو گااور ایک متحد و مضبوط قوم جنم لے گی۔تعلیم کے شعبے میں بہت سی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔
ماں کی گود اور گھر کے بعد اگر کوئی جگہ ایک بچے کو اچھا انسان بننے میں مدد گار ہوتی ہے تو وہ اس کا اسکول ہی ہے۔اس اسٹیج پر اگر اساتذہ اچھے تعلیم یافتہ،محنتی اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں تو تو بچے کے ذہن کو جلا بخش دیتے ہیں۔اساتذہ کے ساتھ ساتھ اسکول کا عمومی ماحول بھی بچے کے اوپر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔اگر بزمِ ادب اور کھیلوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی موجود ہو تو یہ بھی بچے کے لیے بہت کار آمد ہے لیکن اس سب کے ساتھ کیا پڑھایا جا رہا ہے، یہ بہت ہی اہم ہے۔
نصابِ تعلیم بچے کے ذہن کی نشوونما کے علاوہ اس کی کردار سازی اور مستقبل کی سمت کے تعین میں بھی مرکزی کردار کا حامل ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے وقت میں سب کچھ بہت اعلیٰ تھا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر اساتذہ اچھے تھے اور نیک نیتی سے تعلیم کے ساتھ بچے کی کردار سازی پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوتے تھے۔
اُس ماحول اور اُس نصابِ تعلیم کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی اداروں نے بہترین دانشور، سائنسدان، کھلاڑی، وکیل، مقرر،سفارتکار، سیاست دان اور بیوروکریٹس پیدا کیے ہیں۔لاہور کے سینٹرل ماڈل اسکول،بہاولپور کے صادق پبلک اسکول،کیڈٹ کالج حسن ابدال و پٹارو،ایڈورڈز کالج پشاور اور نہ جانے کتنے تعلیمی اداروں نے پاکستان کو بیش بہا ٹیلنٹ دیا لیکن ہمیں عادت پڑ گئی ہے کہ باہر خاص کر مغرب کے تعلیمی اداروں کو ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے ہاں کی ہر چیز کو معمولی گردانتے ہیں حالانکہ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہمارا معاشرہ بہت حد تک اچھائی پر کھڑا تھا اور محنت و لگن سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتا تھا۔
یہ 2005کی بات ہے۔میں جنیوا سوئٹزرلینڈ میں موجود تھا۔اقوامِ متحدہ کے قیام سے پہلے لیگ آف نیشنز کا ہیڈکوارٹر یہیں جنیوا جھیل کے کنارے ایک انتہائی پر شکوہ عمارت میں قائم تھا۔ اقومِ متحدہ کے قیام کے عمل میں آنے اور اس کے صدر دفتر کی نیویارک منتقلی کے بعد یہ پرشکوہ عمارت اقوامِ متحدہ کی مختلف Activities کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے اور ماحولیات کے علاوہ کئی اور شعبوں کے مرکزی دفاتر یہیں جنیوا میں ہیں اس لیے سارا سال یہاں گہما گہمی رہتی ہے۔میں ماحولیات کے عالمی فریم ورک کے تحت بازل کنونشن کی ایک ایسی ہی مصروفیت کے لیے جنیوا پہنچا تھا اورہنمائی لے کر اقوامِ متحدہ کی اسی پرشکوہ عمارت پہنچ گیا۔
عمارت کے اندر داخلے کے مراحل طے کرنے کے بعد داخل ہوا تو پہلے تمام ممبر ممالک کے قومی پرچموں کو لہلہاتے دیکھا۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کوڈھونڈ کر سیلوٹ کیا اور اس کے تابناک مستقبل کی دعا کی۔ بازل کنونشن کی میٹنگ نئے بلاک کے ایک کمیٹی روم میں شروع ہونا تھی۔میں پوچھتے پوچھتے کمیٹی روم میں داخل ہوا تو کاروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔ اگلے چار سال کے لیے عہدیداروں کا چناؤ شروع ہو چکا تھا۔
