قرضوں کا بوجھ

قرض اس کی قسطیں اور پھر سود نے پاکستان کی معیشت پر جیسے دم گھٹنے کی کیفیت اور وحشت طاری کردی ہے۔

پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد حکومت و معیشت انتہائی نازک حالات سے گزر رہے تھے لیکن اس کے باوجود ابتدائی برسوں میں قرض کے حصول کی ضرورت کو محسوس نہیں کیا گیا۔ ان دنوں ایک ڈالر بھی 3 روپے تیس پیسے کا تھا، چند سالوں میں ڈالر 4 روپے سے زائدکا ہو چکا تھا۔

قیام پاکستان سے مارشل لا کی ابتدا تک پاکستان پر کل قرضہ 350 ملین ڈالر تک تھا۔ ایوب خان کے دور میں ان قرضوں کو کم کرتے ہوئے اسے 170 ملین ڈالر تک پہنچایا گیا۔ ان دنوں ایک مختصر دورانیہ ایسا بھی آیا کہ پاکستان قرض دینے والا ملک بن چکا تھا۔ جسے جرمنی والے آج بھی یاد کرتے ہیں کہ پاکستان نے جرمنی کو قرض دیا تھا۔

معیشت کی کمزوری سے نالاں، قرض کے حصول کے لیے سرگرداں ملک جرمنی نے پاکستان سے قرض حاصل کرکے اس کا بالکل درست اور صحیح استعمال کیا کہ آج جرمنی کی ترقی، وہ بھی کم وقت میں، وہاں کی کرنسی جو کسی دور میں اپنی وقعت کھو بیٹھی تھی، اب کہاں پہنچ چکی ہے۔

پاکستان نے پہلی بار جس قرض کے حصول میں عجلت اور شدید طلب کا مظاہرہ کیا، وہ 1972 سے 1974تک حاصل کیا جانے والا قرض تھا۔ آئی ایم ایف نے ضیا الحق دور میں تین بار قرض فراہم کیا۔ اس دوران آئی ایم ایف سے 3.17 ارب ڈالرکا قرض حاصل کیا گیا۔ اس کے بعد تو ہر آنے والی حکومت ابتدائی دنوں سے ہی اس بات کی متمنی ہوجاتی ہے کہ کسی طرح آئی ایم ایف سے قرض حاصل کیا جائے اور حکومت قرض حاصل کر لیتی اور اپنی جیب بھر لیتی لیکن ان خالی جیب افراد یعنی عوام کے نام لکھوا دیا جاتا ہے ، جسے عوام اس طرح بھگت رہے ہیں کہ قرضوں کے پہاڑ نے ان کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔

قرض اس کی قسطیں اور پھر سود نے پاکستان کی معیشت پر جیسے دم گھٹنے کی کیفیت اور وحشت طاری کردی ہے۔ پاکستان کے ہر بجٹ کو پیش کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ چونکہ ملکی وسائل کم ہیں، آمدن کم اور اخراجات بہت زیادہ ہیں لہٰذا قرض لینا پڑے گا۔ یعنی بہت زیادہ قرض لینے کی ضرورت پیش آئے گی اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کا ڈول ڈالا جاتا ہے۔ بالآخر اربوں ڈالر کا قرضہ کبھی 3 ارب ڈالر کبھی 6 یا 7 ارب ڈالر وغیرہ بلا چوں چرا اس طرح حاصل کرلیتے ہیں کہ یہ مفت کا مال ہے اور یوں قرض کا پہاڑ جیسے جیسے بڑھتا ہے۔

اس کا بوجھ کرنسی یعنی روپے پر بھی جا پڑتا ہے۔ یہی تو وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے وقت ایک ڈالر 3 روپے کا تھا اور اب 167 روپے تک جا پہنچا ہے۔ اب تو سود ادا کرنے کے لیے مزید قرض حاصل کیا جاتا ہے ، قرضوں کا پہاڑ جیسے بڑھ رہا ہے ، سود کا بوجھ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ قرض صرف بیرونی ذرایع سے حاصل نہیں کیے جاتے بلکہ ملک کے مرکزی بینک اور تجارتی بینکوں سے بھی حاصل کیا جاتا ہے۔