اقوامِ متحدہ کا یہ کنونشن اس لیے بازل کنونشن کہلاتا ہے کیونکہ اس پر دستخط جرمنی،سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کی سرحد پر واقع ایک جھیل کے کنارے بازل گاؤں میں ہوئے تھے۔یہ معاہدہ تمام دنیا میں زندگی کے لیے خطرناک میٹریلHazardous material سے متعلق ہے۔ ہر ہتھیار اور الیکٹرانک آلہ ،ہر کمپیوٹر اور موبائل اپنے استعمال کی عمرکے بعد بہت خاص طریقے سے تلف ہونا چاہیے ورنہ یہ زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
کمیٹی روم میںبازل کنونشن کی میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔جنوبی امریکا کے ملک یوراگوئے کے ا یک اسمارٹ وزیر کو صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔اب ایشیا پیسیفک سے اول نائب صدر اور یورپ و افریقہ سے نائب صدر کے لیے چناؤ ہونا تھا۔میرے کمیٹی روم میں داخلے سے پہلے اردن نے اپنی نامزدگی سے دفتر کو آگاہ کر دیا تھا جس کا مجھے علم نہیں تھا۔منتخب ہونے کے بعد یوراگوئے کے وزیر اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔انھوں نے پوچھا کہ کوئی اور امیدوار تو نہیں۔میں نے ساری زندگی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور آج تک یہ جان نہیں سکا کہ میں نے ایسا کیوں کیا لیکن میں نے ہاتھ اُٹھا دیا۔
صدر نے پوچھا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ،میں نے کہا کہ میں بھی امیدوار ہوں۔ صدر نے مجھے ڈائس پر بلوایا۔میرا نام وغیرہ لکھا۔ حکومتِ پاکستان کی اجلاس میں شرکت کی منظوری دیکھی اور میری امیدواری کا اعلان کر دیا۔اردن کے نمایندہ میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کے آنے سے پہلے میں اپنی نمایندگی دے چکا ہوں لیکن اب میں اپنی نمایندگی واپس لے رہا ہوں۔ انھوں نے فوراً کھڑے ہو کر صدر کو اپنی نمایندگی واپس لینے سے مطلع کیا جس پر صدرِ مجلس نے مجھے منتخب قرار دے دیا۔ پھر بلجیم کا نمایندہ نائب صدر منتخب ہوا اور اجلاس اگلے دن دس بجے تک ملتوی ہو گیا۔
اگلے دن میٹنگ وقت پر شروع ہوئی۔سردی ہو یا گرمی،میں نے پاکستان سے باہر کبھی کسی کو لیٹ ہوتے نہیں دیکھا۔لیٹ ہونا صرف ہمارا طرہء امتیاز ہے۔ میٹنگ شروع ہوئی تو صدرِ مجلس نے ایجنڈا منظور کروا کے پہلے ایجنڈا پوائنٹ کو متعارف کرواتے ہی مجھے میٹنگ سنبھالنے کی دعوت دی اور خود غائب ہو گئے۔
اگلے تین دن وہ میٹنگ میں نہ آئے۔ میں اور بلجیم کے نمایندے بار ی باری میٹنگ کو چلاتے رہے۔دن کے ٹھیک بارہ بجے تھوڑا سا وقفہ ہوا۔ان دنوں رمضان المبارک چل رہا تھا اس لیے میں تو کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔میں اُٹھا اور پاکستان کی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔جلد ہی ناروے کا نمایندہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اس نے پہلے تو میرے انتخاب پر مبارک باد دی اور پھرخوش اسلوبی سے میٹنگ چلانے پر خاصا appreciate کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی۔
میں نے بتایا کہ میری ساری تعلیم پاکستان کے اندر ہی ہوئی ہے۔اس کے چہرے پر شک کو دیکھتے ہوئے میں نے بتایا کہ میں نے واقعی پاکستان سے باہرکسی یونیورسٹی سے تعلیم نہیں لی۔وہ کہنے لگا کہ میں اس لیے استسفار کر رہا ہوں کیونکہ آپ بہت اچھی طرح میٹنگ کنڈکٹ کر رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلیمی بیک گراؤنڈ بہت مضبوط ہے۔
پھر پوچھنے لگا کہ کیا پاکستان میں تعلیمی معیار اور تعلیمی ادارے بہت اچھے ہیں۔اس نے ساتھ ہی یہ بتایا کہ وہ بنکاک اقوامِ متحدہ دفتر میں تین سال گزار چکا ہے وہاں دو پاکستانی کام کر رہے تھے اور دونوں ہی لکھنے پڑھنے میں بہت اچھے تھے۔اُس نے ان سے بھی یہی سوالات کیے تھے اور یہ جان کر حیران تھاکہ صرف پاکستان میں پڑھے ہوئے افراد کیونکر اتنی عمدہ پرفارمنس دے سکتے ہیں۔ ناروے کے نمایندے نے کہا کہ اب آپ کو دیکھ کر خیال ہوا کہ اگر پاکستان کے تعلیمی ادارے اتنے اچھے اور قابل افراد تیار کر رہے ہیں تو یقینی طور پر نظامِ تعلیم،تعلیمی ادارے اور اساتذہ اچھے ہوں گے۔
میں نے ناروے کے نمایندے کو بتایا کہ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے اور انٹرمیڈیٹ تک اپنے قصبے سے حاصل کی ہے۔ پھر گریجوئیشن اور ماسٹرز لاہور سے کی ہے۔پاکستانی اسٹینڈرڈ سے میں بہت معمولی استعداد کا حامل ہوں۔ ہمارے بہترین لوگ شاید آپ نے دیکھے ہی نہیں۔ میرے جیسے لوگ تو کسی گنتی میں آتے ہی نہیں۔میں نے اس کو کچھ مثالیں دیں کہ کیسے کیسے ذہین اور فطین لوگ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکل کر روشن ستاروں کی طرح دنیا کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔
ناروے کے نمایندے نے کہا کہ اس کے تجربے میں جو تین پاکستانی آئے ہیں وہ ان تینوں سے بہت متاثر ہوا ہے۔اس کے خیال میں اس قسم کے لوگ بہترین تعلیمی اداروں سے ہی نکل سکتے ہیں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں کی اس تعریف نے میرا سینہ چوڑا کر دیا لیکن ساتھ ہی خیال آیا کہ ہم تو صرف باہر سے پڑھ کر آنے والوں کو ہی قابل سمجھتے ہیں۔شاید ہمیں اپنی استعداد کا علم نہیں اور عادت بھی نہیں کہ اپنی چیزوں کو لائقِ تحسین سمجھیں۔بہر حال یکساں نصابِ تعلیم ایک اچھا قدم ہوگا۔خدا کرے یہ نصاب ہمیں بہترین اذہان مہیا کرے۔
ماں کی گود اور گھر کے بعد اگر کوئی جگہ ایک بچے کو اچھا انسان بننے میں مدد گار ہوتی ہے تو وہ اس کا اسکول ہی ہے۔اس اسٹیج پر اگر اساتذہ اچھے تعلیم یافتہ،محنتی اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہوں تو تو بچے کے ذہن کو جلا بخش دیتے ہیں۔اساتذہ کے ساتھ ساتھ اسکول کا عمومی ماحول بھی بچے کے اوپر بہت اثر انداز ہوتا ہے۔اگر بزمِ ادب اور کھیلوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی موجود ہو تو یہ بھی بچے کے لیے بہت کار آمد ہے لیکن اس سب کے ساتھ کیا پڑھایا جا رہا ہے، یہ بہت ہی اہم ہے۔
نصابِ تعلیم بچے کے ذہن کی نشوونما کے علاوہ اس کی کردار سازی اور مستقبل کی سمت کے تعین میں بھی مرکزی کردار کا حامل ہے۔ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے وقت میں سب کچھ بہت اعلیٰ تھا لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ زیادہ تر اساتذہ اچھے تھے اور نیک نیتی سے تعلیم کے ساتھ بچے کی کردار سازی پر بھی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہوتے تھے۔