اب قرضہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ حکومت کو نہیں معلوم کہ کہاں جائیں عوام کو بھی پتا نہیں کہ وہ کہاں جائیں۔ المیہ یہ ہے کہ قرض کا ایک حصہ کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے اس کے بعد اگر کسی پراجیکٹ کے لیے قرض حاصل کیا گیا ہے تو پھر ٹھیکیدار، کنسٹرکشن کمپنیز اور بہت کچھ مسئلے مسائل پیدا ہونے کے بعد پراجیکٹ کی تکمیل کا دورانیہ بھی بڑھتا ہے اور پھر قرض اس کی قسطیں اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض مزید اونچی شرح سود پر حاصل کرکے قرض کے پہاڑ کو بلند ترکردیا جاتا ہے۔ اب ایسا معلوم دے رہا ہے کہ پانی سر سے اونچا ہو چکا ہے۔

نئی حکومت کو اپنے قیام کے وقت اس بات کا احساس ہوا کہ ملکی مالی حالت ان کی توقعات سے کہیں زیادہ خراب ہے، بڑھتا ہوا حکومتی خرچہ اور کم آمدن کے باعث قرض لینے کی اشد ضرورت نے قرضوں کے بوجھ کو عوام کے لیے انتہائی گراں تر کردیا ہے۔ حکومت کا پہلا ہی سال تھا جب اخراجات میں 20 فی صد اضافہ ہوا اور محصولات میں 6 فی صد کمی ہوگئی۔

اب نتیجہ یہ آنا شروع ہو گیا ہے کہ پچھلے قرضوں کی ادائیگی کے لیے نئے قرضے لینا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان کی آمدن کا اب زیادہ سے زیادہ بڑا حصہ قسطوں اور سود کی ادائیگی پر خرچ ہو رہا ہے، ان تمام باتوں کے معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اور روپیہ کے اوپر بھی دباؤ بڑھنے لگا ہے کہ ڈالر 167 روپے کا ہو چکا ہے۔

اس صدی کے پہلے عشرے میں حکومت نے قرض کے مسائل اور ان کے حل کے سلسلے میں ایک کمیٹی بنائی تھی، جس نے اپنی رپورٹ بھی پیش کی۔ جس کے کئی حل پیش کیے گئے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ اب کشکول نہ پھیلایا جائے خاص طور پر قرض کے حصول کے سلسلے میں آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا جائے۔ اس سلسلے میں بعض اوقات حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ اب کشکول توڑ دیا گیا ہے ، ایسا گزشتہ حکومتیں کرتی رہی ہیں لیکن اعلان کے کچھ عرصے کے بعد پھر آئی ایم ایف سرکار کے دروازے پرکھڑے ہو جانے سے آئی ایم ایف کے غرور میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔

موجودہ حکومت جوکہ تبدیلی کی دعوے دار ہے اب خود انحصاری کی راہ پر چل کر دکھائے۔ خرچوں میں کمی کی بات کی جا رہی ہے لیکن صرف روزانہ کے خرچوں کے لیے بڑی مقدار میں مختلف بینکوں سے رقوم حاصل کی جا رہی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت جو بانڈز فروخت کے لیے پیش کر رہی ہے ، اس پر زیادہ شرح سود ادا کیا جائے گا۔ اب سارا ملبہ ترقیاتی فنڈز، صحت کے بجٹ، تعلیم کے اخراجات پر اس طرح مرتب ہوں گے کہ پاکستان میں ان شعبوں کے لیے جو ترقیاتی اخراجات کیے جائیں گے۔

ان اخراجات کو کم کردیا جائے گا۔ اب بعض افراد کی طرف سے یہ کہنا کہ پاکستان قرض کے دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے، ان تمام باتوں، خدشات، ناامیدی، خراب معاشی حالات کے باوجود قرض کے حصول میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ بات عزم و حوصلے اور کر گزرنے کی ہے۔ لہٰذا اس میدان میں حکومت اب تبدیلی لا کر دکھائے اور قرض کا حجم کم سے کم کرنے کی کوشش کرے جس کے یقینی طور پر اچھے نتائج برآمد ہوں گے۔
Load Next Story