اُس ماحول اور اُس نصابِ تعلیم کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی اداروں نے بہترین دانشور، سائنسدان، کھلاڑی، وکیل، مقرر،سفارتکار، سیاست دان اور بیوروکریٹس پیدا کیے ہیں۔لاہور کے سینٹرل ماڈل اسکول،بہاولپور کے صادق پبلک اسکول،کیڈٹ کالج حسن ابدال و پٹارو،ایڈورڈز کالج پشاور اور نہ جانے کتنے تعلیمی اداروں نے پاکستان کو بیش بہا ٹیلنٹ دیا لیکن ہمیں عادت پڑ گئی ہے کہ باہر خاص کر مغرب کے تعلیمی اداروں کو ہی اچھا سمجھتے ہیں۔ ہم اپنے ہاں کی ہر چیز کو معمولی گردانتے ہیں حالانکہ پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہمارا معاشرہ بہت حد تک اچھائی پر کھڑا تھا اور محنت و لگن سے آگے بڑھنے پر یقین رکھتا تھا۔
یہ 2005کی بات ہے۔میں جنیوا سوئٹزرلینڈ میں موجود تھا۔اقوامِ متحدہ کے قیام سے پہلے لیگ آف نیشنز کا ہیڈکوارٹر یہیں جنیوا جھیل کے کنارے ایک انتہائی پر شکوہ عمارت میں قائم تھا۔ اقومِ متحدہ کے قیام کے عمل میں آنے اور اس کے صدر دفتر کی نیویارک منتقلی کے بعد یہ پرشکوہ عمارت اقوامِ متحدہ کی مختلف Activities کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے اور ماحولیات کے علاوہ کئی اور شعبوں کے مرکزی دفاتر یہیں جنیوا میں ہیں اس لیے سارا سال یہاں گہما گہمی رہتی ہے۔میں ماحولیات کے عالمی فریم ورک کے تحت بازل کنونشن کی ایک ایسی ہی مصروفیت کے لیے جنیوا پہنچا تھا اورہنمائی لے کر اقوامِ متحدہ کی اسی پرشکوہ عمارت پہنچ گیا۔
عمارت کے اندر داخلے کے مراحل طے کرنے کے بعد داخل ہوا تو پہلے تمام ممبر ممالک کے قومی پرچموں کو لہلہاتے دیکھا۔ پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کوڈھونڈ کر سیلوٹ کیا اور اس کے تابناک مستقبل کی دعا کی۔ بازل کنونشن کی میٹنگ نئے بلاک کے ایک کمیٹی روم میں شروع ہونا تھی۔میں پوچھتے پوچھتے کمیٹی روم میں داخل ہوا تو کاروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔ اگلے چار سال کے لیے عہدیداروں کا چناؤ شروع ہو چکا تھا۔
اقوامِ متحدہ کا یہ کنونشن اس لیے بازل کنونشن کہلاتا ہے کیونکہ اس پر دستخط جرمنی،سوئٹزرلینڈ اور آسٹریا کی سرحد پر واقع ایک جھیل کے کنارے بازل گاؤں میں ہوئے تھے۔یہ معاہدہ تمام دنیا میں زندگی کے لیے خطرناک میٹریلHazardous material سے متعلق ہے۔ ہر ہتھیار اور الیکٹرانک آلہ ،ہر کمپیوٹر اور موبائل اپنے استعمال کی عمرکے بعد بہت خاص طریقے سے تلف ہونا چاہیے ورنہ یہ زندگی کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔
کمیٹی روم میںبازل کنونشن کی میٹنگ شروع ہو چکی تھی۔جنوبی امریکا کے ملک یوراگوئے کے ا یک اسمارٹ وزیر کو صدر منتخب کر لیا گیا تھا۔اب ایشیا پیسیفک سے اول نائب صدر اور یورپ و افریقہ سے نائب صدر کے لیے چناؤ ہونا تھا۔میرے کمیٹی روم میں داخلے سے پہلے اردن نے اپنی نامزدگی سے دفتر کو آگاہ کر دیا تھا جس کا مجھے علم نہیں تھا۔منتخب ہونے کے بعد یوراگوئے کے وزیر اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔انھوں نے پوچھا کہ کوئی اور امیدوار تو نہیں۔میں نے ساری زندگی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اور آج تک یہ جان نہیں سکا کہ میں نے ایسا کیوں کیا لیکن میں نے ہاتھ اُٹھا دیا۔
صدر نے پوچھا کہ آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں ،میں نے کہا کہ میں بھی امیدوار ہوں۔ صدر نے مجھے ڈائس پر بلوایا۔میرا نام وغیرہ لکھا۔ حکومتِ پاکستان کی اجلاس میں شرکت کی منظوری دیکھی اور میری امیدواری کا اعلان کر دیا۔اردن کے نمایندہ میرے پاس آئے اور بتایا کہ آپ کے آنے سے پہلے میں اپنی نمایندگی دے چکا ہوں لیکن اب میں اپنی نمایندگی واپس لے رہا ہوں۔ انھوں نے فوراً کھڑے ہو کر صدر کو اپنی نمایندگی واپس لینے سے مطلع کیا جس پر صدرِ مجلس نے مجھے منتخب قرار دے دیا۔ پھر بلجیم کا نمایندہ نائب صدر منتخب ہوا اور اجلاس اگلے دن دس بجے تک ملتوی ہو گیا۔
اگلے دن میٹنگ وقت پر شروع ہوئی۔سردی ہو یا گرمی،میں نے پاکستان سے باہر کبھی کسی کو لیٹ ہوتے نہیں دیکھا۔لیٹ ہونا صرف ہمارا طرہء امتیاز ہے۔ میٹنگ شروع ہوئی تو صدرِ مجلس نے ایجنڈا منظور کروا کے پہلے ایجنڈا پوائنٹ کو متعارف کرواتے ہی مجھے میٹنگ سنبھالنے کی دعوت دی اور خود غائب ہو گئے۔
اگلے تین دن وہ میٹنگ میں نہ آئے۔ میں اور بلجیم کے نمایندے بار ی باری میٹنگ کو چلاتے رہے۔دن کے ٹھیک بارہ بجے تھوڑا سا وقفہ ہوا۔ان دنوں رمضان المبارک چل رہا تھا اس لیے میں تو کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔میں اُٹھا اور پاکستان کی نشست پر آ کر بیٹھ گیا۔جلد ہی ناروے کا نمایندہ میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اس نے پہلے تو میرے انتخاب پر مبارک باد دی اور پھرخوش اسلوبی سے میٹنگ چلانے پر خاصا appreciate کیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے کہاں کہاں تعلیم حاصل کی۔
میں نے بتایا کہ میری ساری تعلیم پاکستان کے اندر ہی ہوئی ہے۔اس کے چہرے پر شک کو دیکھتے ہوئے میں نے بتایا کہ میں نے واقعی پاکستان سے باہرکسی یونیورسٹی سے تعلیم نہیں لی۔وہ کہنے لگا کہ میں اس لیے استسفار کر رہا ہوں کیونکہ آپ بہت اچھی طرح میٹنگ کنڈکٹ کر رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا تعلیمی بیک گراؤنڈ بہت مضبوط ہے۔
پھر پوچھنے لگا کہ کیا پاکستان میں تعلیمی معیار اور تعلیمی ادارے بہت اچھے ہیں۔اس نے ساتھ ہی یہ بتایا کہ وہ بنکاک اقوامِ متحدہ دفتر میں تین سال گزار چکا ہے وہاں دو پاکستانی کام کر رہے تھے اور دونوں ہی لکھنے پڑھنے میں بہت اچھے تھے۔اُس نے ان سے بھی یہی سوالات کیے تھے اور یہ جان کر حیران تھاکہ صرف پاکستان میں پڑھے ہوئے افراد کیونکر اتنی عمدہ پرفارمنس دے سکتے ہیں۔ ناروے کے نمایندے نے کہا کہ اب آپ کو دیکھ کر خیال ہوا کہ اگر پاکستان کے تعلیمی ادارے اتنے اچھے اور قابل افراد تیار کر رہے ہیں تو یقینی طور پر نظامِ تعلیم،تعلیمی ادارے اور اساتذہ اچھے ہوں گے۔
میں نے ناروے کے نمایندے کو بتایا کہ میں نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے اسکول سے اور انٹرمیڈیٹ تک اپنے قصبے سے حاصل کی ہے۔ پھر گریجوئیشن اور ماسٹرز لاہور سے کی ہے۔پاکستانی اسٹینڈرڈ سے میں بہت معمولی استعداد کا حامل ہوں۔ ہمارے بہترین لوگ شاید آپ نے دیکھے ہی نہیں۔ میرے جیسے لوگ تو کسی گنتی میں آتے ہی نہیں۔میں نے اس کو کچھ مثالیں دیں کہ کیسے کیسے ذہین اور فطین لوگ ہمارے تعلیمی اداروں سے نکل کر روشن ستاروں کی طرح دنیا کے افق پر جگمگا رہے ہیں۔
ناروے کے نمایندے نے کہا کہ اس کے تجربے میں جو تین پاکستانی آئے ہیں وہ ان تینوں سے بہت متاثر ہوا ہے۔اس کے خیال میں اس قسم کے لوگ بہترین تعلیمی اداروں سے ہی نکل سکتے ہیں۔ پاکستانی تعلیمی اداروں کی اس تعریف نے میرا سینہ چوڑا کر دیا لیکن ساتھ ہی خیال آیا کہ ہم تو صرف باہر سے پڑھ کر آنے والوں کو ہی قابل سمجھتے ہیں۔شاید ہمیں اپنی استعداد کا علم نہیں اور عادت بھی نہیں کہ اپنی چیزوں کو لائقِ تحسین سمجھیں۔بہر حال یکساں نصابِ تعلیم ایک اچھا قدم ہوگا۔خدا کرے یہ نصاب ہمیں بہترین اذہان مہیا کرے۔